ایک ہنستا مسکراتا ہر وقت فریش کبھی نہ بھولنے والا چہرہ۔ اچانک سے خبر ملی کہ سائرہ اب ہم میں نہیں ہے۔ جبکہ اسی دن صبح انہوں نے مجھے سلام ودعا کا پیغام بھجوایا تھا۔ ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر اس مالک حقیقی کی جانب لوٹ گئی ہیں جس کی طرف ہر ایک نے جلد یا بدیر جانا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کرے
بے لوث محبت کرنے والی، ہر ایک کی ہمدرد اور خیر خواہ تھیں۔ بزرگوں سے بھی بہت قریب تھیں۔ انہیں مہمان نوازی کرنا اور دعائیں لینا بہت پسند تھا۔ حلقے میں ہر ایک کا خیال رکھنا ان کا وطیرہ تھا۔ ہر ایک کو ان کے نام کے ساتھ جانتی تھیں۔ اجلاسات میں ہمیشہ اچھا کام کرنے والی بچیوں کو انعام دینا، چاکلیٹ وغیرہ اکثر چھوٹے بچوں کو دینے کے لئے پرس میں رکھی ہوتی تھی۔ بچے بھی ان سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ رمضان میں اکثر گھر درس رکھوایا کرتی تھیں اور ایسے پروگرامز کے انعقاد پر بے انتہا خوش ہوتی تھیں۔ایک بار دعا کے وقت بہت روئیں اور کہنے لگی۔ بس دعا کریں اللہ میاں میری دعاکو قبول کرے۔ اجلاس کے بعد ہمیشہ کسی نہ کسی کو پکڑ رہی ہوتی تھیں کہ گھر چلیں مزیدار چائے پلاتی ہوں۔ سہیلیوں کو اکھٹا کرنے کا بہت شوق تھا اور خوب انجوائے کرتی تھیں۔ جس محفل میں بیٹھتی تھیں خوب رونق لگاتی تھیں۔ اللہ، اس کے رسولؐ اور خلافت کی عاشق تھیں۔ لندن جلسے پر گئیں واپس آنے پر میں نے پوچھا حضور انور سے ملاقات کیسی رہی؟ کہنے لگیں، باجی! کیا بتاؤں؟ مجھے تو خوشی میں سمجھ نہیں آرہی تھی بس ایک ہی خواہش تھی کہ یہ بابرکت چہرہ نظروں سے اوجھل نہ ہو۔ جب حضور انور ملاقات کے اختتام پر بیل دینے لگے تو میں نے ایک دم کہا ’’ہائے پیارے آقا! ابھی نہیں، میں بہت دور سے آئی ہوں۔‘‘ہرحال پیارے آقا کی شفقتیں سمیٹتے ہوئے بہت خوش واپس آئیں۔ شاید حضور انور سے یہ آپ کی آخری ملاقات تھی۔ خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے بہت محبت کرتی تھیں۔ بہت ہی غریب پرور تھیں۔ جب بھی کوئی اسپیشل چیز بناتیں، تین، چار ہمسائیوں کے گھروں میں ضرور بھجواتیں۔ ملازموں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ایک دن ان کی کام والی میرے گھرپہلے آئی۔ ہاتھ میں چھ سات ڈبے پکڑے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ کہنے لگی۔ باجی سائرہ روزانہ جب کھانا بناتی ہیں تو ایک ڈبہ بھر کر میرے بچوں کے لئے بھی دیتی ہیں۔ اب یہ ڈبے میرے گھر اکٹھے ہوگئے تھے وہ واپس لائی ہوں۔ حلقے میں کسی کو مدد کی ضرورت پڑتی تو ہمیشہ تعاون کرتیں۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ ’’آپ‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں اور بچوں کے نیک نصیب کے لئے دعا کا بھی کہا کرتی تھیں۔ بیٹے کی جب جاب شروع ہوئی تو بتاتی تھیں کہ بیٹے نے پہلی تنخواہ لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دی تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے بیٹا! یہ پوری چندے میں دے دیں اسی وقت اللہ کی راہ میں دے دی۔ میاں کی بہت قدر کرنے والی تھیں ان کی خوراک اور اچھے لباس کی بہت فکر ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ سائرہ کی تمام دعائیں، ان کے میاں اور بچوں کے حق میں قبول کرے،ان کے درجات بہت بلند کرے اور اپنے پیاروں کاقرب عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شوہر ڈاکٹر سلطان احمد مبشر ابن مکرم مولانا دوست محمد شاہد مرحوم اور ان کے بچوں کا ہر آ ن حامی وناصر ہو۔ آمین۔
ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلاہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو
میرے میاں مکرم حنیف احمد محمود بطور نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکز یہ حال ایڈیٹر الفضل آن لائن جب اسلام آباد سے ربوہ تشریف لے آئے میں بھی ہمراہ تھی تو مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف ہمارے فیملی فزیشن بن گئے۔ میں نے آپ کی بیگم سائرہ مرحومہ کو فون پر اپنی بیماری کی کیفیت بتا کر ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کرنے کی درخواست کرنی تو تھوڑی دیر بعد ہی پیغام آ جاتا کہ ڈاکٹر صاحب ہسپتال جاتے آپ کو (مجھے) چیک کر لیتے ہیں یا یہ پیغام ہوتا کہ فلاں وقت دفتر میں آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سائرہ کے درجات بلند کرے اور ڈاکٹر صاحب موصوف کو کامل صحت کے ساتھ خدمت دینیہ و انسانیت کرنے کی توفیق دے اور بچوں کے مرحومہ سائرہ کی خواہش کے مطابق مناسب اور نیک رشتوں کا انتظام فرمائے۔ آمین
(زکیہ فردوس۔ برطانیہ)