• 19 اپریل, 2024

آپؑ نے فرمایا: رقم تو بہت آئے گی لیکن اس کو دیکھ کر تم لوگ دنیا دار نہ ہو جانا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا معیار جذبہ اور نسبت کا ہے، مقدار کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اس آیت میں غریبوں کی تسلی فرما دی کہ جس طرح زرخیز زمین پر تھوڑی بارش باغ کو پھلوں سے بھر دیتی ہے اسی طرح اپنی حیثیت کے مطابق نیک نیتی سے کی گئی تھوڑی سی قربانی بھی نیک عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پا کر بڑی قربانی کرنے والوں کے برابر لا کھڑا کرتی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ درجہ میں بڑھا بھی دیتی ہے۔ جیسا کہ اس ایک مثال سے ثابت ہے جو میں نے پیش کی۔ پھر اللہ تعالیٰ اسی آیت میں فرماتا ہے وَاللّٰہُ بِمَاتَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (البقرہ: 266) کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔ یہ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔ وہ تمہارے جذبے کو جانتا ہے۔ وہ اس روح کو جانتا ہے جس سے تم قربانی کرتے ہو۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جب بدلے ملتے ہیں تو دلوں کے اور نیتوں کے عمل کے مطابق ملتے ہیں، نیتوں کے مطابق ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مالی حیثیت جانتا ہے۔ تم نے جوقربانی کی اگر اس حیثیت سے کی تو جو بھی بدلہ ملے گا اس کے مطابق ملے گا۔ اس لئے قربانیوں کی قبولیت بھی اس نیت کے مطابق اور عمل کے مطابق درجہ پاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی جب آپ مالی تحریک فرماتے تو غریب بھی اور امیر بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مالی قربانی کرتے تھے۔ آپ کے ماننے والوں کی اکثریت بھی غرباء کی تھی اور ان کی قربانیاں بھی رقم کے لحاظ سے بہت معمولی ہوا کرتی تھیں لیکن یہ جو طَلٌّ ّ معمولی بارش بھی ہے، ایسی فائدہ مند ہوئی کہ اُن قربانیوں کو اتنے پھل لگے جو آج تک اُن بزرگوں کی نسلیں کھا رہی ہیں۔ پس یہ اُن نسلوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن میں سے بعض آج بہت زیادہ حیثیت کے ہو چکے ہیں، مالی لحاظ سے بہتر ہو چکے ہیں کہ اُن کی قربانیوں کو اب وَابِلٌ تیز بارش کا نمونہ دکھانا چاہئے۔ یہ صورت اختیار کرنی چاہئے تاکہ اُن کے اور ان کی نسلوں کے اعمال کے درخت ہمیشہ سرسبز رہتے چلے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ایک روپیہ قربانی کرنے والے کا ذکربھی اپنی کتابوں میں فرمایا ہے جو معمولی قربانی تھی، جس نے مستقل اپنے اوپر لازم کر لیا تھا کہ ایک روپیہ ہر مہینہ ادا کریں گے۔ آپ کے صحابہ کے کیسے کیسے قربانی کے نمونے تھے اُن میں سے مَیں ایک مثال دیتا ہوں۔ چوہدری عبدالعزیز صاحب احمدی اوجلوی پٹواری تھے۔ اُن کے بارے میں قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری فرماتے ہیں کہ گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالی قربانی کی تحریک کی۔ چوہدری عبدالعزیز صاحب پٹواری خود آ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں ایک سو روپیہ چاندی کا پیش کر کے گئے اور کہا کہ خاکسار کے پاس یہی رقم موجود تھی جو میں لے آیا ہوں۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس پٹواری کی اس قربانی پر بڑی حیرت ہوئی اور رشک بھی آیا کہ ایک پٹواری جس کو چھ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے اس نے کس طرح اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کی ہے۔ قاضی صاحب پھر لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کے اخلاص کے عوض اس پر بڑے فضل کئے۔

یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں تقویٰ بہت تھا۔ تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے۔ آپ سے جو براہِ راست فیض پا رہے تھے اس کی وجہ سے اُن کے تقویٰ کے معیار بہت بلند تھے۔ چوہدری صاحب بھی تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے۔ دوسرے پٹواریوں کی طرح نہیں تھے۔ ہمارے ملک میں پٹواریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ تنخواہ بیشک ان کی تھوڑی ہو لیکن ان کی زائد آمدنی بہت زیادہ ہو جاتی ہے جو مختلف ذریعوں سے وہ زمینداروں سے، چھوٹے زمینداروں سے وصول کرتے رہتے ہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں جو جب ریٹائر ہوتے ہیں تو اُن کے پاس دولت بھی ہوتی ہے، کئی کئی ایکڑوں کے مالک ہوتے ہیں بلکہ سو سو ایکڑوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ میرے ساتھ سکول میں ایک پٹواری کا لڑکا پڑھا کرتا تھا اور اس کا رہن سہن رکھ رکھاؤ، کپڑے ایسے ہوتے تھے جو ہزاروں کمانے والا کوئی بچہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ اور خود بتاتا تھا کہ میرے باپ کی تنخواہ تو پینتالیس روپے ہے لیکن اللہ کا بڑا فضل ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو معیار ہیں وہ بدل گئے ہیں۔ جو ناجائز آمد ہے وہ اللہ کا فضل بن گیا اور جو جائز آمد ہے وہ حکومت کی تنخواہ بن گئی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آ کر ہمیں بتایا کہ صحیح اللہ کا فضل کیا ہوتا ہے۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ کسی مہدی کی ضرورت ہے، نہ مسیح کی ضرورت ہے، نہ مصلح کی ضرورت ہے۔ اگر اس چیز کو یہ تسلیم کر لیں کہ اس کی ضرورت ہے اور ماننے والے کو مان لیں تو تب صحیح پہچان ہو سکتی ہے کہ اللہ کا فضل کس طرح ہوتا ہے اور کیا چیز ہے؟یہ تو احمدی کو پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کا کرنا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا فضل کس طرح ہوتا ہے؟ وَابِل ہو یا طَلّ، تیز بارش ہو یا ہلکی بارش، بڑی قربانی ہو یا تھوڑی قربانی، دولتمند ہوں یا غریب، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کی گئی قربانیاں دوگنے پھل لاتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت چوہدری عبدالعزیز صاحب کے بارہ میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس اخلاص کے بے انتہا پھل لگائے۔ تنخواہ کے ساتھ شاید تھوڑی سی اُن کی زمین بھی ہو۔ پٹواری عموماً دیہاتوں کے رہنے والے ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ زمیندارہ ہوتا ہے جس کی آمد بھی ہوتی ہو گی۔ اس کی وجہ سے کچھ رقم بھی جمع کر لی ہو گی۔ وہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں لا کے رکھ دی۔


ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کبھی پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں سے پیسوں کی ضرورت ہو۔ اللہ تعالیٰ جب قربانی کے لئے فرماتا ہے تو بندے کو ثواب دینے کی خاطر۔ اور یہی حال اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ہوتاہے۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ جماعت کے جواخراجات ہیں کس طرح پورے ہوں گے؟ اللہ تعالیٰ جب کام شروع کرواتا ہے، کسی کو بھیجتا ہے تو اس کے لئے اسباب بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ ظاہری تحریک انبیاء ضرورکرتے ہیں اور اس کے بعد خلفاء بھی کرتے ہیں لیکن ضرورت پوری کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی یہ وعدہ ہے۔ اس لئے آپ نے ایک جگہ اس بات کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ فرمایا ہے کہ خرچ کے لئے رقم کہاں سے آئے گی۔ آپ نے فرمایا یہ تو بہت آئے گی لیکن اس کو دیکھ کر تم لوگ دنیا دار نہ ہو جانا۔ یعنی انفرادی طور پر بھی جماعت کو خوشخبری دے دی کہ تم لوگوں کو کشائش عطا ہو گی اور جماعتی طور پر بھی کشائش پیدا ہو گی۔ پس جماعتی طور پر جو کشائش پیدا ہو تو جن کے ہاتھ میں خرچ ہے اُن کو بھی ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم کسی بھی قسم کا غیر ضروری خرچ نہ کریں۔ ہر پیسے کو سنبھال کے اور احتیاط سے خرچ کریں۔ غریب قربانی کر رہے ہیں یا امیر قربانی کر رہے ہیں، اس کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا یہ خرچ کرنے والوں کا کام ہے اور بہت اہم کام ہے تا کہ جہاں وہ خدمتِ دین کر رہے ہیں، خدمتِ سلسلہ کر رہے ہیں تو ان خرچوں کو سنبھال کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بنیں۔

(خطبہ جمعہ 7؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2021