عالم روحانی کا موسم بہار یعنی ماہ رمضان ایک بار پھر ہماری زندگیوں کو مزیّن کرنے آیا ہے۔یہ مبارک مہینہ اپنی ضیاءبار کرنوں سے شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک اذن رب الوریٰ سے برکتوں، رحمتوں اور مغفرت کی نوید سناتا ہے۔ یہ مہینہ خاص بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ انوار و برکات کی موسلادھار بارش کا مہینہ ہے۔یہ مہینہ گوشہ گوشہ کو اور ذرہ ذرہ کو نور ہدایت سے منور کرتا ہے اور شھر القران یعنی قرآن کا مہینہ بھی کہلاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَالۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ
(البقرہ: 186)
ترجمہ: رمضان کا مہىنہ جس مىں قرآن انسانوں کے لئے اىک عظىم ہداىت کے طور پر اُتارا گىا اور اىسے کھلے نشانات کے طور پر جن مىں ہداىت کى تفصىل اور حق و باطل مىں فرق کر دىنے والے امور ہىں پس جو بھى تم مىں سے اس مہىنے کو دىکھے تو اس کے روزے رکھے۔
ماہ مبارک کا ذکر کتب احادیث کے اوراق کی زینت ہمیشہ بنتا رہا ہے اور رسول اعظم ﷺ نے اپنے اصحاب سے کئی بار اس ماہ کی فضیلت کا ذکر فرمایا۔
حضرت سلمان فارسی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں۔ اور اس کی راتوں کو قیام کرنا نفل ٹھہرایا ہے…… ھُوَ شَھرٌ اَوَّلُہٗ رَحمَۃٌ وَاَوسَطُہٗ مَغفِرَۃٌ وَاٰخِرُہٗ عِتقٌ مِّنَ النَّار۔ کہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے ……اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہ لگے گی۔
(صحیح ابن خزیمہ کتاب الصیام باب فضائل شھر رمضان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ابن آدم کا ہر عمل اُس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا بنوں گا۔ اور روزے ڈھال ہیں۔ اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اُس کو کوئی گالی دے یا اُس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں توروزہ دار ہوں۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے روزہ دارکے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طَیِّب ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اُسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا۔‘‘
(بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے مابین ستّرخریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الصوم فی سبیل اللّٰہ)
حضرت سیّدنا احمد علیہ السلام نے اور خلفاء سلسلہ نے اپنی مبارک تقاریر اور پر نور تحریرات میں تفصیل سے رمضان المبارک کا ذکر کرتے ہوئے اس کی فضیلت، برکات اور فرائض پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ خاکسار نے اس مضمون میں چند تحریرات کو جو رمضان المبارک سے متعلق ہیں جمع کرنے کی سعی کی ہے۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی معہودعلیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:۔
(شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنزِلَ فِیہِ القُراٰن) سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھاہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ ٔنفس کرتی ہے اور صوم تجلیٔ قلب کرتاہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس اماّرہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے، دوری حاصل ہو جائے اور تجلی ٔ قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔ فرمایا پس اُنزِلَ فِیہِ القُراٰن میں یہی اشارہ ہے۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں۔
’’رَمَض سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔ رَمَضَان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اورتپش مل کر رَمَضَان ہوا۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ136)
نیز فرمایا: ’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتاہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کااثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تَبَتُّل اور اِنْقِطاَع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ102 17؍جنوری 1907ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک کے مطابق (رمضان میں) اپنی کسی ایک کمزوری کو ترک کرنے کا عہد کریں اور پھر اس عہد پر پختہ طور پر جم جائیں اور اُسے ہمیشہ کے لئے نبھائیں۔ کمزوری دور کرنے کے عہد میں کسی خاص نیکی کے اختیار کرنے کا عہد بھی شامل ہو سکتا ہے۔‘‘
(مضامین بشیر جلد دوئم صفحہ271)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں… رمضان کے مہینہ میں دعا ؤں کی کثرت،تدارس قرآن،قیام رمضان کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔… بدنظری،شہوت پرستی، کینہ، بغض، غیبت اور دوسری بد باتوں سے خاص طور پر اس مہینہ میں بچے رہو۔‘‘
(خطبات نور صفحہ262-263)
فرمایا: پس کوئی شبہ نہیں کہ ظلمات جسمانیہ کے دور کرنے کے لئے روزہ سے بہتراور افضل کوئی عبادت نہیں اور انوار ومکالمات الٰہیہ کی تحصیل کے لئے روزہ سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔
(خطبات نورصفحہ230)
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ رمضان سے پورے طور پر فائدہ اٹھائیں۔کیونکہ یہ خد اتعالیٰ کی طرف سے برکات نازل ہونے کے خاص دن ہیں۔اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک سخی اپنے خزانہ کے دروازے کھول کر اعلان کر دے کہ جو آئے لے جائے ان دنوں خدا تعالیٰ بھی اپنی برکتوں اور رحمتوں کے دروازے اپنے بندوں کے لئے کھول دیتا ہے اور کہتا ہے آؤ آ کر لے جاؤ۔‘‘
(خطبات محمود جلد 10صفحہ123)
نیز فرمایا: ’’اس مہینہ سے وہی فائدہ اٹھا ئے گا جس نے اس کا ارادہ کیا اور جس نے خدا کے فضلوں کے پانے کی کوشش کی….مہینے بے شک بابرکت ہوتے ہیں۔دن بے شک بابرکت ہوتے ہیں۔ انسان بے شک بابرکت ہوتے ہیں۔خدا کے کلام بے شک بابرکت ہوتے ہیں علوم اور معارف بے شک بابرکت ہوتے ہیں لیکن یہ برکت وہی حاصل کرتا ہے جو اپنے آپ کو اس کے پانے کے قابل بناتا ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 11صفحہ51)
’’روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتاہے اور یہ غرض اس طرح پوری ہوتی ہے کہ دنیا سے انقطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ اُن عیوب کو دیکھ لیتاہے جو اسے پہلے نظر نہ آتے تھے…… روزہ یہ ہے کہ منہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اسے ہر…… نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بھی بچایا جائے۔ نہ جھوٹ بولا جائے، نہ گالیاں دی جائیں، نہ غیبت کی جائے، نہ جھگڑا کیا جائے…… اس کے نتیجہ میں تقویٰ پرثبات قدم حاصل ہوتاہے اور انسان کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں …… حدیث میں آتاہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلصَّومُ لِی وَاَنَااُجْزٰی بِہٖ یعنی ساری نیکیوں کے فوائد اور ثواب الگ الگ ہیں لیکن روزہ کی جزا خود میری ذات ہے۔ اورخداتعالیٰ کے ملنے کے بعد انسان کو اور کیا چاہئے۔’’
(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ374-377)
رمضان حقیقی فرمانبرداری کی طر ف توجہ دلاتا ہے۔… رمضان میں انسان سحری کے وقت اٹھ سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اور دنوں میں نہ اٹھ سکے…اگر تم ایک مہینہ کھانا کھانے کے لئے سحری کے وقت اٹھ سکتے ہو تو باقی گیارہ مہینے عبادت کے لئے کیوں نہیں اٹھ سکتے۔
(خطبات محمود جلد10 صفحہ122-123)
’’روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں تا کہ تم بچ جاؤ۔ اس کے کئی معنے ہوسکتے ہیں۔مثلاً ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم نے تم پر اس لئے روزے فرض کئے ہیں تا کہ تم ان قوموں کے اعتراضوں سے بچ جاؤ جو روزے رکھتی رہی ہیں، جو بھوک اور پیاس کی تکلیف کو برداشت کرتی رہی ہیں، جو موسم کی شدت کو برداشت کرکے خدا تعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں۔اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کرہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا……لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ میں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیاہے کہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ روزے دار کا محافظ ہو جاتاہے۔کیونکہ اِتِّقَاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا، وِقَایا بنانا،نجات کا ذریعہ بنانا۔ پس…… تم پرروزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنالو اور ہر شر سے اور ہر خیرکے فقدان سے محفوظ رہو … پس لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دینی اور دنیوی شرور سے محفوظ رہو… روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتاہے اور یہ غرض ا س طرح پوری ہوتی ہے کہ دنیا سے انقطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ ان عیوب کو دیکھ لیتاہے جو اسے پہلے نظر نہ آتے تھے۔اسی طرح گناہوں سے انسان اس طرح بھی بچ جاتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنامنہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پئے بلکہ روزہ یہ ہے کہ منہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بھی بچایا جائے۔ نہ جھوٹ بولا جائے،نہ گالیاں دی جائیں، نہ غیبت کی جائے، نہ جھگڑا کیا جائے۔اب دیکھو زبان پر قابو رکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے لیکن روزہ دار خاص طورپر اپنی زبان پر قابو رکھتاہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ ٹوٹتا ہے…… روزوں کا ایک اور فائدہ یہ بتایا گیاہے کہ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پرثبات قدم حاصل ہوتاہے اورانسان کو روحانیت کے ا علیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ374-375)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ماہ رمضان اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آرہا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس مہینے میں تمام قسم کی عبادتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرنے یا ادا کرنے پر بہت کچھ کہا گیا ہے۔رمضان کا مہینہ پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔پہلے تو روزہ ہے دوسرے نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔پھر قِیَامُ اللَّیْل یعنی رات کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔تیسرے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ہے چوتھے سخاوت اور پانچویں آفاتِ نَفْس سے بچنا ہے ان پانچ بنیادی عبادات کا مجموعہ، عبادات ماہِ رمضان کہلاتی ہیں۔‘‘
(خطبات ناصر جلد2 صفحہ954)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’کبھی کسی اور مہینے میں اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمت کے ایسے چھینٹے نہیں پھینکے جاتے جو دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں برس رہے ہوں اور جس کسی پر بھی پڑیں اُسے خوش نصیب بنا دیں۔اس لئے رمضان کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ رمضان مبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی، چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد7 صفحہ258)
ایک اور موقع پر فرمایا: ’’جب میں کہتا ہوں کہ رمضان استغفار کا موسم ہے تو یہ ہر گز مراد نہیں کہ باقی اوقات استغفار کے اوقات یا استغفارکے موسم نہیں ہیں۔دیکھیں چیزیں ہر موسم میں اُگتی رہتی ہیں اور ہر موسم میں مرتی بھی رہتی ہیں لیکن پھر بھی بہار کا بھی ایک موسم ہے اور خزاں کا بھی ایک موسم ہے۔اس لئے گناہوں سے بخشش حاصل کرنے کے لئے اگر کسی مہینے کو موسم قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ رمضان ہی کا مہینہ ہے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد7 صفحہ290)
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’روزہ ڈھال ہے۔ حفاظت کا ایک ایسا مضبوط ذریعہ ہے جس کے پیچھے چھپ کر تم اپنے آپ کو شیطان کے حملوں سے محفوظ کر سکتے ہو…یہ قلعہ تو ہے لیکن اس ڈھال کے پیچھے اور اس قلعہ کے اندر کب تک اس قلعے میں حفاظت ہوتی رہے گی، کب تک محفوظ رہو گے……جب تک اس کو جھوٹ یا غیبت کے ذریعے سے پھاڑ نہیں دیتے۔ تو رمضان میں روزوں کی جو برکتیں ہیں اُسی وقت حاصل ہوں گی جب یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی جو بعض بظاہر چھوٹی لگ رہی ہوتی ہیں، آدمی معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے…… اُن میں بہت بڑی برائی جو ہے جس کو آدمی محسوس نہیں کرتا وہ جھوٹ ہے۔ اگر جھوٹ بول رہے ہو تواس ڈھال کو پھاڑ دیتے ہو۔ لوگوں کی غیبت کر رہے ہو چغلیاں کر رہے ہو، پیچھے بیٹھ کے ان کی باتیں کر رہے ہو تو یہ بھی تمہارے روزے کی ڈھال کو پھاڑنے والی ہیں۔ تو روزہ اگر تمام لوازمات کے ساتھ رکھا جائے تو ڈھال بنے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 15اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2صفحہ 748-754)
سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یہ رمضان ہمیں ایک دفعہ پھر موقع دے رہا ہے کہ ہم خدا کے آگے جھکیں جس طرح جھکنے کا حق ہے۔ اُس کی عبادت کریں، جس طرح عبادت کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری دعا ؤں کا یقینا جواب دے گا۔ اور یہ عہد کریں کہ آئندہ ہم ان عبادتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ اگر یہ ہو جائے تو اس سے ہم ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت کی سالوں میں ہونے والی ترقیات کو دنوں میں واقع ہوتے دیکھیں گے۔ اِس لئے مَیں پھر یہی کہوں گا کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں۔دوسروں کے پاس دعا ئیں کروانے کی بجائے خود اللہ تعالیٰ کی ذات کی قدرتوں کا تجربہ حاصل کریں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 22اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2صفحہ764)
حضور انور نیز فرماتے ہیں:
’’اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیاان پر ہم قائم ہیں۔ کہیں اس سے بھٹک تو نہیں گئے۔ اگر بھٹک گئے تو رمضان نے ہمیں کیا فائدہ دیا۔ اور یہ رمضان بھی اور آئندہ آنے والے رمضان بھی ہمیں کیا فائدہ دے سکیں گے…… پس جنہوں نے گزشتہ سال کے رمضان میں اپنے اندر…… تبدیلیاں پیدا کیں …… وہ تو خوش قسمت لوگ ہیں اور اب ا ن کے قدم آگے بڑھنے چاہئیں …… پس ہم سے جو غلطیاں ہوئیں اس کی خدا سے معافی مانگنی ہو گی اور یہ عہد کرنا ہو گا کہ اے میرے خدا! میری گزشتہ کوتاہیوں کو معاف فرما اور اس رمضان میں مجھے وہ تمام نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما جو تیرا قرب دلانے والی ہوں اور مجھے اس رمضان کی برکات سے فیضیاب کرتے ہوئے ہمیشہ تقویٰ پر چلنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ جب ہم اس طرح دعا کریں گے اور اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے تو ان نیکیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ بہت سی برائیاں بھی چھوڑنی ہوں گی جن کے ترک کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے……پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ تبھی پورا ہو گا جب ہم ان حکموں پر بھی عمل کریں گے اور نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ7اکتوبر2005ء خطبات مسرور جلد3 صفحہ593-594)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں رمضان کی تمام شرائط کو ملحوظ خاطر رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا ہم پر اللہ کی رحمت اور برکت کی بارش ہو تی چلی جائے اور ماہ مبارک میں اپنائی ہوئی نیکیاں ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنی رہیں اور ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شامل ہو، اُس کا پیار حاصل کرنے والا ہو اور ہمیشہ اُس کی پیار کی نظر ہم پر پڑتی رہے۔ اور یہ رمضان ہمارے لئے اور جماعت کے لئے غیرمعمولی فتوحات لانے والا ہو۔آمین
(فراز یاسین۔ مبلغ سلسلہ غانا)