• 8 مئی, 2024

جمعہ کی تیاری اور استقبال

’’آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے اور ان شاء اللہ دو تین دن تک یہ رمضان کامہینہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی استعداد اور بساط کے مطابق کوشش کی کہ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں اور اس کا پیار، اس کی محبت اور اس کی رضا حاصل کرنے والوں میں شامل ہو سکیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا ابھی دو تین دن باقی ہیں، جو اس رمضان سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا سکے وہ ان بقیہ دنوں میں ہی اگر سچے دل سے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن سکتے ہیں۔ کیونکہ خالص ہو کر اس کی راہ میں گزرا ہوا ایک لمحہ بھی انسان کی کایا پلٹ سکتا ہے اور خداتعالیٰ اپنی طرف آنے والے کو ماں باپ سے بھی زیادہ بڑھ کر پیار کرتا ہے۔ وہ جب اپنے بندے کو اپنے ساتھ چمٹاتا ہے تو وہ بندہ وہ نہیں رہتا جو پہلے تھا۔ اس ایک سچے اور خالص لمحے کی دعا انسان کو برائیوں سے اتنا دور لے جاتی ہے، اس کی طبیعت میں اتنا فرق ڈال دیتی ہے جو مَشْرِقَیْن کا فرق ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات سے مایوسی کا تو کوئی سوال ہی نہیں، صرف ان راستوں پر چلنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کو پانے کے راستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پانے کے وہ اسلوب سیکھنے کی ضرورت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائے جو ایک عرصے سے بھولی بسری یادیں بن چکے تھے اور جن کو دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھا۔ پس ہم وہ خوش قسمت ہیں جو اس امام کو ماننے والے ہیں جس نے ان راستوں کو صاف کرکے ہماری ان کی طرف راہنمائی فرمائی۔ ہمارے ذہنوں کی گرد بھی جھاڑی جس سے بدعات اور غلط روایات سے ہمارے ذہن پاک و صاف ہوئے، جس میں آجکل غیراحمدی معاشرہ ڈوبا ہوا ہے۔ بہت ساری غلط روایات ہیں جو ان میں راہ پکڑگئی ہیں، بدعات کا دخل ہو گیا ہے جس سے ان کی بعض باتیں اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی تھی کوسوں دور چلی گئی ہیں اور ان باتوں میں ایک جمعۃ الوداع کا تصور بھی ہے۔ جبکہ قرآن کریم اور احادیث میں جمعۃ الوداع کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ ہاں جمعہ کی اہمیت ہے اور بہت اہمیت ہے، جس کا میں ان آیات کی روشنی میں جو میں نے تلاوت کی ہیں اور احادیث کی روشنی میں ذکر کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے میں نہایت افسوس سے اس بات کا ذکر کروں گا کہ امام الزمان کی بیعت میں آنے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ خلفاء احمدیت اس تصور کو ذہنوں سے نکالنے کے لئے بار ہا اس طرف توجہ دلا چکے ہیں بعض احمدی بھی معاشرے کی اس برائی اور بدعت کا شکار ہو کر جمعہ کی اہمیت کو بھلا کر جمعۃ الوداع کا تصور ذہنوں میں بٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ایسے لوگ چاہے زبان سے اس بات کا اقرار کریں یا نہ کریں اپنے حال سے، اپنے عمل سے یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ عموماً سارا سال مساجد میں جمعوں پر جو حاضری ہوتی ہے، رمضان کے دنوں میں خاص قسم کا ماحول بننے کی وجہ سے جمعوں میں حاضری اس سے بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ لیکن رمضان کے آخری جمعہ میں یہ حاضری رمضان کے باقی جمعوں کی نسبت بہت آگے بڑھ جاتی ہے جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ آج توجہ زیادہ ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مرکز میں یا جہاں خلیفۂ وقت نماز جمعہ پڑھا رہے ہوں وہاں اس جمعے میں شامل ہونے کی لوگ زیادہ کوشش کرتے ہیں جو ٹھیک ہے لیکن اگر جماعتیں جائزہ لیں تو ہر مسجد میں رمضان کے آخری جمعہ کی حاضری پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ پس یہ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جاؤ، جمعہ پڑھ لو اور گناہ بخشوا لو۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان میں پہلے سے بڑھ کر بندے کے ساتھ بخشش کا سلوک فرماتا ہے۔ لیکن بندے کو بھی اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے حتی الوسع اس تعلیم پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر جمعہ کے دن کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن جمعۃ الوداع کی کسی اہمیت کا تصور نہیں ملتا۔ بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس آخری جمعہ میں جو رمضان کا آخری جمعہ ہے، یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اس جمعہ سے اس طرح گذریں اور نکلیں کہ رمضان کے بعد آنے والے جمعہ کی تیاری اور استقبال کر رہے ہوں اور پھر ہرآنے والا جو جمعہ ہے وہ ہرنئے آنے والے جمعہ کی تیاری کرواتے ہوئے ہمیں روحانیت میں ترقی کے نئے راستے دکھانے والا بنتا چلا جائے اور یوں ہمارے اندر روحا نی روشنی کے چراغ سے چراغ جلتے چلے جائیں اور یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو اور ہرآنے والا رمضان ہمیں روحانیت کے نئے راستے دکھاتے چلے جانے والا رمضان ہو، نئی منازل کی طرف راہنمائی کرنے والا رمضان ہو جس کا اثر ہم ہر لمحہ اپنی زندگیوں پر بھی دیکھیں اور اپنے بیوی بچوں پر بھی دیکھیں اور اپنے ماحول پر بھی دیکھیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 20؍ اکتوبر 2006ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2021