• 28 جولائی, 2025

احمدیہ چوک قادیان

ایک مجلس میں دوران گفتگو احمدیہ چوک کا ذکر آیا تو ایسے لگا کہ اس موضوع کا حق ادا نہیں ہؤا ۔ اس بات کو آگے چلانے سے پہلے بعض اور ضروری باتوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔

خدا تعالیٰ کا اس خاکسار پر خاص فضل و احسان اور جلوہ رحمانیت اس طور پر ہؤا کہ ایسے والدین کے ہاں پیدائش ہوئی جو دونوں پیدائشی احمدی اور مسیح موعود ؑ کے صحابہ کی اولاد تھے ۔والدین مسابقت بالخیر کے جذبہ سے سرشار تھے اور ہمیشہ اس جستجو میں رہتے تھے کہ اور کونسی نیکی بجا لانے کی سعادت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح وہ اپنی اولاد کے لئے قابل رشک نمونہ تھے اور ان کی اولاد کے لئے اس وجہ سے بہتری اور بھلائی کے حصول کے مواقع بافراط مل سکتے تھے۔

بچپن میں متعدد رفقاء حضرت مسیح موعود ؑ کی زیارت کے مواقع حاصل ہوتے تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓ کی زیارت کی بکثرت سعادت ملتی تھی۔ بچپن میں بہت سادہ، نیک اور مخلص اساتذہ سے استفادہ کی نعمت بھی حاصل رہی۔ ان فضلوں میں ایک بہت ہی نمایاں فضل یہ تھا کہ بچپن کا اکثر حصہ مسجد مبارک کے سائے میں بلکہ الدار کے ایک حصہ میں گزارنے کی سعادت ملی۔

اب ’’احمدیہ چوک‘‘ کا کچھ ذکر ہو جائے۔ قادیان کی پرانی آبادی میں دو بازار تھے۔ ایک بڑا بازار کہلاتا تھا ،دوسرا احمدیہ بازار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ بڑے بازار میں بالعموم غیر مسلموں کی دکانیں تھیں۔ حکیم ملاوامل صاحب کی دکان اسی بازار میں تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر اپنی کئی کتب میں فرمایا ہے۔ وہ خدائی نصرت کے کئی نشانات کے گواہ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنی شادی کے سلسلے میں دہلی تشریف لے گئے تو یہ صاحب بھی ہمراہ تھے یا یوں کہہ لیجئے کہ بارات میں شامل تھے۔

ذکر بڑے بازار کا تھا ۔یہ بازار مسجد اقصیٰ تک پہنچ کر چھوٹی چھوٹی گلیوں میں تقسیم ہو جاتا تھا ۔ایک گلی یا تنگ بازار پر انے اڈے کی طرف جاتا تھا۔ ایک گلی مسجد اقصیٰ کے عقب میں پرانی آبادی کی طرف چلی جاتی تھی۔ ایک گلی مسجد اقصی کے ساتھ ساتھ سے نکلتی ہوئی احمدیہ بازار کی طرف چلی جاتی تھی۔ اسی رستہ پر وہ بڑی عمارت تھی جو مسجد اقصیٰ سے متصل کسی ہندو کی تھی۔ وہ ہندو مسجد اقصیٰ میں احمدیوں کی عام آمدو رفت اور کبھی ان کی چھت کو استعمال کرنے کی وجہ سے اکثر ناراض رہتے تھے۔ مگر خدا کا کرنا یہ ہؤا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشاد کے مطابق یہ عمارت احمدیوں کے قبضہ میں آ گئی اور اپنے بچپن میں ہم نے اس میں احمدیہ دفاتر دیکھے تھے۔ (غالباََ اب یہ عمارت مسجد اقصیٰ میں شامل ہو چکی ہے)۔

مسجد اقصیٰ کے ساتھ ساتھ نکلنے والی اس گلی میں آگے چل کر ’’الدار‘‘ شروع ہو جاتا تھا اور مسجد مبارک آجاتی تھی۔ مسجد مبارک سے ایک بازار یا سڑک نکلتی تھی جو احمدیہ بازار کہلاتی تھی۔ اس جگہ کو جہاں احمدیہ بازار اور مسجد اقصیٰ سے آنے والی گلی ختم ہوتی تھی، ’’احمدیہ چوک‘‘

کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مسجد مبارک سے متصل گول کمرہ تھا جو ’’الدار‘‘ کا ہی حصہ تھا اسکے ساتھ ساتھ آگے ’’الدار‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش گاہ تھی۔

مسجد مبارک کے ساتھ ہی ایک اور عمارت تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان رشتے داروں کی ملکیت تھی جو حضور ؑ کی پیشگوئی کے مطابق لا ولد اور منقطع النسل ہو گئے ۔اس عمارت میں بھی سلسلہ کے دفاتر ہوتے تھے۔ مسجد اقصیٰ سے آنے والی گلی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھی ۔ ایک حصہ اس عمارت کی طرف آنے کا راستہ تھا اور دوسرا مسجد مبارک کے نیچے سے ہوتا ہؤا احمدیہ چوک میں ختم ہوتا تھا۔

پرانی عمارت یا مسجد مبارک کے مغرب کی طرف تھوڑی سی کشادہ جگہ یا بڑا صحن تھا جس میں ایک کنواں بھی تھا۔ اس جگہ مرزا گل محمد صاحب حضورؑ کے رشتہ داروں کی نسل میں سے بچنے والے واحد انسان تھے جو احمدیت سے تعلق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری پیشگوئی کا نشانہ بننے سے بچ گئے تھے۔ اس احاطہ سے احمدیہ چوک کی طرف جانے والے راستہ پر ’’گلشن احمد‘‘ لکھا ہؤا تھا جو اس بات کی یاد دہانی کرواتا تھا کہ اس جگہ کے مالک حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کے نشان کے طور پرختم ہو گئے اور خدائی تائید و نصرت کی برکت سے گلشن احمد ہی سدا بہار ہے۔مسجد اقصیٰ کی طرف سے آنے والی تنگ گلی جو بعض جگہ سے چھتی ہوئی تھی احمدیہ چوک میں ختم ہونے سے چند قدم پہلے مسجد مبارک میں جانے کے لئے تنگ سی سیڑھیوں کے پاس سے گزرتی تھی ۔ ہم نے حضرت مصلح موعودؓ کو مسجد اقصیٰ جاتے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے ان سیڑھیوں کو ہی استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ احمدیہ چوک میں پہنچنے کی جلدی میں کئی نشانات اور قابل ذکر عمارتوں اور باتوں کا ذکر رہتا جا رہا ہے تاہم یہ ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’’مقدمہ دیوار‘‘ نشان ان سیڑھیوں کے قریب ظاہر ہؤا تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے مخالف رشتہ داروں نے احمدیوں کو تنگ کرنے کے لئے یہاں دیوار بنا دی تھی تاکہ ’’الدار‘‘ اور مسجد کی طرف جانے والے احمدیو ں کو لمبا چکر کاٹ کر آ نا پڑے۔ حضورؑ کی دعا سے یہ دیوار بنانے والوں کو گرانی پڑی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس نشان کے ظاہر ہونے اور احمدیوں کی مشکل آسان ہونے پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ مسجد مبارک سے چند قدم پر ’’احمدیہ چوک‘‘ تھا۔

’’احمدیہ چوک‘‘ کی ایک مرکزی جگہ پر خاکسار کے محترم والد صاحب کی دکان تھی۔ اس دکان سے حاصل ہونے والی بے شمار برکات کا یہاں ذکر کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اس چوک کے ناقابل فراموش نظارے میرے بچپن کی انتہائی خوشگوار یادیں ہیں۔ اس جگہ سے خاکسار نے بے شمار مواقع پر دیکھا کہ مسجد کے ساتھ ایک قطار بن رہی ہے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ حضرت مصلح موعود ؓکہیں تشریف لے جا رہے ہیں۔ اس قطار میں کبھی دس بیس آدمی ہوتے اور کبھی سو پچاس کیونکہ اس کا پہلے سے کوئی اعلان نہیں ہوتا تھا۔ ہم اس قطار کو دیکھتے ہی بچپن کی شوخی میں شروع میں جا کر کھڑے ہوجاتے اور حضورؓ سے شرف مصافحہ حاصل کرتے بلکہ اکثر یہ بھی ہوتا کہ چند آدمیوں کے بعد پھر نمودار ہو کر مصافحہ کا شرف حاصل کرتے اور پھر اپنے ہم عمروں کو خوشی خوشی بتاتے کہ آج تو اتنی دفعہ مصافحہ کیا ہے۔

احمدیہ چوک ایسی جگہ تھی کہ جہاں مسجد اقصیٰ سے آنے والے، مسجد مبارک سے آنے والے، بہشتی مقبرہ سے آنے والے، مدرسہ احمدیہ سے آنے والے، لنگر خانہ سے آنے والے ضرور ہی گزرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خاکسار نے اس جگہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب، حضرت میر محمد اسحٰق صاحب اور دوسرے کئی صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم اور بزرگوں کو دیکھا۔ آسمان احمدیت کے ان درخشندہ ستاروں کی زیارت آج بھی خوشی اور مسرت سے دل کو لبریز کر د یتی ہے۔

جلسہ سالانہ کے دنوں میں تو اس جگہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جلسہ کے بعد جلسہ اس چوک میں آ گیا ہے۔ احمدیوں کی باہم ملاقات کی یہ بہترین جگہ تھی۔ السلام علیکم کی گونج رہتی تھی اور پھر یہ بھی کہ ’’بھائی جان ہم دس سال کے بعد پھر یہاں ہی مل رہے ہیں‘‘۔ ’’اچھا ہو گیا آپ سے ملنے کی خوشی حاصل ہوئی‘‘۔ ’’آپ یہاں کیسے۔ آپ تو ہماری مخالفت کرتے تھے اور ہمیں بھی قادیان آنے سے منع کیا کرتے تھے‘‘۔ ’’احمدیت کی صداقت ہم پر ظاہر ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب مخالف نہیں بلکہ احمدی ہیں اور الحمدللہ آپ سے یہاں مل رہے ہیں‘‘

اس چوک میں بعض بزرگ اپنے تبلیغی تجربات سنا کر لوگوں کو محظوظ کر رہے ہوتے۔ ایسے ایک بزرگ محمد یوسف صاحب پشاوری تھے (یہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نہیں ہیں) جو بخوشی بتایا کرتے تھے کہ کوئی بھی مخالف ہو میں اسے پانچ منٹ میں خاموش کر سکتا ہوں اور وہ ایسی بہت سی مثالیں بیان کیا کرتے تھے۔

ایک اور درویش صفت بزرگ (غالباََ ان کا نام علی محمد پردیسی تھا) کندھے سے کپڑے کی ایک جھولی سی لٹکائے پنجابی زبان کے اشعار سنا رہے ہوتے لوگ بخوشی ان سے چھوٹی چھوٹی کتابیں (جو ان کی جھولی میں ہوتی تھیں) ایک آنے دو آنے قیمت پر لے رہے ہوتے تھے ۔مجھے یہ بزرگ اس لئے بھی یاد رہ گئے ہیں کہ وہ میرے نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب کے اشعار بھی سنایا کرتے تھے۔ تجارتی لحاظ سے تو شاید یہ کوئی منافع بخش سلسلہ نہیںتھا مگر تبلیغی لحاظ سے بہت ہی مفید سمجھا جاتا تھا۔

جلسے کے دنوں میں یہ چوک بلکہ آگے جا کر ایک طرف سے مدرسہ احمدیہ تک اور دوسری طرف سے دارالانوار جانے والے رستہ تک نمازیوں کی صفیں بن جاتی تھیں۔ خدا کے ان برگزیدہ بندوں کی دعائیں اس کے فضلوں کے حصول کا ذریعہ بن کر دنیا بھر کے عظیم الشان جلسہ ہائے سالانہ کے لئے بطور بیج بن گئیں۔ ؎

وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار

(عبد الباسط شاہد۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2021