’’بنیادی مسائل کے جوابات‘‘
قسط نمبر 9
سوال:۔خلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت کے بارہ میں مجلس افتاء کی سفارشات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسئلہ کے فقہی پہلو کی بابت اپنے مکتوب مؤرخہ 21 نومبر 2017ء میں درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:۔
جواب:۔ جہاں تک اس معاملہ کا فقہی پہلو ہے تو میرے نزدیک بھی طلاق اور خلع کی عدت مختلف ہے۔ اس بارہ میں مجلس افتاء کی رپورٹ میں بیان دلائل کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئیے کہ جس طرح طلاق اور خلع کی تفصیلات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے احکامات میں بھی فرق ہے۔ طلاق کا حق اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے اور جب مرد اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی طلاق کی عدت کا عرصہ شروع ہو جاتا ہے، جبکہ خلع عورت کا حق ہے جو وہ قضاء کی معرفت استعمال کرتی ہے اور جب تک قضاء کا فیصلہ نہ ہو جائے اس کی عدت کا عرصہ شروع نہیں ہوتا اور قضاء کی کارروائی جس میں عورت کی طرف سے درخواست دینا، حکمین کی کارروائی، فریقین کی سماعت اور فیصلہ وغیرہ وہ امور ہیں جن پرعموماً دو تین ماہ لگ جاتے ہیں۔پس خلع کی عدت کے کم رکھنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خلع کے بعد عورت کو صرف اسی قدر پابند کیا گیا ہے جس سے اس کا حمل سے خالی ہونا ثابت ہو جائے۔
بعد ازاں حضور انوراید ہ اللہ تعالیٰ نے مجلس افتاء کی رپورٹ سے متعلقہ مذکورہ بالا جواب کے علاوہ طلاق اور خلع کی عدت کے فرق پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے نیز بیوہ کی عدت کے بارہ میں فرمایا:۔
طلاق کی عدت کے بارہ میں تفصیلی احکامات تو قرآن کریم میں مذکور ہیں کہ عام حالات میں عدت تین حیض ہو گی۔ جیسا کہ فرمایا وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ (البقرہ:229) یعنی مطلّقہ عورتوں کو تین حیض کی مدت تک اپنے آپ کو روکے رکھنا ہوگا۔ اور جن خواتین کو حیض نہیں آتا ان کے بارہ میں فرمایا وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍوَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ (سورۃالطلاق:5) کہ تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح ان کی بھی جن کو حیض نہیں آرہا۔ اور جو عورتیں حاملہ ہیں ان کی عدت کے متعلق فرمایا وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورۃ الطلاق:5) یعنی جن عورتوں کو حمل ہو ان کی عدت وضع حمل تک ہے۔
جبکہ خلع کی عدت کی نص احادیث نبویﷺ پر مبنی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے خلع لیا تو نبی کریم ﷺ نے انہیں ایک حیض عدّت گزارنے کا حکم دیا۔
(سنن ترمذی کتاب الطلاق باماجاء فی الخلع)
پس قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ کی مذکورہ بالا نصوص سے بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ طلاق اور خلع کی الگ الگ عدت ہے اور اس کی حکمتیں اور وجوہات بھی ہیں جو اوپر بیان کر دی گئی ہیں۔
جہاں تک بیوہ کی عدت کا تعلق ہے تو اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (البقرہ:235) یعنی اور تم میں سے جن (لوگوں) کی روح قبض کر لی جاتی ہے اور وہ (اپنے پیچھے) بیویاں چھوڑ جاتے ہیں (چاہئیے کہ) وہ (بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینے (اور) دس (دن) تک روک رکھیں پھر جب وہ اپنا مقرر وقت پورا کر لیں وہ اپنے متعلق مناسب طور پر جو کچھ (بھی) کریں اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔
بیوہ کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت کے بارہ میں صحابہ کے زمانہ سے ہی اختلاف چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ بعض صحابہ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورۃ الطلاق:5) کی روشنی میں یہ رائے رکھتے تھے کہ بیوہ کے حاملہ ہونے کے صورت میں اس کی عدت بھی وضع حمل ہی ہے خواہ وضع حمل خاوند کی وفات سے اگلے لمحہ میں ہو جائے جس کیلئے وہ حضرت سبیعہ اسلمیؓ والے واقعہ سے دلیل لیتے ہیں۔ (جس میں آتا ہے کہ حضرت سبیعہ اسلمیؓ حضرت سعد بن خولہؓ کے نکاح میں تھیں جو حجۃ الوداع کے موقعہ پر فوت ہو گئے جبکہ سبیعہؓ حاملہ تھیں۔ تھوڑے دنوں بعد ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ جب وہ اپنے نفاس کے بعد اچھی ہو گئیں تو انہوں نے شادی کا پیغام بھیجنے والوں کیلئے زیب و زینت کی۔ قبیلہ عبدالدار کے ایک شخص ابو سنابل بن بعکک ؓنے ان سے کہا کہ کیا تم نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کیلئے زیب و زینت کر کے بیٹھ گئی ہو اور نکاح کی امید کر رہی ہو؟ بخدا تم ہر گز نکاح نہیں کر سکتی جب تک کہ تم پر چار ماہ اور دس دن نہ گزر جائیں۔ حضرت سبیعہ ؓ کہتی ہیں کہ اس پر میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ ؐ سے اس بارہ میں پوچھا تو آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ جب بچہ پیدا ہو گیا تو میں آزاد ہوں اور اگر میں مناسب سمجھوں تو نکاح کر لوں)۔جبکہ بعض دوسرے صحابہ جن میں حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ علیھم شامل ہیں کی رائے میں بیوہ کے حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو لمبی مدت ہو گی وہ بیوہ کی عدت ہے۔
حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل ہونے کے قائلین کے پاس حضرت سبیعہ اسلمی ؓ کے اس واقعہ کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے، قطع نظر اس کے کہ کتب احادیث میں اس واقعہ کے راویوں ،حضرت سبیعہ اسلمیؓ کے خاوند کے نام ، خاوند کے وقت وفات اور طریق وفات (طبعی موت اور قتل) کے بارہ میں نیز حضرت سبیعہ اسلمیؓ کے ہاں بچہ کی ولادت کے عرصہ کے بارہ میں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جن سے اس واقعہ کا ثقہ ہونا محل نظر ٹھہرتا ہے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضور ﷺ اور خلافت راشدہ کے زمانہ میں ہونے والی اسلامی جنگوں میں ہر عمر کے سینکڑوں صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور یقیناً ان میں سے کئی صحابہ ایسے بھی ہوں گے جن کی بیویاں ان کی شہادت کے وقت حاملہ ہوں گی لیکن ایسی کسی بیوہ کے وضع حمل کے فوراً بعد اس کے نکاح کا کوئی ایک بھی واقعہ تاریخ و سیرت کی کتب میں نہ ملنا اس موقف کو مبہم اور مشتبہ ٹھہراتا ہے۔پس اس ایک واقعہ کی بناء پر قرآن کریم میں بیان چار ماہ دس دن کی عدت والے واضح موقف کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
علاوہ ازیں حدیث میں حضور ﷺ نے کسی کی وفات پر سوگ کے بارہ میں عمومی ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں سوائے بیوہ کو کہ وہ اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا)
اس حدیث میں بھی حضور ﷺ نےحاملہ عورت کیلئے کوئی استثناء نہیں فرمایا کہ وہ وضع حمل تک سوگ کرے گی۔
اسی طرح قرآن کریم میں جہاں وضع حمل کے ساتھ عدت ختم کرنے کا ارشاد ہے وہاں صرف طلاق کی صورت کو بیان کیا گیا ہے، خاوند کی وفات کا وہاں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف آریہ دھرم میں آیت وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ کا جو ترجمہ بیان فرمایا ہے اس میں اس آیت کا طلاق کے ساتھ حصر کر کے ہماری راہنمائی فرما دی کہ قرآن کریم کا یہ حکم طلاق والی عورتوں کیلئے ہے بیوہ کیلئے نہیں ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
(الجزو نمبر28)
یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع حمل تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں۔ اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ بھی ٹھہر جائے تو اس صورت میں نسب ضائع ہو گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں۔
(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد10 صفحہ21)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی درس القرآن میں سورۃ الطلاق کی اس آیت کی تفسیر میں وضع حمل کی عدت کو تین ماہ کی عدت (جو کہ طلاق کی صورت میں مقرر ہے نہ کہ بیوگی کی صورت میں) گزارنے والی عورتوں کے ضمن میں بیان فرمایا ہے نہ کہ چار ماہ دس دن کی عدت گزارنے والی بیوہ عورتوں کے متعلق اس حکم کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضورؓ فرماتے ہیں:۔
اور وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں (۱) بوڑھی ہوں(۲) جن کو حیض نہ آتا ہو یعنی سن بلوغت تک نہ پہنچی ہوں (۳) وہ جو کہ بیمار ہوں یعنی استحاضہ والی۔ان کیلئے تین ماہ کی عدت ہے اور حمل والیوں کی عدت ان کے ایام حمل ہی ہیں۔جب بچہ جن چکیں تو عدت ختم ہو گئی۔اس پر لوگوں نے بڑی بڑی بحثیں کی ہیں کہ اگر تین ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو کیا عدت ختم ہو جائے گی۔بعض کہتے ہیں کہ کم سے کم تین ماہ ہونگے۔مگر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ ایک عورت کو تین ماہ سے پہلے ہی وضع حمل ہو گیا تھا اور اسے آپ نے دوسری شادی کی اجازت دے دی تھی۔ اس لئے اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوا ہے۔
(اخبار الفضل قادیان دارالامان مؤرخہ 4مئی 1914ء صفحہ14)
پس میرے نزدیک بیوہ ہونے کی صورت میں اگر حمل ہے اور وہ چار مہینے دس دن پورے ہونے کے بعد بھی چل رہا ہے تو وہ اس کی مدت کو پورا کرے گی اور اگر چار مہینے دس دن سے پہلے وضع حمل ہورہا ہے تو تب بھی وہ چار مہینے دس دن کی مدت ہی پوری کرے گی۔ میرا یہ استنباط اس حدیث کی بناء پر ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں سوائے بیوہ کے جو کہ اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن کا سوگ کرے گی۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا)۔
یہ حدیث اس بات کو واضح کردیتی ہے کہ یہاں طلاق والی یا حمل والی شرط لاگو نہیں ہوتی۔ یہاں بیوگی کا جو عرصہ ہے وہ چار مہینے دس دن بیان فرمایا گیا ہے۔ اگر صرف یہ دیکھنا ہوتا کہ اس عرصہ میں حمل ظاہر ہوجائے تو یہاں بھی طلاق والی شرط ہی رکھی جاسکتی تھی لیکن چار مہینے دس دن کی مدت کو معین کرنے سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنے عرصہ میں حمل بھی ظاہر ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ جو افسردگی کا عرصہ ہے وہ بھی گزر جاتا ہے۔ اس لئے طلاق کے لئے تو عدت کا عرصہ وضع حمل یا تین مہینے رکھا ہے لیکن بیوگی کی صورت میں چار مہینے دس دن کی شرط بہر حال پوری ہونی چاہئیے۔ اس لئے میرے نزدیک بیوگی کی صورت میں عدت کا عرصہ چار مہینے دس دن ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ حاملہ ہے کہ نہیں۔ اگر حاملہ ہے اور حمل چار مہینے دس دن سے پہلے وضع ہوجاتا ہے تو تب بھی اس کی عدت چار ماہ دس دن ہی ہوگی جو وہ پوری کرے گی۔ اور یہ آنحضور ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق ہے کہ عورت کیلئے جو سوگ ہے وہ چار مہینے دس دن کا ہے۔ اور یہی قرآن کریم کا بھی حکم ہے۔
سوال:۔ ایک دوست نے آنحضور ﷺ کے ارشاد کہ ’’بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں سزا دو‘‘ کے متعلق حضور کی خدمت اقدس راہنمائی کی درخواست کی۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 02 فروری 2019ء میں درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔
جواب:۔ اسلام کی تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعتدال پر مبنی تعلیم ہے۔ آنحضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی اپنے اندر اسی اعتدال کو سموئے ہوئے ہے کہ عبادت جو کہ ہر انسان کی پیدائش کا اوّلین مقصد ہے، بچپن سے ہی اس پر زور دیا جائے اور بچوں کو اپنے نمونہ کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ تین سال کی مسلسل تلقین اور نصائح کے بعد بھی اگر بچہ اس کی پابندی نہ کرے تو اسے ایک وقت تک مناسب سزا دینے کا حکم ہے۔لیکن یہ سزا ایسی نہیں ہونی چاہئیے جس میں سزا دینے والے کی طرف سے اس بچہ کے ساتھ ایک دشمنی کا رنگ ہو یا انسان یہ تصور کرے کہ اس سزا کے نتیجہ میں وہ ضرور اس بچہ کو نماز کا عادی بنا سکتا ہے۔ بلکہ اس سزا میں بھی یہ امر ہی پیش نظر ہونا چاہئیے کہ تربیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتی ہے، جس کے حصول کا اصل ذریعہ دعا ہی ہے۔ اور جو سزا دینے کی راہ اختیار کی جا رہی ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے رسول کے حکم پر اختیار کی جا رہی ہےتا کہ بچہ اس سے عبرت پکڑ کر نماز کی طرف راغب ہو جائے۔ پھر جب بچہ Mature ہو جائے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ کر اچھے بُرے کی سمجھ اس میں پیدا ہو جائے تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے اس کیلئے صرف دعا اور وعظ و نصیحت کے طریق کو اپنانا چاہئیے۔ ایسی ہی سزا کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’اگر کوئی شخص خود دار اور پنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور برد بار اور با سکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے۔‘‘
سوال:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کینیڈا کے اطفال کی Virtual ملاقات مؤرخہ 15 اگست 2020ء میں ایک طفل نے حضور انور کی خدمت اقدس میں استفسار پیش کیا کہ کیا اسلام کی تعلیم کے مطابق ہم خون اور مرنے کے بعد جسمانی اعضاء Donate کر سکتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔
جواب:۔بالکل کر سکتے ہیں، بلکہ مرنے سے پہلے بھی کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے Kidney Donate کرتے ہیں، بعض اپنے Liver Donate کرتے ہیں۔ لیکن باقی Organs تو ہم مرنے کے بعد Donate کر سکتے ہیں۔ اور یہ اچھی بات ہے۔ جو کوئی کام تم Humanity کو Serve کرنے کیلئے کر رہے ہو تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ اور یہ بڑی اچھی بات ہے۔
سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک طفل نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کی کہ ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ کیسے تعلق پیدا کر سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔
جواب:۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ تم میری عبادت کرو۔ مجھے ایک سمجھو۔ میری باتیں مانو۔ میرے نبی جو تمہارے پاس تعلیم لے کے آتے ہیں، اس پہ عمل کرو تو تم میرے قریب آ جاؤ گے۔ تم نے یہاں دنیا میں کسی سے دوستی لگانی ہو تو تم دوست کی بات مانتے ہو ناں؟ اس کی بات مانتے ہو تو تبھی وہ تمہارے ساتھ دوستی کرتا ہے ناں؟ اگر تم اور وہ دونوں دوست ہو اور تمہارا دوست تمہاری بات نہ مانے اور تم اس کی بات نہ مانو تو پھر دوستی نہیں ناں رہے گی؟ بس اللہ تعالیٰ بھی یہی کہتا ہے کہ میرے سے دوستی کرو، تم میری بات مانو اور میں پھر تمہاری باتیں مانوں گا۔ اور اس طرح تعلق پیدا ہو جائے گا۔
سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آجکل کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے، حضور کیلئے سفر کرنا کب Safe ہو گا اور حضور کب کینیڈا تشریف لائیں گے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطاء فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:۔
جواب:۔یہ تو میں نہیں جا نتا کہ کرونا وائرس کب ختم ہو گا۔ تم آپ ہی کہتے ہو کہ کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے، سفر نہیں ہو سکتا۔ تو پھر دعا کرو، جب کرونا وائرس ختم ہو جائے گا تو پھر کینیڈا کا سفر بھی ہو جائے گا۔ یہ تو تمہاری دعاؤں پہ Depend کرتا ہے کہ کتنی جلدی تم اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے فضل مانگو گے تو جلدی یہ بیماری دور ہو جائے گی۔ پھر تمہارے ملک کی طرح کئی اور ملک بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ آئیں، پر نہیں جا سکتے۔ اب پتہ نہیں کینیڈا کی باری کب آتی ہے؟ چلو جب کرونا وائرس ختم ہو جائے گا ، سفر کی اجازت ہو جائے گی، میں نہ آیا تو تم آ جانا، یہاں آ کے مل لینا۔ ٹھیک ہے۔ ویسے تو تمہاری مسجد وغیرہ دیکھ کے اس وقت مجھے لگ رہا ہے کہ میں کینیڈا میں ہی بیٹھا ہوا ہوں۔ جس طرح ہواؤں کے ذریعہ ہم نے کینیڈا کا نظارہ کر لیا ہے، اس وقت ہم ساری چیزوں کا نظارہ کر رہے ہیں، تو یہی سارے نظارے اس پہلے والے طفل نے جو معراج کے متعلق سوال کیا تھا تو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بغیر سیٹلائیٹ کے آنحضرت ﷺ کو جنت کا ڈیسٹینٹ ویو دکھا دیا تھا ۔جس طرح میں تمہاری مسجد دیکھ رہا ہوں اور مجھے یاد آ گیا کہ فلاں جگہ بیٹھ کے میں نے تمہارے ایک جرنلسٹ کو انٹرویو بھی دیا تھا۔مسجد کے پچھلے حصہ میں وہ کونہ بھی مجھے نظر آ رہا ہے کہ کس جگہ تھا ۔ تو اسی طرح نظارے دیکھ کے پتہ لگ جاتا ہے۔بہر حال اللہ تعالیٰ فضل کرے، جب بھی کرونا وائرس ختم ہو گا تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ آئیں گے۔ جتنی زور سے تم لوگ دعائیں کرو گے اتنی جلد اللہ فضل کرے گا۔
(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)