ارضی و سماوی(خلائی) مخلوق کےآپس میں ملائے جانے کی پیشگوئی اجرام فلکیہ میں آبادیوں کےمتعلق قرآنی شہادت
‘‘خدا تعالیٰ زمین اور آسمانوں کی مخلوق کو ملانے پر قادر ہے’’
ابھی چند روز قبل ایک مضمون نظر سے گزرا کہ ناسا امریکہ کےسائنسدانوں نے اپنے ایک خلائی جہازKepler Spacecraft جو کہ دراصل ایک دوربین ہے یا ایک خلائی درسگاہ ہےجس کو ہمارے نظام شمسی کے علاوہ سیاروں کے ڈھونڈنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا،اس سے بھیجے جانے والے موادسے کسی دوسرے نظام شمسی میں ہماری زمین جیسےاور اس کے برابرایسے سیارے exoplanet کا پتہ لگایا ہے جس پر زندگی کے آثار یا زندگی کی موجودگی کی حمایت میں کچھ معلومات ملی ہیں۔ گوناسا نے اپنے اس خلائی مشن کو نومبر 2018ء میں ختم کر دیا تھا لیکن اس سے ابھی بھی حیران کن دریافتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس سیارہ کو کیپلر۔1649c کا نام دیا گیا ہے جو کہ ہمارے سورج کی نسبت نسبتًا ٹھنڈے اورسُکڑتے ہوئےستارے (red dwarf star) کے گرد گھومتا ہے جو کہ زمین سے300 نوری سال کی دوری پر ہے۔اور یہ اپنے مدار میں اپنے سورج کے گرد19.5زمینی دنوں میں اپنا چکر مکمل کر لیتا ہے۔چنانچہ سائنس دانوں کے مطابق یہ اس اجنبی سیارے کی بالکل صحیح رفتار ہے اور اس کی سطح پر مائع پانی کا ہونا ممکنات میں ہےلہٰذایہ قابل رہائش علاقہ تصور کیا جا سکتا ہے ۔یہ ایک علیحدہ ،انتہائی دلچسپ اور لمبا مضمون ہے۔
اس تناظر میں آج کے اس مضمون کا تعلق اس امر سے ہے کہ کیا اجرام فلکیہ میں آبادیوں کے متعلق قرآنی شہادت موجود ہے؟
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
وَمِنْ آَيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ۔
( الشوریٰ: 30)
ترجمہ: اور اس کے نشانات مىں سے آسمانوں اور زمىن کى پىدائش ہے اور جو اس نے ان دونوں مىں چلنے پھرنے والے جاندار پھىلا دىئے اور وہ انہىں اکٹھا کرنے پر خوب قادر ہے جب وہ چاہے گا۔
کیا خلائی مخلوق نے کبھی ہماری زمین کا سفر کیا ہے؟ کیا خدا کی مخلوق ہماری زمین سے باہر بھی پائی جا سکتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ بھی اسی خدا کو مانتے ہیں جس کو ہم اس زمین پر مانتے ہیں؟ کیا خدا تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق ہے اس مخلوق کو اپنے گناہوں کے کفارہ کا موقع دے گا؟
کیا وہاں پر بھی ایک عیسیٰ ہو گا جو ان کے گناہوں کا کفارہ بنے گا۔ جب کہ بائیبل کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ صرف زمین پر بسنے والے انسانوں کے لئے مختص تھا۔ کیا ہر دنیا کا خدا ایک ہی ہے؟
تو اتنی ساری دنیاؤں اور ان کے اتنے ہی خداؤں کا مسئلہ حل طلب ہے۔بعض تو اس یقین سے پُر ہیں کہ ہماری زمین پر موجود مذاہب میں خلائی مخلوق کے خداؤں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر فلکیات کارل ساگان Carl Sagan اپنی کتاب کاسموسCosmos (جو کہ آج کل آؤٹ آف پرنٹ ہے)میں لکھا ہے کہ سردست کہیں اور اَن گنت دنیائیں آباد ہیں اور ہر دنیا کا اپنا ہی خدا ہے۔ جو کہ اپنی ہی دنیا کے بارہ میں سوچتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بندے خدا تعالیٰ کی ضرورت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ بندوں کی ضرورت ہے۔
اکیسویں صدی میں خلائی زندگی کے بارہ میں بحث باقاعدہ سائنس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اور پچھلے چند سالوں میں ماہرین فلکیات کے ستاروں کے گرد سیاروں کی دریافت کے باعث مستقبل قریب میں زمین کے علاوہ زندگی کے آثار پانے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اور یقیناً خلائی زندگی کے بارہ میں یہ دریافت بہت کچھ بلکہ ہو سکتا ہے کہ سب کچھ بدل کر رکھ دے گی اور یہ زمین پر پائے جانے والے کئی مذاہب کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بارہ میں ماضی قریب میں ایک پرائیویٹ فرم
SETI (The Search for Extra-Terrestrial Intelligence) سائنس کے دائرہ میں ہی رہ کر کام کر رہی ہے لیکن اس کے نتائج صرف بیالوجی اور فزکس تک محدود نہیں رہے۔
یہ سوال عام طور پر اٹھایا جا رہا ہے کون سا مذہب آسانی سے اس تبدیلی کو اپنانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ واضح ہو کہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو اس کا حل پیش کرتا ہے۔جس کا دعویٰ ہے کہ
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ۔
(الصف:10)
ترجمہ: وہى ہے جس نے اپنے رسول کو ہداىت اور دىن حق کے ساتھ بھىجا تاکہ وہ اُسے دىن (کے ہر شعبہ) پر بکلىّ غالب کردے خواہ مشرک بُرا منائىں۔
اس آیت میں ا ٓنحضرت ﷺ کے عالمی نبی ہونے کا وضاحت سے ذکر موجود ہے ا ٓنحضرتﷺ عالمی نبی ہیں۔آپ کسی ایک دین کے ماننے والوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے بلکہ تمام جہانوں میں ظاہر ہونے والے ہر دین کے پیرو کاروں کے لئے مبعوث فرمائے گئے ہیں اور ان پر غلبہ پائیں گے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فٹ نوٹ نمبر3 صفحہ1026)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
‘‘یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہو گی۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ232)
قرآن کریم کا تو آغاز ہی اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (الفاتحہ:2) سے ہوتا ہے۔یہاں رَبِّ الْعَالَمِينَ کہہ کر یہ بتا دیا کہ ہماری دنیا کے علاوہ اور بھی دنیائیں آباد ہیں جن سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لیکن یہ کتنی ہیں؟ اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ۔ (المدثر:32 ) کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اس کی مخلوق کا پُورا علم نہیں رکھتا۔ وہی ہے جو اپنے لشکروں کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔
اسی طرح سورۃ المعارج کی آیات 41۔42 میں بھی یہ حیرت انگیز نقظۂ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری طرح قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو انسانوں سے بہتر مخلوق اس دنیا میں لے آئے۔
(تفسیری نوٹ آیت المعارج:41۔42بحوالہ قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمدخلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 1076)
اس وقت تک خلائی زندگی کا وجود محض خیالی ہے کیونکہ ابھی تک کسی بھی سیارے پر اس کا ثبوت نہیں مل سکا۔گو سائنسدان اس کے قائل ضرور ہوتے جا رہے ہیں ۔لیکن وہ اس بات کے قائل ہیں کہ اگر غیر ارضی وجود موجود ہے تو پھر وہ بھی کائنات میں مختلف جگہوں پر اپنے اپنے طور پر ایک دوسرے سے آزادانہ ارتقائی مراحل طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔
بلکہ کارل ساگان کے مطابق خلائی مہم کے نتیجہ میں براہ راست بہت سے فلسفیانہ اور مذہبی سوالوں نے جنم لیا ہے۔اس لئے اس امر کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے عقائد اس نئی مخلوق کو اپنے اندر سمو سکتے ہیں۔یا یہ کہ کہیں یہ ہمارے عقائد کی بنیادیں ہی نہ ہلا دیں۔
کائنات کے بارہ میں قرآنی نظریہ پرانے زمانہ کے فلاسفروں اور دانش مندوں کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے۔ قرآن کے نزول کے وقت فلکیات کے بارہ میں دنیا یونانی علم سے متاثر تھی۔ نکولس کاپرنیکس کے زمانہ تک دنیا میں یہی علم رائج رہا۔ یا دنیا اسی علم کے زیراثر رہی۔ ان کے خیال میں زمین چپٹی اور بالکل ساکن خیال کی جاتی تھی۔نہ تو یہ اپنے محور کے گرد اور نہ ہی کسی اور سیارے کے گرد گھومتی تھی۔ بلکہ آسمان اس کے گرد گھومتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کی خلاء میں اپنی ایک مخصوص حیثیت اور پوزیشن تھی اور خلا میں کہیں بھی اس جیسی کسی اورزمین کا کوئی وجود نہیں تھا۔
ظاہر ہے کہ کائنات کے اس تصور کے ساتھ زمین کے علاوہ کہیں اور زندگی کے وجود کا امکان ناممکن نظر آتا ہے۔ اس وقت لوگوں کے خیال میں صرف زمین ہی رہنے کے قابل جگہ تھی۔ لیکن اس کے برعکس قرآن کریم ایک سے زیادہ زمینوں کے بارہ میں اعلان کرتا ہے:
اَللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ۔ (الطلاق:13)
ترجمہ:اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پىدا کئے اور زمىنوں مىں سے بھى اُن کى طرح ہى۔
( اردوترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمدخلیفۃ المسیح الرابعؒ)
سات کا ہندسہ (جو کہ ایک مکمل ہندسہ ہے) قرآن کریم کی اس آیت میں اور کئی اور جگہوں پر خصوصی طور پر استعمال ہوا ہے۔ یہاں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ کائنات کئی جہانوں (galaxies)پر مشتمل ہے اور ہر جہاں سات حصوں میں منقسم ہے جس میں سے ہر حصہ کی کم از کم اپنی ایک زمین ہے اور اس گلیکسی کا سارا نظام اس کی مدد پر متعین ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ سات کے عدد سے مراد ایسا عدد ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے جیسا کہ ہفتہ ہر سات دن بعد دہرایا جاتا ہے۔
(تفسیری نوٹ آیت المومنون:18بحوالہ قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمدخلیفۃ المسیح الرابعؒ )
اس سے مراد اَن گنت جہان بھی ہو سکتے ہیں۔قرآن کریم اس نظام کے حوالے سے عموماًاور خلا میں زندگی کی موجودگی کے بارہ میں خصوصاً فرماتا ہے:
وَمِنْ آَيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ۔ (الشوریٰ: 30)
ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ :اور اس کے نشانات مىں سے آسمانوں اور زمىن کى پىدائش ہے اور جو اس نے ان دونوں مىں چلنے پھرنے والے جاندار پھىلا دىئے۔
یہاں دَابَّةٍ سے مراد زمین پر رینگنے والے اور چلنے والے تمام جاندار مراد ہیں ۔ہاں ہوا میں اڑنے والے اور پانی میں رہنے والے جانور اس میں شامل نہیں ہیں۔ روحانی مخلوق بھی ، فرشتے بھی اس مخلوق میں شامل نہیں۔ آیت کے دوسرے حصہ میں نہ صرف خلا میں زندگی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے بلکہ واضح طور پر اس کی موجودگی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ وہ دعویٰ ہے جس کے بارہ میں دور حاضر کے جدید ترین سائنسی محققین بھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس وقت تو انسان حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کر رہ جاتا ہے جب اس آیت کے آخری حصہ پر پہنچتا ہے کہ
وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ۔ (الشوریٰ: 30)
ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ :اور وہ انہىں اکٹھا کرنے پر خوب قادر ہے جب وہ چاہے گا۔
عربی میں جَمْعِهِمْ خاص طور پر ارضی زندگی اور دنیا میں کہیں اورموجود زندگی کو ملانے کے بارے میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ملاپ کب، کیسے اور کہاں ہوگا ۔ اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اسی زمین پر ہی ہو گا یا کہیں اور؟ ایک بات تو یقینی طور پر بیان کی گئی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت ہو گا جب اللہ چاہے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں لفظ جَمْعَ سے مراد جسمانی ملاپ بھی ہو سکتاہے اور مواصلاتی رابطہ بھی۔ یہ تو مستقبل ہی بتائے گا کہ یہ رابطہ کب اور کہاں ہو گا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس واقعہ کے متعلق تقریباًچودہ سو سال قبل کیا گیا دعویٰ بذات خود ایک معجزہ سے کم نہیں۔
قرٓن مجید نے یہ پیشگوئی اس وقت کی تھی جب کہ علم کائناتCosmology کا تصور بھی نہیں تھا۔ خلاء میں زندگی کے امکان پر غور و فکر سے قبل خیالی تصورات کا ایک لمبا زمانہ تھا۔درحقیقت آج بھی ایسے دعوؤں کا ذکر صرف سائنسی افسانوں میں ملتاہے۔سائنسدان خلا میں زندگی کے بارہ میں ابھی تک اپنے پُرانے نظریات سے نجات نہیں پا سکے۔ ابھی تک اس بارہ میں کوئی حتمی ثبوت نہیں ملا۔ سائنسدان ابھی تک اتفاقات کی باتیں کرتے ہیں۔
گلاسگو یونیورسٹی کے پروفیسر رائے (Prof Roy) اس میدان میں ایک مشہور اور سرگرم سائنسدان ہیں۔ لکھتے ہیں:
“خلائی زندگی کے مسئلہ پرمختلف بین الاقوامی کانفرنسز میں اس سوال پر بحث ہوئی ہے اور واضح ہو گیا ہے کہ نہ صرف یہ ممکن ہے کہ ہم خلائی مخلوق کے بھجوائے ہو ئے سگنل کو پہچان سکتے ہیں بلکہ ان سے مواصلاتی رابطہ اور معلومات کا تبادلہ بھی کر سکتے ہیں۔”
( ROY, A. E., CLARKE, D. (1989) Astronomy: Structure of the Universe. Adam Hilger Ltd., Bristol, p.270)
لیکن ہر کوئی ڈاکٹر رائے کے اس مضمون پر ان کے جوش و خروش سے متفق نہیں ہے۔ مثلاً ٹیولین یونیورسٹی ۔ Tulane University, New Orleans سےڈاکٹر فرینک ٹپلر Dr. Frank Tiplerاس خیال سے بالکل متفق نہیں اور خلائی زندگی پر یقین نہیں رکھتے۔
(TIPLER, F. (November, 1991) Alien Life. Nature: 354:334–335)
اس تمام مخالفت کے باوجود سائنسدانوں کا یہ خواب کسی حد تک حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا (NASA) نے اس پر بڑی تیزی سے کام کیا ہے۔ بین الاقوامی شہرت کے مالک پروفیسر ساگان جیسے سائنسدان بھی اس خیال کے حامی ہیں۔
( Mc KIE, R. (September, 1985) Calling Outer Space: Is Anybody There? Readers Digest: 31–35)
کیا یہ حیران کن نہیں کہ چودہ سو سال قبل قرآن کی پیشگوئی آج ایک ممکنہ حقیقت بنتی چلی جا رہی ہے۔ قرآن تو ایک قدم اور آگے ہے کہ ایک دن انسان خلائی مخلوق سے تعلق پیدا کر لے گا ۔ اگرچہ اس وقت تک اس قرآنی پیشگوئی سے مکمل شعور تو حاصل نہیں ہؤا مگر اس کے ظہور کے اشارے افق پر صاف نظر آ رہے ہیں۔
اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآنی پیشگوئیاں انسانی سائنسی ترقی سے بہت آگے ہیں۔ ہر نیا دور مزید پیشگوئیوں پر شاہد بن کرآتا ہے جن کی پچھلا زمانہ کسی بھی طریق سے تصدیق نہیں کر پاتا۔پس یہ حقیقت ہے کہ قرآنی پیشگوئیاں بنیادی طور پر ان سائنسی پیشگوئیوں سے مختلف ہیں جن کا تعلق صرف افسانوں سے ہے۔
بہرحال قرآن مجید کا اعلان ہے کہ زمینوں اور آسمانوں میں ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہوتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔(الحشر:25)یعنی آسمانوں اور زمین کی ہر چیز خدائے عزیزو حکیم کی تسبیح کرتی ہے۔پھر فرمایا وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ۔ (الروم: 19) یعنی اور سب تعرىف اُسى کى ہے آسمانوں مىں بھى اور زمىن مىں بھى، اور رات کو بھى اور اس وقت بھى جب تم دوپہر گزارتے ہو ۔اسی طرح فرمایا وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ ۔(الزخرف:85)ترجمہ۔ اور وہى ہے جو آسمان مىں معبود ہے اور زمىن مىں بھى معبود ہے اور وہى بہت حکمت والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے۔ایسی بیسیوں آیات قرآن مجید میں ہیں جو مومن کی نگاہ کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں کی بلندی پر لے جاتی ہیں۔ قرآن نے اسے توجہ دلائی ہے کہ وہ زمین کے علاوہ آسمانوں کے رموز و اسرار کی کنہ تک پہنچے۔ جیسا کہ فرمایا الَّذِين َيَذْكُرُونَ اللّٰهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ (آل عمران:192) ترجمہ۔ وہ لوگ جو اللہ کو ىاد کرتے ہىں کھڑے ہوئے بھى اور بىٹھے ہوئے بھى اور اپنے پہلوؤں کے بل بھى اور آسمانوں اور زمىن کى پىدائش مىں غوروفکر کرتے رہتے ہىں (اور بے ساختہ کہتے ہىں) اے ہمارے ربّ! تُو نے ہرگز ىہ بے مقصد پىدا نہىں کىا پاک ہے تُو پس ہمىں آگ کے عذاب سے بچا ۔
اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ ۔ (یونس: 7) ترجمہ۔ ىقىناً رات اور دن کے اَدلنے بدلنے مىں اور اس مىں جو اللہ نے آسمانوں اور زمىن مىں پىدا کىا اىک تقوىٰ کرنے والى قوم کے لئے بہت سے نشانات ہىں ۔
وہ قارئین جو اس مضمون میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ درج ذیل چند قرآنی آیات کا مطالعہ کر سکتے ہی جن سے صاف طور پر مترشح ہوتا ہے کہ زمین کے علاوہ آسمانی اجرام میں بھی اللہ تعالیٰ کی با شعور مخلوق موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہے۔ مثلا؛سورۃ النحل:50، سورۃ الانبیاء:20،سورۃ آل عمران:84 ، سورۃ الاسراء:45،سورۃ الرعد:16، سورۃ یونس:67، سورۃ الحج:19، سورۃ المومنون:72، سورۃ النور:42۔43، سورۃ الروم:27،سورۃ الفتح:5 ، سورۃ الجاثیہ 37۔38، سورۃ الرحمٰن:30، سورۃ الزمر:69 ، سورۃ الاعراف:186، سورۃ نوح: 16۔17، سورۃ النازعات 28۔30، سورۃ التکویر:11۔12، سورۃ الرحمٰن:34، سورۃ الشوریٰ:30
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آسمانی اجرام میں بھی اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پیدا کر رکھی ہے اور وہاں پر بھی خدائی نظام جاری ہے جس کے تحت اس کی تسبیح و تحمید ہوتی ہے۔ اور اس وقت جب اللہ چاہے گا ایسا ہونا ممکن ہے کہ زمینی انسانوں اور اجرام کی آبادیوں میں اتصال اور رابطہ پیدا ہو جائے۔
قرآن مجید کا یہ بیان قرآن مجید کی ایک عظیم الشان صداقت ہے اور اس کے عالمگیر کلام ہونے پر محکم دلیل ہے۔ آخر میں اس حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد پیش خدمت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘بعض ایسی خبریں ہیں مستقبل کے متعلق اور حالات کے متعلق کہ صحابہ شاید اس وقت اس کا اندازہ بھی نہ کر سکتے ہوں۔ مثلاً جیسے فرمایا کہ وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ (التکویر:12)اور جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی۔ اب ا ٓسمان کے رازوں کی جستجو کرنے والے گویا آسمان کی کھال ادھیڑنے کے برابر ہی کام ہے۔ زمانہ قدیم میں اجرام فلکی کو انسان ظاہری آنکھ سے ہی دیکھ سکتا تھا۔ ابھی تک دوربین وغیرہ کی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ پھر 1906ء میں اٹلی کے سائنسدان گلیلیو(Galileo Galilei) نے دوربین ایجاد کی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اجرام فلکی کے بارہ میں کئی دریافتیں کرنی شروع کیں جس میں Sun Spotsچاند پر پہاڑ اور مشتری (Jupiter) کے چار چاندوں کا انکشاف تھا۔ اسی طرح گلیلیو اور دوسرے ماہرین نے آسمان میں موجود اجرام کے بارہ میں بڑی تفاصیل بیان کیں(انسائیکلو پیڈیا بر ٹینیکا زیر لفظ (Astronomy ۔’’
(خطبات مسرور جلد اول صفحہ 29)
پس جیسا کہ مضمون کے آغاز میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے نشانات مىں سے آسمانوں اور زمىن کى پىدائش ہے اور جو اس نے ان دونوں مىں چلنے پھرنے والے جاندار پھىلا دىئے اور وہ انہىں اکٹھا کرنے پر خوب قادر ہے جب وہ چاہے گا۔( الشوریٰ:30 ) ۔ جس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ارضی مخلوق کے علاوہ آسمانوں میں بھی جاندار مخلوق موجود ہے۔آسمانی مخلوق سے رابطہ ابھی تک محض ایک خواب ہے لیکن سائنس بڑی سرعت سے اس سمت بڑھ رہی ہے۔سائنسدان اس آسمانی مخلوق کی موجودگی کا پتہ لگا نے کے لئے پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔اگلا قدم ان کے ساتھ رابطہ کا ہے۔ یہ پیشگوئی اپنے وقت پرپوری ہو کر رہے گی۔یاد رہے کہ دو رِ حاضر میں سائنس نے جتنی بھی ترقی کی ہےوہ محض الہام الہٰی کے نتیجہ میں ہے۔یہ خیال بھی دل میں لانا غلط ہے کہ انسانی عقل بغیرالہام کی روشنی کےیہ حیرت انگیزاختراعات وجود میں لا سکتی ہے۔قرآن کے علاوہ کسی مذہبی کتاب میں اس عظیم سائنسی حقیقت کا ذکر نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآ ن مجید کی ا ن صداقتوں اور شہادتوں کو سمجھنے کی بھرپور توفیق عطا فرمائے۔ اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ عظیم الشان پیشگوئی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر پوری ہواور اللہ تعالیٰ کی توحید کائنات کے کونے کونے میں قائم ہو۔آمین
(پروفیسر مجید احمد بشیر)