• 3 مئی, 2024

فرانس میں تبلیغ اسلام احمدیت

روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے دنیا میں اور بطور خاص فرانس میں سیاست کی راہ داریوں، سفارتی ملاقاتوں، پریس میڈیا کے ماحول میں اور کانفرنسز کی تقاریر میں یہ جنگ کسی نہ کسی لحاظ سے زیرِ بحث رہتی ہے۔موضوع گفتگواگر برائے راست روس اور یوکرین کی جنگ نہ بھی ہو تو گھوم گھما کے سوالات و جوابات اور تبصروں کی تان اس موجودہ جنگ کے ماقبل و مابعد ممکنہ حالات پرٹوٹتی ہے۔

بعض لوگ تواس موجودہ جنگ کے نتیجہ میں ایک بڑھتی اور پھیلتی ہوئی جنگ کے امکان سے بالکل انکاری ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ دنیا کے لیڈرز کوئی ایٹمی جنگ نہ ہونے دیں گے۔ جبکہ بعض اس کا خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اسکے امکانات پر تبصرے کرتے اور بیانات بھی دیتے ہیں۔ اور بعض ایسے حقیقت پسند دانشور بھی ہیں جو روس و یوکرین کی جنگ کی وجوہات کی بنا ماضی کے معاہدات کی عدم پاسداری، مہلک اسلحہ کی تیاری اور اسکے پھیلتے ہوئے خرید وفروخت کے کاروبار کو بھی قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اس میدان میں حاصل ہونے والی دولت بعض طاقتوار ممالک کی اقتصادیات کی بنیاد کا ایک اہم حصے ہے اس لئے پریس، میڈیااور سیاستدان بھی دنیا کے امن کیلئے مثبت رول ادا نہیں کرتے۔

یہ کانفرنسز ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جن میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بین الاقوامی فورمز میں خطابات کا مجموعہ والی کتاب ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ ایک خاص اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ اور اس کا عنوان اور بحث کا موضوع دانشوروں کیلئے توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ آج کی نشست میں ایسی ہی بعض کانفرنسز اور مواقع کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ رابطہ کی آسانی کیلئے خاکسار نے یہ طریق اختیار کیا ہے، اور ممکن ہے قارئین کیلئے اچھا نسخہ ثابت ہو، کہ سب کتب کے اندرونی صفحہ پرسٹکر نمااپنا وزٹنگ کارڈ چسپاں کر دیتا ہے۔

3جون کو ’’جیو پولیٹکل اکیڈمی پیرس‘‘ نے ایک کانفرنس منعقد کی۔فرانس میں ہنگری کے سفیر Mr.Georges Habsbourg-Lorraine کومدعو کیا گیا۔ انکی تقریر کا موضوع تھا: ’’یورپین یونین، آئی ٹی ایم کا ارتقاء اور یوکرین کا بحران‘‘۔ ماضی میں یوکرین کے روس کے ساتھ انتہائی قریبی اور تاریخی تعلقات تھے اور انرجی کے معاملات میں روس پر بہت انحصارکرتا ہے۔موجودہ بحران میں اس کے لئے کافی مشکلات ہیں۔ اور باوجود تنقید اور دباؤ کے وہ روس کو اس طرح چھوڑ نہیں سکتا جیسے دیگر مغربی یورپ کے بعض ممالک چاہتے ہیں۔

اس کانفرنس میں پریس میڈیا،ریسرچ سکالرز اور کئی سفارت کار شامل تھے۔ کانفرنس کے بعد ہنگری کے سفیر اور فرانس میں صومالین سفارت خانہ میں متعین ملٹری اتاشی مسٹر محمد سمیت 6 شرکاء کو مختصر تعارف کے ساتھ حضور انور کی کتاب ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ پیش کرنے کا موقعہ ملا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کے کئی شرکاء کوپہلے ہی یہ کتاب پیش کرچکا ہوں۔ اور بعض نے بتایا کہ یہ کتاب ان کے زیرِ مطالعہ ہے۔

پھر 8 جون کو PUGWASH-France نے پیرس میں ’’جولائی 1914 کے بحران سے یوکرین کی جنگ تک‘‘ کے مختلف پہلوؤں اور جنگ کے متبادل سے متعلق کانفرنس کیلئے ’’ورسائی یونیورسٹی‘‘ کے جرمن نژاد پروفیسر Thomas Lindemann کو مدعو کیا گیا تھا۔

قارئین کے افادہ کیلئے عرض ہے کہ پگواش ایک عالمی تحریک یا تنظیم ہے جس کی ایک شاخ فرانس میں بھی ہے۔ 9 جولائی 1955 میں رَسل اور آئن سٹائن نے ایک منشور تحریر کیا تھاجس کی بنا پر انہوں نے تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کیلئے سائنسدانوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ ان کے اس منشور کی بنا پرسردجنگ کے زمانہ میں 1957 میں کینیڈا کے شہر Pugwash میں اس تحریک بنیاد رکھی گئی۔ اسی وجہ سے اس تحریک کا نام پگواش رکھا گیا۔ تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال اور ان کے تجربات کو روکنے کی مساعی کی بدولت، رَسل اور آئن سٹائن کے منشور کے چالیس سال بعد 1995 میں پگواش تحریک اور Jozef Rotblat کو مشترکہ طور پر امن کا نوبل پرائز ملا۔ اسی لئے فرانس میں بھی یہ تحریک ہتھاروں کی روک تھام اور امن سے متعلق کانفرنسز منعقد کرتی رہتی ہے۔

کووڈ کی پابندیوں کے بعد ’’پگواش فرانس‘‘ نے اپنی پہلی کانفرنس منعقد کی۔خاکسار کو بھی اس میں شرکت کی دعوت ملی۔لہٰذا دیگر کانفرنسز کی طرح یہاں بھی حضور انور کی کتاب کا ایک بڑا ڈبہ اپنے ٹرالی میں ڈال کر ٹرین اور میٹرو کاسفر کرتے کرتے کانفرنس ہال میں پہنچ گیا۔منتظم کی اجازت سےایک میز پر کتب سجا لیں۔اورایک گتے پر ’’تحفہ قبول کریں‘‘ لکھ دیا۔ ’’پگواش فرانس‘‘ کے صدرNicolas Delerue، نائب صدر Jacques Bordé، سیکریٹری اور مہمان مقررسمیت کانفرنس سے پہلے اور بعد میں 22 شرکاء کو مختصر تعارف کے ساتھ کتاب پیش کی۔سوالات کے وقت خاکسار نے یہ سوال کیا کہ ’’دنیا نے بے انتہا ترقی کی۔ کیا دنیا میں ایسے دانشور نہیں جو جنگ کی طرف بڑھتے قدموں کو روک لیں اور انسانیت کو ایٹمی جنگ کی تباہی سے بچا لیں؟۔ مگر جواب دینے کی بجائے صرف یہ کہا گیا کہ یہ سوال علم بشریات سے تعلق رکھتا ہے۔

اسی طرح 15 جون کو فرانس کی مشہور سوخ بون یونیورسٹی میں ’’دنیا: کابل، کیو اور ساحل کے بعد‘‘، کے موضع پر ’’انٹرنیشنل ریسرچز ریویو‘‘ کے زیر اہتمام ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں بھی تاریخ دان M. Chloé Maurel، امریکی امورکے ماہر Pierre Guerlain اور کانفرنس کے موضوع سے متعلق باخبر صاحبان علم ,Michel Rogalski Nils Andersson, Anne-Cécile Robert کودعوت خطاب دی گئی تھی۔ یہاں دیگر مسائل کے ساتھ معاہدات کی عدم پاسداری اور امریکی اسلحہ سازی اور اسلحہ کے کاروبار کو بھی زیرِ بحث لایا گیا۔ اور اسے جنگوں کی وجوہات میں سے قراردیا گیا۔ اور اقوام متحدہ کے رول پر بھی بہت کچھ کہا گیا۔

سوالات کے وقفہ میں خاکسار نے سوال کیا: ’’کابل سے کیو تک پہنچتے ہوئے ہم نے متعدد ممالک میں فوجی مداخلتیں دیکھیں۔یو این او کے حوالہ سے بعض درست اور بعض نا درست۔مگر کیا انسانی تباہی کے لحاظ ان دو نوں طرح کی فوجی مداخلتوں میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟ اور کیا پریس میڈیا اور سیاستدانوں کا رول مثبت رہا ہے؟ جواب میں فاضل مقرر نے امریکی پالیسیوں، پریس میڈیا اور سیاستدانوں کے منفی رویوں پر تنقیدکی۔کانفرنس کے بعد پانچوں مقررین سمیت 38 شرکاء کو مختصر تعارف کے ساتھ حضور انور کی کتاب پیش کی۔

رکن قومی اسمبلی محترمہ ناعمہ موتشو صاحبہ
کی مشن ہاؤس آمد

فرانس میں حالیہ انتخابات سے قبل مورخہ 7 جون کو ہمارے علاقہ کی نیشنل اسمبلی کی مسلم ممبر محترمہ Naima Moutchou اپنی انتخابی ٹیم کے 4 ارکان کے ساتھ ہماری دعوت قبول کرتے ہوئے مرکزی مشن ہاؤس واقع Saint-Prix تشریف لائیں۔موصوفہ 2017 کے انتخاب میں کامیاب ہو کر نیشنل اسمبلی کی رکن بنی تھیں۔ یاد رہے کہ صدارتی انتخابات کی طرح قومی اسمبلی کے انتخابا ت بھی دو مراحل میں ہوتے ہیں۔پہلے مرحلہ میں زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کا دوبارہ مقابلہ دوسرے مرحلہ میں ہوتا ہے۔ اراکین قومی اسمبلی کے انتخاب کا پہلا مرحلہ جون 12 اور دوسرا 19جون کو ہوا۔ اور موصوفہ یہ انتخاب جیت کر قومی اسمبلی کی پھر رکن منتخب ہو گئی ہیں۔

ان سے رابطہ جماعت کے نیشنل سیکریٹری وصیت مکرم سعید احمد چیمہ صاحب کے توسط سے ہوا۔ موصوف اپنے علاقہ کی کونسل کے تحت ہونے والے رفاعی کاموں میں کافی حصہ لیتے ہیں۔ اور انہی کاموں کے دوران محترمہ ناعمہ صاحبہ کی انتخابی ٹیم کے ایک رکن سے رابطہ ہوا۔ فجزاہ اللّٰہ خیراً۔

تقریباً پانچ بجے اپنے وفد سمیت جب مشن ہاؤس میں تشریف لائیں تو مکرم امیرصاحب، مکرم نائب امیر صاحب،مکرم سیکریٹری امور خارجیہ، مکرم سعید چیمہ صاحب اور خاکسار نے انکا استقبال کیا۔ مسجد، لائبریری اور دیگر عمارتوں کے وزٹ اور تعارف کے بعد انہیں جماعت کے تفصیلی تعارف کیلئے گیسٹ روم میں بٹھایا گیا۔

مکرم طلحہ رشید صاحب اور خاکسار نے جماعت احمدیہ کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ بطور خاص بانئ جماعت احمدیہ، نظام خلافت، دیگر مسلمانوں سے اختلافات اور پاکستان میں احمدیہ مخالف ظالمانہ قوانین، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملیشیا، الجزائر وغیرہ میں احمدیہ مخالف ظالمانہ رویوں کے متعلق انکو بتایا گیا۔ پھر جماعتی تنظیم، مالی نظام، تعلیم و صحت کے شعبہ میں بنی نوع انسان کی خدمات، ہیومنیٹی فرسٹ اور اسلام کی پرامن تشریح و تعبیر کے عالمگیر پرچار کے حوالے سے حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عالمی فورمز میں خطابات کا ذکر کیا۔ اور ساتھ ساتھ ماحضر بھی پیش کرتے رہے۔

لجنہ اماء اللہ فرانس کا ایک وفد جنرل سیکریٹری مادام منیرہ دوبوری صاحبہ، سیکریٹری تبلیغ مادام آمیناتا طورے صاحبہ اورسیکریٹری اشاعت مادام بالآربی فطنہ صاحبہ پر مشتمل بھی ان سے ملا۔ جنہوں نے جماعت احمدیہ کی خواتین، لجنہ اماء اللہ کی تنظیم، لائحہ عمل اور خدمت خلق کے شعبہ میں انکی کارکردگی سے متعلق گفتگو کی۔

ملاقات کے بعد تمام مہمانوں کو جماعتی کتب بشمول حضور انور کی کتاب ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ تحفۃ پیش کیں۔ ان کے بیان کردہ تأثرات کے مطابق جماعت احمدیہ مسلمہ سے متعلق جان کر انکو حیران کن خوشی ہوئی۔

تمام قارئینِ الفضل سے درخواستِ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو اسلام کے حقیقی پیغام کو ساری دنیا میں پھیلانے کی توفیق دے۔ نیزاہل دنیا کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو سمجھنے اور پہچاننے کی توفیق دے۔ آمین

(نصیر احمد شاہد۔ مبلغ انچارج فرانس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ