• 3 مئی, 2024

یقین کا پانی تلاش کرو

میں ریل کے جس ڈبے میں سوار ہوا تھا اس میں بہت زیادہ مسافر موجود نہیں تھے اس لئے ایک مناسب نشست دیکھ کر میں نے اپنا سامان رکھا اور وہاں بیٹھ گیا۔ابھی ٹرین روانہ نہیں ہوئی تھی کہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر خاتون جو میری طرح فرینکفرٹ ہی جا رہی تھیں نزدیک موجود ایک نشست پر بیٹھ گئیں اور ٹرین Giessen سے فرینکفرٹ کے لئے روانہ ہوگئی۔ یہ سفر زیادہ طویل نہیں ہے اور عام طور پر ایک گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ آج سے قریب تیس سال پہلے کے ان ایام میں ابھی موبائل فون وغیرہ بھی موجود نہیں تھے اس لئے مسافردوران سفر اپنے فون پرمصروف ہونے کے بجائے آپس میں بات چیت بھی کر لیا کرتے تھے۔ان خاتون نے بھی گفتگو کا آغاز کیا اور جب میری ٹوٹی پھوٹی جرمن زبان ختم ہوگئی تو بات کو آگے بڑھانے کے لئے انہیں اپنی محدود انگریزی کی جانب منتقل ہونا پڑا اور جرمنی کی تاریخ، موسم اور حالات حاضرہ سے گزرتے ہوئے باتوں کا رخ مذہب کی جانب چلا گیا اور پھر یہ بتانے پر کہ میں ایک واقف زندگی ہوں اور مذہبی تعلیم حاصل کر رہا ہوں ان خاتون کا اشتیاق اور بھی بڑھ گیا۔ کہنے لگیں میں ایک ڈاکٹر ہوں اور مذہب اور روحانیت میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی تاہم روایتی طور پر ایک عیسائی گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔

عیسائیت کا ذکر آیا تو باتیں طویل ہوتی چلی گئیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت اور کفارہ کا ذکر بھی چل نکلا۔ اس ضمن میں باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے جب بار بار بائبل کا ذکر آیا تو انہوں نے ایک طنزیہ سی مسکراہٹ سے میری جانب دیکھا اور کہا کہ آپ بار بار یہ کس کتاب کا ذکر کر رہے ہیں؟ میں پہلے تو بہت حیران ہوا کہ اگر یہ مسیحی ہیں اوراعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں تو انہیں اپنی مقدس کتاب بائبل کے بارے میں کیوں علم نہیں ہے؟ لیکن پھر اس خیال سے کہ شاید مذہب میں عدم دلچسپی کی بنا پر وہ واقعی بائبل سے لاعلم نہ ہوں میں نے انہیں کسی قدر تفصیل سے بائبل کے متعلق بتانا شروع کیا۔ اس پر وہ مزید زور سے مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ کہیں آپ اس کتاب کا ذکر تو نہیں کر رہے جو میرے بک شیلف میں موجود ہوتی ہے اور اگر کبھی رات کو میرے بچے نہ سوئیں تو میں انہیں اس میں سے کہانیاں پڑھ کر سناتی ہوں تاکہ وہ سکون سے سو جائیں۔

ایک طالب علم کے طور پر میرے لیے یہ بہت عجیب لمحہ تھا۔ یہ پہلا موقعہ تھاجب مجھے یہ ادراک ہوا کہ یورپ کے مسیحیوں کا ایک حصہ نہ صرف مذہب کو ترک کر چکا ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے منہ موڑ کر مادہ پرستی کا شکار ہوتے ہوئے دہریت کی آغوش میں جا چکا ہے اور اس کا ایک بہت بڑا سبب وہ قصے اور غلط اعتقاد ات تھے جنہیں سچے مذاہب میں شامل کردیا گیا تھا اوربالآخر ان غلط قصوں اور کہانیوں نے اپنے ماننے والوں کو سچے خدا سے بھی دور کردیا۔

انگلستان کی مردم شماری کے اعداد وشمار

شاید یہی وجہ تھی کہ جب گزشتہ دنوں یورپ کے بعض ملکوں کے بارہ میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ وہاں خود کو مسیحی مذہب کی طرف منسوب کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی چلی جارہی ہے اور لوگ مذہب سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں تو مجھے ذرا بھی تعجب نہیں ہوا کیونکہ اگر آج سے تیس سال پہلے یہ حال تھا کہ پڑھے لکھے لوگ اپنے مذہبی صحائف کو کہانیوں کی کتابیں سمجھ رہے تھے تو آج ان کی نئی نسلوں کا مذہب سے دور ہونا بالکل بھی بعید از قیاس نہیں تھا۔ بی بی سی کی ویب سائٹ پر 29؍نومبر 2022ء کو Rachel Russell & Harry Farley کی یہ رپورٹ شائع کی گئی کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے انگلینڈ اور ویلز کے نصف سے بھی کم لوگوں نے خود کو مسیحیت سے منسلک قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاہے کہ مردم شماری 2021ء کے ذریعے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق خود کو مسیحی کہنے والے لوگوں کا تناسب46 فیصد رہ گیا ہے جو کہ دس سال قبل ہونے والی مردم شماری میں ساٹھ فیصد کے قریب تھا۔یہ اعداد و شمار کچھ نئے نہیں ہیں بلکہ یہ رپورٹ ایک لمبے عرصے کے ان رویوں کی عکاس ہے جو ان ممالک اور علاقوں کے لوگ اختیار کرتے رہے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق بھی انگلستان اور ویلز میں برسوں سے جاری سماجی سروے میں ان لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو اپنے آپ کو لامذہب کے طور پر بیان کرتے ہیں اور خود کو کسی بھی عقیدے یا مذہب کا پابند کرنا درست خیال نہیں کرتے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی سچے نبی اس دنیا میں آئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابدی سچائیوں پر مشتمل ملتے جلتے پیغامات ہی لے کر آئے ہیں یہاں تک کہ دین کامل کر دیا گیا اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے ذریعہ سے اسلام نے تمام ابدی سچائیوں کو بھی یکجائی طور پر انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ایک جگہ پر جمع کردیا۔ لیکن دنیا داری میں مگن انسان نہ صرف اپنے مالک کو بھول بیٹھا بلکہ اس خیال سے بھی غافل ہو گیا کہ اسے ایک دن اپنے مالک کے سامنے پیش ہونا ہےاور اس غفلت نے ہی گناہوں کے سیلاب کی شکل اختیار کرکے ہر ایک بند کو توڑ دیا۔

کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اس کو بے لگام چھوڑ دیا جائے گا

قرآن کریم نے اس مضمون کو سورۃ القیامہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور گناہوں میں بڑھنے کی بنیادی وجہ جزا سزا کے دن سے غفلت کو بیان کیا ہے۔ ان امور سے غافل ہوتے ہوئے انسان بسا اوقات ایک ایسی حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ وہ یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ کوئی بالا اور طاقتور ترین ہستی اس سے حساب کتاب لینے کے لئے موجود ہی نہیں ہے اور وہ اسی زمین میں اپنے اعمال و افعال سر انجام دے کر رزق خاک ہو جائے گا۔یوں رفتہ رفتہ وہ دہریت اور لا مذہبی خیالات کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔ دنیا کی لذتوں اور گناہوں میں مگن ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک پوری سورت اسی مضمون کے بارے میں نازل کی ہے جس میں قسم کھا کر اس دن کے بارے میں انسانوں کو خبردار اور متنبہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ:
’’سنو! تم جلدی سے ملنے والی نعمت کو پسند کرتے ہو اور بعد میں آنے والی نعمت کو نظر انداز کر دیتے ہو۔ اس دن بعض لوگ ہشاش بشاس ہوں گے۔ اپنے خدا کی طرف نظر لگائے بیٹھے ہوں گے اور کچھ لوگ اس دن منہ بسورے بیٹھے ہوں گے۔کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے گا جس سے کمر کے منکے تک ٹوٹ جائیں گے۔ سنو! جب روح حلق تک پہنچ جائے اور کہا جائے کہ آج کوئی ہے جو دم دعا سے اس کو اچھا کر دے اور ہرایک یقین کرلے کہ اب جدائی کی گھڑی آگئی ہے اور جان کندنی کی گھڑی آجائے۔اس دن تیرے رب ہی کی طرف جانا ہوگا۔ پس کیا ہوا کہ ایسے شخص نے نہ صدقہ دیا نہ نماز پڑھی۔ بلکہ (حق کو) جھٹلاتا رہا اور (اس سے) پیٹھ پھیر لی۔ (اور اس کے بعد شرمندہ ہونے کی بجائے) اپنے گھر والوں کی طرف فخر سے اکڑتا ہوا چلا گیا۔ (اے شخص) تجھ پر ہلاکت پر ہلاکت ہو۔پھر (ہم کہتے ہیں کہ) تجھ پر ہلاکت پر ہلاکت ہو۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اس کو بے لگام چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ کسی وقت پانی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو اپنی مناسب حال جگہ میں ڈالا گیا۔ پھر وہ ایک چمٹنے والا لوتھڑا بن گیا۔ پھر اس (خدا) نے اس کو اور شکل میں بنا دیا اور آخر اسے مکمل کر دیا اور اسے جوڑا جوڑا کرکے بنایا یعنی نر اور مادہ کی شکل میں۔ کیا وہ (خدا) اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو پھر زندہ کردے۔‘‘

(ترجمہ سورۃ القیامۃ آیات 21-41 از تفسیرِ صغیر)

مذہب سے دوری کی بنیادی وجوہات

یوں تو مذہب سے دوری کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے وجود کے لئے پابندیاں پسند نہیں کرتا۔وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے آزادانہ طور پر زندگی گزارنے اور اس سے بھرپور لطف اندوز ہونے کی اجازت ہونی چاہئے اور اس پر کسی بھی معاملے میں کوئی قدغن یا روک ٹوک عائد نہ کی جائے۔ وہ کسی بھی ایسی پابندی کو قبول نہیں کرنا چاہتا جس میں اس کو اپنا کوئی فائدہ نظر نہ آئے۔ ابھی حالیہ وبا کے دوران ہم نے انسانوں کو اس بات پر لڑتے جھگڑتے اور احتجاجی جلوس نکالتے ہوئے دیکھا کہ ان پرایک بے ضرر ماسک پہننے کی پابندی کیوں عائد کی جا رہی ہے یا ویکسین کو کیوں لازمی قرار دیا جارہا ہے؟اس طرح کے حالات میں دنیاوی حکومتیں چونکہ سخت اقدامات کر لیتی ہیں اور فوری طور پر طاقت کے ذریعہ سے اپنے قوانین کو نافذ بھی کروا دیتی ہیں اس لیے ان قوانین کو توڑنا مشکل خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل مذہب چونکہ صرف نصیحت پر زور دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مذہبی معاملات میں سختی کو روا نہیں رکھا بلکہ انسان کو قیامت تک کے لئے خود ہی یہ ڈھیل دی ہے کہ وہ جو بھی راستہ اختیار کرنا چاہے اس راستے کو اختیار کر سکتا ہے اور اسے اپنے تمام اعمال کا حساب کتاب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوکر دینا ہوگا اس لئے اللہ تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین اور کسی بد اعمالی یا بے اعتدالی پر فوری گرفت نہ ہونے کے خیال سے انسان اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کو توڑنے پر آمادہ اور دلیر ہو جاتا ہے۔ ورنہ وہی انسان جو روزمرہ زندگی میں چند پاؤنڈ کے ٹریفک جرمانے سے بچنے لئے ہزار جتن کرتا ہے، حکومت کے نصب کردہ بے جان کھمبوں کے ایک اشارے پر رکتا اور چلتا ہے۔ ٹریفک کیمروں کو دیکھ کر فوراً رفتار مدھم کر لیتا ہے، سکیورٹی کیمروں کو دیکھ کر کسی بھی جرم کے ارتکاب سے رک جاتا ہے اور پولیس کی کار کو دیکھتے ہی سنبھل کر بیٹھ جاتا ہے۔وہ جو زلزلوں سے دہل جاتا ہے اور جنگوں سے لرز کر رہ جاتا ہے۔ جو ڈاکٹر کے صرف یہ بتانے پر آپ کو فلاں سنگین بیماری لاحق ہے کانپ کر رہ جاتا ہے اور دنیا کی تمام لذتوں کو بھول کر اس بیماری کے علاج میں مصروف ہو جاتا ہے۔جو ذیابیطس کا شکار ہوتے ہی میٹھے کے استعمال میں اعتدال پر آجاتا ہے اور بلڈ پریشر بڑھتے ہی نمک کا استعمال چھوڑ دیتا ہے۔ پھیپھڑے خراب ہونے پر تمباکو نوشی سے باز آجاتا ہے اور جگر خراب ہوتے ہی الکحل کا استعمال بند کر دیتا ہے۔ایسا کمزور انسان کیونکر ایسا لاپرواہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کو توڑ کر اپنے ہاتھوں سے اپنی اخروی تباہی کے سامان کرتا چلا جائے اور اسے یہ احساس بھی نہ ہو کہ وہ اپنا کس قدر نقصان کر رہا ہے۔

کیا کوئی شیر کے مُنہ میں اپنا ہاتھ دے سکتا ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’تمہارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ ایک چیز کا مفید ہونا جب ثابت ہو جائے تو فی الفور اس کی طرف ایک رغبت پیدا ہوجاتی ہے اور جب مضر ہونا ثابت ہو جائے تو فی الفور دل اس سے ڈرنے لگتا ہے مثلاً جس کو یہ معلوم نہیں کہ یہ چیز جو میرے ہاتھ میں ہے یہ سم الفار ہے وہ اس کو طبا شیر یا کوئی مفید دوا سمجھ کر ایک ہی وقت میں تولہ یا دو تولہ تک بھی کھا سکتا ہے لیکن جس کو اس بات کا تجربہ ہو چکا ہے کہ یہ تو زہر قاتل ہے وہ بقدر ایک ماشہ بھی اس کو استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے کھانے کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ اسی طرح جب انسان کو واقعی طور پر علم ہو جاتا ہے کہ بلا شبہ خدا موجود ہے اور در حقیقت تمام قسم کے گناہ اس کی نظر میں قابل سزا ہیں۔ جیسے چوری، خونریزی، بدکاری، ظلم، خیانت، شرک، جھوٹ، جھوٹی گواہی دینا، تکبر، ریاکاری، حرام خوری، دغا، دشنام دہی، دھوکہ دینا، بد عہدی، غفلت اور بدمستی میں زندگی گزارنا، خدا کا شکر نہ کرنا، خدا سے نہ ڈرنا، اس کے بندوں کی ہمدردی نہ کرنا، خدا کو پُر خوف دل کے ساتھ یا د نہ کرنا۔ عیاشی اور دنیا کی لذّات میں بکلّی محو ہو جانا اور منعم حقیقی کو فراموش کر دینا۔ دعا اور عاجزی سے کچھ غرض اور واسطہ نہ رکھنا۔ فروختنی چیزوں میں کھوٹ ملانا یا کم وزن کرنا یا نرخ بازار سے کم بیچنا، ماں باپ کی خدمت نہ کرنا۔ بیویوں سے نیک معاشرت نہ رکھنا۔ خاوند کی پورے طور پر اطاعت نہ کرنا۔ نامحرم مردوں یا عورتوں کو نظر بد سے دیکھنا۔ یتیموں، ضعیفوں، کمزوروں، درماندوں کی کچھ پرواہ نہ کرنا۔ ہمسایہ کے حقوق کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھنا اور اس کو دکھ دینا۔ اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے دوسرے کی توہین کرنا۔ کسی کو دلآزار لفظوں کے ساتھ ٹھٹھا کرنا یا توہین کے طور پر کوئی بدنی نقص اس کا بیان کرنایا کوئی بُرا لقب اس کا رکھنا یا کوئی بیجا تہمت اس پر لگانا یا خدا پر افترا کرنا اور نعوذ باللہ کوئی جھوٹا دعویٰ نبوت یا رسالت یا منجانب اللہ ہونے کا کر دینا یا خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہو جانا یا ایک عادل بادشاہ سے بغاوت کرنا اور شرارت سے ملک میں فساد برپا کرنا تو یہ تمام گناہ اس علم کے بعد کہ ہر یک ارتکاب سے سزا کا ہونا ایک ضروری امر ہے خود بخود ترک ہو جاتے ہیں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد18 صفحہ642-643)

اس طرح سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرنا ایمان کی پہلی کڑی ہے تو آخرت پر ایمان اس زنجیر کی انتہائی کڑی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد بقیہ تمام نیک اعمال اسی یقین کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں کہ ہمیں اس قادر و توانا اللہ کے حضور پیش ہونا ہے جو ہمارا مالک اور خالق ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سب سے پہلے ہمیں یہ یقین ہونا ضروری ہے کہ جس مقام اور ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں ایک حکومت موجود ہے اس لئے اگر ہم اس حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کو توڑیں گے تو ہمیں اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ یہ دو قسم کا یقین عمومی طور پر انسانوں کو کسی بھی قسم کے قانون توڑنے سے روکے رکھتا ہے۔

صرف کہانیوں سے گناہ ہرگز دور نہیں ہو سکتے

سورۃ الفاتحہ جو قرآن کریم کے بالکل آغاز میں موجود ہےاور روزانہ نمازوں میں بار بار دہرائی جاتی ہے اس میں اس امر کے بارے میں خصوصیت سے توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ مالک یوم الدین بھی ہے یعنی وہ جزا سزا کے دن کا مالک ہے۔ ایک ایسا قادر اور قدیر مالک جو بہت مہربان اور شفیق ہے لیکن قیامت کے دن ایک ایک چیز کا حساب بھی لے سکتا ہے پھر خواہ وہ معاملہ رائی کے دانے کے برابر بھی ہو۔ اگر اس حقیقت کو یاد رکھا جائے تو انسان نادانستگی میں کوئی بھول چوک تو کر سکتا ہے لیکن مکمل طور پر گناہوں کی دلدل میں کبھی بھی دھنس نہیں سکتا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد بقیہ تمام نیک اعمال اسی یقین کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں کہ ہمیں اس قادر و توانا اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہرگز ممکن نہیں اور کسی طرح ممکن نہیں کہ تم اس بات کی پوری بصیرت حاصل کر کے کہ گناہ کرنے کے ساتھ ہی ایک بجلی کی طرح تم پر سزا کی آگ برسے گی پھر بھی تم گناہ پر دلیر ہو سکو گے۔ یہ ایسی فلاسفی ہے جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتی۔ سوچو اور خوب سوچو کہ جہاں جہاں سزا پانے کا پورا یقین تمہیں حاصل ہے وہاں تم ہرگز اس یقین کے برخلاف کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔ بھلا بتلاؤ کیا تم آگ میں اپنا ہاتھ ڈال سکتے ہو۔ کیا تم پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اپنے تئیں گرا سکتے ہو کیا تم کنوئیں میں گر سکتے ہو کیا تم چلتی ہوئی ریل کے آگے لیٹ سکتے ہو کیا تم شیر کے مُنہ میں اپنا ہاتھ دے سکتے ہو۔ کیا تم دیوانہ کتّے کے آگے اپنا پیر کر سکتے ہو کیا تم ایسی جگہ ٹھہر سکتے ہو جہاں بڑ ی خوفناک صورت سے بجلی گر رہی ہے۔ کیا تم ایسے گھر سے جلد باہر نہیں نکلتے جہاں شہتیر ٹوٹنے لگا ہے یا زلزلہ سے زمین نیچے کو دھنسنے لگی ہے۔ بھلا تم میں سے کون ہے جو ایک زہریلے سانپ کو اپنے پلنگ پر دیکھے اور جلد کود کر نیچے نہ آجائے۔ بھلا ایک ایسے شخص کا نام تو لو کہ جب اس کے کوٹھہ کو جس کے اندر وہ سوتا تھا آگ لگ جائے تو وہ سب کچھ چھوڑ کر باہر کو نہ بھاگے تو اب بتلاؤ کہ ایسا تم کیوں کرتے ہو اور کیوں ان تمام موذی چیزوں سے علیحدہ ہو جاتے ہو مگر وہ گناہ کی باتیں جو ابھی میں نے لکھی ہیں ان سے تم علیحدہ نہیں ہوتے اس کا کیا سبب ہے۔ پس یاد رکھو کہ وہ جواب جو ایک عقلمند پوری سوچ اور عقل کے بعد دے سکتا ہے وہ یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں علم کا فرق ہے یعنی خدا کے گناہوں میں اکثر انسانوں کا علم ناقص ہے اور وہ گناہوں کو بُرا تو جانتے ہیں مگر شیر اور سانپ کی طرح نہیں سمجھتے اور پوشیدہ طور پر ان کے دلوں میں یہ خیالات ہیں کہ یہ سزائیں یقینی نہیں ہیں یہاں تک کہ خدا کے وجود میں بھی ان کو شک ہے کہ وہ ہے یا نہیں اور اگر ہے تو پھر کیا خبر کہ روح کو بعد مرنے کے بقا ہے یا نہیں اور اگر بقا بھی ہے تو پھر کیا معلوم کہ ان جرائم کی کچھ سزا بھی ہے یا نہیں بلاشبہ بہتوں کے دلوں کے اندر یہی خیال چھپا ہوا موجود ہے جس پر انہیں اطلاع نہیں لیکن وہ خوف کے تمام مقامات جن سے وہ پرہیز کرتے ہیں جن کی چند نظیریں میں لکھ چکا ہوں ان کی نسبت سب کو یقین ہے کہ ان چیزوں کے نزدیک جا کر ہم ہلاک ہو جائیں گے اس لئے ان کے نزدیک نہیں جاتے بلکہ ایسی مہلک چیزیں اگر اتفاقاً سامنے بھی آ جائیں تو چیخیں مار کر ان سے دور بھاگتے ہیں۔ سو اصل حقیقت یہی ہے کہ ان چیزوں کے دیکھنے کے وقت انسان کو علم یقینی ہے کہ ان کا استعمال موجب ہلاکت ہے۔ مگر مذہبی احکام میں علم یقینی نہیں ہے بلکہ محض ظن ہے اور اُس جگہ رویت ہے اور اِس جگہ محض کہانی ہے۔ سو مجرد کہانیوں سے گناہ ہرگز دور نہیں ہو سکتے۔ میں اس لئے تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک مسیح نہیں ہزار مسیح بھی مصلوب ہو جائیں تو وہ تمہیں حقیقی نجات ہرگز نہیں دے سکتے۔ کیونکہ گناہ سے یا کامل خوف چھڑاتا ہے یا کامل محبت اور مسیح کا صلیب پر مرنا اول خود جھوٹ اور پھر اس کو گناہ کا جوش بند کرنے سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ سوچ لو کہ یہ دعویٰ تاریکی میں پڑا ہوا ہے جس پر نہ تجربہ شہادت دے سکتا ہے اور نہ مسیح کی خودکشی کی حرکت کو دوسروں کے گناہ بخشے جانے سے کوئی تعلق پایا جاتا ہے۔ حقیقی نجات کی فلاسفی یہ ہے کہ اسی دنیا میں انسان گناہ کے دوزخ سے نجات پا جائے مگر تم سوچ لو کہ کیا تم ایسی کہانیوں سے گناہ کے دوزخ سے نجات پا گئے یا کبھی کسی نے ان بیہودہ قصوں سے جن میں کچھ بھی سچائی نہیں اور جن کو حقیقی نجات کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں نجات پائی ہے۔ مشرق و مغرب میں تلاش کرو۔ کبھی تمہیں ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو ان قصوں سے اس حقیقی پاکیزگی تک پہنچ گئے ہوں جس سے خدا نظر آجاتا ہے اور جس سے نہ صرف گناہ سے بیزاری ہوتی ہے بلکہ بہشت کی صورت پر سچائی کی لذّتیں شروع ہو جاتی ہیں اور انسان کی روح پانی کی طرح بہ کر خدا کے آستانہ پر گر جاتی ہے اور آسمان سے ایک روشنی اترتی اور تمام نفسانی ظلمت کو دور کر دیتی ہے۔ اسی طرح جبکہ تم روز روشن میں چاروں طرف کھڑکیاں کھول دو تو یہ طبعی قانون تمہیں نظر آجائے گا کہ فی الفور سورج کی روشنی تمہارے اندر آجائے گی لیکن اگر تم اپنی کھڑکیاں بند رکھو گے تو محض کسی قصہ یا کہانی سے وہ روشنی تمہارے اندر نہیں آسکتی۔ تمہیں روشنی لینے کے لئے یہ ضرور کرنا پڑے گا کہ اپنے مقام سے اٹھو اور کھڑکیاں کھول دو تب خود بخود روشنی تمہارے اندر آجائے گی اور تمہارے گھر کو روشن کر دے گی۔ کیا کوئی صرف پانی کے خیال سے اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔ نہیں بلکہ اس کو چاہیے کہ اُفتاں و خیزاں پانی کے چشمہ پر پہنچے اور اس زلال پر اپنی لبیں رکھ دے تب اُس آب شیریں سے سیراب ہو جائے گا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد18 صفحہ643-644)

پس مذہب کی تمام تر تعلیمات اس یقین کے راستے سے گزرتی ہیں جس کی پہلی سیڑھی اللہ تعالیٰ کے وجود کو ماننا ہے اور جس کی انتہائی منزل یہ یقین ہے کہ ایک دن اس سرائے فانی کو چھوڑ کر ہمیں اس قادر خدا کے حضور جواب دہی کے لئے پیش بھی ہونا ہے۔کوئی بھی ایسا مذہب یا عقیدہ جس میں دو چیزیں موجود نہ ہوں وہاں محض قصے اور کہانیاں ہی باقی رہ جاتی ہیں اور لوگ اپنی مذہبی کتابوں کو کہانیوں کی کتابیں سمجھنے لگ جاتے ہیں۔اسی لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ:

یقین کا پانی تلاش کرو

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اب وقت ہے اٹھو اور یقین کا پانی تلاش کرو کہ وہ تمہیں ملے گا اور کثرت یقین سے ایک دریا کی طرح بہہ نکلو۔ ہر ایک شک و شبہ کی نجاست سے پاک ہو کر گناہ سے دور ہو جاؤ۔ یہی پانی ہے جو گناہ کے نقوش کو دھوئے گا اور تمہارے لوح سینہ کو صاف کر کے ربّانی نقوش کے لئے مستعد کردے گا۔ تم نفسانی حروف کو اس لوحِ خاطر سے کسی طرح مٹا نہیں سکتے جب تک کہ یقین کے صاف پانی سے اس کو دھو نہ ڈالو۔ قصد کرو تا تمہیں توفیق دی جائے اور ڈھونڈو تا تمہارے لئے میسر کیا جائے اور دلوں کو نرم کرو تا ان باتوں کو سمجھ سکو۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ سخت دل حقیقتوں کو سمجھ سکے۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم بغیر اس راہ کے کہ خدا کی عظمت تمہارے دل میں قائم ہو اور اس زندہ خدا کا جلال تم پر کھلے اور اس کا اقتدار تم پر ظاہر ہو اور دل یقین کی روشنی سے بھر جائے کسی اور طریق سے تم گناہ سے سچی نفرت کر سکو۔ ہرگز نہیں ایک ہی راہ ہے اور ایک ہی خدا اور ایک ہی قانون۔‘‘

(روحانی خزائن جلد18 صفحہ650-651)

حضرت مصلح موعو د رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر میں اسی مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منکر ہیں اوروہ تکبر سے کام لیتے ہیں‘‘ اس فقرہ میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ اگر خداتعالیٰ کا ایک ہونا ایسا بدیہی امر ہے تولوگ اس کے ایک ہونے کا انکار کیوں کرتے ہیں اوروہ جواب یہ ہے کہ یہ انکار کسی دلیل پر مبنی نہیں۔بلکہ باوجود ان دلائل کے شرک میں مبتلاہونا اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ بعث بعد الموت کے منکر ہیں اوراس انکا ر کی وجہ سے ان کے اندر سنجیدگی باقی نہیں رہی۔کیونکہ جب یہ اپنے افعال کو بغیر نتیجہ سمجھتے ہیں۔توانہیں ان کے اچھا براہونے کے متعلق خاص فکر پیدانہیں ہوتی اور ضد اور تعصب میں کوئی حرج نہیں دیکھتے۔کیونکہ ان کے خیال میں گرفت توکوئی ہونی نہیں۔اس لئے آہستہ آہستہ ان کے دل جاہل اورغبی ہوگئے ہیں اوروہ مادہ سمجھ اورہدایت کا ان میں باقی نہیں رہا۔جو اس وقت انسان میں پیداہوتا ہے جبکہ وہ یہ محسوس کر تاہے کہ میرے اعمال کا کوئی اہم نتیجہ نکلنے والا ہے۔غرض آخرت کے انکار کی وجہ سے لاابالی پن اورسنجیدگی کافقدا ن ان میں پیدا ہوگیا ہے اوردل علم سے محروم رہ گئے ہیں اور اس وجہ سے بدیہی اوریقینی باتوں کا انکار بھی دلیر ی سے کردیتے ہیں اورغور کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔غرض اس جگہ منکرة کے معنے انکار کرنے والے کے نہیں بلکہ جاہل اورناواقف کے ہیں اوریہ بتایاہے کہ بعث بعد الموت پر ایمان نہ ہونے کے سبب سے چونکہ سنجید گی سے غور کرنے کا احساس نہیں۔اس لئے اس عادت کیوجہ سے دلوں سے سمجھ کامادہ جاتارہا ہے اور ان کو حس ہی نہیں ہوتی کہ ہمارا ایک عقیدہ دوسرے عقید ہ کے خلاف ہے۔ دوسرا نتیجہ بعث بعد الموت کے انکا ر کا یہ بتایاکہ ان میں تکبر پیداہوگیا ہے کیونکہ جو شخص جزاسزاکا مومن نہ ہو۔و ہ نڈر ہوجاتاہے اورجو نڈر ہوجائے وہ سچائی کااقرار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 153)

جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب تک انسان کی زندگی آرام اور آسائش کے ساتھ گزر رہی ہو تو وہ اس میں کھو کر رہ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے اور یہ سوچنے لگتا ہے کہ جب اس کی تمام تر ضروریات پوری ہو رہی ہیں اور وہ آرام دہ زندگی گزار رہا ہے تو اسے کسی بالا ہستی کی امداد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن پھر جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آزمائش دنیا پر نازل کی جاتی ہے اور انسان اس مشکل میں خود کو بے یارو مددگار محسوس کرتا ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ اس کا ایک مالک اور خالق خدا ہے اور وہ دوبارہ کسی نہ کسی طور پر خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ پھر خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کسی بھی خدا کا ماننے والا ہو، اسے کوئی بھی نام لے کر پکارتا ہو بالآخر وہ اسی کے دروازے پر آن گرتا ہے بالکل ایک ایسے بچے کی طرح جو ساحل سمندر کی سیر کے دوران کھیلتے کودتے اور رنگ برنگی سیپیاں چنتے ہوئے اپنے اس کھیل میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ بسا اوقات اپنے ماں باپ کو بھی بھول جاتا ہے لیکن پھر جونہی کوئی مشکل درپیش آتی ہے وہ ادھر ادھر تلاش کرتا ہے اور بالآخر اپنے والدین کی تلاش کے لئے چیخنے اورچلانے لگتا ہے۔ ابھی حال ہی میں دی ٹیلیگراف یوکے میں Nicola Smith اور Ben Farmer کی تحریر کردہ یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ ملکی حالات خراب ہونے کے بعد یوکرائن کے لاکھوں لوگ سکون کے لیے مذہب کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یوکرائن بائبل سوسائٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، فروری میں روس کے حملے کے بعد سے یوکرائن میں بائبل مہیا کرنے کی درخواست کرنے والے لوگوں کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو گئی ہے۔بائبل سوسائٹی کے مطابق 2020ء میں، انہوں نے 136,767 بائبل تقسیم کی تھیں، لیکن اس سال کے پہلے نو مہینوں میں ہی یہ تعداد 359,000 تک پہنچ چکی ہے۔The Telegraph UK کی رپورٹ کے مطابق ایک 37 سالہ الیکٹریشن اینڈری نے بتایا کہ جب اُنہیں گرمیوں میں اپنی پہلی بائبل موصول ہوئی تو اُنہیں پرانے عہد نامے کے بزرگ ابراہیم کی کہانی سے پیار ہو گیا، جسے خدا نے ’’بہت سی قوموں کے باپ‘‘ کے طور پر برکت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس سال یوکرائن کے مشکل ترین لمحوں کے دوران پناہ گاہوں میں چھپے لوگوں کو ٹارچ یا موم بتی کی روشنی میں ایک ساتھ بائبل پڑھتے ہوئے دیکھا گیا۔بہت سے لوگ جنہوں نے کبھی چرچ میں قدم نہیں رکھا تھا یا بائبل نہیں کھولی تھی اب وہ ایسے الفاظ تلاش کر رہے ہیں جن سے ان کے دلوں کو ڈھارس مل سکتی ہےجیسے زبور 31 کی یہ دعا کہ اے رب مجھ پر رحم کر کیونکہ میں مصیبت میں ہوں، میری آنکھیں، میری جان اور میرا جسم غم سے کمزور ہوئے جاتے ہیں۔میری زندگی اذیت میں ہے اور میری عمر کراہنے میں فنا ہوگئی ہے۔ میری مصیبت کی وجہ سے میری طاقت ختم ہو جاتی ہے، اور میری ہڈیاں کمزور ہوئی جاتی ہیں۔

یہ رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ رپورٹرز نے زبور کے جس باب31 کا حوالہ دیا ہے وہ بھی مکمل پڑھنا ضروری ہے جس میں انتہائی درد اور محبت کے ساتھ خدا ئے واحد و یگانہ سے دعائیں اور التجائیں کی گئی ہیں اور اس سچے خدا کو مدد کے لئے پکارا گیا ہے جو تمام انسانوں کا مالک اور حقیقی خدا ہے۔ چنانچہ زبور باب 31 پڑھا تو اس میں اپنے مالک حقیقی کے حضور ایسی درد انگیز دعائیں اور فریادیں لکھی ہوئی نظر آئیں جو انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ وہاں لکھا ہوا ہے کہ:

اے خدا! میں ٹوٹے برتن کی مانند ہوں

اَے خداوند! میرا توکل تجھ پر ہے۔ مجھے کبھی شرمندہ نہ ہونے دے۔ اپنی صداقت کی خاطر مجھے رہائی دے۔اپنا کان میری طرف جھکا۔ جلد مجھے چھڑا۔ تو میرے لئے مضبوط چٹان میرے بچانے کو پناہ گاہ ہوجا۔کیونکہ تو ہی میری چٹان اور میرا قلعہ ہے۔ اِس لئے اپنے نام کی خاطر میری رہبری اور رہنمائی کر۔مجھے اس جال سے نکال لے جو انہوں نے چھپ کر میرے لئے بچھایا ہے۔ کیونکہ تو ہی میرا محکم قلعہ ہے۔مَیں اپنی روح تیرے ہاتھ میں سَونپتا ہوں۔ اَے خداوند! سچائی کے خدا! تو نے میرا فدیہ دیا ہے۔ مجھے ان سے نفرت ہے جو جھوٹے معبودوں کو مانتے ہیں۔ میرا توکل تو خداوند ہی پر ہے۔میں تیری رحمت سے خوش وخرم رہونگا کیونکہ تُو نے میرا دکھ دیکھ لیا ہے۔ تو میری جان کی مصیبتوں سے واقف ہے۔تو نے مجھے دشمن کے ہاتھ میں اسیرنہیں چھوڑا۔ تو نے میرے پاؤں کشادہ جگہ میں رکھے ہیں۔ اَے خدا! مجھ پر رحم کر کیونکہ میں مصیبت میں ہوں۔ میری آنکھ بلکہ میری جان اور میرا جسم سب رنج کے مارے گھلے جاتے ہیں۔کیونکہ میری جان غم میں اور میری عمر کراہنے میں فنا ہوگئی ہے۔ میرا زور میری مصیبت کے باعث جاتا رہا ہےاور میری ہڈیاں گھل گئی ہیں۔میں اپنے سب مخالفوں کے سبب سے اپنے ہمسایوں کے لئے ازبس انگشت نما اور اپنے جان پہچانوں کے لئے خَوف کا باعث ہوں۔ جنہوں نے مجھ کو باہر دیکھا مجھ سے دور بھاگے۔میں مردہ کی مانند دِل سے بھلا دِیا گیا ہوں۔ میں ٹوٹے برتن کی مانند ہوں۔کیونکہ میں نے بہتوں سے اپنی بدنامی سنی ہے۔ ہر طرف خَوف ہی خَوف ہے۔ جب انہوں نے مل کر میرےخلاف مشورہ کیا۔ تو میری جان لینے کا منصوبہ باندھا۔لیکن اَے خداوند! میرا توکل تجھ پر ہے۔میں نے کہا تو میرا خدا ہے۔میرے ایّام تیرےہاتھ میں ہیں۔ مجھے میرے دشمنوں اور ستانے والوں کے ہاتھ چھڑا۔اپنے چہرے کو اپنے بندہ پر جلوہ گر فرما۔ اپنی شفقت سے مجھے بچالے۔اَے خدا! مجھے شرمندہ نہ ہونے دے کیونکہ میں نے تجھ سے دعا کی ہے۔ شریر شرمندہ ہو جائیں اور پاتال میں خاموش ہوں۔جھوٹے ہونٹ بند ہو جائیں جو صادقوں کے خلاف غرور اور حقارت سے تکبر کی باتیں بولتے ہیں۔آہ! تو نے اپنے ڈرنے والوں کے لئے کیسی بڑی نعمت رکھ چھوڑی ہے۔ جسے تو نے بنی آدم کے سامنے اپنے توکل کرنے والوں کے لئے تیار کیا۔ تو ان کو انسان کی بندشوں سے اپنی حضوری کےپردہ میں چھپالےگا۔ تو ان کو زبان کے جھگڑوں سے سایہ میں پوشیدہ رکھے گا۔خداوند مبارک ہو۔ کیونکہ اس نے مجھ کو مضبوط شہر میں اپنی عجیب شفقت دکھائی۔میں نے تو جلد بازی سے کہ دیا تھا کہ میں تیرے سامنے سے کاٹ ڈالا گیا۔پھر بھی جب میں نے تجھ سے فریاد کی تو تونے میری منت کی آواز سن لی۔ خداوند سے محبت رکھو اَے اس کے سب مقدسو! خداوند ایمانداروں کو سلامت رکھتا ہے اور مغروروں کو خوب ہی بدلہ دیتا ہے۔اَے خداوند پر آس رکھنے والو! سب مضبوط ہو اور تمہارا دِل قوی رہے۔

(زبور باب 31)

18؍دسمبر 2022ء کے دی ٹیلی گراف میں یہ رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے تیس سال پہلے جرمنی میں ملنے والی وہ ڈاکٹر صاحبہ بھی یاد آگئیں جن کے خیال میں مذہبی صحائف چند داستانیں اور بزرگ انبیاء کے واقعات صرف کچھ کہانیاں تھیں۔ایسی کہانیاں جنہیں وہ اپنے بچوں کو سلانے کے لئے رات کو سنایا کرتی تھیں۔ مجھے خیال آیا کہ شاید یہ مضمون ان کی نظروں سے بھی گزرا ہو اور شاید دکھی انسانیت کی یہ کہانیاں پڑھ کر انہوں نے بھی اپنے خیالات میں کچھ تبدیلی محسوس کی ہو اور بائبل کی تمام تر تعلیمات کے بارہ میں نہ بھی سہی کم از کم خدائے واحد کے وجود کے حوالہ سے ان کی سوچ بدل گئی ہو۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی