• 26 اپریل, 2024

خلافت کی برکات از فرمودات حضرت مسیح موعود و خلفاء جماعت

آنحضرت ﷺ نے فرمایا: فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِالْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیّٖنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَ عَضُّوا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ-

(ترمذی کتاب العلم باب الاخذبالسنۃ)

ترجمہ: پس تم پر فرض ہے کہ میری سنت اور خُلَفَاءِ رَاشِدِیْن کی سنت کو لازم پکڑو۔ پوری طرح اس کی اتّباع کرو اور پُخْتَہ طور پر اس پر قائم ہو جاؤ۔

حضرت حذیفہؓ سےمروی ہےکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: اگر تُو اللہ کے خلیفہ کو زمین میں دیکھے تو اس کے ساتھ مضبوطی سے چمٹ جانا اگرچہ تیرا جسم نوچ دیا جائے اور تیرا مال چھین لیا جائے۔

(مسند احمد بن حنبل)

خلفاء مجسم برکت ہوتے ہیں اس برکت کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ خلیفہ کے ساتھ مضبوطی سے چمٹ جاؤ اگرچہ تمہارا جسم نوچ دیا جائے اور تمہارا مال چھین لیا جائے۔ کیونکہ
حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: خَلِیْفَہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظِلِّی طور پر رسول کے کَمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم ؐ نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اِطْلاق ہو کیونکہ خَلِیْفَہ درحقیقت رسول کا ظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے اِرادَہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اَوْلٰی ہیں ظِلِّی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خِلافت کو تَجْوِیْز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں بَرَکاتِ رِسالَت سے محروم نہ رہے۔

(شہادۃالقرآن روحانی خزائن جلد6 صفحہ353)

خَلِیْفَہ کے لفظ کو اس اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا۔ اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا۔

(شہادۃالقرآن روحانی خزائن جلد6 صفحہ339)

اُن کے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اُن کا پہنا ہوا کپڑا بھی متبرّک ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات کسی شخص کو چُھونا یا اُس کو ہاتھ لگانا۔ اُس کے امراض روحانی یا جسمانی کے ازالہ کا موجب ٹھہرتا ہے۔ اِسی طرح اُن کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزّوجلّ ایک برکت رکھ دیتا ہے وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے خدا کے فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔اِسی طرح اُن کے شہریا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے۔ اِسی طرح اُس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پراُن کا قدم پڑتا ہے۔

(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد22 ص19)

خلفاء کو برکات ِرسالت کےحصول کا ذریعہ قرار دیتے ہو ئے فرماتے ہیں: رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کا ظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔

(شہادۃالقرآن روحانی خزائن جلد6 ص353)

حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ فرماتے ہیں کہ ’’کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے۔ یہ کام تو ایک مُلاّں بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفے کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں۔ بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیاجائے‘‘۔

(الفرقان، خلافت نمبر۔ مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ۲۸)

جناب الٰہی کا اِنْتِخَاب بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہے اس کو کوئی ناکامی پیش نہیں آتی۔ وہ جدھر منہ اٹھاتا ہے ادھر ہی اس کے واسطے کامیابی کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور وہ فَضْل، شِفا، نور اور رَحْمَت دکھلاتا ہے … ہزار ہا مَصَائب اور مشکلات آئیں وہ اس کوہِ وَقَار کو جُنْبِش نہیں دے سکتیں۔ آخر کامیابی اور فتح ان کی ہی ہوتی ہے۔

(خطبات نور صفحہ56۔57)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو یکجا جمع کرناہے۔ اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے۔ ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو۔ ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھاتا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں۔ اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی۔ ا سی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہو گا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا۔ خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی؟ مگر خلیفہ ابو بکر ہوئے۔ اگر آج کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک مچی ہوئی ہے تووہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا۔ خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا۔ خالد بن ولید نے 60 آدمیوں کے ہمراہ 60ہزار آدمیوں پر فتح پائی۔ عمر ؓ نے ایسا نہیں کیا‘‘۔ (حضرت عمر ؓ نے) ’’مگر خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہوئے۔ حضرت عثمان ؓ کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا۔ سارے جہان کو اس نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمان ؓ ہی ہوئے۔ پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع، کوئی منکسرالمزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے۔ جس کو معاملات ایسے پیش آتے ہیں۔

(خطبات محمود جلد۴ صفحہ ۷۲، ۷۳)

پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ:
’’میں ایسے شخص کو جس کو خداتعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خداتعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی‘‘۔

(خلافت حقہ اسلامیہ صفحہ ۱۸)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خَلِیْفَہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24جنوری 1936)

فرمایا: جس کو بھی جس زمانہ میں خدا تعالیٰ ساری جماعت کا اِمام بناتا ہے وہ باقی جماعت کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ اور جب تک افرادِ جماعت کا تعلق اس سے ایسی صورت میں نہ ہو جیسا کہ شریف اور نیک بیٹے کا اپنے باپ سے ہوتا ہے اس وقت تک وہ شخص یا وہ قوم یا وہ مُلْک ان روحانی بَرَکَات کا امیدوار نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں پر نازل ہوتی ہیں جو اس کے مقرر کردہ خَلِیْفَہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد13 صفحہ386)

خلافت سے وابستہ برکات کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پس جب بھی خلافت ہو گی اطاعت رسول بھی ہو گی کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نمازیں پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو یہ تو خدا کے حکم کی اطاعت ہے اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازو ں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوٰۃ اور چندوں کی ضرورت ہے۔ تو وہ زکوٰۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کردیں اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں۔غرض یہ تینوں باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم وملزوم ہیں اگر خلافت نہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی تمہاری زکوٰتیں بھی جاتی رہیں گی اور تمہارے دل سے اطاعت رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا۔

(انوار العلوم جلد15 ص526-525)

آپ نور اللہ مرقدہ قبولیت دعا کی برکت کا ذکر کرتے ہو ئے فرماتے ہیں:
تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا،تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔

(انوار العلوم جلد2 ص158)

نیزفرمایا:
اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہو تی ہے۔

(انوار العلوم جلد2 ص47)

حضرت خلیفۃالمسیح الثَّالِث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سینکڑوں بعض دفعہ ہزاروں (سال کے اندر) ایسی پریشانیاں ہیں کہ جو خلیفۂ وقت کی دعاؤں سے معجزانہ طور پر دُور ہو جاتی ہیں۔…پریشانیاں آتی رہتی ہیں مَیں تو خداتعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہوں۔ وَ لَا فَخْرَ۔ میرے لئے تو فخر کی بات نہیں خداتعالیٰ میرے ذریعہ مومنین کی جماعت کے خوف کو بدلتا ہے تو یہ اس کی شان ہے۔

(خطبات ناصر جلد7 صفحہ394)

نیزفرمایا:
خلیفہ وقت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہزاروں دعائیں معجزانہ رنگ میں قبول کرتا ہے میں جب قبولیت دعا کے متعلق خط پڑھتا ہوں تو یہ سوچ کر کانپ اُٹھتا ہوں کہ میں اتنا کمزور، گناہگار اور بے بس انسان ہوں اور اللہ تعالیٰ اس قدر پیار کا سلوک مجھ سے کرتا ہے۔

(خطبات ناصرجلد2 ص308)

مزیدفرمایا:
یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔… مجھ سے کسی نے پوچھا کہ خلافت سے پہلے کبھی آپ نے سوچا کہ خلیفہ بن جائیں گے مَیں نے کہا:

‘‘No sane person can aspire to this’’

کوئی عقلمند آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کوئی سوچے گا کیسے۔ کوئی احمق ہی ہوگا، پاگل ہوگا جو یہ کہے گا کہ مجھے یہ ذمہ داری مِل جائے۔

(خطبات ناصر جلد7 صفحہ388،389)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جماعت احمدیہ کو خدا کی طرف سے ایک رعب عطا ہوا ہے۔ خلافت احمدیہ اس رعب کے ساتھ تمام دنیا کے اوپر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمتیں سرانجام دیتی ہے اور اس کا رعب دُور دُور تک اثر کرتا ہے۔ تمہارے دلوں پر بھی یہ پڑتا ہے، یہی رعب ہے جس نے تمہیں خائف کیا ہوا ہے یہی رعب ہے جس کی وجہ سے تمہارے بدن کانپ رہے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ جب تک خلافتِ احمدیہ زندہ ہے جماعت احمدیہ پھیلتی چلی جائے گی اور کبھی نہیں رک سکے گی تم گواہ ہو اس رعب کے اگر اور کوئی نہیں۔اس رعب کی سر زمین سے جو خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہے تم خلافت احمدیہ کو کبھی نہیں نکال سکتے۔

(خطبات طاہر جلد4 صفحہ681،682)

خداتعالیٰ نے نظام خلافت کی یہ برکت رکھی ہے جو ان شاء اللہ آئندہ عالم میں پھیلتی چلی جائے گی کہ ایک ایسی مرکزی نظر پیدا کردی گئی ہے جس کوروشنی دنیا بھر کی احمدی نظروں سے ملتی اور وہ اپنی بصیرت سے خلیفہ وقت کوحصہ دیتے چلے جاتے ہیں۔

(خطبات طاہر جلد8 ص379)

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا اِحْسَان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادیٔ کامل ﷺکی اُمَّت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظامِ خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔

(خطبات مسرور جلد1صفحہ256،257)

خلیفۂ وقت کو جماعت سے براہ ِراست اور جماعت کو خلیفۂ وقت سے بغیر کسی واسطے کے ملنے کی تڑپ بھی دونوں طرف سے ہے …… اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس کے لئے بھی نصف ملاقات کا ایک راستہ بھی ہمارے لئے کھول دیا ہے جو ایم ٹی اے کے ذریعے سے انتظام فرمایا ہے۔

(خطباتِ مسرور جلد8 صفحہ663)

اب اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو خلافت کے منصب پر فائز کیا کہ اگر دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو شاید دنیا کے لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں لیکن خداتعالیٰ دنیا کا محتاج نہیں ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ:
’’خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانے میں چھ سال متواتر اس مسئلے پرزور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے، نہ انسان۔ اور درحقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد2 ص351)

یاد رکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔ وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے اور ان شاء اللہ نوازتا رہے گا۔ پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرکے خود ٹھوکر نہ کھا جائے۔ اپنی عاقبت خراب نہ کر لے۔ پس دعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کابال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(خطبات مسرور جلد2 ص354)

آ پ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:
پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں۔اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں پنہاں ہے ۔

(الفضل انٹر نیشنل 23تا 30مئی 2003ءصفحہ اول)

(مرسلہ: فراز یاسین ربانی ۔ جامعہ احمدیہ انٹرنشنل غانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جنوری 2021