• 26 اپریل, 2024

میری والدہ مکرمہ عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم میاں عبدالرشید

میری پیاری والدہ صاحبہ صحابئ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت منشی عبدالحق صاحب رضی اللہ تعالی عنہ (مخزن تصاویر 191 GKZR) کی بیٹی اور ابوالمنیر نورالحق صاحب کی ہمشیرہ تھیں۔ انتہائی شفیق مادر مہربان، صبر و رضا کا پیکر تھیں۔ چہرے سے سکون اور اطمنان ٹپکتا تھا۔ آخری دنوں میں علالت کے باوجود چہرے پر ایک نور عیاں تھا چہرے سے کوئی کرب اور تکلیف نا ٹپکتی تھی آپ 1934 میں قادیان میں پیدا ہوئیں۔ 12 سال کی عمر میں شادی ہوگئی۔ اپنی زبانی ہمیں بتایا کرتی تھیں کہ میں اپنی امی سے کہا کرتی تھی بےبے جی مجھے آپ کو کھانا دینا مشکل لگتا ہے تو بیشک نہ دیا کریں لیکن مجھے کسی کے گھر نہ بھیجیں۔ ان کی شادی تقسیم ہند سےپہلے ہو چکی تھی اور وہ پہلے ہی پاکستان آ گئی تھیں۔ میری والدہ کے ہاں14 بچے پیدا ہوئے 11 لڑکے اور 3 لڑکیاں جن میں سے کُل 8 بچے مختلف عمروں میں فوت ہوئے۔ والدہ نےبہت دعائیں کیں تو اللہ تعالی نے بچوں کے زندہ رہنے کی بشارت دی۔ میری ایک بہن جب فوت ہوئی۔ اس کی دُھندلی سی یاد میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ میں اس کو سنبھا لا بھی کرتی تھی ۔مجھ سے بہت انس رکھتی تھی ۔جب فوت ہوگئی تو ایک دن میں نے اپنی والدہ کو غمگین دیکھا تو ان کو پیار کرنے لگی اور کہا کہ امی نہ روئیں کوئی بات نہیں اللہ میاں ہمیں ایک اور بہن دے دے گا ۔ میری اس بات پر مسکرانے لگیں ۔ واقعتاً کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی نے مجھے ایک بہن سے نوازا جسکا نام بھی امی نے مجھ سے رکھوایا ۔

بچوں کی وفات پر کبھی واویلا اور آہ وزاری نہ کرتیں ہمیشہ خدا کی رضا پر راضی رہتیں۔ جماعت سے خاص لگاؤ تھا ۔ طعبیت میں نہایت سکون تھا زیادہ ترخاموش رہتیں۔ بہت کم گو تھیں۔ نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کرتیں۔ تہجد میں باقاعدگی تھی۔ ہم گوجرانوالہ کے قریب گاؤں درویشکے میں رہتے تھے۔ والدہ صاحبہ گاؤں کے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھیں ہم سب بہن بھائیوں نے بھی اپنی والدہ سے قرآن مجید سیکھا ۔گاؤں میں ان کی بہت عزت اور وقار تھا ۔عورتیں ان کا بہت احترام کرتیں ۔ بہت سی لڑکیاں شادیاں ہوجانے کے بعد بھی ان سےملنے آتیں اور بہت محبت کا اظہار کرتیں اور امی کے لیے کچھ نا کچھ تحفتاً ضرور لے کر آتیں۔ ہم 6 بہن بھائی زندہ تھے اور اللہ کے فضل سے ہیں ۔ سب کو اعلی ٰتعلیم دلائی۔ اور دینی تعلیم پر بطور خاص توجہ دی۔ سب خدا تعالی کے فضل و کرم سے اپنی اپنی جگہ خدمت دین میں مصروف ہیں اور صوم و صلوۃ کے پابند بھی۔ ہم بہن بھائی جب ذرا بڑے ہوئے تو چونکہ گاؤں میں پرائمری کے بعد تعلیم کا کوئی انتِظام نہ تھا۔ اس لیے والد صاحب ہمیں ،مجھے اور بڑے بھائی کو لے کر گوجرانوالہ آگئے۔ جہاں ہم نے مزید تعلیم حاصل کی۔ہم چھٹیوں میں والدہ صاحبہ سے ملنے چلے جاتے۔ وہ وقت بھی انھوں نے نہایت صبر سے گزارہ۔ ہم نے کبھی ان کو والد صاحب سے لڑتے جھگڑتے یا شکوے شکایات کرتے نہیں دیکھا ۔ کبھی کبھی وہ بھی ہمارے پاس شہر آجاتیں ۔جب دوسرے بہن بھائی بھی ذرا بڑے ہوئے تو سب کو لے کر امی بھی گوجرانوالہ آگئیں۔ شہر میں ہمارے مالی حالات کچھ زیادہ اچھے نہ تھے والد صاحب چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ جس سے گزر اوقات ہو جاتی تھی ۔ والدہ ہماری دینی تعلیم و تربیت اور نمازوں کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ دنیوی زیب و زیبائش کی طرف کوئی رحجان نہ تھا۔ طبیعت میں نہایت سادگی تھی۔ ہمیشہ صبروشکر کا مظاہرہ کرتیں۔ بچپن سے ہی ان کا راتوں کو تہجد کے وقت اٹھنا اور خدا کے حضور آہ وزاری کرنا میرے ذہن پر نقش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے بھی خدا نے اپنے فضل و کرم نے اسی نمونہ پر چلنے کی توفیق دی ہے ۔

امی جان اپنی قبولیت دعا کے واقعات بھی سنایا کرتیں ۔ مَیں 5 بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی تھی ۔ ایک بار سخت بیمار ہو گئی ۔ والد صاحب اور والدہ صاحبہ بہت پریشان ہوئیں ۔ ڈاکٹر نے بتایا اگر آج رات کوئی معجزہ ہو گیا تو یہ بچی بچ جائے گی ورنہ مر جا ئے گی ۔ بچنا بہت مشکل ہے۔ بس دعا کریں۔ وہ ساری رات دعا کرتی رہیں۔ سحری کے قریب میرے والد صاحب نے امی سے کہا : دیکھو زندہ ہے کہ نہیں امی نے دیکھا تو میں پر سکون سو رہی تھی ۔ انہوں نےخدا کا شکر ادا کیا۔ اللہ تعالی نے ان کی دعا سن لی اور مجھے زند گی عطا کردی۔ میری زندگی کی خوشی میں گاؤں میں لڈو تقسیم کیے گئے ۔

نہایت نڈر اور بہادر خاتون تھیں۔ ایک بار والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ رات کو گھر میں چور گھس آیا۔ آپ کی بہادری کی وجہ سے کوئی مالی نقصان کیے بغیر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ وہ ایک بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ پردے کا بہت ہی خیال رکھتی تھیں۔ اجلاسات میں نہایت شوق سے جاتیں۔ جماعتی خدمات میں پیش پیش رہتیں۔ زیادہ تر گھر میں ہی رہتیں۔ میںنےزندگی میں ان کو ایک ہی سہیلی کے ہاں آتے جاتے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت اپنائیت کا سلوک رکھتی تھیں ۔ ایک دوسرے کے بچوں سے بھی بہت محبت رکھتی تھیں۔گاؤں میں ہمارے دادا دادی جان اور امی جان کے گھر ساتھ ساتھ تھے۔میں تو سارا دن دادی جان کے ساتھ ہاتھ سے سویّاں چنگیریاں بنانا کھگے رنگنا، گنے کی کھیر پکانا ، ان کے ساتھ چکی پیسنا جیسے کاموں میں دلچسپی رکھتی تھی ۔میں نے کبھی امی کو سسرالی رشتوں سے الجھتے نہیں دیکھا ۔سبھی ایک دوسرے سے نہایت عزت ومحبت سے پیش آتے۔حالانکہ وہ ہمارے سگے دادا دادی نا تھے ۔بہت بچپن میں سگے دادا جان کی طاعون سے وفات ہوگئی تھی۔ ان کی وفات کے زمانے میں دیگر افراد خاندان نے احمدیت قبول کرلی۔ اس طرح ہمارے والد صاحب کے ذریعے ہمارے ہاں احمدیت کا آغاز ہوا۔ دادی جان کی عمر بہت کم تھی۔ انہوں نے رشتہ داروں کے مجبور کرنے پر دوسری شادی کر لی ۔ لہٰذا میرے والد صاحب کو دیگر رشتہ داروں نے پالا ۔ہماری والدہ نے ہمیں کبھی ان کی غیریت کا احساس نا دلایا تھا۔ آج بھی ہم ان رشتوں سےاتنا ہی پیار رکھتے ہیں، کیونکہ ہماری والدہ نے ہمارے دل میں ا ن کی محبت اور احترام بٹھایا تھا۔ جب ہم بڑے ہوئے تو اپنی حقیقی ساس کی بھی بہت تعریف کرتیں اور ان کو یاد کرتیں۔ کیونکہ وہ اپنی شادی کے کچھ عرصہ تک تو امی سے ملنے آتیں پھر غالباً اپنے گھر مصروف ہو جانے کی وجہ سے یا والد صاحب کے احمدیت قبول کر لینے کی وجہ سے رابطہ ختم ہو گیا۔ جب 1974 میں اینٹی احمدیہ فساد نے سر اٹھایا تو والدہ صاحبہ اپنے بہن بھائیوں سے ملنے ربوہ گئی ہوئی تھیں۔ اس پریشانی میں بھی وہ خدا کے حضور ہی سجدہ ریز ہوئیں اور اللہ تعالی سے سب کی خیرو عافیت اور مدد طلب کی۔ اللہ نے محض اپنے فضل سے اس ابتلا سے نجات دی اور ہم بخیریت گھر سے نکالے جانے پر اِدھر اُدھر پناہ لیتے ہوئے بالاخر بخریت ان کے پاس ربوہ پہنچ گئے ۔

ہم بالکل بے سروسامانی کی حالت میں تھے ۔پھر بھی سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی ۔کسی کو کوئی گھبراہٹ یا فکر نا تھی کہ اب کیا ہو گا ۔والدہ صاحبہ کی تربیت نے ہمارے دلوں میں صبر کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا ۔سو ہم بھوک اور ننگ میں بھی خوش تھے ۔کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا ۔ والدہ اورہم بڑے بہن بھائیوں نے جس کو جو کام ملا محنت کی اور اپنا گزارہ کیا ۔امی نے کالج کی لائبریری میں، مَیں نے کالج کی لیباٹری میں کام کرلیا کیونکہ میں ایف ایس سی کر چکی تھی ۔ کام کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی ۔ والدہ کی تربیت کا انداز نرالا تھا جو بھی کہتیں نہایت تحمل سے دو ٹوک الفاظ میں کہتیں۔ دو لفظوں میں اپنی بات کہہ دیتیں کہ بحث اور نافرمانی یا ضد کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اسی عرصہ میں والد صاحب کو فالج ہوگیا ۔5 سال کا عرصہ بستر پر رہے ۔والدہ صاحبہ نے نہایت صبر اور محبت سے ان کو سنبھالا ۔کبھی کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔انتہائی مالی تنگی بھی آ گئی ۔تب بھی کبھی بھی ان کو حالات سے تنگ پڑتےاور واویلا کرتے نہ سنا ۔ والد صاحب کی اچانک وفات پر بھی صبر کیا۔ والد صاحب نےصبح ناشتے میں دودھ مانگا۔ ابھی دودھ والا آیا نہیں تھا۔ امی نے سوچا کہ ہمسایوں سے لے آتی ہوں دودھ والا آئے گا تو واپس دےدوں گی ۔گھر واپس آئیں تو ان کی روح خالق حقیقی کی طرف پرواز کر چکی تھی۔ انا للہ و انَّا الیہ راجعون ۔

‌بچوں کی شادیاں نہایت سادگی سے کیں ۔بہوؤں اور پوتے پوتیوں سے بہت شفقت کا سلوک کرتیں دوسروں کے برے رویوں پر بھی صبر کرتیں کوئی گلہ شکوہ زبان پر نہ لاتیں ۔ کبھی کسی کی برائی ، چغلی، غیبت نہ کرتیں۔ میں جرمنی سے کئی بار ملنے گئی کبھی مجھ سے کسی کا گلہ شکوہ شکایت نہ کی ۔نہ کبھی کسی کو برا بھلا کہا ۔جب میری شادی ہوئی ۔ میں جرمنی آ گئی تو میں نے بہت اداسی کا اظہار کیا تو مجھے جواب میں لکھا کہ پریشان مت ہوا کرو – گھر کے کاموں میں دل لگاؤ۔ قرآن پڑھ لیا کرو۔ کبھی کوئی اور کتاب پڑھ لی۔ کبھی کوئی کپڑا سی لیا وغیرہ۔ اور سسرال کے حوالہ سے خاص نصیحت کی کہ بیٹا ساس سسر بڑے ہیں بزرگ ہیں اگر کبھی کچھ کہیں تو برا نہ منانا۔ ان کی عزت اور احترام ہمیشہ مد نظر رہے۔ 1995 میں والدہ صاحبہ کو بھی فالج کا حملہ ہوا۔ 6 سال علالت میں نہایت صبر اور شکر سے گزارے۔ بیماری میں ایک مرتبہ جرمنی بھی تشریف لائیں۔ مگر اپنے پوتے پوتیوں سے اداس رہتیں اور بار بار واپس جانے کا مطالبہ کرتیں۔ آخر ان کوواپس پاکستان چھوڑ کر آنا پڑا۔ 2001 میں حرکت قلب بند ہوجانے پر معمولی سی ہچکی آئی اور اپنے مولائے حقیقی سے جا ملیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں بہشی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپکا جنازہ مولوی دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت نے پڑھا یا۔ وفات کے بعد ایک بار انگلینڈ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر مجھے اکیلے ہونے کی وجہ سے بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ اچانک مجھے خواب میں نظرآئیں میری ساس اور امی دونوں بڑے بڑے پر پھیلائے کھڑی تھیں اور مجھے کہنے لگیں گھبراؤ مت ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم بھی جلسہ سننے آئی ہیں۔ اللہ اکبر۔ مجھے اپنے پیارے خدا کے بہت بڑے اور مہربان ہونے کا احساس ہوا اللھم اغفرھاورحمھا و رفع درجتھا۔ آ خر پر دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی دین پر ثبات قدم عطا فرمائے اور اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے ۔آمین۔

(رضیہ عنبر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2021