• 20 اپریل, 2024

رمضان المبارک اور محاسبہ نفس

رغبتِ دل سے ہو پابندِ نماز و روزہ
نظر انداز کوئی حصۂ احکام نہ ہو

اللہ جل شانہ قرآن مجید میں ماہِ رمضان کے روزوں کے بارے میں فرماتا ہے ۔
‘‘اے ایماندارو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔’’

(البقرہ:184)

روزوں کی غرض وغایت تقویٰ کا حصول ہے اور ماہِ رمضان خود احتسابی کا بہترین استاد ہے۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی سب نیکیاں جمع ہو جاتی ہیں۔ نمازیں، تلاوت قرآن کریم، صدقات، خیرات، مالی قربانیاں، تراویح، تہجد، نوافل، اعتکاف، سحری و افطاری اور دیگر نیک کاموں کا دوردورہ ہوتا ہے اور یہ سب کام خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر کرنے ضروری ہیں۔ احادیث میں رمضان اور احتساب نفس کو اکٹھا بیان فرمایا گیا ہے۔ بخاری شریف میں موجود ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَ اِحْتِسَابًا غُفرلہٗ ما تقدّم مِنْ ذَنْبِہٖ یعنی جس نے ایمان کی حالت میں احتساب کرتے ہوئے روزہ رکھا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

(صحیح بخاری، جلد سوم، کتاب الصوم باب من صام رمضان ایماناً)

روزہ دار کو ذکر خدا میں مشغول رہنا چاہئے ۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
‘‘روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا رہے بلکہ خدا کے ذکر میں بہت مشغول رہنا چاہئے’’

(تقاریر جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ20بحوالہ خطبات مسرور جلد 1صفحہ440)

آج کتنی نیکیاں کی ہیں؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے رمضان اور احتساب کے مضمون کو مختلف مواقع پر بیان فرمایا ہے۔ ایک موقع پر آپ فرماتے ہیں۔

‘‘اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا اور تقویٰ کی طرف قدم بڑھنے کا تبھی پتا چلے گا جب اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے۔ دوسرے کے عیب نہیں تلاش کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کر رہے ہوں گے۔ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور کتنی بُرائیاں ترک کی ہیں، کتنی بُرائیاں چھوڑی ہیں۔’’

(خطباتِ مسرور جلد سوم صفحہ 601)

رمضان میں دو بُرائیاں ترک کر دیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

‘‘حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں۔ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں رکھے اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ تو یہاں دو شرطیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ ایمان کی حالت اور دوسری ہے محاسبۂ نفس۔ اب روزوں میں ہر شخص کو اپنے نفس کا بھی محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں میں جائزہ لوں کہ میرے میں کیا کیا بُرائیاں ہیں، ان کا جائزہ لوں۔ ان میں سے کون کون سی بُرائیاں ہیں جو میں آسانی سے چھوڑ سکتا ہوں ان کو چھوڑوں۔ کون کون سی نیکیاں ہیں جو میں نہیں کر سکتا یا میں نہیں کر رہا۔ اور کون کون سی نیکیاں ہیں جو میں اختیار کرنے کی کوشش کروں۔ تو اگر ہر شخص ایک دو نیکیاں اختیار کرنے کی کوشش کرے اور ایک دو بُرائیاں چھوڑنے کی کوشش کرے اور اس پر پھر قائم رہے تو سمجھیں کہ آپ نے رمضان کی برکات سے ایک بہت بڑی برکت سے فائدہ اٹھا لیا۔’’

(خطباتِ مسرور جلد اوّل صفحہ 418)

رمضان بخشش کا مہینہ ہے

ایک روایت ہے حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ‘‘رمضان آ گیا ہے اور اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس میں زنجیروں سے جکڑ لیا جاتا ہے ہلاکت ہو ایسے شخص کی جس نے رمضان کو پایا اور بخشا نہ گیا۔ اگر وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا۔’’

(الترغیب والترھیب کتاب الصوم الترغیب فی الصیام)

ہر بدی کے بدلہ ایک خوبی پیدا کرو

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

‘‘جب آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جہنم کے سارے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں تو ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جنت کے سارے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ صرف منفی پہلو نہیں رکھتا بلکہ اس مثبت پہلو پر بھی نظر رکھیں۔ اور یہ دروازے کھولیں گے تو کھلیں گے۔ اگر آپ نے اپنے حواس خمسہ میں سے ہر ایک کے لئے اس عرصہ میں نیکی کے دروازے نہ کھولے تو جہنم کے دروازے تو بند کر رہے ہوں گے لیکن بے مقصد۔ اس کے بدلے کوئی نیکی کا دروازہ نہیں کھول رہے ہوں گے۔ پس مراد یہ ہے کہ ہر بدی کے بدلہ ایک خوبی پیدا کرو۔ ہر بدصورتی کے بدلہ ایک حسن پیدا کرو اور تیس (30) دن مسلسل اس جدوجہد میں گزار دو کہ تمہاری بدیاں چھٹ کر پیچھے رہ جائیں اور تمہاری نیکیاں رمضان کی برکت سے بڑھتے بڑھتے نمایاں ہو کر غیر معمولی چمک کے ساتھ آگے بڑھیں اور ہر رمضان جو گزرتا ہے وہ پہلے سے بہتر حالت میں تمہیں پائے۔ یہ مقصد ہے روزے کا’’

(خطباتِ طاہر جلد پنجم صفحہ 394)

(نذیر احمد سانول)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ15۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2020