• 27 جولائی, 2025

ورثہ میں لڑکیوں کو حصہ دینا ضروری ہے

ورثہ میں لڑکیوں کو حصہ دینا ضروری ہے
یہ نہ صرف شریعت کا حکم ہے بلکہ سراسر انصاف و رحمت بھی ہے

تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ

ایک احمدی خاتون جنہوں نے خط میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ لکھتی ہیں کہ جماعت کے ایک حصہ میں اور خصوصاً زمینداروں میں لڑکیوں کو حصہ نہ دینے کی بد عادت ابھی تک چل رہی ہے۔ چنانچہ اس خاتون نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میرے والد صاحب خدا کے فضل سے بظاہر مخلص اور دیندار ہیں اور صاحبِ جائیداد بھی ہیں بلکہ بہت معقول جائیداد رکھتے ہیں۔ مگر انہوں نے مجھے اور میری بہنوں کو حصہ نہیں دیا بلکہ ہمارے حصہ کی قیمت کےمطابق ہم سے روپے کی رسید لکھا کر ہمارے بھائیوں کے نام پر روپیہ جمع کرا دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگر یہ شکایت درست ہے (اور میں یہ بات اگر کے لفظ کے ساتھ ہی کہہ سکتا ہوں گو بظاہر یہ شکایت درست معلوم ہوتی ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ) تو بہت قابلِ افسوس اور قابلِ ملامت ہے۔ کیونکہ لڑکیوں کو ورثہ سے محروم کرنا نہ صرف شریعتِ اسلامی کے ایک صریح اور تاکیدی حکم کے خلاف اور گناہ ہے بلکہ حکومت کا بھی جرم ہے۔ جس نے کچھ عرصہ سے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی لڑکیوں کو شریعت کے مطابق حصہ دیں۔ بے شک زمینداروں کو اپنی زمین بہت محبوب ہوتی ہے بلکہ اکثر زمیندار تو زمین کے ساتھ ایک گونہ عشق کا رنگ رکھتے ہیں۔ اور جائز حد تک مال ہر شخص کو ہی پیارا ہوتا ہے مگر کیا اسلام اور احمدیت ہی نعوذباللہ ایسی ناکارہ چیزیں ہیں کہ ان کے پیار کو ہر دوسری چیز کے پیار پر قربان کر دیا جائے؟ قرآن تو فرماتا ہے کہ: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ:166)

یعنی جو لوگ سچے مسلمان ہیں انہیں اپنے خدا اور خدا کے احکام کے ساتھ ہر دوسری چیز کے مقابل پر زیادہ محبت ہونی چاہئے۔

او ر دنیا کے مال اور اولاد کے متعلق خدا فرماتا ہے:

اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ اَمَلاً

(الکہف:47)

یعنی مال اور لڑکے (جن کی خاطر تم لڑکیوں کا حق مارتے ہو) محض اس ورلی دنیا کی عارضی زینت ہیں۔ مگر دائم اور قائم رہنے والی نیکی وہ ہے جو خدا کے حضور ثواب کا موجب اور اگلے جہان کی امید گاہ ہے۔

پس اگر احمدیوں نے اسلام کو سچا اور محمد رسول اللہؐ کے دین کو خدا کی آخری شریعت سمجھ کر مانا ہے اور احمدیت کو خدا کی ایک رحمت یقین کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے تو ان کے لئے یہ امتحان کا وقت ہے۔ یہ دنیا ایک فانی چیز ہے کیا وہ اس کی چند روزہ زینت کی خاطر اور اس عارضی زندگی کی نمائشی چمک کی وجہ سے خدا کی ابدی رحمت کو جواب دےدیں گے؟ خدا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ:

یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ

(تذکرہ صفحہ55 ایڈیشن چہارم)

یعنی ہمارا یہ مسیح دین کے مٹے ہوئے نشانوں کو زندہ کرے گا اور ترک شدہ شرعی احکام کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا۔

پس اے ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیو! اگر آپ میں سے کسی کو اپنے ایمان کی شرم نہیں تو کم از کم اپنے مقدس امام اور سلسلہ احمدیہ کے بانی کو تو خدا کے حضور شرمندہ ہونے سے بچاؤ۔ (کیونکہ بعض صورتوں میں خدا کے مرسلوں کو بھی اپنے متبعین کی بعض غلطیوں کے لئے جواب دِہ ہونا پڑتا ہے) میں جانتا ہوں کہ خدا کے فضل سے جماعت کا بہت بڑا حصہ دین سے محبت رکھنے والا اور احکامِ شریعت کو شوق و ذوق سے ادا کرنے والا ہے مگر کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔ پس جب تک آپ اپنے میں سے ہر فرد کو اسلام کے احکام پر پختہ طور پر قائم نہیں کر دیتے یا کم از کم جب تک جماعت کی بھاری اکثریت اس مقام کو حاصل نہیں کرلیتی اس وقت تک آپ کی اجتماعی ذمہ داری ہرگز ادا شدہ نہیں سمجھی جا سکتی۔ اور لڑکیوں کو ان کے جائز حق اور شرعی ورثہ سے محروم کرنا تو صرف ایک گناہ ہی نہیں ہے بلکہ کم از کم چھ سنگین گناہوں کا مجموعہ ہے۔

سب سے اول نمبر پر یہ شریعت کا گناہ ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کے ایک واضح اور صریح اور قطعی حکم کی نافرمانی لازم آتی ہے۔ قرآن فرماتا ہے اور کن زوردار الفاظ میں فرماتا ہے کہ:

لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ ط نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا

(النساء:8)

یعنی لڑکیوں کے لئے ان کے والدین اور دیگرقریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے خدا تعالیٰ نے حصہ مقرر کیا ہے خواہ یہ ترکہ زیادہ ہو یا کہ کم ہو۔اور یہ خدا کی طرف سے فرض کیا ہوا حق ہے جو بہرحال لڑکیوں کو ملنا چاہئے۔

دوسرے نمبر پر یہ حکومت کا جرم ہے۔ کیونکہ کچھ عرصہ سے پاکستان کی حکومت نے یہ قانون پاس کر رکھا ہے کہ لڑکیوں کو ان کے والدین کے ترکہ میں سے (اور بیویوں کو ان کے خاوندوں کے ترکہ میں سے) شریعت کے مطابق حصہ ملنا چاہئے۔ اور چونکہ حکومت کے قانون کی پابندی اُوْلِی الْاَمَر کے اصول کے مطابق شریعت کی رو سے بھی لازمی ہے اس لئے یہ گویا دہرا جرم بن جاتا ہے۔ شریعت کا بھی اور حکومت کا بھی۔

تیسرے نمبر پر یہ جماعت احمدیہ میں اپنے امام اور خلیفہ وقت کے ساتھ بدعہدی بھی قرار پاتی ہے۔ کیونکہ چند سال ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حاضرینِ جلسہ سے یہ عہد لیا تھا کہ جماعت کے لوگ شریعت کے مطابق حصہ دیا کریں گے۔ اور اس موقع پر جملہ حاضرین نے جو ہزار ہا تھے کھڑے ہو کر اپنے امام کے ساتھ اور امام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ لڑکیوں کو حصہ دیں گے۔

چوتھے نمبر پر لڑکیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنا بدترین قسم کا ظلم بھی ہے۔ کیونکہ اس ذریعہ سے ایک کمزور جنس پر جو اپنی کمزوری اور شرم کی وجہ سے والدین اور بڑے بھائیوں کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ایک بھیانک قسم کا ظلم روا رکھا جاتا اور اس کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔

پانچویں نمبر پر یہ اَکْلٌ بِالْبَاطِلِ اور حرام خوری میں بھی داخل ہے۔ کیونکہ اس ذریعہ سے والدین اور لڑکیوں کے بھائی ایک ایسا مال کھاتے ہیں جو دراصل ان کا نہیں بلکہ ان کی بیٹیوں اور بہنوں کا ہے اور وہ محض لوٹ مار کے ذریعہ اس مال کے مالک بن جاتے اور جائز حق داروں کو محروم کر کے ان پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔

چھٹے نمبر پر یہ اپنے خون اور اپنی نسل کی ہتک بھی ہے کہ ایک باپ کے نطفہ سے پیدا ہونے اور ایک صُلب سے نکلنے والی لڑکیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے کہ وہ گویا اپنے باپ کی بیٹیاں اور اپنے بھائیوں کی بہنیں ہی نہیں اور انہیں عملاً نیچ ذات کی لونڈیوں کی طرح سمجھا جائے۔ حالانکہ اسلام تو وہ مبارک مذہب ہے کہ سچ مچ کے غلاموں کے لئے بھی آزادی کا پیغام لے کر آیا ہے۔

الغرض لڑکیوں اور بیویوں کو ان کے جائز شرعی حق سے محروم کرنا ایک بہت بڑا گناہ بلکہ چھ گناہوں کا مجموعہ ہے اور بھاری ظلم میں داخل ہے۔ اور میں تمام مخلص احمدی باپوں اور مخلص احمدی بھائیوں سے قرآنی الفاظ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ: ھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ (المائدہ:92)
یعنی کیا اب بھی تم اس ظلم سے باز نہیں آؤ گے؟

کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو حصہ دینے سے خاندان کی جائیداد دوسرے خاندانوں میں چلی جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر سوچو تو مال دراصل خدا کا ہے اور انسان کا ترکہ تو خصوصیت سے خد ا کا ہے۔ پس جب خود خدا اسے ایک خاص رنگ میں تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے تو زید بکر عمر کو کیا حق ہے کہ اس تقسیم میں رخنہ ڈالے؟ اور پھر جب تم نے اسلام کی شریعت کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دیں اور احمدیت کی غلامی کو برضا و رغبت قبول کر لیا اور اسلام کو خدا کی ایک نعمت جانا تو پھر یہ اب کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک صداقت کو مان کر اس پر عمل کرنے سے انکار کرو۔ یہ تو ایمان نہیں بلکہ منافقت ہے کہ منہ سے ایک بات کو مانو مگر اپنے عمل سے اسے دھتکار دو۔ قرآن فرماتا ہے لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:3)۔ یعنی تم منہ سے ایک ایسی بات کیوں کہتے ہو جس پر تم عمل کرنے کوتیار نہیں؟

بعض لوگ اس موقع پر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر خود لڑکیاں اپنی مرضی سے جائیداد کی جگہ نقد روپیہ لینے کو تیار ہوں تو اس پر کیا اعتراض ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر نیک نیتی سے اور پاک و صاف دل سے ایسا کیا جائے اور اس میں کوئی پہلو دھوکے اور فریب کا نہ ہو اور نہ ہی جائیداد کی قیمت لگانے میں چالاکی سے کام لیا جائے اور لڑکیوں پر کسی قسم کا دباؤ بھی نہ ڈالا جائے تو بے شک فریقین کی رضا مندی اور شرح صدر سے ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیاخوب فرمایا ہے کہ:

مگر مشکل یہی ہے درمیاں میں
کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک احمدی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یا حضرت! میری بیوی نے اپنی خوشی سے مجھے اپنا مہر معاف کر دیا ہے۔ حضور نے فرمایا ’’ہم ایسی معافی کو جائز نہیں سمجھتے۔ آپ اپنی بیوی کو مہر ادا کردیں اور پھر اس کے بعد وہ اگر اپنی خوشی سے آپ کو مہر کی رقم واپس کر دے تو تب جائز ہو گا۔‘‘ یہ صاحب کہیں سے قرض لے کر دوڑے ہوئے اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کی جھولی میں مہر کی رقم ڈال دی اور پھر چند سیکنڈ انتظار کرنے کے بعد بیوی سے کہا کہ تم نے تو مہر معاف کر دیا ہوا ہے۔ اب یہ رقم مجھے واپس کر دو۔ اس نے کہا واہ! اب میں کیوں واپس کروں؟ میں تو سمجھتی تھی کہ آپ نے مہر دینا ہی نہیں اس لئے مفت کا احسان کیوں نہ رکھوں۔ لیکن اب جب آپ نے مہر دے دیا ہے تو یہ میرا حق ہے میں اسے واپس نہیں کرتی۔ بس یہی بات میں والدین اور بھائیوں سے بھی کہتا ہوں کہ فرضی معافیوں اور فرضی ادائیگیوں سے اپنے نفسوں کو دھوکا نہ دو۔ یہ سب باتیں تقویٰ اور دیانت کے خلاف اور چالاکی اور ریاکاری میں داخل ہیں اور مومن کی شان سے کوسوں دور۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں:
’’تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے۔ کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پا ک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ۔ اگر ایک ذرّہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی …………………… ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے۔ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے …………………… نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میںسے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12)

بس اسی پر میں اپنے اس نوٹ کو ختم کرتا ہوں۔ جن کے کان ہوں گے وہ سنیں گے اور جن کے دل ہوں گے وہ مانیں گے اور باقی خدا کے حوالے۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

(محررہ 28جولائی 1960ء)

(روزنامہ الفضل ربوہ 4 اگست 1960ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2021