اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعماء تم پر کی ہیں ان کا بیان کرتا رہ۔احمدیت بھی ایک نعمت ہے جس کو ہمارے خاندان میں متعارف کروانے کا سہرہ میرے والد صاحب کے سر ہے۔
میرے والد مکرم محمد اشرف کاہلوں کو اپنے خاندان میں سب سے پہلے قبول احمدیت کی توفیق ملی اور آپ کے بعد پھر پورا خاندان آغوشِ احمدیت میں آ گیا۔قبول ِاحمدیت کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے میں اپنے ددھیال کا ذکر کرنا چاہوں گی۔میرے دادا جان مکرم چوہدری فضل دین پیشہ کے لحاظ سے زمیندار تھے اور جیسا کہ اس زمانہ کے زمین دار علم سے نا بلد ہوتے ہیں تو گھر میں کوئی عملی ماحول نہیں تھا بلکہ چونکہ ان کی اولاد زندہ نہیں بچتی تھی بلکہ ایک بیٹا 16-17سال کی عمر میں جب وفات پا گیا تودادی اماں نے منت مانگی کہ اب جو بچہ پیدا ہوگااسے سلطان باہو کے مزار پہ لے کے جاؤں گی۔ میرے والد صاحب جب پیدائش کے کچھ عرصہ بعد تک صحیح سلامت رہے تو منت پورا کرنے کی غرض سے ان کو سلطان باہو کے مزار پہ لے کے گئیں۔یہ خاندان کی علمی و روحانی صورت حال تھی۔میرے والد اس ماحول میں رہنے کے باوجود تعلیم سے بہت محبت رکھتے تھے اور انہوں نے باوجود کسی راہنمائی نہ ہونے اور نامساعد حالات ہونے کے اپنی تعلیم جاری رکھی۔تعلیم کا یہ سلسلہ کیسے جاری رہا اس کی تفصیل کسی اور موقع پر بیان کروں گی۔احمدیت سے میرے والد کا تعارف کیسے ہوا۔آپ بیان کرتے ہیں کہ گاؤں میں احمدیہ مسجد قائم تھی اور میٹرک کے بعد وہ ترجمۃ القرآن پڑھنے کے لیے احمدیہ مسجد جایا کرتے تھے کیونکہ غیر از جماعت مولوی کو ترجمہ نہیں آتا تھا۔پھر جب والد صاحب اپنی پڑھائی کے سلسلہ میں گوجرہ میں مقیم تھے تو عصر کی نماز کے بعد غیر ازجماعت مسجد میں درس القرآن میں شامل تھے کہ مولوی صاحب درس دیتے ہوئے ایک ایسی حدیث پہ بات کرتے کرتے رک گئے جس سے وفات مسیح ثابت ہوتی تھی۔والد صاحب کے دل میں یہ بات کھٹک گئی۔ جب آپ گریجویشن ختم کر کے گاؤں گئے تو ایک دن ختم نبوت کے 2 مولوی صاحبان گاؤں پہنچ گئے اور اس بات کا اظہار کیا کہ احمدیوں کے خلاف جلسہ کرنا ہے لیکن حوالہ جات کے لیے انہیں کچھ جماعت کی کتب چاہیں۔ والد صاحب نے اپنے ایک احمدی جاننے والے سے وہ کتب انہیں مہیا کر دیں۔ جلسہ کا آغاز ہوا اور حسب معمول انہوں نے جب مغلظات بکنا شروع کیں تو گاؤں کے شرفاء نے انہیں روک دیا کہ یہاں اس طرح کا فساد نہیں ہونے دیں گے تو وہ مولوی صاحبان گاؤں سے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد والد صاحب نے ان کتب کا مطالعہ کیا اور جس کتاب نے آپ کی کایا پلٹی وہ آئینہ کمالات اسلام تھی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کے دل نے گواہی دی کہ لکھنے والا سچا ہے۔اس طرح آپ نے مئی 1973ء میں بذریعہ خط حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بیعت کی۔جب آپ نے بیعت کی تو باوجودیہ کہ آپ والدین کے بہت لاڈلے تھے تو ان کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے گھر میں ہی ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ کا سلسلہ جاری رہا۔جب گھر والوں نے دیکھا کہ یہ تو باز نہیں آ رہا تو دادی جان نے غصہ میں آکر گھر سے جانے کا کہہ دیا۔ آپ نے گھر چھوڑ دیا، لیکن گاؤں تو ایک ہی تھا۔ ایک بار آپ گاؤں کے چوک میں کھڑے تھے کہ دادی جان بھی اتفاقاً وہاں آگئیں۔وہاں دونوں ماں بیٹے کی کچھ بات چیت ہوئی جس میں والد صاحب کو احمدیت چھوڑنے کا کہا گیا۔اسی دوران میں دادی جان جو کہ غصہ کی کافی تیز تھیں انہوں نے پورے گاؤں کے سامنے جوان بیٹے کو تھپڑ دے مارا لیکن والد صاحب خاموش رہے۔اسی بات کا شاید دادی جان کی طبیعت پر اثر ہوا اور انہوں نے گھر آنے کی اجازت دے دی اور مخالفت ترک کر دی۔ والد صاحب کو اپنے گاؤں کا قائد مقرر کیا گیا۔ 1974ء میں گاؤں کے حالات خراب نہیں تھے لیکن گوجرہ شہرکے حالات کافی خراب تھے اور بطور قائد والد صاحب کی ڈیوٹی تھی کہ وہ خورونوش کی اشیاء گوجرہ میں مقیم احمدیوں کو مہیا کریں گے۔ والد صاحب کی بیعت کرنے کے بعد دادا جان نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ نماز باجماعت ہو رہی ہے اور ایک بزرگ (جو خلیفہ ثالث رحمہ اللہ تعالیٰ تھے) وہ نماز کروا رہے ہیں اور آپ دوڑ کر اس نماز میں شامل ہوئے ہیں۔ داداجان نے اس کے بعد جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کی اور پھر باقی گھر والوں کے ساتھ بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ یوں ہمارا خاندان احمدیت میں ہمارے والد صاحب کی بدولت داخل ہوا۔ الحمد للّٰہ علی ذالک
(عطیۃالعلیم۔ ہالینڈ)