دل چاہتا ہے گوشۂ خلوت نصیب ہو
نَے کوئی ہمنوا ہو، نہ کوئی رقیب ہو
بےچارگی ہو، لذّتِ آزارِ شوق ہو
نَے کوئی دردخواہ، نہ کوئی حبیب ہو
بھربھر پیوں میں میکدۂ دل سے ساتگیں
نَے کوئی محتسب ہو، نہ کوئی نقیب ہو
پھر بےخودی میں نالہ و فریاد ہو بلند
دیکھوں اُٹھا کے آنکھ تو کوئی قریب ہو
خونِ جگر سے لکھی ہے، اؔمجد! حدیثِ دل
شاید جہاں میں کوئی تو مردِ لبیب ہو
(محمد یعقوب امجد)