• 11 جولائی, 2025

اداکاری

شیکسپیئر نے کہا تھا ہم سب اداکار ہیں اور دنیا ایک سٹیج۔لیکن میں آج ایک اور پہلو سے یہ بات کرنا چاہتا ہوں۔

یہ سچ ہے کہ جس قدر کوئی رول عام فہم آسان اور روایتی ہوتا ہے وہ ہم آسانی سے کرلیتے ہیں۔ ماں کا رول، باپ کا رول، بھائی بہن شوہر بیوی کے رول۔ ہم کتنی آسانی سے اور کتنی صحت اور خوبصورتی سے یہ رول کرتے ہیں اور پھر ایک دن دنیا کی سٹیج سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتے ہیں وہ رول ہی ہماری پہچان حقیقت اور طول و عرض کی پیمائش ہوتا ہے۔

بعض انسان انہی جیسی وجوہات سے سینکڑوں اور ہزاروں سال تک یاد رکھے جاتے ہیں۔

اسی طرح ہم میں سے بہت سے ڈاکٹر ،انجنئیر، ٹیچر پروفیسر کا رول بھی کرتے ہیں۔ مگر کہاں تک ہم ایک مثالی ڈاکٹر یا آئیڈیل ٹیچر کا رول کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں یہ آسان اور سہل ہرگز نہیں۔

بعض لوگ خدمت کے میدانوں میں اُتر جاتے ہیں لیکن کتنے ہیں جو مدر ٹریسایا، عبدالستار ایدھی کی طرح کامیابی سے اپنا رول ادا کر لیتے ہیں۔

جس قدر کوئی مشکل اور دقیق رول آپ چنیں گے اسی قدر کامیابی کے چانسز کم اور دور تر ہوتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ تاریخ انسانیت میں چند درجن نہایت مختلف قسم کے نابغہ روزگار انسان گزرے ہیں۔ جو عرف عام میں اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول کہلاتے ہیں۔ نوح ، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، موسی ٰاور عیسٰی علیہم السلام اور ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

سب سے مشکل اور پیچیدہ رول وہ ہے جو ان بلند پایہ اور اعلیٰ مرتبہ جلیل القدر انسانوں نے اپنی مختصر زندگیوں میں رقم کیا ہے۔ جب تک ہم ایک نہایت بلند علمی اخلاقی اور عملی ترقیات کی حد پار نہیں کرلیتے اور اپنے نفس اور شہوات اور خواہشات کو مکمل طور پر بلند تر آسمانی روشنی سے منور نہیں کر لیتے۔ ان جلیل القدر اور پاک بزرگوں کا رول ہم کہاں ادا کرسکتے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ جب تک دینی اور مذہبی پیشوا اور رہنما اپنے نبی متبوع کے ہم رنگ اور مشابہ نہ ہوں۔ یہ رول ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایک حد تک مشابہت اور مماثلت لازم ہے۔

یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ مذاہب کے مدعی اور علماء راہب اور پیشوا اپنے اپنے متبوع سے کوئی مشابہت نہ رکھنے کی وجہ سے محض ایک مکروہ اداکاری کرتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے، ایک ظاہری طمطراق، جبہ و دستار پگڑیوں اور عماموں کے سوا کچھ نہیں رکھتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے سامنے سر دھننے والے ان گنت سامعین کسی حقیقی تبدیلی سے نہیں گزرتے بلکہ قصے کہانیاں سن کر اپنے خوشیوں کا سامان کرتے ہیں –

میرے آقا نے فرمایا تھا۔ ’’علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائی‘‘

یعنی جس طرح انبیاء بنی اسرائیل اپنے نبی متبوع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامل نقش قدم پر چلے تھے اگر میری امت کے ایسے علماء ایسا کریں گے تو وہ بھی اپنے مراتب میں انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہوں گے –

یہ ایک بہت بڑی خوش خبری تھی۔

گویا علماء کے مراتب نہایت بلند ہیں اگر وہ اپنے نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر ہوں اور اپنے اعمال اور اخلاق میں یہ عظیم الشان مشابہت رکھتے ہوں۔ ورنہ آپ کو نہایت مکروہ اداکاری کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا اور اکثریت اپنی گندی زیست اور نقالی کی وجہ سے سور اور بندر نظر آئیں گے ۔

(قال رسول اللّٰہ تَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ فَزْعَۃٌ فَیَصِیْرُالنَّاسُ اِلَی عُلَمَاءِھِمْ فَاِذَا ھُمْ قِرَدَۃٌ وَ خَنَازِیْرُ)

مذہب اور خداتعالیٰ کی ذات سے دنیا والوں کو بدظن کرنے والے اور دنیا میں دہریت پھیلانے کے اصل ذمہ دار درحقیقت یہی مذہبی اداکار ہیں خواہ وہ مسلمانوں کے مذہب کے ایسے پیشوا ہوں یا یہودی عیسائی یا ہندی مذاہب کے پیشوا ہوں- کاش ہمارے نوجوان اس حقیقت کا ادراک حاصل کریں۔ سب سے بڑا دھرم سچ ہے۔

(ڈاکٹر محمد علی)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ15۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2020