کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اردو زبان کا بھی کوئی مذہب نہیں ہے۔ اور اردو زبان مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ زبان کومذہب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اردو زبان مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کی زبان ہے۔ آج اردو زبان پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ یہ صرف اور صرف مسلمانوں کی زبان ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایک شاعر نے بہت خوب کہا ہے:
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
میں نے بھی کبھی دیکھا تو خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں میں آج اکیلی
اردو زبان کے فروغ، ترقی اور ترویج میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر اقوام و مذاہب کے ماننے والوں کا بہت نمایاں کردار رہا ہے۔ جس طرح اردو ادب کے اصناف سخن شاعری، نظم، نثر وغیرہ میں غیر مسلموں کی خدمات نمایاں ہیں وہیں پر اردو زبان کے فروغ میں اردو صحافت کا تاریخ ساز رول رہا ہے۔ اور آج بھی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اردو صحافت کی ابتداء اور آغاز اور بنیاد ہندوؤں سے شروع ہوئی ہے۔ 22 مارچ 1822ء کو کلکتہ سے اردو زبان کا پہلا اخبار شائع ہوا تھا۔ جس کا نام ’’جامِ جہاں نماں‘‘ تھا اور دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ اسے کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ایک غیر مسلم ’’ہری ہردت‘‘ نے جاری کیا تھا۔ اور اُنہوں نے جس شخص کو اس اخبار کی ادارت سونپی تھی اور مدیر بنایا تھا وہ بھی ہندو غیر مسلم تھے اُن کا پورا نام ’’سدا سکھ لعل‘‘ تھا۔ ’’ہری ہردت‘‘ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔
’’راجہ رام موہن رائے‘‘ نے ’’مرا الاخبار‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں اخبار جاری کیا تھا اور ’’سمباد کومدی‘‘ کے نام سے بنگلہ زبان میں بھی اخبار شروع کیا تھا۔ ہری ہردت کے والد دیوان تارا چند مینیجر تھے۔ ہری ہردت بھی اخبار کے انتظام میں کسی حد تک شراکت دار تھے۔ بعد میں مالکانہ حقوق اُن کے نام منتقل ہوگئے۔ یہ اردو، عربی، فارسی اور بنگلہ زبان سے واقف تھے۔ اوراُنہیں اخبار نویسی کا بھی شوق تھا۔ لہذا اُنہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ ’’جام جہاں نماں‘‘ کے نام سے اردو اور فارسی میں اخبار نکالنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اُنہوں نے دو لسانی اخبار جاری کیا۔ اور ’’سدا سکھ لعل‘‘ ایک تعلیم یافتہ شخص تھے۔ وہ مصنف اور مترجم بھی تھے۔ ہری ہردت نے اُن کو اخبار کا ایڈیٹر بنادیا تھا۔ اس طرح اردو زبان کی صحافت کی ابتداء، آغاز اور بنیاد پڑی۔
اس کے بعد بے شمار غیر مسلموں نے اردو اخبارات کا اجراء کیا۔ اس کی وسعت اور دائرہ دو صدیوں پر محیط اور مشتمل ہے۔ تفصیلات میں جانے کی گنجائش اس پر نہیں کہ شاید الفضل آن لائن لندن کے صفحات اس کی اجازت نہ دیں۔
صرف چیدہ چیدہ اخبارات اور صحافت کا تذکرہ ممکن ہے۔ ان میں ایک نام منشی نول کشور مشہور و معروف اور سر فہرست ہیں۔ 1858ء میں لکھنؤ اُترپردیش سے اردو اخبار کے نام سے ایک اخبار جاری کیا۔ یہ بہت معیاری اخبار تھا۔ شروع شروع میں یہ ہفت روزہ تھا۔ پھر ہفتہ میں دو بار شائع ہونے لگا۔ پھر روزنامہ ہوگیا۔ ابتداء میں یہ اخبار صرف چند صفحات پر مشتمل تھا۔ لیکن اس کو اتنی مقبولیت اور شہرت ملی کہ اس کے صفحات کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ متعدد نامی گرامی ادیب اس کے ایڈیٹر رہے۔ بڑے بڑے ادباء اور شعراء اس اخبار میں اپنے مضامین اور نظموں کے شائع ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ اردو زبان کے فروغ اور اردو صحافت میں منشی نول کشور کی خدمات نہ صرف نمایاں ہیں بلکہ ناقابل فراموش بھی۔
اسی طرح کانپور اُترپردیش کے اردو جریدہ ’’زمانہ‘‘ کے ایڈیٹر ’’منشی دیانرائن نگم‘‘ کی صحافت اور ان کی اردو ادب کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رسالہ 46 سال تک نکلتا رہا۔ ایک تحقیق کےمطابق ان 46 سال کے شماروں میں منشی صاحب موصوف کے اپنے قلم سے قریباً 370 مضامین تھے۔ جو بیشتر اُن کے مستقل عنوان ’’رفتار زمانہ‘‘ کےتحت لکھے گئے۔ ان رسالوں کے صفحات میں ہندوستان کے حالات اور اردو زبان کی بیسویں صدی کے نصف اول کے چشم دید واقعات موجود ہیں۔
اسی طرح دہلی کالج کے پنڈت دھرم نارائن بھاسکر اور ماسٹر رام چندر کی اردو صحافت کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جنہوں نے ’’قرآن السعدین اور فوائد الناظرین‘‘ جیسے معیاری اخبارات کے ذریعہ ملک اور قوم کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی بھی خوب خدمت کی۔ 1848ء کی ایک سرکاری رپورٹ میں قرآن السعدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
دہلی کالج سے جو اخبارات شائع کئے جارہے ہیں ان میں سے قرآن السعدین بلند ترین معیار کا حامل ہے۔ اس صوبہ کا کوئی اخبار بھی اس سے زیادہ تنوع، علمی افادیت اور قابل قدر معلومات پیش نہیں کر سکتا اور یہ اخبار مضامین کے تنوع، علمی افادیت اور حسن ترتیب کےاعتبار سے ہندوستان کے منفرد اخبارات میں شمار ہوتا ہے۔
ماسٹر رام چند بھی ایک نامور صحافی تھے۔ اُنہوں نے 1845ء میں اخبار ’’فوائد الناظرین‘‘ اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ ’’محب ہند‘‘ جاری کیا اور یہ دہلی کالج سے وابسطہ تھے۔ ان کی دو کتابوں کی شہرت انگلستان پہنچی۔ اور ایک کتاب کے لئے برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی کورٹ آف ڈائریکٹر نے اُنہیں ایک خلعت پنچ پارچہ اور دو ہزار روپے نقد عطا کئے۔
سردار دیوان سنگھ مفتون اور میلارام وفایا صوفی انباپرشاد کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ دیوان سنگھ نے ’’ریاست‘‘ نام کا اخبار نکالا تھا۔ اور اُن کے نمائندے ملک بھر میں پھیلے ہوئےتھے، ان سے راجے رجواڑے اور ریاستوں کے حکمران گھبراتے تھے۔ ان کے قسط وار مضامین ناقابل فراموش تھے۔ اس زمانہ میں یہ بات مشہور تھی کہ یاتو برٹش حکومت کے جاسوس سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں یا پھر دیوان سنگھ مفتون کےر پورٹرز۔
مہاشہ کرشن نے 1919ء میں لاہور سے روزنامہ ’’پرتاپ‘‘ جاری کیا تھا۔ وہ مجاہد آزادی بھی تھے۔ اپنے اخبار میں برٹش حکومت کے خلاف لکھنے کی وجہ سے اُنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ تقسیم ملک کے بعد یہ اخبار دہلی منتقل ہوگیا۔ اور اُن کے فرزند کے نریندر نے اُسے پروان چڑھایا۔ اگرچہ اس اخبار کی پالیسی کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن صحافتی خدمات سے کسی کو انکار نہیں۔ اسی طرح مہاشہ خوش حال چند خورسند نے 1923ء میں روزنامہ ’’ملاپ‘‘ لاہور سے جاری کیا۔ یہ اخبار بھی تقسیم ملک کے بعد دہلی آگیا اس کو پروان چڑھانے میں شری رنبیر اور اُس کے ساتھیوں نے بہت اہم رول ادا کیا۔ اور آج بھی یہ دونوں اخبار دہلی سے شائع ہو رہے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں اخبار اپنی عمر کی ایک صدی کو عبور کر چکے ہیں۔
لالہ دیش بندھو گپتانے بھی ملک کی آزادی سےقبل ایک اخبار ’’بیج‘‘ نامی نکالا تھا۔ اس اخبار نے بھی صحافت کے فروغ اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
سردار جگت سنگھ نے 1905ء میں پاکستان کے پنڈی کھیپ سے ایک ماہنامہ رسالہ ’’راہنمائے تعلیم‘‘ آف لاہور جاری کیا تھا۔ 1962ء میں ان کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے سردار ہربھجن سنگھ تھاپر اس کو نکالتے رہے۔ اُنہوں نے بھی اس رسالہ کو ایک صدی تک پہنچا دیا۔ آخری عمر تک اس کے مدیر رہے۔ یہ رسالہ 1947ء تک لاہور سے نکلتا رہا۔ تقسیم ملک کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ دہلی آئے۔ اور یہاں سے اُنہوں نے اس کو نکالنا شروع کیا اور یہ رسالہ بھی ایک سو سال سے بھی زائد عرصہ نکلتا رہا- ان کے انتقال کے بعد یہ رسالہ بھی بند ہوگیا۔
اس کے علاوہ بھی غیر مسلم صحافیوں کی ایک خاصی تعداد ہے جنہوں نے اردو صحافت کی زلف گیر کو سلجھانے میں عمریں گزاردی ہیں۔ ایسے صحافیوں میں پنڈت ہرچند اختر، لالہ جگن نارائن، فکر تونسوی، جمنا داس اختر، من موہن تلخ، خوشترگرامی، ظفر پیامی، سانتی رنجن بھٹا چاریہ، جی ڈی چندن، سوم آنند، نندن کشور وکرم، اور موہن چراغی کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے اردو کا معرکۃ الآراء ’’روزنامہ قومی اخبار‘‘ 1945ء میں جاری کیا تھا۔ اور یہ اخبار بھی اردو زبان کے فروغ، ترقی، ترویج اور صحافت کو فروغ دینے میں ناقابل فراموش کارنامہ سر انجام دیا اور 2008ء تک یہ اخبار باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔
آج بھی بے شمار غیر مسلم صحافی اردو صحافت کی زلف گرہ گیر کو سلجھانے میں مصروف ہیں جن میں خاص طورپر 90 سالہ اوم پرکاش سونی اور ڈی آر مفطر قابل ذکر ہیں۔ اردو صحافت نے اپنی زندگی کے دو سو سال مکمل کر لئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم صحافیوں کے ساتھ اُن غیر مسلم صحافیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جائے۔
(علامہ محمد عمرتماپوری۔ کوآرڈینیٹر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ انڈیا)