بس گیا دل میں جو اک ماہ جبیں کا ماحول
اب ہمیں راس نہیں آتا کہیں کا ماحول
لوگ بے چارے ہیں ابہام کی دلدل کے اسیر
ہمیں اللہ نے بخشا ہے یقیں کا ماحول
ہو جہاں حُسن و ضیا صدق و صفا کا پیکر
بولنے لگتا ہے اُس پردہ نشیں کا ماحول
کوئی سرگرم محافل نہ روابط باقی
کھا لیا ٹی وی نے سب شامِ حسیں کا ماحول
دل کے ہاتھوں ہوئے مجبور تو ضد ٹوٹے گی
پھر تو اقرار میں بدلے گا ‘‘نہیں’’ کا ماحول
درو دیوار سے آتی ہے وفا کی خوشبو
یوں مکانوں کو بدلتا ہے مکیں کا ماحول
ابر رحمت میں تموج سا ہؤا ہے پیدا
آسماں گیر ہوا جب بھی زمیں کا ماحول
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)