• 6 مئی, 2024

دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے خود کو بدلیں

میں اپنے پیاروں کی نسبت
ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی
میں واحد کا ہوں دل دادہ
اور واحد میرا پیارا ہے
گر تُو بھی واحد بن جائے
تو میری آنکھ کا تارا ہے
تُو ایک ہو ساری دنیا میں
کوئی ساجھی اور شریک نہ ہو
تُو سب دنیا کو دے لیکن
خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ ہو


(اخبار الفضل جلد 17، 10؍ جولائی 1930ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس نظم میں وہ سارے تصورات اور توقعات بیان ہوئے ہیں جس پر حضور خدام کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان ساری توقعات کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ تم اُس خدا کے بندے بنو جو واحد ہے اور اگر تم معاشرے میں واحد بن جاؤ تو میری آ نکھوں کا تارا بن جاؤ گے۔ احمدیت ہمیں معاشرے میں واحد بنانا چاہتی ہے جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی جو بے مثال ہے اور اسی کردار کی ہم سے توقع کی جاتی ہے۔

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کا اگر ہم تفصیل سے جائزہ لیں تو یہ بات ہر لمحہ نمایاں نظر آتی ہے کہ عظیم انسان اور عظیم شخصیت اور ہستی یعنی ایسا مقام رکھتے ہوئے بھی کہ فخر کائنات ہیں، وجہِ تخلیق کائنات ہیں۔ اپنے نفس کو بنی نوع انسان کی ہمدردی، بھلائی اور اس کی خدمت میں یکسر مارا ہوا تھا اور کھپایا ہوا تھا۔ کبھی اپنے نفس کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ تمہارے منصب کے لحاظ سے یہ بات درست بنتی ہے یا نہیں۔ مشہور واقعہ ہے اِس میں اصل نصیحت مقصود ہے۔ آپ ؐ نے ایک معمر خاتون کی گٹھڑی اُٹھا کرکئی منزل تک یا کئی میل کی مسافت تک بظاہر ایک مزدور بنے ہوئے مدد فر مائی۔ پس آج کے نوجوانوں کو اپنے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہونی چاہئے۔ ایک احمدی نوجوان کی تعلیمی ترقی کے ساتھ ہاتھ سے کام کرنے یعنی وقار عمل کی اہمیت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے۔ اس غرض سے مجلس خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں وقار عمل کا ایک باقاعدہ شعبہ قائم ہے اور اس سے اصل مقصد یہ ہے کہ ایک خادم ہوتے ہوئے جس خدمت کے لئے بھی بلایا جائے اور وقت کا تقاضا ہو۔ ایک خادم کو اس میں شرم یا عار محسوس نہ ہو اور وہ کام کرنے کے لئے کھلے ذہن سے اور دلی بشاشت سے تیار ہو۔ اس سے جماعتی اور معاشرتی کا موں میں بہتری آئے گی، بعض بھلائی اور نیکی کے کاموں کی توفیق ملے گی۔ خاص طور پر خدام کو کوئی عملی شکل تیار کرنی چاہئے کہ ہر خادم کو جو کام سونپا جائے تو اس میں اپنی پوزیشن کو روک نہ بنائے۔ ہمارے ہاں ہر طرف انارکی ہے۔ لا قانونیت ہے اور انسانی جان کی کوئی قدرو قیمت باقی نہیں رہی۔ ایسے ماحول میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں پر ایک غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ ذمہ داری یہ ہے جو میں تدریجاً آپ سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات ایک احمدی خادم کے ذہن میں یہ ہمیشہ راسخ رہنی چاہئے کہ اُس میں اور دوسروں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اس فرق کے تصور کو اپنے ذہن میں رکھیں۔ ایک احمدی اور ایک وہ شخص جو احمدی نہیں۔ ان دونوں میں بنیادی طور پہ فرق ہے اور احمدیت اور مجلس خدام الاحمدیہ کا نظام یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس فرق کو ملحوظ رکھا جائے اور کوئی لمحہ زندگی میں ایسا نہیں آنا چاہئے۔ جب یہ فرق پامال ہو اور یہ فرق آ ئندہ انسان کے کردار کی حفاظت کے دروازے کھولے گا۔ اگر ہم ایسے معاشرے میں جذب ہو جائیں، جس معاشرے میں قانون کی پابندی کا تصور کوئی نہیں بزرگ کے احترام کا تصور کوئی نہیں، ماں باپ کی خدمت اور خیر خواہی کا تصور کوئی نہیں اور اپنی اغراض نفسانی کے حصول کے لئے جائز ناجائز کا کوئی حجاب اور حدود نہیں، اُس معاشرے میں اگر ایک احمدی نوجوان جا کر جذب ہو جائے اور غیروں کے ساتھ اس کا امتیاز قائم نہ رہے تو وہ احمدیت کا نمائندہ نہیں کہلا سکتا۔ وہ مجلس خدا م الاحمدیہ کا نمائندہ نہیں کہلا سکتا۔ تو بنیادی بات جو آپ کے ذہن میں ڈالنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس احساس کو اپنے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے مستحکم کریں کہ آپ جس ماحول میں کالج میں ہوں، اسکول میں ہوں، دفتر میں ہوں، بازار میں ہوں، ملازمت کر رہے ہوں کسی محنت اور مشقت کا مرحلہ ہو کوئی مزدوری کا کام ہو جہاں بھی ہوں دوسروں سے ممتاز نظر آئیں۔ آپ خدا کے فضل سے احمدی ہیں میری حرکات عام نہیں ہوں گی۔ میں وہ ناجائز بات اپنی زبان پہ نہیں لا سکتا جو میرا غیر لا رہا ہے۔ میں اس قسم کے اطوار نہیں اپنا سکتا جو میرے غیر اپنا رہے ہیں اور یہ احساس اگر آپ اپنے ذہن میں پختہ رکھیں گے تو لمحہ لمحہ آپ کا نفس ایک محاسب کا کردار آپ کے لئے ادا کرے گا اور کسی خارجی نصیحت کی آپ کو ضرورت نہیں رہے گی۔ آپ کا ضمیر آپ کی رہنمائی کر رہا ہوگا کہ خیال رکھو! تم احمدی ہو۔ تم خدام الاحمدیہ کی مجلس کے رکن ہو۔ تم سے جماعت نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور اگر غیر کا اور تمہارا امتیاز قائم نہ رہا تو اس کی زَد اور اس کا حرف جماعت احمدیہ کی نیک شہرت پر پڑے گا۔ ایک مثال پیش کرتا ہوں جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔ میَں اس وقت منڈی بہاؤالدین میں بطور مربی کام کر رہا تھا اور قریب ہی چند میل کے فاصلے پر انجنیرنگ کالج ہے۔ جہاں سے لوگ تربیت پا کر اوور سیئر اور مختلف ڈگریاں لے کر باہر نکلتے ہیں۔ اس کالج میں مجھے یہ اطلاع ملی کہ طلباء نے سٹرائک کی ہے۔ مجھے فکر ہؤا کہ وہاں ہمارے بہت سے احمدی طالب علم مقیم ہیں۔ خدا نہ کرے کہ وہ سٹرائک میں شامل ہوئے ہوں۔ میں پرنسپل صاحب کے دفتر میں گیا اور ان سے جاکے میں نے پوچھا کہ مجھے احمدی طلباء کے بارے میں بتائیں کہ اُنہوں نے اس میں حصہ تو نہیں لیا ؟ پرنسپل صاحب نے اپنے سٹاف کو بھی بلایا اور بُلا کے ان کے سامنے مجھے فر مایا کہ یہ اسا تذہ جو ڈیوٹی پر حاضر ہیں صرف احمدی طلباء کو تعلیم دینے کے لئے بُلائے گئے ہیں۔ باقی سارے طالب علم ہڑتال پر ہیں۔ صرف احمدی طلباء نے انتظامیہ کو باضابطہ اطلاع دی تھی کہ ہماری جماعت کی تربیت یہ ہے کہ اس قسم کی ہڑتالوں میں ہر گز حصّہ نہیں لینا۔ تو ہم کالج آئیں گے لیکن جب ہم کالج میں آئیں تو ہمارا اسٹاف موجود ہو تاکہ ہمارا دن ضائع نہ جائے۔ تو آج یہ سارا اسٹاف صرف احمدی طلباء کو تعلیم دینے کے لئے ڈیوٹی پر موجود ہیں۔ پرنسپل صاحب نے اور اسٹاف ممبر ز نے میرے سامنے نہایت خوشنودی کا اظہار کیا کہ ہم جماعت کو داد دینا چاہتے ہیں جس نے نوجوانوں کا یہ ذہن بنایا ہے۔ تو ایک احمدی طالب علم ہونے کے اعتبار سے یا ایک احمدی خادم ہونے کے اعتبار سے یا احمدی جماعت کارکن ہونے کے اعتبار سے دنیا کے کسی بھی میدان میں بھی یہ نمایاں فرق اور امتیاز قائم رہنا چاہئے کہ آپ خدا کے فضل سے احمدی ہیں اور ایک احمدی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ جذبات اور حالات کی رو میں بہنے والا ہو۔

ماحول کی ادنیٰ ادنیٰ باتوں کے اثرات انسا ن پہ راسخ ہوتے رہتے ہیں۔ معاشرے کے اچھے یا بُرے کسی نہ کسی رنگ میں اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔ اپنے معاشرے میں انسان اپنے دامن کو سو فیصد پاک رکھنے میں کامیابی مشکل ہوتی ہے نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ چھینٹے پڑتے ہیں۔ سٹرک سے گزرتے ہوئے کوئی گندے پانی میں پتھر مارے گا تو چھینٹے پڑیں گے۔ اس لئے ا س کے تدارک کا انتظام ہونا چاہئے۔ کوئی بُری بات، بُری خبر، بُری مجلس، بُرے رفیق غلط باتوں کا اثر ڈالتے ہیں۔ اُس کا تدارک فوری طور پر اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح اگر کسی پر گندے چھینٹے پڑیں تو فوری طور پر کپڑوں کی دھلائی کا انتظام کرتے ہیں۔ کپڑے تبدیل کرتے ہیں اور اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ کو بحال کرتے ہیں۔ تو خراب باتوں کے جو اثرات قدرتی طور پر ذہن اور کردار پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ کے فوری ازالے کا انتظام ہونا چاہئے اور وہ تبھی ممکن ہے کہ آپ اپنی تنظیم کے جاندار فعال ممبر ہوں۔ یہ صرف ان پندرہ دن کے لئے نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی آپ مقیم ہیں وہاں ہماری تنظیم موجود ہے۔ خدام الاحمدیہ کا نظام موجود ہے۔ جماعت کا نظام موجود ہے۔ مر بیان موجود ہیں، جہاں کوئی غلط بات پہنچتی ہے اور غلط اثر ہو رہا ہے تو اُس کا فوری تدارک چاہئے۔ جس طرح بیماری کا احساس کر کے ایک انسان فوری طور پر معالج یا ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اسی طرح فوری ہمیں اپنے نظام سے رجوع کرنا چاہئے کہ یہ بات غلط مجھ تک پہنچی ہے۔ بُرے ماحول میں مجھ سے یہ توقع کی گئی ہے۔ مجھے کیا کردار اختیار کرنا چاہئے اور کس طرح ان گندے اثرات کو اپنے آپ سے دور کرنا چاہئے۔ تو جماعت کا نظام خبر گیری کے لئے، رہنمائی کے لئے، بہتری کے لئے کام کر رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی اپنی بیماری کی فکر نہیں کرتا اور بُرے اثرات کو اپنے دل میں سموئے پھرتا ہے تو پھر وہ اس مریض کی طرح ہے جو بیماری کو پال رہا ہے اور معالج کی طرف رُخ نہیں کرتا۔ ضرورت یہ ہے کہ ذہن میں یہ ماٹو موجود رہنا چاہئے کہ میں خدا کے فضل سے احمدی ہوں۔ ایک تنظیم سے وابستہ ہوں۔ میرا باقی دنیا سے ایک بنیادی فرق ہے اور اس فرق کو کسی قیمت پر میں پامال نہیں ہونے دوں گا۔ طلباء کے کئی مسائل ہیں ہڑتالیں ہوتی ہیں، کبھی اساتذہ کے خلاف محاذ آرائی ہو تی ہے، کبھی کلاس میں اُستاد آ جا ئے تو طالب علم باغی بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کہ ہم آپ سے سبق نہیں لینا چاہتے۔ ایک احمدی طالب علم کو اس قسم کے ہنگامے میں کبھی شریک نہیں ہونا چاہئے فوراً علیحدہ ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ آپ کی مخالفت ہوگی لیکن جو مخالفت آپ احمدیت کے تقاضوں کی حفاظت کے لئے قبول کریں گے اُس میں اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فر مائے گا۔ کیونکہ آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی زندگی میں احمدیت پر حرف آئے اور احمدیت کی شہرت داغدار ہو۔ لیکن اس کے لئے قربانی تو دینی پڑتی ہے۔ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان ؓ جب قائد اعظم کے جنازے کے موقع پر تنہا ایک جانب بیٹھے ہیں۔ جنازے میں شرکت کرنے والوں کا مجمع لاکھوں میں تھا۔ آپؓ کا ایک اصولی اختلاف تھا یہ قائد اعظم کی ذات کے ساتھ نہیں تھا ایک اصول تھا جس کی پاسداری مقصود تھی وہ شخص تنہا اس لاکھوں کے مجمع کے سامنے بیٹھ گیا ہے کوئی مداہنت نہیں تھی کوئی خوف نہیں تھا۔ پبلک کی خوشنودی کا ادنیٰ سا شائبہ بھی آپ کے ذہن میں موجود نہیں تھا۔ محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک قدم اُٹھایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اُس لاکھوں کے مجمع کے سامنے ایک فرد کی حفاظت فر مائی جب انسان خدا کو ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندے کو ساری دنیا پہ ترجیح دے دیتا ہے۔ ہم بھی ایسے افراد بنیں جن کو سارے معاشرے کے مقابل پر خدا تعالیٰ ترجیح دے کے اپنی گود میں بٹھا لے۔ بس اس امتیاز کو قائم رکھنا ضروری ہے جو احمدیت نے قائم کیا ہے غیر معاشرے کے ساتھ وہ مجروح نہ ہونے پائے اس فرق کی حفاظت آپ کو خدا کی طرف سے سونپی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں دن رات لوٹ مار، قانون شکنی اور ہر قسم کی افراتفری ہو اُس معاشرے میں ہر وقت ایک انسان کو خدا کی حفاظت در کار ہے۔ اُس کے بغیر کوئی پناہ گاہ انسان کے لئے اب باقی نہیں رہی اور روز مرہ کے واقعات جوہم اخبارا ت میں دیکھتے اور سنتے ہیں ٹی وی پہ آتے ہیں۔ ریڈیو پہ آتے ہیں۔ لوگوں کی زبانی مشہور ہو رہے ہیں۔ ساری دنیا میں ایک کہرام مچا ہوا ہے اور یہ سارے کا سارا خدا تعالیٰ سے دوری کا نتیجہ ہے۔ انسان نے خدا کو بھلا دیا ہے اور خدا تعالیٰ نے ایسے انسان کو یکسر اپنی نگاہوں سے گرا دیا ہے اور جو خدا کی نگاہ سے گر جائے اُس کے لئے دنیا میں کوئی پناہ گاہ باقی نہیں رہتی۔ ایسے معاشرے میں ایک احمدی کو خدا کے ساتھ اپنے پیوند کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے مختلف طریقے ہیں۔ کچھ مثبت ہیں کچھ منفی، کچھ کرو، کچھ نہ کرو۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ؓ نے ایک کتاب تحریر فر مائی تھی۔ اُس کا نام ہی یہ تھا ‘‘کر۔ نہ کر’’۔ کہ یہ وہ کام ہیں جو تمہیں کرنے چا ہئیں۔ یہ وہ کام ہیں جو تمہیں نہیں کرنے چاہئیں۔ سب سے ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا سیکھیں۔ جو قومیں اپنے اوقات کو برباد کرتی ہیں۔ وہ نتیجہً زوال پذیر ہو جاتی ہیں اور آج کے معاشرے میں انسان کا وقت تمام تر بلا مبالغہ، منا ہیات میں لغویات میں۔ خدا سے دور لے جانے والے امور میں ضائع ہورہا ہے۔ آپ اپنے وقت کی حفاظت کریں کہ میَں احمدی ہوں اور میرا وقت بڑا قیمتی ہے۔ میَں لوگوں کی دیکھا دیکھی ایسی مجالس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ جن کا نتیجہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہ ہو۔ سیّد نا حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰة والسلام کو خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا:

انت الشیخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ69)

یہ خدا کی طرف سے وہ بزرگ مسیح بنا کے کھڑا کیا گیا ہے۔ جس کا وقت ہر گز ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ با مقصد وقت وہ ہوتا ہے جب زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کی خاطر اور دین کی خدمت میں خرچ ہو۔ نہ اپنے آرام کی پرواہ ہے نہ اہل و عیال کی فکر ہے نہ اور نفس کے تقاضوں کی پرواہ ہے۔ ایک غرض ہے کہ دین کی خدمت کس طرح ہو اور اُس محنت اور کوشش اور لگن کا نتیجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة علیہ السلام کے ہاتھ سے جو کتب تحریر ہوئیں وہ کم و پیش ملفوظات، اشتہارات اور دوسری چیزیں شامل کر کے سو کے قریب تعداد پہنچ جاتی ہے۔ ہم ان کتب کا کم از کم ایک دفعہ مطالعہ کر لیں۔ کتب لکھنے میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے یا پڑھنے میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ حضور ہی کی نصیحت ہے کہ جو شخص میری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ مطالعہ نہیں کرتا اُس کے ایمان میں مجھے شُبہ ہے۔ کمزوری ہے فکر کرنی چاہئے کہ ان کتب سے بے نیاز رہنا ہمیں تکبر میں مبتلا نہ کردے کہ خدا کا مسیح آیا اتنے روحانی خزائن ہمارے لئے جمع کر کے گیا اور ہم مطالعہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم اپنے وقت کا صحیح استعمال سیکھیں۔ ہر گز وقت ضائع نہ کریں۔

ایسی مجالس کے قریب نہ جائیں جہاں محض گپیں ہوں اور وقت کا ضیاع ہو۔ زندگی کا مقصد ذکر الٰہی ہے۔ اس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔ ہرلمحہ زبان سے یا دل سے سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ کہہ سکتے ہیں کوئی روک نہیں۔ درود شریف پڑھ سکتے ہیں کوئی روک نہیں۔ چلتے پھرتے آپ پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی قدغن نہیں تو اگر آپ اپنے اوقات کا جائزہ لیں گے۔ چوبیس گھنٹے میں کتنا وقت آپ ذکر الٰہی میں صرف کرتے ہیں تو بہت کم وقت صرف ہو رہا ہے حا لانکہ بڑی سہولت کے ساتھ بہت زیادہ وقت اس غرض سے صرف کیا جا سکتا ہے۔ گھر سے کالج جا رہے ہیں، اسکول جا رہے ہیں، رستے میں دعا پڑھتے جائیں، درود شریف پڑھتے جائیں۔ کلاس میں بیٹھیں جب تک استاد کلاس نہیں لیتا بجائے دوستوں سے گپ شپ کرنے کے ضروری بات ہو تو کریں ممانعت نہیں ہے۔ لیکن ذکر الٰہی کر سکتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ اگر آپ اپنے وقت کا صحیح استعمال کریں تو صحیح استعمال میں سر فہرست یہی بات ہے کہ آپ کی عادت بن جانی چاہئے کہ ایک ایک لمحہ آپ کا ذکر الٰہی میں صَرف ہو اور اُس کے لئے چونکہ کوئی مقرر ہ اوقات نہیں اس لئے ہر وقت اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بستر پر لیٹے ہیں اُس وقت بھی ذکر الٰہی کر سکتے ہیں۔ بازار جا رہے ہیں تو رستے میں کر سکتے ہیں۔ بازار میں سودا سلف خرید رہے ہیں اس دوران بھی ذکر الٰہی جاری رہ سکتا ہے۔ تو غرض یہ ہے کہ اگر آپ اپنا یہ شیوہ بنا لیں۔ خدا تعالیٰ سے ایک لگن اور تعلق پیدا کر لیں کہ ہر وقت آپ کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو تو اُس کے بہت سے فائدے ہیں جو آگے میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اگر خدا یاد ہوگا تو غیر کا خانہ آپ کے ذہن سے خارج ہو جائے گا۔ سچے مؤحد وہی بنتے ہیں جو غیر اللہ سے کلیتہً اپنے ذہن کو آزاد اور پاک کر لیں اور جب تک آپ یہ نہیں کرتے غیر سے چٹکارا نہیں مل سکتا اور وہ غیر کئی روپوں میں اور کئی بھیسوں میں آپ کا وقت بر باد کرنے کے لئے آتا ہے۔ کبھی ایک دوست کے ساتھ، کبھی ایک خیر خواہ بن کر کبھی کلاس فیلو کے روپ میں، کبھی محلے داری کے تعلق میں۔ کبھی رشتے داری کے تعلق میں۔ کبھی مختلف پروگرام سامنے آ جاتے ہیں۔ ایک انسان بھول جاتا ہے کہ مجھے خدا کی یاد میں وقت صَرف کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ لغویات میں میرا وقت ضائع ہو۔ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں۔ پھر ہمیں اندازہ ہوگا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایک لمحہ بھی ذکر الٰہی سے خالی نہیں تھا اور اسی لگن کو اپنا کر صوفیاء نے ایک محاورہ بنایا “ جو دم غافل سو دم کافر” جس لمحہ آپ خدا کے ذکر سے اور توجہ سے خالی ہو جاتے ہیں۔ خدا کی گود سے باہر جا پڑتے ہیں۔ غیر کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں اور اس انداز سے اگر آپ ذکر الٰہی اپنا شیوہ بنائیں گے اور اپنے وقت کا صحیح استعمال کریں گے تو بہت سی بد عادتوں سے اللہ تعالیٰ آپ کو بچا لے گا۔

غلط حرکتوں سے اللہ تعالیٰ آپ کو بچا لے گا اور جس کا اُ ٹھنا بیٹھنا ہر وقت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ خدا کے سامنے خود ہو۔ خدا اس کے سامنے ہو وہ غیر کے ساتھ حرکت کرنے کا موقع ہی نہیں پاتا اور اس کا سب سے زیادہ تجربہ عملی طور پر کرانے کا موقع ہی نہیں پاتا اور اس کا سب سے زیادہ عملی طور پر کرانے کے لئے شریعت نے پانچ بار نمازیں فر ض کی ہیں۔ حکم اس میں یہ ہے کہ خدا کے دربار میں آؤ اور غیر اللہ کو باہر پھینک کے آؤ یہ جگہ صرف خدا کے لئے ہے اور اگر وہاں تم تجربے میں کامیاب ہو جاؤ کہ چوبیس گھنٹے میں سے ایک گھنٹہ زیادہ سے زیادہ صرف ہوتا ہے تو یو میہ چوبیسواں حصّہ آپ ذکر الٰہی میں صرف کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ غیر کو پیچھے چھوڑ دیں اور ایک ایک لمحہ آپ یہاں کھپائیں اور صَرف کریں کہ آپ نے یا اللہ کو یاد کرنا ہے یا تعلیم حاصل کرنی ہے

اس ذکر ِ الٰہی سے انسان کو جو سب سے بڑی طاقت ملتی ہے۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔ دلوں کی اطمینان کی دولت نصیب ہو گی اور یہ وہ دولت ہے جس سے آج کا انسان کلیةً محروم اور بے نصیب ہے۔ گزشتہ ہفتے عشرے کے اندر اندر چار پانچ صحافی حضرات کے وفود مجھ سے ملے گفتگو ہوئی اور ہر وفد نے واپس جاتے ہوئے سو فیصد ی حتمیّت کے ساتھ یہ تبصرہ کیا کہ جناب باہر کی دنیا میں تو ایک بے اطمینانی ہے اور معاشرے میں کہیں امن اور سکون کے نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہاں جو آکے ہم نے وقت گزارا ہے۔ لمحہ لمحہ اطمینان کی دولت ملی اور یہ ربوہ کو اللہ تعالیٰ نے ذکر الٰہی کے طفیل یہ نعمت عطا کی ہوئی ہے۔ جو باہر دنیا کو نصیب نہیں۔ قرآن شریف ارشاد فر ماتا ہے کہ دلوں کے اطمینان کی دولت سے بڑھ کر اور کوئی دولت نہیں۔ جو لوگ دنیا کے پیچھے پاگلوں کی طرح مرتے ہیں اور بظاہر دنیا کے کچھ اسباب جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کی اندرونی اور باطنی حالت یہ ہوتی ہے کہ رات کو جب تک وہ مُٹھی بھر گولیاں نہ کھا لیں ان کو نیند نہیں آتی لیکن ایک احمدی خدا تعالیٰ سے تعلق کی بناء پر جو میٹھی نیند خدا تعالیٰ کی طرف سے رات کو اُسے نصیب ہوتی ہے اور جو اطمینان کے ساتھ وہ اپنے دن گزارتا اور زندگی کے لمحات گزارتا ہے وہ غیر اُس کا تجربہ نہیں رکھتا اور ایک احمدی نوجوان کو اگر کوئی ہوس ہو سکتی ہے اگر کوئی خواہش اُسے مجبور کر سکتی ہے تو اس کے بر عکس ایک اطمینان کی اُسے تلاش ہے اور وہ اطمینان انسان کو ذکر الٰہی میں نصیب ہوتا ہے۔ اس لئے میں آپ سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ زندگی بھر اپنا معمول بنا لیں کہ میں نے ذکر الٰہی کے لحاظ سے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا اور جو لمحہ بھی مل جائے۔ سُبحان اللّٰہ، الحمْدُ للّٰہ، اللّٰہ اکبر، اللّٰھُمَّ صلّ علٰی مُحّمدٍ۔ کوئی نہ کوئی ذکر کرنا ہے اور جب یہ ذکر کریں گے تو یہ عملی طور پہ ایک ثبوت اس بات کا ہوگا کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی خلا نہیں۔ شاعر نے اپنے محبوب کا تصور باندھا ہے کہ

دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

مگر اس سے زیادہ تصویر یہ ہے کہ ہمارا خدا ہمارے دل کے اندر بستا ہے اور میرا کوئی لمحہ اس خدا کے ذکر سے خالی نہیں۔ سوائے ان مقررہ اوقات کے جب دنیا کے فرائض مجھے مجبور کرتے ہیں۔ مگر دنیا کے دھندے بھی اگر خدا کی خاطر کر رہے ہیں تو وہ بھی ذکر الٰہی شمار ہوگا۔ یہ حدیث کا اور شریعت کا مسئلہ ہے۔ اس لئے جہاں بھی ہوں۔ جس حالت میں بھی ہوں خدا کے ذکر سے اور خدا کی رضا سے خالی نہیں ہوں گے۔ لمحہ لمحہ خدا کاذکر شمار ہوگا۔ یہ کئے بغیر آج کی دنیا میں انسان کی پناہ اور حفاظت کی کوئی صورت باقی نہیں۔ کسی صوفی کے بارے میں مشہور واقعہ ہے۔ کہ صوفی بننے سے پیشتر ایک نامی گرامی چور تھے۔ چوری کے لئے اپنی ٹیم بنائی ہوئی تھی۔ عملاً چوری وہی کرتے ٹیم ادھر اُدھر نگرانی اور حفاظت کرتی۔ جب مال چرا کے لے آتے آپس میں بیٹھ کے برابر تقسیم کرلیتے۔ ایک دن خیال آیا کہ عملاً چوری کا خطرہ تو میں سر پہ لیتا ہوں اور یہ جو گلیوں میں ادھر اُدھر کھڑے ہوتے ہیں۔ مجھ سے حصہ لے جاتے ہیں۔ کیوں نہ ایسا منصوبہ بناؤں کہ چوری کا سارا مال میرے گھر میں رہے۔ اس نے اپنے بچے کو تیار کیا کہ جب کسی گھر میں دیوار پھلانگ کے اندر چلا جاؤں تو بچہ باہر گلی کے موڑ پر پہرہ دے کوئی آدمی آرہا ہو تو ہلکی سی آواز دے دے۔ تو اپنے بچے کو تیار کیا اور جب مطمئن ہو گیا کہ اب یہ اپنا فرض صحیح طور پہ ادا کر سکے گا چوری کے لئے ایک رات باپ بیٹا نکل پڑے جب باپ دیوار پھلانگ کے اندر چلا گیا۔ تو چند لمحوں کے اندر اندر بچے نے آواز دینی شروع کر دی کہ ابّا ابّا جلدی آ جائیں ہمیں کوئی دیکھ رہا ہے۔ باپ گھبرایا ہوا باہر واپس آگیا۔ وہاں سے بھاگے دور جا کے بچے سے پوچھا کہ کون دیکھ رہا تھا ؟ کس طرح تم نے آواز دے دی، نظر تو کوئی نہیں آ رہا۔ تو بچے کی فطرت پاک تھی۔ بڑی سادگی اور معصومیت سے کہا کہ ابّا ہمارا خدا ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ فقرہ معصوم بچے کی زبان سے سُن کر اس چور کے دل پر ایسی چوٹ پڑی کہ وہیں تائب ہوا اور اس کے بعد پھر ذکر الٰہی اور خدا کی عبادت، اطاعت اور خدا کی مخلوق کی خدمت میں اتنا کام کیا کہ وہ ا یک معروف صوفی ٹھہرا۔ اب یہ جو تصور ہے کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ تمام برائیوں کے مقابل پر ایک دیوار ہے۔ اگر ہم یہ دیوار قائم نہیں کرتے تو لمحہ لمحہ شیطان کے جال میں پھنس سکتے ہیں۔ اس وقت معاشرے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ خدا کا تصور اور اس کی موجودگی کی شرم انسان کے ذہن سے مفقود ہو گئی ہے اور وہ صرف یہ سوچتا ہے کہ پولیس نہیں دیکھ رہی، پڑوسی نہیں دیکھ رہے۔ محلے والے نہیں دیکھ رہے۔ کوئی اور شخص نہیں دیکھ رہا جو گھناؤنا جرم کررہا ہوں۔ کسی انسان کی نگاہ اس پر نہیں پڑ رہی۔ اس لئے بے باک ہو کر جرم کرتے ہیں۔ اگر یہ تصور ذہنوں میں آ جائے کہ خدا کی بھی شرم ہونی چاہئے انسان کو خدا کا بھی خوف ہونا چاہئے یہ تصور ہر جگہ انسان کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ پھر وہ جرم نہیں کرتا۔ تو پانچ دفعہ نماز میں بھی یہ تصور دیا گیا ہے کہ خدا کی موجودگی کا احساس اپنے ذہنوں میں راسخ کرو۔ لیکن ہماری بعض اوقات کوتاہی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ نماز کے لئے مسجد میں چلے جاتے ہیں نماز کی انتظار میں وقت صرف کرنا ہوتا ہے۔ ذکر الٰہی نہیں کرتے نوافل نہیں پڑھتے۔ سنتیں توجہ سے نہیں ادا کرتے۔ اپنے دوستوں سے مسجد میں بیٹھ کے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ خدا کے گھر گئے ہوئے ہیں اور خدا کے سامنے پہنچے ہوئے ہیں مگر ابھی چونکہ وہ تصور ذہنوں میں راسخ نہیں اس لئے خدا کی موجودگی کا تصور ذہنوں میں راسخ نہیں۔ دوستوں کی موجودگی کا تصور غالب رہتا ہے۔ اس لئے مسجد میں پہنچ کے بھی بعض لوگ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ بعض یہاں تک کمزوری دکھاتے ہیں کہ نماز شروع بھی ہو جائے تو وہ رکوع میں امام کے جانے تک اپنی باتوں میں مصروف رہتے ہیں کہ جب رکوع میں جائیں گے تو بھاگ کے پکڑ لیں گے۔ تو یہ خدا کے گھر کا تصور درست نہیں ہے۔ عبادت کی حقیقت ہی یہی ہے جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مائی ہے کہ ان تعبد اللّٰه كأنك تراه۔ عبادت وہ عبادت ہے کہ جس میں تو اپنی آنکھوں کے سامنے خدا کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ لیکن اگر یہ تصور ابھی راسخ نہیں تو کم از کم اتنا معیار ضرور رہنا چاہئے کہ میں خدا کو نہیں دیکھ رہا تو کم از کم خدا تو مجھے دیکھ رہا ہے۔ مجھے کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے۔ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے جس کے نتیجہ میں میرا خدا جو مجھے دیکھ رہا ہے وہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ بے ادبی نہ ٹھہرے اُس کے دربار میں آ کر میری یہ گستاخی متصّور نہ ہو۔ خدا کے تصور کو راسخ کئے بغیر ایک انسان کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور خدا کی موجودگی کا تصور ذہن میں قائم کئے بغیر ہم شیطان سے نجات نہیں پا سکتے۔ تمام بیماریوں کا علاج اور واحد علاج یہ ہے۔ کہ ہمیں خدا کی موجودگی کا ہر وقت احساس ہو اور یہ احساس راسخ ہوتا ہے تجربہ ہوتا ہے یومیہ تجربہ ہوتا ہے اور سبق دہرایا جاتا ہے۔ پانچ مرتبہ کی نماز باجماعت میں اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا مسجدیں محض خدا کے گھر ہیں۔ کسی غیر کے نام پر وہ نہیں بنائے گئے۔ کوئی غیر وہاں خدا کو برداشت نہیں۔ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ۔ صرف خدا کی خاطر ہیں یہ مسجدیں۔ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا اس لئے اپنی بات کا مخاطب خدا کے سوا غیر کو نہ ٹھہراؤ۔ خدا کے گھر میں خدا سے بات کرنی ہے غیر سے نہیں۔ یہ اگر اپنی عادت بنا لیں گے تو خدا کے گھر سے باہر نکل کر بھی خدا ساتھ ساتھ ہوگا اور خدا کی موجودگی کا احساس ذہن پہ حاوی رہے گا۔ جب یہ کیفیت ہو گی تو وہ ا طمینان کی دولت۔ خدا کی حفاظت کی دولت اور یقین انسان کو نصیب ہوتا ہے۔ معاشرے کے زیادہ تر انسان خدا سے دور ہٹ چکے ہیں اور خدا کی موجودگی کے تصور سے خالی الذہن ہو چکے ہیں۔ اس لئے جو جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں اور کر گزرتے ہیں۔ لیکن اس کا توڑ اور اس کا علاج صرف یہ ہے کہ ایک احمدی کے ذہن پر ہر وقت خدا کی موجودگی کا احساس ہو۔ تو اپنے وقت کی قدر کریں۔ اُس قدر میں ذکر الٰہی میں اپنا وقت صرف کریں۔ ذکر الٰہی تبھی انسان کا کامیاب اور مفید اور موٴثر اور عملاً ہو سکتا ہے۔ کہ خدا کی موجودگی کا احساس ہو۔

اس احساس سے ہم معاشرے کی کھلی کھلی برائیوں سے دامن بچا سکیں گے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ کیونکہ بہت سے لوگ یہ بُرا کام کر رہے تھے اس لئے میں نے بھی کر لیا۔ خدائے واحد کی طرح منفرد بننے کے لئے تمام بُرائیوں کے رستے روکیں۔ کبھی دیکھا دیکھی اپنے آپ کو ماحول میں جذب نہ ہونے دیں۔ کبھی رَو میں نہ بہیں۔ اپنے آپ کو ماحول میں جذب نہ ہونے دیں۔ اس وقت معاشرے میں کہیں خیر کا نام نہیں۔ کہیں انسانی قدر کا نام نہیں اور عزت کا نام موجود نہیں رہا۔ ساری چیزیں مفقود ہو گئی ہیں۔ اسلام کے نام پر قتل وغارت کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اسلام تو امن کی تعلیم دیتا ہے حضرت رسول کرین کو رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ بنا کے بھیجا گیا ہے۔ خدا کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم نے تو ہاتھ میں کلاشنکوف نہیں پکڑی۔ وہ تو عاجزی کی راہوں پر قدم مارنے والا وجود تھا۔ وہ تو انسانوں کے غموں کو اپنے دل میں جگہ دینے والا انسان تھا۔ وہ تو ساری دنیا کی مصیبتوں کو اپنے سر لے کے خدا کی بارگاہ میں گرنے والا تھا۔ وہ تو طائف کے مجرموں کو معاف کرنے والا تھا۔ وہ تو مکّہ کی فتح کے موقع پہ تمام کفار اور مشرکین کو معاف کرنے والا وجود تھا۔ وہ عرش کا خدا جس نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت بنا کے دنیا میں بھیجا تھا وہ دنیا کو کلا شنکوفوں کے حوالے ہر گز نہیں ہونے دیگا۔ یہ خود اپنے غلط کاموں کے نتیجہ کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے صدقے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے صدقے اس دنیا کی نجات کے سامان کرے گا۔ وہ صرف جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہوگا۔ اس لئے میں آپ عزیزوں سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ساری دنیا کی نجات کا ذریعہ بننا ہے۔ یہ معمولی کام نہیں۔ یہ معمولی خدمت نہیں۔ بہت بڑا فریضہ ہے۔ اس کی خاطر ہر طرح سے آپ کو تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس ساری تیاری کا لب لباب اور نچوڑ اس بات میں ہے۔ کہ اسوۂ رسول ؐ کو زندہ کریں۔ آپؐ کی ناموس اور غیرت کی خاطر اپنے اوقات اور اپنے اموال اور اپنی صلاحیتیں نچھاور کرنے والے ہوں اور اس غرض سے اللہ تعالیٰ نے صرف آپ کو چُنا ہے۔ دنیا کی قسمت کا فیصلہ عنقریب ہونے والا ہے۔ زیادہ دیر نہیں یہ بات چلے گی۔ یا انسان کلیتہً اس کائنات سے محو ہو جائے گا یا احمدیت کی آغوش میں پناہ لے گا۔ ساری دنیا کو پناہ کو عوت دینے کے لئے خدا کے ہوجائیں۔ ایک ہی جماعت ہے روئے زمین پہ جس کو جماعت کہا جا سکتا ہے۔ جو ایک امام کے تابع ہے، جو ایک امام کی آواز پہ اپنی زندگی اور سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ کوئی جماعت میدان میں تیار نہیں۔ اس لئے ہمارا اوّل تو کسی سے مقابلہ نہیں۔ مفرد، واحد بے مثال جماعت احمدیہ ہے۔ ہمارے امام ساری دنیا میں ایسے خدام کے منتظر ہیں۔ جو خدا سے تعلق پیدا کر کے دنیا میں انقلاب پیدا کرنے والے ہیں۔ جو خدا کے ہیں اور واقعةً خدا فخر سے کہے کہ سارے معاشرے میں یہی میرے آدمی ہیں۔ یہی میرے بندے ہیں۔ یہی میرے مطیع ہیں۔ اس لئے ان کو ناکام نہ ہونے دینا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر ایک ہزار لاؤ لشکر کے مقابل پر تین سو تیرہ نہتے جوان کھڑے کئے اور پھر اس کے بعد خدا کی بارگاہ میں سجدہ میں گر گئے خیمے میں جا کے اور فریاد اور التجاء یہ تھی کہ میرے مولا تیرہ سال میں نے مکّے میں صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ مدینے میں آکے بھی مخالفت نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ اب یہ تین سو تیرہ نہتے اور عاجز بندے اگر آج دشمن کے ہاتھوں مار دئے گئے۔ ناکام ہو گئے۔ مٹادئے گئے۔ تو پھر قیامت تک اس روئے زمین پہ تیرا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا۔

یہ قدرو قیمت تھی خدا کی نگاہ میں اُن تین سو تیرہ افراد کی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم خدا کی بارگہ میں یہ مناجات پیش کرنے میں حق بجانب ہو ں کہ ہم سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس وابستہ ہے۔ اگر ہم دنیا میں ملیا میٹ کر دئے گئے تو پھر قیامت تک اسلام کا احیاء کاکام کرنے والا دنیا میں کوئی نہیں ہوگا۔ پھرخدا کے فضل سے کسی میدان میں بھی ہوں گے نمایاں ہوں گے۔ خدا کی حفاظت میں ہوں گے۔ کامیابیاں قدم چومیں گی۔ غیر کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ شرط یہ ہے کہ خدا کے بن جائیں اور خدا والے بن جائیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے بھی اور آپ سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فر مائے۔ آ مین

(تحریر: مولانا سلطان محمود انور مرحوم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ