میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور مَیں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے۔ میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں۔ اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگرمَیں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں۔ اور اس کے لیے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیرنہ کروں۔ اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر مَیں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں۔ بلکہ مجھے چاہئے کہ مَیں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لیے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزدہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ مَیں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں بر جبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو۔ جب تک وہ اپنے تئیں ہر یک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہوجائیں خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہےاور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے۔ اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں۔ اور غصہ کو کھالینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ395تا396)