• 10 دسمبر, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری 2023ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍جنوری 2023ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے

ایک افسوس ناک خبر بھی ہے۔ برکینا فاسو میں ہمارے نواحمدی شہید کردیئے گئے پرسوں، بڑا افسوس ناک واقعہ ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ! اور بڑے ظالمانہ طریقہ سے اُن کو شہید کیا گیا لیکن اُن کے ایمان کا امتحان بھی تھا اور جس پر وہ ثابت قدم رہے، یہ نہیں کہ اندھا دھند فائرنگ کر کے بلکہ ہر ایک کو بلا بلا کر شہید کیا ہے لیکن بہرحال اِ س کی تفصیلات کچھ آئی ہیں کچھ آ رہی ہیں، اِس لئے اِنْ شَآءَ اللّٰهُ تفصیلی ذکر مَیں اگلے (خطبہ) جمعہ میں اِن کا کروں گا۔ الله تعالیٰ اِن سے رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند کرے اِن سب کے۔ دعاء بھی کرتے رہیں۔۔۔ دہشت گرد جو آئے تھے وہ دھمکی دے کر گئے ہیں کہ اگر دوبارہ مسجد کھولی تو ہم دوبارہ آئیں گے اور حملہ کریں گے، الله تعالیٰ وہاں کے احمدیوں کو اِن کے شر سے محفوظ رکھے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ نیز سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد بعض بدری صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کے ذکر میں سے کچھ باقی رہ جانے والےحصہ کے تسلسل میں آٹھ اصحابؓ کا مزید تذکرۂ خیر فرمایا۔

حضرت عبداللهؓ بن جحش

آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو اسد سے تھا اور بعض کہتے ہیں کہ آپؓ عبد شمس کے حلیف جبکہ بعض کے نزدیک حرب بن اُمیّہ کے حلیف تھے، آپؓ درازقد تھے اور نہ ہی پست قد نیز سر کے بال نہایت گھنے تھے۔ ایک مہم کے موقع پر آپؓ کو امیر مقرر کرتے ہوئے آنحضرت صل الله علیہ و سلم نے جو ارشاد فرمایا وہ آپؓ کی سخت جانی، مستقل مزاجی اور بے خوفی کا اظہار کرتا ہے۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کہتے ہیں: آنحضرتؐ نے فرمایا! مَیں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گاجو اگرچہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہو گا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہو گا، پھر کہتے ہیں کہ ہم عبداللهؓ بن جحش کی امارت میں مکہ اور طائف کے درمیان وادیٴ نخلہ کی طرف گئے۔ اِس مہم میں کامیابی کے بعد جو مال غنیمت ملا اُس کے بارہ میں لکھا ہے کہ اِس سریّہ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کے متعلق بعض کا خیال ہے کہ یہ پہلا مال غنیمت ہے جس کو مسلمانوں نے حاصل کیا، آپؓ نے اِس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں منقسم کر کے بقیہ چار حصوں کو تقسیم کر دیا اور ایک کو بیت المال کے لئے رکھ لیا، یہ پہلا خُمس تھا جو اسلام میں اُس دن مقرر ہوا۔ امام شعبی رحمہ الله سے مروی ہے: اسلام میں سب سے پہلے جھنڈا کی ابتداء حضرت عبداللهؓ بن جحش نے کی نیز سب سے پہلا مال غنیمت آپؓ کا حاصل کیا ہوا تقسیم کیا گیا۔ آپؓ کی تلوار غزوۂ اُحد کے دن ٹوٹ گئی تھی، رسول اللهؐ نے اُن کوعُرجون یعنی کھجور کی ایک شاخ مرحمت فرمائی پس وہ آپؓ کے ہاتھ میں تلوار کی طرح ہو گئی، اُسی دن سے آپؓ عُرجون کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپؓ جب اُحد کے دن شہید ہوئے تو حضرت زینب بنت خزیمہ رضی الله عنہا آپؓ کے نکاح میں تھیں، بعد میں رسول الله ؐ نے اُن سے شادی کر لی، آٹھ (یہ بھی کہا جاتا ہے دو، تین) ماہ تک آپؐ کے ہاں رہیں اور ماہ ربیع الآخر کے آخر میں آپؓ کی وفات ہو گئی، رسول اللهؐ نے جنازہ پڑھا اور جنت البقیع میں دفن کیا۔

حضرت صالح شُقرانؓ

بعض کے نزدیک آپؓ اور حضرت اُمّ ایمنؓ رسول کریمؐ کو اپنے والد کی طرف سے ورثہ میں ملے تھے، غزوۂ بدر کے بعد آپؐ نے اِن کو آزاد فرما دیا تھا۔ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد جن اشخاص کو غسل دینے کی سعادت نصیب ہوئی اُن میں آپؓ کے علاوہ مزید آٹھ اہل بیعت اور بھی تھے۔ علامہ بغویؒ کہتے ہیں آپؓ نے مدینہ میں رہائش اختیار کی تھی اور ایک گھر بصرہ میں بھی تھا، حضرت عمرؓ کے دَور خلافت میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ آپؓ سے مروی ہے: مَیں نے رسول اللهؐ کو ایک گدھے پر سوار خیبر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ، آپؐ اشارہ سے نماز ادا فرما رہے تھے( یعنی سواری پر بیٹھےہوئے نماز پڑھ رہے تھے)۔

حضرت مالکؓ بن دُخشم

آپؓ کا نام مالکؓ بن دُخیشن اور ابن دُخشن، والد کا نام دُخشم بن مِرضخہ جبکہ اُن کا نام دخشم بن مالک بن دخشم بن مرضخہ بھی بیان ہوا ہے، والدہ کانام عمیرہ بنت سعد تھا۔ آپؓ کی شادی جمیلہ بنت اُبَی بن سلول سے ہوئی جو رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَی بن سلول کی ہمشیرہ تھیں۔ غزوۂ اُحد کے دن آپؓ حضرت خارجہؓ بن زید ؓکے پاس سے گزرے، حضرت خارجہؓ زخموں سے چُور بیٹھے ہوئے تھے، اُن کو تیرہ کے قریب مہلک زخم آئے تھے، آپؓ نے اُن سے کہا: کیا آپؓ کو معلوم نہیں کہ حضرت محمدؐ شہید کر دیئے گئے ہیں، اُنہوں نے کہا: اگر آپؐ کو شہید کر دیا گیا ہے تو یقیناً الله زندہ ہے اور وہ نہیں مرےگا، محمدؐ نے پیغام پہنچا دیا ہے، فَقَاتِلُوْا عَنْ دِیْنِکَ، اِس لئے تم بھی اپنے دین کے لئے قتال کرو! کچھ لوگوں میں سے اکثر نے بخدمت رسول اللهؐ عرض کیا کہ آپؓ منافقین کی پناہ گاہ ہیں، اِس پر آپؐ نے فرمایا! کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ لوگوں نے عرض کیا: جی رسول اللهؐ، لیکن وہ ایسی نماز ہے جس میں کوئی خیر نہیں۔ اِس پر آپؐ نے دو مرتبہ فرمایا! مجھے نماز پڑھنے والوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے (حضورانور ایدہ الله نے فرمایا! یہ آجکل کے مسلمانوں کے لئے بھی سبق ہے)۔ اِن کی نسل نہیں چلی۔

حضرت عُکاشہؓ بن مِحصن بن حُرثان (کنیت ابو محصن)

حضرت ابوبکرؓ کے دَور بارہ ہجری میں اِن کی شہادت ہوئی۔ امام شعبیؓ نے آپؓ کی تعریف اِن الفاظ میں کی ہے: ایک شخص تھا جو کہ جنتی تھا مگر پھر بھی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتا تھا اور وہ عکاشہؓ بن محصن تھے۔ دو ہجری میں غزوۂ بدر کے فورًا بعد رسول اللهؐ نے حضرت عبداللهؓ بن جحش کو ایک مہم پر روانہ فرمایا، اِس سریّہ میں آپؓ بھی شامل تھے۔

حضرت خارجہؓ بن زیدؓ(کنیت ابوزید)

بمطابق ایک روایت حضرت معاذؓ بن جبل، حضرت سعدؓ بن معاذاور آپؓ نے یہود کےکچھ علماء سے تورات میں موجود چند باتوں کے متعلق پوچھا، جس کا جواب دینے سے اُنہوں نے انکار کر دیا اور سچ کو چھپایا جس پر الله تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 160 نازل فرمائی۔

حضرت زیادؓ بن لبید (کنیت ابو عبدالله)

اِن کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو بیاضہ بن عامر سے تھا، آپؓ کی نسل مدینہ اور بغداد میں مقیم تھی۔ ضحاکؓ بن نعمان بیان کرتے ہیں کہ مسروقؓ بن وائل رسول اللهؐ کے پاس وادیٔ عقیق سے مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا اور اِس پر عمدگی سے قائم رہے، مسروقؓ نے عرض کیا: یارسول اللهؐ! مَیں چاہتا ہوں کہ آپؐ میری قوم میں ایسے آدمی کو بھیجیں جو اُنہیں اسلام کی طرف بلائے، چنانچہ آپؐ نے اُن کی طرف حضرت زیادؓ بن لبید انصاری کو بھیجا۔ آپؓ شروع دَور حکومت حضرت معاویہؓ اِکتالیس ہجری میں فوت ہوئے۔

حضرت خالدؓ بن بُکیر بن عبد یالیل

آپؓ قبیلہ بنو سعد سے ہیں جو بنو عدی کے حلیف تھے۔ ابن اسحٰقؒ نے کہا ہے: ہمیں ایاس اور اُن کے بھائیوں عاقل، خالد اور عامر کے علاوہ کوئی بھی چار ایسے بھائی معلوم نہیں جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے ہوں، اُن چاروں بھائیوں نے اکٹھی ہجرت کی اور مدینہ میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے ہاں قیام کیا۔ جنگ اُحد کے بعد قبائل عضل اور قارہ کے چند لوگ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللهؐ! ہم میں اسلام کی رغبت ہو رہی ہے، آپؐ ہمارے ساتھ اپنے اصحابؓ میں سے چند لوگ روانہ فرمائیں تاکہ وہ ہماری قوم کو دین کی تعلیم دیں اور قرآن پڑھائیں، آپؐ نے حضرت مرثدؓ بن ابی مرثد کی امارت میں چھ اصحابؓ کو اُن کے ساتھ بجھوا دیا جن میں آپؓ بھی شامل تھے۔ اِن اصحابؓ کو بعد میں لے کر جانےوالوں نے دھوکے سے شہید بھی کر دیا تھا۔

حضرت عمّار ؓبن یاسرؓ (کنیت ابوالیقظان)

حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں ہونے والی شورش، متفرق نمائندگان کو مختلف بلاد میں بغرض تحقیق روانہ کرنے، آپؓ کے مصر بجھوائے جانے اور واپسی میں دیر نیز مفسدوں کے پنجہ میں پھنسنے اور اُن کے دھوکہ میں آ جانے کے تناظر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ بیان کرتے ہیں: جب مصر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی بظاہر سکّہ نظر آنے والے اور نہایت طرار اور لسّان لوگوں کی ایک جماعت اُن کو ملی جس نے نہایت عمدگی سے اُن کے پاس والیٔ مصر کی شکایات بیان کرنی شروع کیں، اتفاقًا والیٔ مصر ایک ایسا شخص تھا جو کبھی رسول کریمؐ کا سخت مخالف رہ چکا تھا اور اُس کی نسبت آپؐ نے فتح مکہ کے وقت حکم دیا تھا کہ خواہ خانہ کعبہ میں ہی کیوں نہ ملے، اُسے قتل کر دیا جائے۔گو بعد میں آپؐ نے اُسے معاف کر دیا تھا مگر اِس کی پہلی مخالفت کا بعض صحابہؓ کے دل پر جن میں عمارؓ بھی شامل تھے اثر باقی تھا، پس ایسے شخص کے خلاف باتیں سن کر عمارؓ بہت جلد متأثر ہو گئے اور اُن الزامات کو جو اُن پر لگائے جاتے تھے صحیح تسلیم کر لیا ۔۔۔لیکن بعد میں آپؓ پر اِن مفسدین کی فتنہ پردازی کی حقیقت آشکار ہو گئی چنانچہ جنگ صفین کے دن آپؓ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: اَے لوگو! ہمارے ساتھ اِن لوگوں کی طرف چلو جو حضرت عثمانؓ بن عفّان کے قتل کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔۔۔ الله کی قسم! وہ حضرت عثمانؓ کے قتل کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ اِن لوگوں نے دنیا کا مزا چکھ لیا ہے اور اِس سےیہ محبت رکھتے اور اِسی کے پیچھے لگ گئے ہیں۔۔۔ اِن لوگوں نے اپنے متبعین کو یہ کہہ کر کے دھوکہ دیا کہ ہمارے امام مظلوم قتل کر دیئے گئے ہیں تاکہ یہ جابر بادشاہ بن جائیں ۔۔۔جنگ صفین میں داد شجاعت رقم فرماتے ہوئے جب آپؓ شہید کئے گئےتو حضرت علیؓ نے فرمایا! مسلمانوں میں سے جو شخص حضرت عماربن یاسرکی شہادت کو غیر معمولی تسلیم نہیں کرتا اور اُسے اِس سے رنج نہیں وہ ضرور غیر ہدایت یافتہ ہے۔ عمارپر الله تعالیٰ کی رحمت ہو جس دن وہ اسلام لائے اور الله عمارپر رحم کرے جب چار اصحاب رسولؐ کا ذکر کیا جاتا تو یہ چوتھے اور پانچ کے ذکر میں یہ پانچویں ہوتے تھے، رسول اللهؐ کے قدیم اصحابؓ میں سے تھے، کسی ایک یا دو کو بھی اِس میں شک نہ تھا کہ عمار کے لئے بہت سے مواقع پر جنت واجب ہوئی، پس عمار کو جنت مبارک ہو اور اِن کے بارہ میں کہا گیا ہے کہ عمار حق کےساتھ اور حق عمار کے ساتھ ہے، عمار جہاں کہیں بھی جائیں گے حق کے ساتھ ہی جائیں گے اور عمار کا قاتل آگ میں ہے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی