• 28 جولائی, 2025

محمدؐ ہسْت برہانِ محمدؐ

تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب

حقیقی اور کامل تعریف

مصرع مندرجہ عنوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانیٔ سِلسلہ احمدیہ کے ایک قصیدہ سے ماخوذ ہے جو آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت میں منظوم فرمایا تھا۔ میں نے بہت غور کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح میں جو الفاظ انسانوں کی طرف سے کہے گئے ہیں خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے ان میں مصرع مندرجہ بالا سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحیح اور حقیقی اور کامل تعریف کا حاصل اور کوئی فقرہ نہیں۔

سب سے بڑا باکمال

بے شک دنیا میں تعریف کے مستحق لاکھوں انسان گزرے ہیں اور ان میں سے بعض نے وہ مرتبہ پایا ہے کہ آنکھ ان کی رفعت اور روشنی کو دیکھ کر خیرہ ہوتی ہے اور یہ باکمال لوگ پائے بھی ہر میدان میں جاتے ہیں یعنی دین ودنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ان لوگوں کے وجود سے خالی ہو مگر ان میں سے کون ہے؟ جس کی ہستی کا ہر پہلو اس کے کمال پر شاہد ہو۔ کون ہے جس کے وجود کا ہرذرہ اس کے نورِ باطن کا پتہ دے رہا ہو؟ کون ہے جس کی ذات والا صفات کا ہر خلق اس کی یگانگت کی دلیل ہو؟ یقینا یہ کمال صرف مقدس بانیٔ اسلام (فداہ نفسی) کے ساتھ مخصوص ہے اور کوئی دوسرا انسان اس صفت میں آپؑ کا شریک نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسنِ خداداد نے دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یدِبیضانے ایک عالم کی آنکھ کو مسخر کردیا۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے دم عیسوی سے روحانی مُردوں نے زندگی پائی مگر باوجود اپنے روحانی کمال کے حضرت مسیح ناصری ؑ نے موسیٰ علیہ السلام کا یدبیضا نہ پایا۔ حضرت موسیؑ کو باوجود اپنی رفعتِ شان کے حسنِ یوسفؑ سے محرومی رہی۔ حضرت یوسفؑ باوجود اپنی ظاہری وباطنی حُسن کے حضرت موسیٰ ؑ کے یدبیضا اور حضرت مسیح ؑکے دمِ عیسوی کو نہ پاسکے لیکن اسلام کا مقدس بانی اپنے ہروصف میں یکتا ہوکر چمکا۔ اپنی ہرشان میں دوسروں سے بالا رہا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

؎ حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدبِیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند توتنہا داری

مصرعہ مندرجہ عنوان

یہ شعر بہت خوب ہے بہت ہی خوب ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان اس سے بھی ارفع ہے۔ آپؐ کاحُسن حضرت یوسفؑ کےحُسن کوشرماتا ہے آپؐ کے یدبیضا کے سامنے حضرت موسیٰ ؑ کا یدبیضا ماند ہے۔ آپؐ کے انفاسِ روحانی سے حضرت عیسیٰ ؑ کے دمِ عیسوی کو کوئی نسبت نہیں۔ میں نے عرض کیا تھا اور پھر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسن وکمال کی حقیقی تصویر صرف اس مصرع میں ملتی ہے۔ جو سلسلہ احمدیہ کے مقدس بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے نکلا اور میرے اس مضمون کا عنوان ہے۔ میرا یہ دعویٰ محض خوش عقیدگی پر مبنی نہیں ہے بلکہ تاریخ کی مضبوط ترین شہادت اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ رہنمایانِ عالم میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والاصفات وہ ذات ہے جس کا ہروصف ہر خط وخال ہر ادا آپؐ کے کمال کی دلیل ہے۔ اسی لئے قدرت نے آپؐ کے واسطے وہ نام تجویز کیا جس کے معنی مجسم تعریف کے ہیں۔ اور مصرع مندرجہ عنوان کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر دنیا میں کوئی ایسی ہستی ہے کہ جس کا ہر وصف اسے ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میں ‘‘محمدؐ ’’یعنی قابل تعریف ثابت کرتا ہو اور اس کے لئے کسی بیرونی دلیل کی ضرورت نہ ہو تو وہ صرف پیغمبر اسلام ہے۔

احسن تقویم کا کامل نمونہ

میرے لئے اس نہایت مختصر مضمون میں اپنے اس وسیع دعویٰ کے دلائل لانے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ اس مضمون میں دلائل کا بیان کرنا میرا مقصد ہے۔ میں اس جگہ صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا رسولؐ مرتبہ کیا رکھتا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جس نے اسے اس تعریف کا مستحق بنایا ہے جو مصرع مندرجہ عنوان میں بیان کی گئی ہے۔ سو جیساکہ میں نے اوپر بیان کیا ہے وہ مقام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود نبوت ورسالت کے جملہ کمالات میں اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ کسی ایک وصف یا ایک کمال کو لے کر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آپؐ کا امتیاز ی خاصہ ہے۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سوانح نگار ہوں اور خدا کے فضل سے آپؐ کے حالاتِ زندگی کا کسی قدر مطالعہ رکھتا ہوں۔ اور میں نے آپؐ کے سوانح کا مطالعہ بھی ایک آزاد تنقیدی نظر کے ساتھ کیا ہے۔ میں اس معاملہ میں اپنی ذاتی (گو معاملہ کی اہمیت کے مقابلہ میں نہایت ناچیز) شہادت پیش کرتا ہوں کہ میں نے جب کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصاف ومحاسن کا جائزہ لے کر آپؐ کے وجودمیں کسی امتیازی خاصہ کی تلاش کرنی چاہی ہے تو میری نظر ہمیشہ ماندہ ہو ہوکر لوٹ گئی ہے اور کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت نے اپنے نبی میں اوصافِ جلالی کا نور دیکھا تو اسے لے کر اپنے بانی کی تعریف میں پل باندھ دیئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین نے اپنے مسیح کے اوصاف جمالی کا نظارہ کیا تو اس سے مسحور ہوکر انہیں خدا کے پہلو میں جابٹھایا۔

گوتم بدھ کے نام لیووں نے اپنے بانی کی نفس کشی اور فنائیت کو دیکھ کر اس کی مدح سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے مِلا دئیے۔ مگر اسلام کا بانی خدائے ذوالعرش کی کامل تصویر تھا اس لئے اس کے کمال نے اس بات سے انکار کیا کہ اس کاکوئی وصف اس کے کسی دوسرے وصف سے ہیٹا ہو۔ وہ اپنی امت کی کامل اصلاح کا پیغام لایا تھا اس لئے اس کی تصویر کا کوئی رنگ اس کے دوسرے رنگوں سے مغلوب نہیں ہوا۔ تا ایسا نہ ہو کہ اس کے متبع اس کے غالب رنگ سے متاثر ہوکر اصلاح کے ایک پہلو میں غلواور دوسرے میں نقصان کا طریق اختیار کرلیں۔ قدرت نے اس کے تمام قوائے فطری کی ایک سی آبپاشی کی اور اس کے وجود میں اپنے اس فعل کو کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ تک پہنچادیا اسی واسطے جہاں دوسرے نبیوں کی بعثت کے لئے الٰہی کلام میںان کے حسبِ حال اور اور رنگ کے استعارے استعمال کئے گئے ہیں۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کو خدا تعالیٰ نے خود اپنی آمد کہہ کر پکارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح خدا کی ہستی کی بہترین دلیل خود خدا کی ذات ہے جو بغیر کسی بیرونی توسّل کے خود اپنی قدرت وجبروت کے زور سے اپنے آپ کو منواتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کمال کی بہترین دلیل خود آپؐ کا وجودِ باجود ہے۔ جو اپنے ہر وصف میںایک سی کشش اور ایک سی طاقت کے ساتھ دنیا سے خراجِ تحسین حاصل کررہا ہے۔

نادر کرشمۂ قدرت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ خصوصیت صرف ان روحانی کمالات تک محدود نہیں جو نبوت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بلکہ اس نادر کرشمہ قدرت نے دین ودنیا کے جس میدان میں قدم رکھا ہے وہاں حُسن واحسان کا ایک کامل نقش اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔ یہ دلائل وامثلہ کی بحث میں پڑنے کا موقعہ نہیں ورنہ میں تاریخ سے مثالیں دے دے کر بتاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بچہ تھے تو بہترین بچہ تھے۔ اور جب جوان ہوئے تو بہترین جوان نکلے، ادھیڑ عمر کو پہونچے تو ادھیڑ عمر والوں میں بے مثل تھے اور جب بوڑھے ہوئے تو بوڑھوں میں لاجواب ہوئے۔ شادی کی تو بہترین خاوند بنے اور جب بادشاہ بنے تو دنیا کے بادشاہوں کے سرتاج نکلے۔ کسی کے دوست ہوئے تو جہان کی دوستیوں کو شرمادیا اور اگر کوئی آپ کا دشمن بنا تو اُس نے آپؐ کو اپنا بہترین دشمن پایا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو آپؐ کے سامنے ہمیشہ کے لئے نیچا کردیا۔ فوج کی کمان لی تو دنیا کے جرنیلوں کے لئے ایک نمونہ بن گئے۔ اور سیاست کی تو سیاست کا ایک بہترین ضابطہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ انتظامی حاکم بنے تو ضبط ونظام کی مثال بن گئے اور قضا کی کرسی پر بیٹھے تو عدل وانصاف کا مجسمہ نظر آئے۔ فاتح بنے تو دنیا کے فاتحین کو ایک سبق دیا۔ اور کبھی کسی معرکہ میں حکمت الٰہی سے مفتوح ہوئے تو مفتوح ہونے کا بہترین نمونہ قائم کیا۔ معلم خیر بنے تو جذب وتاثیر میں عدیم المثال نکلے اور عابد کا لباس پہنا تو تعبّد کو انتہا تک پہونچا دیا اور پھر ایسا نہیں ہوا کہ کبھی کسی وصف پر زور ہو اور کبھی کسی وصف پر بلکہ اپنے اپنے موقع پر ہر وصف کا دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ کامل طور پر ظہور ہوا۔ اور جب بالآخر خدا کی طرف سے واپسی کا پیغام آیا تو موت کا کیسا دلکش اور کیسا پیارا نقشہ پیش کیا کہ نزع کا عالم ہے اور روح جسم کے ساتھ اپنی آخری کڑیاں توڑ رہی ہے اور یہاں زبان پریہ الفاظ ہیں کہ

’’اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانکُم

یعنی ’’اے مسلمانو! تم خدا کی عبادت میں کبھی سست نہ ہونا۔ کہ وہی ہرخیروبرکت اور ہر قوت وطاقت کا منبع ہے۔ اور دنیا میں جو لوگ تم سے کمزور ہوں۔ اور تمہارے اختیار کے نیچے رکھے جائیں اُن کے حقوق کی حفاظت کرنا۔‘‘

اور جب رشتہ حیات ٹوٹنے کے لئے آخری جھٹکا کھاتا ہے تو آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ ہیں۔

’’اَللّٰھُمّٰ بِالرَّفِیْقِ الْاَ عْلٰی اَللَّھُمَّ بِالرَّفِیْقِ الْاَ عْلٰی

یعنی ’’اے میرے آقا تو اب مجھے اپنی رفاقت اعلیٰ میں لے لے مجھے اپنی رفاقتِ اعلیٰ میں لے لے۔‘‘

مطہر زندگی اور مطہر موت

یہ اسی پاک ومطہر زندگی اورپاک ومطہر موت کا اثر تھا کہ جب وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی، اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؐ کے چہرہ مبارک پر سے چادر ہٹا کر آپؐ کی پیشانی کو بوسہ دیا تو اس زندگی بھر کے رفیق کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ کہ طَبْتَ حیًّا ومیّتاً ١٧؎ یعنی ’’تو زندہ تھا تو بہترین زندگی کا مالک تھا اور فوت ہوا تو بہترین موت کا وارث بنا۔‘‘ کیا کسی اور نبی کے اوصاف میں یہ ہمہ گیر افضلیت نظر آتی ہے۔ بلکہ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی اور نبی ایسا گزرا ہے جس کی زندگی اتنے مختلف پہلوؤں کے مناظِر پیش کرتی ہو؟

من کل الوجُوہ افضلیّت

یہ اسی ہمہ گیر افضلیت کا ثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لئے ایسی کامیابی مقدر کی جس کی مثال کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں ملتی۔ بے شک خدا کے ازلی وعدہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ کے ماتحت ہر نبی کے لئے غلبہ مقدر ہوتا ہے مگر غلبہ کے بھی مدارج ہیں اور یقینا جو غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نصیب ہوا اس کے سامنے دوسرے نبیوں کی کامیابی اسی طرح ماند ہے جس طرح سورج کی روشنی کے سامنے دوسرے اجرام سماوی کی روشنی ماند ہوتی ہے۔ غرض جس جہت سے بھی دیکھا جائے جس پہلو سے بھی مشاہدہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والا صفات دوسرے رہنمایانِ عالم سے اس طرح ممتاز وفائق نظر آتی ہے جیسے ایک بلند مینار آس پاس کی تمام عمارتوں سے ممتاز وبالا ہوتا ہے۔ اور آپ کا یہ امتیاز کسی ایک وصف یا کسیِ ایک شعبہ زندگی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور من کل الوجوہ ہے۔ اسی لئے جہاں دوسرے انبیاء مرسلین کی تعریف میں ان کے خاص خاص اوصاف کو چُن لیا جاتا ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی تعریف سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ:-

’’محمدؐ ہست بُرہان محمدؐ‘‘
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ

(مطبوعہ الفضل ٦ نومبر ١٩٣٢)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2021