• 16 اپریل, 2024

دین العجائز یہی ہے کہ جو احکامات ہیں اُن پر جس حد تک عمل ہو سکتا ہے کرو۔…رمضان کے ساتھ دعاؤں کی قبولیت، احکامات کی پابندی، ایمان میں مضبوطی اور ہدایت کے حصول کا جوڑ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

پھر آپ فرماتے ہیں:
’’دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہوتا‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ21مطبوعہ ربوہ)

پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ۔ پس وہ میری بات پر لبیک کہیں تو اُن تمام باتوں کی تلاش کرنی ہو گی جن کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، تا کہ اُن کو بجا لا کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اور اُن تمام باتوں کو تلاش کر کے اُن باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور قرآنِ کریم میں یہ احکام سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اُس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو، اور یاد رکھو کہ قرآنِ کریم میں پانسوکے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہریک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر یک مرتبۂ فہم اور مرتبۂ فطرت اور مرتبۂ سلوک او رمرتبۂ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو۔ جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کا لائق ہو گا۔ اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ‘‘۔

دین العجائز یہی ہے کہ جو احکامات ہیں اُن پر جس حد تک عمل ہو سکتا ہے کرو۔ اُس کے آگے پھر ترقی کرو گے اور آگے پھر اگلی سلوک کی راہیں ہوں گی۔ لیکن بنیاد یہی ہے کہ جو احکامات ہیں اُن پر جس طرح فرض کئے گئے ہیں، عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ فرمایا کہ:
’’قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنّم میں گرایاجائے گا۔ پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔ دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خداتعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھادرپیش ہے۔ بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے۔ چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہوجاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہوکہ وہ محبوب حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہوجاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے‘‘۔

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلدنمبر3 صفحہ548)

اللہ کرے کہ اس رمضان میں ہم اس نکتے کو بھی سمجھتے ہوئے محسنِ حقیقی کو راضی کرنے والے بن جائیں۔ رمضان کے ساتھ دعاؤں کی قبولیت، احکامات کی پابندی، ایمان میں مضبوطی اور ہدایت کے حصول کو جوڑ کر اللہ تعالیٰ نے جو ہماری اس طرف توجہ مبذول کروائی ہے کہ مَیں تو اپنے بندوں کی بہتری اور اُن کو آفات، مصائب اور عذاب سے بچانے کیلئے ہر وقت تیار ہوں لیکن بندوں کو بھی اپنا حقِ بندگی ادا کرنا ہو گا۔ اپنے آپ کو میرے خالص بندوں کی یا خاص بندوں کی طرف منسوب کر کے تمہیں بھی اُن باتوں کے بجا لانے کی کوشش کرنی ہو گی، اُس تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندے خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے لائے ہیں یا لاتے ہیں۔ تاکہ دنیا میں عبادالرحمن کی کثرت نظر آئے، تا کہ ان عبادالرحمن کی وجہ سے دنیا پیار، محبت اور امن کا گہوارہ بنے۔ تاکہ اس دنیا میں جنت کے نظارے نظر آئیں۔ پس ہمارا ایمان میں مضبوطی کا دعویٰ، زمانے کے منادی کو سننا اور قبول کرنا، مخلوقِ خدا سے ہمدردی کا اہم فریضہ جو الٰہی جماعتوں کے سپرد کیا جاتا ہے، ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خالص بندوں میں شامل ہوں۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جن کی دعائیں خدا تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جو اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جو مخلوق کی ہمدردی کی وجہ سے اُسے برائیوں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچانے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس یہ رمضان ہمیں انہیں باتوں کی ٹریننگ دینے اور ہمیں حقیقی عبد بننے کے معیار حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی اور جِلا پیدا کرنے کے لئے آیا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر اس سے بھر پور فائدہ اٹھاویں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آج دنیا کو فسادوں سے بچانے اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے کسی دنیاوی سازو سامان کی ضرورت نہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اور نہ وہ کام آ سکتا ہے۔ صرف اور صرف ایک ہتھیار کی ضرورت ہے اور وہ دعا کا ہتھیار ہے۔ پس اس رمضان میں جہاں اپنے لئے، اپنی نسلوں کے ایمان اور تعلق باللہ کے لئے دعائیں کریں وہاں اس دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعائیں کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اُن کا خدا دعاؤں کو سننے والا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر2 صفحہ148مطبوعہ ربوہ)

لیکن اس بات کا حقیقی ادراک بھی آج صرف احمدیوں کو ہی ہے۔ پس جب ہمارا خدا دعاؤں کا سننے والا ہے تو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور یقینا ہم مایوس نہیں اور اس یقین پر قائم ہیں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ تمام باتیں ضرور پوری ہوں گی جو جماعت کی ترقی سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائی ہیں۔ ان شاء اللہ۔ اور یقینا وہ دن ان شاء اللہ آئیں گے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا پر لہرائے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے اُن بندوں کی اکثریت ہو گی جو رُشد و ہدایت پانے والے ہوتے ہیں۔ پھر مَیں یاددہانی کرواتا ہوں کہ اس دعا کو کبھی نہ بھولیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اُن بندوں میں شامل رکھے جو اُس کے ہدایت یافتہ اور خالص بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رمضان کے فیض سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

(خطبہ جمعہ 12؍ اگست 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2021