• 9 مئی, 2025

اہلیہ محترمہ امۃ السلام فردوس مرحومہ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر خیر

ابتدائی تعارف

خاکسار کی اہلیہ محترمہ امۃ السلام فردوس صاحبہ مرحومہ کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1952ءاحمد نگر ضلع چنیوٹ کی ہے۔ آپ مکرم خواجہ لطیف احمد صاحب کی بیٹی اور حضرت خواجہ محمد شریف صاحب صحابی ؓ کی پوتی تھیں۔ حضرت خواجہ محمد حسین صاحب و محترمہ رمضان بی بی صاحبہ ہمشیرہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو تھیں۔

آپ کی شادی یکم جنوری 1970ء کو خاکسار خواجہ محمد افضل بٹ ابن حضرت خواجہ محمد حسین صاحب بٹ مرحوم آف ربوہ سے ہوئی۔ جس وقت شادی ہوئی اس وقت خاکسار فضل عمر ہسپتال ربوہ میں کام کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے اور ذیلی تنظیموں کے لئے لمبی خدمات ہیں۔ خاکسار کی ابتدائی سروس کا آغاز دفتر صدر۔ صدر انجمن احمدیہ سے ہوا۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ صدر، صدر انجمن احمدیہ تھے۔ آپؒ 8؍نومبر 1965ء میں منصب خلافت پر متمکن ہوئے تو بھی خاکسار کو قصر خلافت میں حضورؒکے زیر سایہ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ الحمد للّٰہ

حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب چیف میڈیکل آفیسر فضل عمر ہسپتال ربوہ کو فضل عمر ہسپتال میں اکاؤنٹنٹ کی ضرورت تھی تو آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور منظوری سے خاکسار کا تبادلہ فضل عمر ہسپتال میں 1969ء کے آخری مہینوں میں کروا لیا۔

مرحومہ فطرتاً نیک سیرت خاتون تھیں، بڑی حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کی مالک تھیں۔نر م خُو، تکلف سے مبّرا اور نفیس طبع، صوم و صلوٰۃ کی پابند، شب بیدار اور دعا گو تھیں۔ خود میں دینی خدمت کا جذبہ و جوش تھا۔ اور یہی جوش اور ولولہ اپنی اولاد میں پیدا کرنے کی سعی اور کوشش کرتی رہیں، تلاوت قرآن کریم سے عشق تھا، خلافت سے وابستگی قابل رشک تھی۔ جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتیں اور حیثیت سے زیادہ چندہ جات ادا کرتیں۔

لجنہ اماء اللہ کے کاموں میں پیش پیش رہتی تھیں۔ محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ اہلیہ حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب حلقہ کوارٹر صدر انجمن احمدیہ ربوہ جس وقت حلقہ کی لجنہ و ناصرات کا اجلاس بلاتیں تو آپ محترمہ امۃ السلام صاحبہ مرحومہ کو سپیشل پیغام بھجواتیں کہ آپ نے اجلاس میں ضرور شریک ہونا ہے اور نظم پڑھنی ہے۔ بعض دفعہ اجلاسات میں تلاوت قرآن کریم بھی کرتی تھیں اور عموماً نظمیں پڑھا کرتی تھیں۔

محترمہ صدر صاحبہ اور دیگر شاملین اجلاس مستورات آپ کی بہت پیاری آواز اور انداز بیان کی بہت تعریف کرتیں اور داد دیتیں۔

عادات و خصائل و نیک سیرت

خاکسار کی بیگم صاحبہ کی شخصیت میں بہت صفات تھیں۔ آپ بہت سادگی پسند،نیک سیرت تھیں۔ حددرجہ مہمان نواز، اکثر و بیشتر ہمارے گھر کوئی نہ کوئی مہمان آیاہوتا تھا۔ آنے والے مہمانوں میں ہمارے رشتہ داراور غیر احمدی بھی شامل ہیں۔ گھر میں ہر آنے والے مہمان کا نہایت والہانہ استقبال کرتیں اور ان سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے ملتی تھیں اور آپ اپنی حیثیت سے بڑھ کر مہمان کی تواضع کرتیں۔ اگر کھانے کا وقت آ گیا ہے تو کبھی کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتیں۔

میرے رشتہ داروں کا حد سے زیادہ احترام کرتیں۔ اور پُروقار طریقے سے خدمت کرتیں۔ خصوصاً میری والدہ کی وفات کے بعد ان کی دوست یا تعلق دار آتیں تو اُن کی بہت خدمت کرتیں۔ واپسی کے وقت ان کی نقد امداد کرتیں۔ عمر رسیدہ دوستوں کو عید کے موقع پر ان کے گھر تحائف اور نقدی بھجواتی تھیں۔ اس طرح والدہ مرحومہ کی دوستوں کے ساتھ سلوک میں بہترین نمونہ پیش کیا کرتی تھیں۔

رشتے نبھانے کا سلیقہ

آپ کو رشتے نبھانے کا سلیقہ خوب آتا تھا۔ رشتوں کی قدر کرنا اور رشتوں کو اچھے طریقے سے گزارنے کا سلیقہ دوسروں کو سمجھانا اپنا اخلاقی فرض سمجھتی تھیں۔ ہمارے رشتہ دار اور پرائے ہمارے گھر کو کوئی ’’سرائے محبت‘‘ کہتا اور کوئی ’’دارالضیافت‘‘ سے پکارتے تھے۔ چنانچہ میں نے باہر دروازہ پر ’’ آشیانہ محبت‘‘ لکھوا دیا تھا۔ یہ سب مرحومہ کے اعلیٰ اخلاق اور دوسروں سے محبت کا اعلیٰ نمونہ تھا۔

جب آپ کی گھر میں تلاش ہوتی تو سب سے پہلے کچن چیک کیا کرتے تھے اور اکثر اُنہیں کچن میں ہی پایا۔ ہر وقت کچن میں مصروف ہوتیں۔ جب اُنہیں کہا جاتا کہ کچن کی مصروفیات کم کریں تو کہتیں کہ مصروفیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے۔ اور ہمارے گھر مہمانوں کا آنا ان کی محبت کا اظہار ہے۔ ہمارے گھر آنے والے ہر ایک کو خوش دلی اور خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہتیں اور فرماتیں کہ مہمان جو آتا ہے وہ اپنے ساتھ اپنی قسمت لے کر آتا ہے اور واپسی کے وقت برکت چھوڑ کر جاتا ہے۔

ہمسایوں سے حسن سلوک اور بچوں سے پیار

ہمسایوں سے حسن سلوک اعلیٰ قسم کا تھا۔ اڑوس پڑوس میں ہر خوشی کے موقع پر بچوں کو تحائف بھجواتیں۔ بہت بچے ہمارے گھر میں ’’عید مبارک‘‘ کہنے آتے۔ آپ بچوں سے بہت پیار سے ملتیں اور اُنہیں نقدی دیتیں اور سب بچوں کی مٹھائی سے تواضع کرتیں اور بچوں کو ‘‘ عید مبارک’’کہتیں۔ آپ کے پیار کے نتیجہ میں بہت سے بچے ہمارے گھر آتے اور ہمارے بچوں کے ساتھ کافی دیر تک کھیلتے رہتے۔

بچوں کی تربیت

بچوں کی تربیت کے لئے ہر ممکن کوشش کرتیں۔ خصوصاً پنجوقتہ باجماعت نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتیں۔ اور بچوں کو مسجد بھجواتیں۔ صبح فجر کی نماز کے وقت اُ ٹھانے کی غرض سے عشاء کی نماز کے بعد سلانے کی کوشش کرتیں تا بچے صبح بروقت اٹھ جائیں او رمسجد میں نماز پڑھنے جا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچے پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرتے اور قران مجید کی تلاوت کرتے اور اس کے بعد ناشتہ کر کے سکول چلے جاتےتھے۔ اگر بچے صبح فجر کی نماز پڑھنے کی پابندی کر لیں توبچوں کو سکول بھجوانے میں کوئی دقّت نہیں ہوتی۔

بچے جب نماز عشاء پڑھ کر گھر آتے تو ان کی امّی بچوں کو کہتیں کہ:
بچو! اب سونے کے لئے اپنے اپنے بستروں میں چلے جائیں۔ پھر صبح نماز فجر کے لئے اُٹھنا ہے۔ یوں کہنے سے بچوں کے اندر دین کی طرف رُجحان ہوتا ہے یہ کبھی نہ کہیں کہ اب سو جاؤ۔ صبح سکول جانا ہے۔ اس طرح بچوں کو کہنے کا مقصد دنیا داری کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے۔

اس تربیت کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ماشاء اللّٰہ بچے نماز ی ہیں اور ہر بچہ اور بچی سلسلہ کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔

آپ کے دو بیٹے روچیسٹر جماعت احمدیہ نیو یارک اسٹیٹ میں رہائش پذیر ہیں اور آپ اپنے ان بیٹوں کے پاس رہتی تھیں۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں۔

1۔ عزیزم محمد اکبر سلمان فارماسسٹ ہیں۔ انہوں نے اپنی امّی کا ہر ممکن خیال رکھا۔ خصوصاً علاج معالجہ کے سلسلہ بہت توجہ دی ہے۔

2۔ عزیزم محمد عامر بٹ قائد مجلس خدام الاحمدیہ ہیں۔ اس کے علاوہ روچیسٹر جماعت احمدیہ یو ایس اے میں سیکرٹری امور عامہ، سیکرٹری سمعی و بصری خدمات بجا لا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی والدہ کی بہت خدمت کی۔ بعض دفعہ 24 گھنٹے آپ کے پاس رہ کر ہر طرح ان کا خیال رکھتے رہے ہیں۔

3۔ آپ کی بیٹی روحی افشاں سیکرٹری ناصرات ساؤتھ آل جماعت احمدیہ یو کے ہیں۔ اپنی امّی کی خدمت کے لئے یوکے سے آئی ہوئی تھیں۔ اور اُنہوں نے بھی اپنی امّی کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

4۔ آپ کے ایک بیٹے عزیزم محمد احسن بٹ ہیں جو خدماتِ دینیہ میں مصروف ہیں۔

ربوہ کے شب و روز

ربوہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ہمارے گھر ( کوارٹر صدر انجمن احمدیہ) میں پاکستان سے مختلف شہروں سے مہمان آتے تھے۔ ہم نے اپنے گھر کے دروازے اپنے مہمانوں کے لئے خوش دلی سے کھول رکھے تھے۔ مہمانوں کی متوقع زیادہ آمد کے پیش نظر صحن میں خیمہ لگا دیا جاتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ مہمانوں کو ٹھہرا سکیں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ مہمانوں کی خدمت کا موقع مل سکے۔

مرحومہ کی ذمہ داری

جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی اور انہیں ہر طرح کی سہولت پہنچانا مرحومہ کی ذمہ داری تھی،جو بہت خوشی سے ادا کرتیں اور ہر طرح کا انتظام وہ خود کرتی تھیں۔ خاکسار کی اپنی ڈیوٹی جلسہ سالانہ کے انتظام کے تحت مہمانوں کی خدمت ’’طبی امداد‘‘ پر ہوتی تھی۔ خاکسار کو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی سے فرصت نہیں ہوتی تھی۔

جلسہ شروع ہونے سے قبل انتظام

جلسہ شروع ہونے سے قبل اور مہمانوں کی آمد سے قبل سب کمروں اور برآمدہ میں پرالی بچھا دی جاتی تھی اور پرالی کے اوپر گدّے بچھا کر رضائیاں اور کمبل رکھ دئیے جاتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان مہمانوں میں دو تین بزرگ اور عمر رسیدہ ہوتے تھے۔ جن کے لئے آرام دِہ بستر چارپائیوں پر لگا دئیے جاتے تھے۔

مہمانوں کی تواضع

مہمانوں کے لئے صبح ناشتہ (Break Fast)کا انتظام ہوتا تھا۔ جس میں چائے سے تواضع کی جاتی۔ بلکہ مہمانوں کو جس وقت چائے کی طلب ہوتی مہیّا کر دی جاتی تھی۔ کیونکہ ان دنوں شدید سردی ہوتی تھی اور بعض دفعہ دُھند بھی ہوتی تھی۔

ناشتہ میں کن چیزوں کی ضرورت ہوتی

جلسہ سالانہ شروع ہونے سےقبل ناشتہ کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی تھی خرید کر لی جاتیں تا دوران جلسہ کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

ان میں درج ذیل چیزیں ہوتیں:
چائے ( پتی) کے ڈبے۔ چینی (کافی مقدار میں) رس، کیک رس، انڈے، باقر کھانی وغیرہ۔

گھر کی صفائی ستھرائی

جلسہ سالانہ سے کئی روز قبل سارےگھر میں سفیدی، دروازوں کو رنگ روغن اور دروازوں اور کھڑکیوں کے پردوں کی دھلائی، گویا گھر کو‘‘ غریب دلہن’’ کی طرح سجا دیا جاتا تھا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سب کچھ مرحومہ کی خواہش اور پسند کے مطابق ہوتا تھا۔

بیماری کے بارے کچھ ذکر

ابتداء میں اکثر سردرد رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ سر درد میں شدت آ گئی۔ محترم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب سرجیکل سپیشلسٹ فضل عمر ہسپتال ربوہ کے زیر علاج تھیں۔ جب کوئی افاقہ کے آثار نظر نہ آئے تو محترم میاں صاحب نے نیو رو سرجن لاہور کے پاس معائنہ کے لئے بھیج دیا۔ انہوں نے MRIاور دیگر ٹیسٹ کروائے۔

مکرم نیو روسرجن صاحب لاہور نے ٹیسٹ رپورٹیں دیکھنے کے بعد بتلایا کہ بیگم صاحبہ کے برین ٹیومر (Brain Tumor) ہے اور علاج تجویز کر دیا گیا۔ نیو روسرجن کی تجویز کردہ میڈیسن باقاعدگی سے استعمال کرواتے رہے مگر تکلیف بدستور رہی بلکہ تکلیف میں اضافہ ہی ہوا۔ علاج کے سلسلہ میں خاکسار اپنے بیٹے عزیزم محمد اکبر سلمان فارماسسٹ امریکہ کو آگا ہ کرتا رہا۔ چنانچہ بیٹے نے مناسب سمجھا کہ والدہ صاحبہ کا علاج امریکہ میں کروانا چاہئے اور امریکہ لے جانے کی غرض سے ضروری کارروائی شروع کر دی۔

ایک روز خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اس وقت آپ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ ربوہ تھے۔ آپ سے بیگم صاحبہ کی بیماری کی صورت حال بتلائی اور آپ سے دعا کی درخواست کی اور عرض کیا کہ بیٹا! اپنی امّی کا علاج امریکہ میں کروانا چاہتا ہے۔ ہماری رہنمائی فرمایں۔حضور نےازراہ شفقت خاکسار کی باتوں کو بہت غور سے سنا اور مجھ سے علاج کے سلسلہ میں مختلف معلومات حاصل کیں۔ نیز حضور نے فرمایا کہ آپ کی بیگم صاحبہ پر علاج کے اخراجات صدر انجمن احمدیہ ادا کرے گی اور امریکہ میں تو بہت مہنگا علاج ہے، آپ کا بیٹا اتنا خرچ کیسے کرے گا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ بیٹا پاکستان آ رہا ہے اور میں آپ سے ملاقات کروانا چاہوں گا اور اس بارے بیٹا ہی وضاحت کر دے گا۔ آپ نے بہت شفقت سے فرمایا کہ ہاں جب وہ آئیں تو مجھ سے مل لیں۔ نیز مجھے یہ بھی فرمایا کہ :
’’ آپریشن نہ کروائیں۔ ہومیو پیتھی ادویہ کے لئے حضور ( حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)کو خط لکھیں اور آپریشن بارے حضور سے رہنمائی حاصل کر لیں۔

خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خدمت میں بیماری کا تفصیلی ذکر کر کے ہومیو پیتھی علاج تجویز فرمانے اور دعا اور آپریشن کروانے کے بارہ میں رہنمائی کا خط لکھ دیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی طرف سے دعاؤں سے پُرچٹھی ملی کہ:
’’ اللہ تعالیٰ آپ کی بیگم صاحبہ کو کامل شفاء عطا فرمائے اور میں دعا کروں گا ان شاء اللّٰہ آپ کی بیگم کو آرام آ جائے گا۔ اس بیماری کا ہومیو پیتھی میں بہت اچھا علاج ہے۔ باقاعدگی سے ادویہ دینی شروع کر دیں اور اپنی بیگم صاحبہ کو وقار صاحب کے پاس لے جائیں۔ ‘‘(آپریشن کروانے یانہ کروانے بارے کوئی ذکر نہیں تھا)

خاکسار اپنی بیگم صاحبہ اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دعاؤں سے پُرآمدہ خط لے کر مکرم ڈاکٹر وقار احمد صاحب کے پاس چلا گیا اور ان کی خدمت میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خط پیش کر دیا۔ جب انہوں نے حضور کا ارشاد پڑھا تو بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بیگم صاحبہ کے لئے بہت دعائیں کی ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مریضہ کو مکمل شفاء ہو گی۔ آپ ہومیو پیتھی ادویہ باقاعدگی سے دینی شروع کر دیں۔ مکرم ڈاکٹر وقار احمد صاحب طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال ربوہ نے ادویہ تجویز کر دیں اور طریقہ استعمال سمجھا دیا اور ہم نے حسب ہدایت ادویہ دینی شروع کر دیں۔

امریکہ میں 11/9 کا واقعہ

امریکہ سے بیٹا 10؍ ستمبر 2001ء کو ربوہ پاکستان پہنچا۔ اگلے روزاسلام آباد ‘‘امریکہ ایمبیسی ’’جانے کا پروگرام تھا تاکہ اپنی امّی کے وزٹ ویزہ کے کاغذات جمع کروا سکیں مگر اگلے روز یعنی 11؍ ستمبر 2001ء کو امریکہ میں دہشت گردی(Terrorist Attack) کا واقعہ ہو گیا اور امریکہ کی ایمبیسی بند ہو گئی۔

حضور سے بیٹے کی ملاقات ربوہ میں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے بیٹے محمد اکبر سلمان فارما سسٹ آف امریکہ کی ملاقات ہوئی۔ جو کافی دیر تک جاری رہی۔ جس میں پیارے حضور نے بیٹے سے اپنی امّی کےعلاج پر آنے والے اخراجات کی تفصیل کے بارے پوچھا۔ بیٹے نے حضور کو تفصیل سے بتلایا۔ اس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( اس وقت ناظر اعلیٰ تھے)

’’ آپریشن نہیں کروانا۔ اگر آپریشن کروانا ہوتا تو پاکستان میں بھی کروایا جا سکتا ہے۔ یہاں تو قواعد کے مطابق آپ کی امّی کا علاج اور آپریشن فری ہو جائے گا۔ امریکہ میں تو علاج بہت مہنگا ہے۔’’ نیز فرمایا کہ آپ والدہ صاحبہ کو امریکہ لے جائیں اور معائنہ کروائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ صاحبہ کو کامل صحت عطا فرمائے۔آمین

9/11کی وجہ سے اسلام آباد امریکن ایمبیسی بند ہو چکی تھی۔ ایمبیسی میں کافی بار فون کیا۔ مگر کوئی رابطہ نہ ہوا۔ چند روز بعد بیٹا واپس امریکہ روزانہ ہو گیا۔تا امریکہ سے امیگریشن (Immigration)ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

پدرانہ شفقت

پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ !ً جب آپ ناظر اعلیٰ پاکستان تھے۔ آپ کی پدرانہ شفقت تھی کہ خاکسار کو گاہِ بگاہِ بُلا کر یا اتفاقیہ ملاقات ہو جاتی تو پیارے حضور میری بیگم صاحبہ کی طبیعت کا پوچھتے اور دعا دیتے۔

یقین جانیے! پیارے حضور کا ہمارے ساتھ اتنا پیار اور پیارا انداز تھا کہ ہمارے لئے اس قدر خوشی کا باعث ہوتا کہ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ ہوتی۔ جب خاکسار اپنی بیگم کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ذکر کرتا کہ حضور نے آپ کو بہت دعائیں دی ہیں اور فرمایا ہے کہ ‘‘ آپریشن نہیں کروانا ’’ بیگم مرحومہ یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوتیں اور کہتی کہ مجھے ایسے لگتا ہے کہ میری تکلیف دور ہو گئی ہے۔

امریکہ روانگی

امیگریشن ویزہ ملنے کے بعد ہم امریکہ روانہ ہو گئے تا بیگم صاحبہ کا علاج کروائیں۔ امریکہ پہنچے ایک ماہ کے قریب گزر چکا تو میں نے بیٹے سے کہا کہ اپنی امّی کو نیو رو سرجن کو دکھلائیں۔ بیٹے نے کہا کہ امیگریشن ویزہ پر آنے والوں کو کچھ عرصہ تک علاج ودیگر سہولیات نہیں ہوتیں۔ یہ سن کر مجھ پر سکتّہ طاری ہو گیا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور دعائیں کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ سے میڈیکل سہولت کی خیرات مانگتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کے در کا فقیر بن کر سوالی بنا۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب ڈیڑھ ماہ گزر چکا تھا۔بیگم صاحبہ کی تکلیف کے پیش نظر علاج ضروری تھا۔

ایک رات دل بڑا مطمئن اور پُر سکون تھا۔ اس بناء پر میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ :
’’ کسی روز اس محکمہ میں جا کر معلومات لینی چاہئے کہ ہمیں علاج کی سہولت مل سکتی ہے یا نہیں۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ ہمیں علاج کی سہولت مل جائے گی۔‘‘

بیٹے نے میری رائے سے اتفاق کیا اور اگلے روز اپنی امّی کو اور مجھے اس محکمہ میں لے گئے۔ اور ایک عورت نے ہمارا انٹرویو کیا اور کہا کہ وہ میڈیکل سہولت کے علاوہ دیگر سہولیات بھی دینے کے لئے تیار ہیں۔بیٹے نے مجھ سے کہا کہ:’’ ابو! وہ میڈیکل کے علاوہ بھی سہولیات دینے کے لئے تیار ہیں ‘‘اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ میں نے بیٹے سے کہا کہ ان کا شکریہ ادا کر دیں اور کہہ دیں کہ میں نے اپنے اللہ سے صرف علاج کی سہولت مانگی تھی اور یہی چاہئے۔ جب اس آفیسر خاتون کو بتلایا تو بہت خوش ہوئی اور کہا کہ ‘‘ میں علاج کی سہولت آج سے ہی آپ کو جاری کر دیتی ہوں اور ہمیں Approval Letterدے دیا اور کہا کہ میرا یہ لیٹر(Letter) ڈاکٹر کو دکھلائیں۔ ڈاکٹر ہم دونوں کا معائنہ اور علاج کرے گا اور ایک ہفتہ تک ہمیں مستقل میڈیکل کارڈ (Permanent Medical Card)بھی مل جائے گا۔ الحمدللّٰہ

امریکہ میں 2005ء میں علاج کی ابتداء

بیٹے نے علاج کی سہولت مل جانے کے بعد اپنی امّی کو نیورو سرجن کو دکھلانے کیلئے تاریخ(appointment) بنوائی اور اپنی امّی کو ڈاکٹر نیورو سرجن کے پاس معائنہ کے لئے لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کی امّی کی مکمل ہسٹری لکھی اور سر کی MRI کروائی۔ مکرم ڈاکٹر نیورو سرجن نے MRI دیکھنے کے بعد ہمیں بتلایا کہ برین ٹیومر (Brain Tumor) کافی پھیل چکا ہے۔ کل میڈیکل بورڈ میں MRI رپورٹ زیر بحث ہو گی اور میڈیکل بورڈ فیصلہ کرے گا کہ آپریشن کرنا ہے یا ریڈی ایشن (Radiation) کے ذریعہ علاج کرنا ہے۔ اور ہمیں اگلے روز آنے کا کہا اور وقت بتلا دیا۔

ہم اگلے روز مقررہ وقت پر ہسپتال پہنچ گئے۔ ہمارے ہسپتال پہنچنے پر میڈیکل بورڈ کا اجلاس شروع ہوا۔ اور ہم فیصلہ کا انتظار کر رہے تھے۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ ہمارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کئی بار فرمایا تھا کہ ’’آپریشن نہ کروائیں ‘‘میں نے بیٹے سے کہا کہ نیو رو سرجن ڈاکٹر سے بات کریں کہ ہم نے آپریشن نہیں کروانا۔ آپریشن کے متبادل جو علاج ہو سکتا ہے وہ تجویزکر دیں۔ بیٹے نے مجھے کہا کہ اب میڈیکل بورڈ جو فیصلہ کرے گا اسی پر عمل کرنا پڑے گا۔ ہم کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ چنانچہ میں خاموش ہو گیا اور زیرِ لب دعائیں کرتا رہا کہ

’’اے اللہ! میرے پیارے خلیفۃ المسیح کی ہدایت ہے کہ آپریشن نہیں کروانا اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں اور آج ہمیں معجزہ دکھلا اور پیارے محبوب خلیفہ کی دعا قبول فرماتے ہوئے ڈاکٹروں کے دل میں ڈال دے کہ آپریشن نہ کریں اور آپریشن کے متبادل علاج تجویز کریں۔‘‘

فیصلہ کا انتظار کرتے کافی وقت گزر چکا تھا۔ اور ہم ہی جانتےہیں یہ وقت ہمارے لئے کتنا کرب ناک تھا۔ سخت پریشانی میں فیصلے کا انتظار کر رہے تھے کہ مکرم ڈاکٹر صاحب نیورو سرجن نے ہمیں اندر بلایا اور کہا کہ

’’ میڈیکل بورڈ نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ آپریشن نہیں کیا جائے گا۔ ریڈی ایشن (Radiation) کے ذریعہ علاج کیا جائے گا۔آپریشن کی نسبت ریڈی ایشن بڑا کامیاب علاج ہے۔‘‘الحمد للہ پیارے آقا! حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعائیں قبول ہو رہی تھیں کہ ’’ آپریشن نہ کروائیں ‘‘ پیارے حضور کی معجزانہ دعاؤں کا معجزانہ اثر تھا کہ میڈیکل بورڈ نے مرحومہ کا آپریشن کی بجائے ریڈی ایشن کے ذریعہ علاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ریڈی ایشن (Radiation) کے ذریعہ علاج

محترمہ بیگم صاحبہ مرحومہ کا علاج ریڈی ایشن (Radiation) کے ذریعہ پانچ ماہ تک جاری رہا۔ طبیعت پر اچھے تاثرات تھے۔ اس علاج کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تجویز کردہ ہومیو پیتھی ادویہ باقاعدگی سے جاری رہیں۔ کبھی وفقہ نہیں کیا گیا۔

ریڈی ایشن کے بعد طبیعت بہتر ہونے اور مکرم ڈاکٹر صاحب کی رائے کے مطابق مریضہ سفر کرنے کے قابل ہیں۔تو ہم وطن ( پاکستان) واپس لوٹ آئے۔ جب تک پاکستان رہے محترم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب سے چیک اَپ کروا لیتے تھے۔

جب نئی تکلیف نمو دار ہوئی اور مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب سرجیکل سپیشلسٹ نے فرمایا کہ ہم فوری امریکہ واپس چلے جائیں۔تو ہم فوری قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد بلا تاخیر امریکہ آ گئے۔

نیور و سرجن کا معائنہ

ہم امریکہ پہنچ گئے تو بیٹے نے نیو رو سرجن کی (appointment) بنوائی ہوئی تھی۔ امریکہ پہنچنے کے ایک دو دن بعد ہی نیوروسرجن کے پاس معائنہ کے لئے چلے گئے۔

ڈاکٹر نیو رو سرجن نے ہمیں اُسی وقت بتلا دیا کہ ’’ریڈی ایشن ‘‘کے بعد ریڑھ کی ہڈی کے پانی کی لیکیج (spinal fluid leakage) ہو جاتی ہے۔ آپریشن کر کے لیکیج (leakage)بند کر دی جاتی ہے۔ مکرم نیور و سرجن نے سر کی MRI اور دیگر ٹیسٹ کروائے تا معلوم ہو سکے برین ٹیومر کی کیا پوزیشن ہے؟

معجزانہ دعاؤں کا اثر

محترمہ بیگم صاحبہ مرحومہ کی MRIاور دیگر ٹیسٹ کی رپورٹس چیک کرنے کے بعد مکرم ڈاکٹر نیور و سرجن صاحب نے فرمایا کہ :
’’tumor shrinkage یعنی ٹیومیرشرنک ہو گیا ہے جو کہ زندہ رہنے کے لئے کافی بہتر ثابت ہوا۔‘‘

’’ ہم سے پوچھا کہ : کیا آپ کوئی ادویہ دیتے رہے ہیں؟ کیا کوئی علاج کرواتے رہے ہیں؟

خاکسار نے اپنے بیٹے محمد اکبر سلمان فارما سسٹ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہہ دیں کہ ہاں! ہماری جماعت کے سربراہ کی دعائیں ہیں اور ان کی تجویز کردہ ہومیو پیتھی ادویہ ہیں جو شروع سے باقاعدگی سے دے رہے ہیں۔‘‘ نیورو سرجن نے ہماری بات کو غور سے سنا اور فرمایا کہ ’’ٹیومر شرنک ہو چکا ہے۔ زندگی میں طوالت ہو گی۔ البتہ یاددا شت پر اثر پڑے گا۔‘‘

ناک کے ذریعہ

spinal fluid leakageکا آپریشن

ڈاکٹر نیور و سرجن صاحب اور دیگر عملہ نے ناک کے ذریعہ آپریشن کر کے spinal fluid leakage کو بند کر دیا گیا۔ اسی procedure کے دوران انہوں نے کچھ ٹیومر تھا اس کو بھی نکال دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے برین ٹیومر سے نجات ملی۔

محترمہ امۃ السلام صاحبہ مرحومہ کو دیگر عوارض بھی تھے۔ ان کا علاج باقاعدگی سے ہو رہا تھا۔ بعض دفعہ اچانک طبیعت خراب ہو جاتی تھی۔ گھر میں نرس چیک اَپ کے لئے آتی تھی اور ضرورت پڑنے پر ڈاکٹر سے رابطہ کرتی اور ہدایات لیتی۔ بہر حال علاج بہت بہترین ہوتا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندگی میں آخری سانس تک کھانے، پینے کا نظام ٹھیک رہا ہے۔

مرحومہ کی طبیعت کبھی بالکل ٹھیک ہو جاتی اور کبھی اچانک بگڑ جاتی اور ہم ایمر جنسی کال کرتے۔ ایمبو لینس آ جاتی اور ہسپتال لے جاتے۔ اس طرح کئی بار ہو چکا تھا۔ اس قسم کی ایمر جنسی کے دوران مرحومہ کے بیٹے عزیزم محمد عامر بٹ کی شادی کے دن بھی آ گئے۔

بیٹے عزیزم محمد عامر بٹ کی شادی

موٴرخہ 18؍ جنوری 2014ء عزیزم محمد عامر بٹ کی شادی تھی اور موٴرخہ 19؍ جنوری 2014ء کو دعوت ولیمہ تھا۔ شادی کی رات سے ایک دن قبل ام عامر کی طبیعت خراب ہو گئی اور نیم بے ہوشی اور تشویشناک حالت کی بناء پر ایمرجنسی کال کر کے ایمبولینس منگوائی گئی اور ام عامر کو ہسپتال (ICU) میں داخل کر لیا گیا۔ ادھر مرد و زن دور و نزدیک سے مہمان کرام شادی اور دعوت ولیمہ میں شمولیت کے لئے آنا شروع ہو گئے۔ اب کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ بیٹے کے دوستوں نے جن میں ڈاکٹر بھی تھے تعاون کیا وہ ہسپتال میں امّی کے پاس رہے اور کہا کہ آپ پروگرام جاری رکھیں۔ اور دعوت ولیمہ پر آنے والے مہمانوں کو بے فکر ہو کر خوش آمدید کہیں یہ وقت ہم سب افراد خاندان پر بہت پریشان کن اور بھاری تھا۔ اس دن کافی رات گئے مہمانوں سے فارغ ہونے کے بعد ہسپتال گئے اور دیکھا کہ ان کی امّی ابھی بے ہوش ہیں اور تشویشناک حالت میں ہیں۔ ڈاکٹروں نے بھی نااُمیدی کا اظہار کر دیا تھا۔ ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور تقریباً ایک ہفتہ کے بعد ہوش میں آنے کے آثار نظر آنے شروع ہو گئے اور دن بدن روبصحت ہوتی چلی گئیں۔اور مکمل صحت یاب ہونے کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور ہم گھر آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ بیٹے کی شادی کے موقع پر پُرامن ماحول رہا۔ الحمد للّٰہ

اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے طبیعت کافی بہتر اور کنٹرول میں رہی۔ مرحومہ کو سانس لینے میں بڑی پرابلم تھی۔ کئی سالوں سے گھر میں ہی مسلسل آکسیجن دی جا رہی تھی۔ بعض دفعہ طبیعت بہت اچھی ہوتی۔ بعض دفعہ اچانک طبیعت خراب ہو جاتی تھی اور پھر سنبھل بھی جاتی تھی۔

آپ کی بیٹی روحی افشاں معہ بچگان یو کے سے اپنی امّی کی خدمت کے لئے موٴرخہ 21؍ جولائی 2022ء کو پانچ ہفتہ کے لئے امریکہ آئی تھی اور آپ نے اپنی امّی کی خوب خدمت کی۔ ان کی امّی بھی بیٹی اور نواسے اور نواسی کے آنے سے بہت خوش تھیں اور خوب باتیں کرتی رہیں۔ بیٹی نے بھی اپنی امّی کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، خوب خدمت کی انہیں کھلانا، پلانا، شاور دینا اور ان سے باتیں کرنا اور ان کی دعائیں اور نظمیں سننا معمول بن گیا تھا۔ وفات سے ایک روز قبل یو کے واپسی کے وقت اپنی امّی کو دوپہر کا کھانا کھلایا۔ اور بوقت روانگی اپنی امّی سے معانقہ کیا اور دعا کا کہا تو زیر لب دعا دی۔ جیسے بیٹی کے جانے سے خوشی نہ ہو۔ بیٹی کی ٹورانٹو (کینیڈا) ائیرپورٹ سے واپسی تھی۔ آپ کے دونوں بیٹے اپنی باجی کو جہاز پر سوار کرنے کینیڈا چلے گئے۔ ابھی ائیر پورٹ نہیں پہنچے ہوں گے کہ میں نے ان کی امّی کو دیکھا اور ان سے بات کرنے کی کوشش کی، آوازیں دیں، پھر میں نے حرکت دیکھی تو بے حس جیسے جان ہی نہیں۔ مجھے سخت پریشانی ہوئی۔ چنانچہ میں نے بیٹے کو فون کرکے پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں اور کب تک واپس پہنچ رہے ہیں؟ بیٹے نے جواب دیا کہ کینیڈا کا بارڈر کراس کر کے امریکہ کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔ میں نے ان کو کہا کہ آپ کی امّی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔ آپ جلد گھر پہنچ جائیں۔ 23؍ اگست 22ء رات 12:15ہو چکے تھے جس وقت بچےگھر پہنچے۔ بڑے بیٹے عزیزم محمد اکبر سلمان فارما سسٹ نے دیکھتے ہی ایمر جنسی 911 ایمبو لینس کال کی اور چند منٹوں میں ایمبو لینس پہنچ گئی۔ ایمبو لینس کے ساتھ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر سٹاف بھی تھا۔ چیک کیا اور تشویشناک حالت کے پیش نظر فوری ایمبولینس میں شفٹ کیا۔ ایمبو لینس میں فسٹ ایڈ کی سہولیات ہوتی ہیں وہ انہیں دی گئیں اور ہسپتال لے گئے اور ایمرجنسی داخل کر لیا گیا۔ نیورو سرجن اور دیگر ڈاکٹرز صاحبان نے معائنہ کیا۔ اور سر کی MRI اور دیگر ٹیسٹ کئے گئے۔ ڈاکٹر صاحبان اس نتیجہ پر پہنچے کہ انہیں برین ہیمبرج(Brain Hemorrhage) ہو گیا ہے۔ حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ اس موقع پر بیٹا مجھے بھی ہسپتال لے گیا تھا بیٹے نے تشویشناک حالت کے پیش نظر سورہ یٰسین پڑھنی شروع کر دی اور میں زیر لب صحیح مسلم کتاب الجنائز کی حدیث کے الفاظ دُہرا رہا تھا جس میں حضرت رسول کریم ﷺ نے بوقت وفات ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ :
’’اے اللہ! ابو سلمہؓ ( کی جگہ وفات یا فتہ کا نام لے رہا تھا) کو بخش دے اور اس کے درجے ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اچھے جانشین بنا اور اے رب العالمین ! اسے اور ہمیں بخش دے۔ اس کی قبر کشادہ کر دے۔ اس میں اس کے لئے نور پیدا فرما۔‘‘

آپ نے زندگی کے آخری دو دن کومہ میں گزارے، صرف سانس لینے کی آواز سکوت کو توڑتی اور زندگی کی رمق کا احساس دیتی رہی اور آخر کار اسی خاموشی کی حالت میں ہر طرح کے ہم و غم اور رنج و الم سے مکمل طورپر آزاد ہو گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

وفات

خاکسار کی اہلیہ محترمہ امۃ السلام فردوس صاحبہ آف روچیسٹر جماعت نیویارک اسٹیٹ موٴرخہ 24؍ اگست 2022ء بروز بدھ بوقت پونے دو بجے دوپہر بعمر ستر (70)سال امریکہ میں چشم زون میں اس جہاں فانی سے رحلت فرما کر اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ موصیّہ تھیں، آپ کا وصیت نمبر 30609 اور آپ نے یکم جون 1997ءمیں نظام وصیّت میں شمولیت کی توفیق پائی۔ موصوفہ کی نماز جنازہ امریکہ میں مقامی جماعت روچیسٹر میں موٴرخہ 27؍ اگست 2022ء بروز ہفتہ بعد نماز ظہر ادا کی گئی۔ نماز جنازہ مکرم عدنان بھلی صاحب مربی سلسلہ نے پڑھائی۔ جنازہ میں مقامی احباب کے علاوہ نیویارک سٹی، میری لینڈ، شگاگو، کینیڈا سے لمبی مسافت طے کر کے رشتہ دار، احباب معہ فیملیز کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔

آپ کا جسد خاکی امریکہ سے موٴرخہ 30؍ اگست 2022ء بروز منگل پاکستان روانہ ہوا۔ اور موٴرخہ 2؍ ستمبر 2022ء بروز جمعۃ المبارک صبح آٹھ بجے لاہور ائیر پورٹ پہنچا۔ میّت ربوہ لے جانے کے لئے ربوہ سے ایمبو لینس لاہور ائیرپورٹ پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔

پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی شفقت

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت و محبت موٴرخہ 20؍ ستمبر 2022ء بروز منگل 12 بجے دوپہر اسلام آباد ( ٹلفورڈ ) میں نماز جنازہ غائب پڑھائی اور دعا کروائی۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پر اے دل تو جان فدا کر

مرحومہ بہت نیک سیرت اور صابرہ شاکرہ تھیں۔ کبھی ناشکری کے الفاظ کا اظہار نہیں کیا۔

اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے۔ آپ کے ساتھ خصوصی محبت کا سلوک فرمائے اور آپ کے درجات قرب کو ہر لمحہ و ہر آن بڑھاتا چلا جائے۔ آمین

آخر پر خاکسار ان سب احباب و خواتین جنہوں نے جنازہ میں شرکت فرمائی اور گھر تشریف لا کر ہمارے غم میں شریک ہوئے اور ہماری ڈھارس بندھائی۔ ان سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

(خواجہ محمد افضل بٹ۔ یو ایس اے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ