• 11 جولائی, 2025

مقصد صيام حصول تقویٰ

ایک مومن جو بھی کام کرتا ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا اور سب چاہنے والوں سے زیادہ خیال رکھنے والا، اس کا خالق و مالک اس سے راضی اور خوش ہو کر اسے اپنی رضا کی جنتوں کا وارث بنائے۔ روزه اسلامی عبادات کا دوسرا اہم رکن ہے ۔ جس میں اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مد نظر ہوتی ہے۔سیدنا حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔

‘‘ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں’’

(فتاویٰ احمدیہ صفحہ 183)

جس طرح دنیا کے موسموں میں بہار کے موسم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اسی طرح روحانی دنیا میں رمضان کے مہینہ میں گویا بہار کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ روزوں کا مقصد اخلاقی اور روحانی بیماروں کو دور کر کے ایک انسان کو صرف باخدا انسان بنانا مقصود ہے بلکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے ، اس سے پیار کرنے والے، اس کی محبت کے متلاشی ، اس ماہ مبارک کی برکت سے خدا نما وجود بن جائیں۔ الله تعالی ٰقرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے ۔ يٰاَیُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( البقرہ:184) اے وہ لوگ جو ایمان لائے ہو!تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو۔
ماه رمضان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریم ﷺفرماتے ہیں۔ هُوَ شَهْرٌ اَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَاَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔ یعنی وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت سے نجات دلانے والا ہے۔

(صحيح ابن خزيمہ كتاب الصيام ۔ باب فضائل شهر رمضان)

سنو سنو!تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے

اسی طرح ہمارے سید ومولیٰ حضور نبی پاک ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ‘‘سنو سنو ! تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے۔یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے اس کے روزے اللہ تعالی ٰنے تم پر فرض کر دیئے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جا تا ہے اور اس میں ایک رات ایسی مبارک ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی برکت سے محروم رہا تو سمجھو کہ وہ نامرادر ہا۔’’

(نسائی کتاب الصوم)

روزه صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہيں

رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ ہر قسم کی بیہودہ باتیں کرنے اورفحش بکنے سے رکنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے ۔ پس اے روزہ دار !گر کوئی شخص تجھے گالی دے یا غصہ دلائے تو تو اسے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ جو شخص روزہ دار ہونے کے باوجود گالی گلوچ کرتا ہے تو اس کا روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہے جس سے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

(دارمی بحوالہ مشكوة صفحہ 177)

حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں۔
‘‘رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضا مندی کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ قرآن شریف روزہ کی اصل حقیقت اور فلاسفی کی طرف خوداشارہ فرماتا اور کہتا ہے کہ يٰاَیُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کوتقویٰ سیکھنےکی تم کو عادت پڑ جائے۔ ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قراردیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نےمطلق اجازت نہیں دی۔ اور وہ حرام کھاوے، پیوے اور بدکاری اور شہوت کو پورا کرے۔’’

(الحكم 24 جنوری 1904ء)

رمضان کی وجہ تسمیہ

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ماه رمضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

‘‘رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔ رمضان میں چونکہ انسان اكل وشرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے ۔ دوسرے اللہ تعالی ٰکے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلایا ۔ میرے نزدیک درست نہیں ہے۔ کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہوسکتی ۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے ۔ رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر گرم ہوجاتے ہیں۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ 136)

روزہ کی حقیقت

امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
‘‘ روز ہ اتنا ہی نہیں کہ انسان اس میں بھوکا پیاسا رہتا ہے۔ بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اورکشفی قوتیں بڑھتی ہیں خدا تعالی ٰکا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کوکم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی حاصل کرے جوروح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102)

رمضان برکتوں والا مہینہ ہے

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہماری رہنمائی کرتے ہوئےفرماتے ہیں۔
‘‘رمضان برکتوں والا مہینہ ہے ان لوگوں کے لئے جو خالص ہوکر اللہ تعالی ٰکی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں ۔ یہ برکتوں والا مہینہ ہے ان لوگوں کے لئے جو الله تعالی ٰکے احکامات پرعمل کرتے ہوئے ہر اس نیکی کوبجالانے کی کوشش کرتے ہیں اور بجالاتے رہے ہوتے ہیں جس کے کرنےکا اللہ تعالی ٰنے حکم دیا ہے اور ہر اس برائی کوچھوڑ رہے ہوتے ہیں جس کو چھوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ۔ بلکہ بعض جائز چیزوں کو بھی ایک خاص وقت کے لئے چھوڑ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے چھوڑنے کا علم دیا ہے۔’’

تقویٰ کیا ہے ؟

اللہ تعالی ٰفرماتا ہے کہ یہ روزوں کی فرضیت اور بعض چیزوں سے بھی پرہیز اس لئے ہے کہ تا کہ تم تقویٰ میں ترقی کرو اور تقوی کیا ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ گناہوں سے بچو گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو اور اس طرح بچو جس طرح کسی ڈھال کے پیچھے چھپ کر بچا جا تا ہے اور انسان جب کسی چیز کےپیچھے چھپ کر بچنےکی کوشش کرتا ہے تو اس میں ایک خوف بھی ہوتا ہے ۔ جس حملے سے بچاجا رہا ہوتا ہے اس کے خوف کی وجہ سے وہ پیچھے چھپتاہے تو فرمایا کہ روزے رکھو اورروزے رکھنے کا جوحق ہے اس کو ادا کرتے ہوئےرکھوتو تقویٰ میں ترقی کروگے۔

خدا تعالیٰ کو تمہیں بهوکا رکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے

ایک روایت میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو تمہیں بھوکا رکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ الله تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم نے جو غلطیاں اور گناہ کئے ہیں ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے میں نے ایک راستہ تمہارے لئے بنایا ہے تا کہ تم خالص ہو کر دوبارہ میری طرف آؤ اور ان روزوں میں رمضان میں روزہ رکھنے کا حق ادا کرتے ہوئے میری خاطرتم جائز باتوں سے بھی پرہیز کررہے ہوتے ہو اور تمہاری اس کوشش کی وجہ سے میں بھی تم پر رحمت کی نظر ڈالتا ہوں اور شیطان کو جکڑ دیتا ہوں تا کہ تم جس خوف کی وجہ سے روزہ رکھتے ہو اور روزہ رکھتے ہوئے اس ڈھال کےپیچھے آتے ہو، تقویٰ اختیار کرتے ہو تا کہ اس میں تم محفوظ رہو اور ہمیں شیطان کوئی نقصان نہ پہنچا سکے تو فرمایا کہ یہ تقو یٰ جوہے، یہ ڈھال جو ہے ، یہ شیطان کے حملوں سے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش جو ہے ، یہ ہمارے روزے رکھنے کی وجہ سے تمہاری حفاظت کررہی ہے ۔ اس لئے ایک معاہدہ کر کے جب تم اس حفاظت کے حصار میں آ گئے ہو تو اب اس میں رہنے کی کوشش بھی کرنی ہے ۔ اب اس حصار کو ،اس تقویٰ کو الله تعالیٰ کے احکامات پرعمل کرتے ہوئے مضبوط سے مضبوط تر کرتا ہے اور جو پہلے ہی نیکیوں پر قائم ہوتے ہیں وہ روزوں کی وجہ سے تقویٰ کے اور بھی اعلیٰ معیار حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور ترقی کرتے کرتے الله تعالیٰ کے انتہائی قرب پانے والے بنتے چلے جاتے ہیں ۔’’

(الفضل 18ستمبر2008ء)

قبولیت دعا کا خاص مہینہ

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
اس مہینہ میں قرآن شریف کی تلاوت کی طرف خاص توجہ دی جائے اور بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید کے دو دور کئے جائیں ورنہ کم از کم ایک تو ضرور ہو اور ہر رحمت کی آیت پر خدائی رحمت طلب کی جائے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کیا جائے۔ اس مہینہ میں دعاؤں اور ذکرالٰہی پربھی بہت زور ہونا چاہئے اور دعا کے وقت دل میں یہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ ہم گویا خدا کے سامنے بیٹھے ہیں یعنی خدا ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں ۔ دعاؤں میں اسلام اور احمدیت کی ترقی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی صحت اور درازی عمر اور سلسلہ کے مبلغوں اور کارکنوں اورقادیان کے درویشوں اور ان کے مقاصد کی کامیابی کو مقدم کیا جاوے۔ عمومی دعاؤں میں رَبَّنَا اٰتِنَا فِيْ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِيْ الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔بڑی عجیب و غریب دعا ہے اوراس کی تشہیر کے لئے لَا اِلٰهَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ غیرمعمولی تا ثیررکھتی ہے۔ اور استعانت باللہ کے لئے یَا حَیُّ یَاقَيُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ۔ کامیاب ترین دعاؤں میں سے ہے اور سورہ فاتحہ تو دعاؤں کی سرتاج ہے ۔

(روزنامہ الفضل 9مارچ 1960ء)

روزہ کب رکهنا چاہئے

رمضان کے روزوں کے لئے حکم ہے کہ جب تک ماہ رمضان کا چاند نظر نہ آجائے روزہ نہ رکھو۔ یہ رویت نظری بھی ہوسکتی ہے اورعلمی بھی۔ رویت علمی کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ شعبان کے پورے دن گزر چکے ہوں یا باتفاق علماء امت یا ایسا حسابی کیلنڈر بنایا جائے جس میں چاند نکلنے کا پورا پورا حساب ہو اور غلطی کا امکان نہ رہے۔

جو صبح سے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے اس کا کوئی روزه نہیں

جو روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے روزہ کی نیت ضرور کرنی چاہئے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ مَنْ لَّمْ يُجْمِعِ الصَّوْمَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ (ترمذی کتاب الصوم)جو پہلے روزہ کی نیت نہ کرے اس کا کوئی روز ہ نہیں ۔ یاد رہے کہ نیت کرنے کے لئے کوئی معین الفاظ زبان سے ادا کرنے ضروری نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ دراصل دل کے اس ارادے کا نام ہے کہ کس کے لئے کھانا پینا چھوڑ رہا۔

لوگ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے اس وقت تک خیر و برکت، بھلائی اور بہتری حاصل کرتے رہیں گے ۔

( بخاری باب تعجیل الافطار)

(باسل احمد بشارت)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ15۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2020