• 20 اپریل, 2024

خادم کا رُومال

حاصل مطالعہ
خادم کا رُومال

میں خدام کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے خادم کی علامت کے طور پر ایک رُومال تجویز کیا ہے۔ …. میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں ہر خادم اسلام کے پاس یہ رُومال ہونا چاہیئے۔

(مشعل راہ جلد2 ص345)

رومال کا سائز اور رنگ

ہمارے اس رومال کا رنگ کالا اور سفید اس لئے ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے جو جھنڈے تھے وہ یاکالے رنگ کے تھے اور یا سفید رنگ کے تھے چنانچہ پہلی بار جب ہماری جماعت کا جھنڈا بنا تھا ا سوقت حضرت مصلح موعودؓ نے اس سلسلہ میں چھان بین کرنے کیلئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی تھی جس میں مجھ خاکسار کو بھی شامل کردیا تھا۔ چنانچہ ہم نے پوری چھان بین کی تو ہمیں یہی پتہ لگا تھا کہ ان دو رنگوں کے سوا آنحضرت ﷺ کے جھنڈے کا اور کوئی رنگ نہیں تھا۔ا س واسطے ہم نے جماعت کے جھنڈےمیں سیاہ اورسفید رنگوں کا ایک امتزاج پیدا کردیا ہے اور یہی دو رنگ یعنی سیاہ اور سفید ہمارے اس رومال میں بھی آئے ہیں …. اصل رومال ایک گز مربع کا تجویز ہوا تھا …. اس میں سے سفید اور کالی پٹیاں ہیں۔

(مشعل راہ جلد2 ص345-346)

رومال میں چھلا

ا س رومال میں ایک چھلا پڑتا ہے۔ یہودی بڑی ہوشیار قوم ہے۔ وہ دنیا میں ہرلحاظ سے اپنی بڑائی پھیلانے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلہ میں اُن کے بعض خاموش ذرائع بھی ہیں۔ غرض ان کی دنیوی شہرت کا ایک ذریعہ یہ چھلا بھی بنا اور انہوں نے گردن میں ڈالنے والے رومال کیلئے جو چھلا بنا رکھا ہے، اس پر سانپ کی شکل بنادی ہے اور اس طرح گویا انہوں نے ہر مسلمان کے گلے میں جو یہ رنگ استعمال کرے، اپنی یہ علامت ڈال دی ہے۔ چنانچہ جس وقت مجھے اس رومال اور چھلے کا خیال آیا تو میں نے سوچا ہمیں اپنے لئے رنگ (چھلے) خود تجویز کرنے چاہئیں …. مجھے یاد آیا کہ سپین میں الحمرا کی دیواروں پر مجھے چار فقرے نظر آئے تھے۔ (۱) لا غالب الااللہ جو بڑی کثرت کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔ (۲) القدرة للّٰہ (۳) الحکم للّٰہ (۴) العزة للّٰہ۔ ان سے فائدہ اٹھا کر یہ تجویز کی ہے۔ عام اطفال اور خدام یعنی ہر رکن کیلئے القدرة ﷲ کا رنگ یعنی چھلا ہے اور جو عہدہ دار ہیں ان کیلئے العزة ﷲ کا۔

(مشعل راہ جلد2 ص345)

جب شروع میں مجھے اس کا خیال آیا تو میں نے اس سلسلہ میں بڑا غور کیا کہ یہ چھلے اور رومال کیسے اور کس طرح تیار کئے جائیں۔ (میں آپ کو اس لئے بتانے لگا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ کام کرنے کا طریق کیا ہوتا ہے) چنانچہ میں نے یہاں فوری طور پر اپنے پیسوں سے چاندی کے چھلے بنوائے مگر ان پر فی چھلا نو نو دس دس روپے خرچ آئے۔ پھر میں نے لاہور آدمی بھیجا اور نکل اور تانبے کے چھلے بنوائے جن پر ایک سے ڈیڑھ روپیہ فی چھلا خرچ آیا۔ میں نے سوچا یہ بھی زیادہ قیمت ہے۔ کیونکہ ہماری جماعت میں امیر بھی ہیں، غریب بھی ہیں۔ بعض ایسے دوست بھی ہوسکتے ہیں جو اپنی زندگی کے کسی مرحلہ پر اپنے بچوں پر شاید اتنا خرچ بھی نہ کرسکیں۔ حالانکہ ہمارا مقصد سب کو برابر سطح پر رکھنا ہے۔ پھر ہم نے پلاسٹک کے چھلے بنوائے …. اس کی قیمت فی چھلا دس پیسے ہے۔اب کجا چاندی کے چھلے جن کی قیمت دس روپے تھی اور کجا یہ چھلے جن کی قیمت دس پیسے ہے۔

(مشعل راہ جلد2 ص346-347)

ہر خادم کے پاس یہ رومال ہو

پس یہ کوشش کریں کہ ہر خادم کے پاس یہ رومال ضرور ہو۔ ….ان کی حفاظت کریں، انکو ضائع نہ ہونے دیں۔…. ہر خادم کے گلے میں یہ رومال ہونا چاہیئے۔ ہر وقت ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے جماعتی اجتماعوں میں یا جب وہ ڈیوٹی پر ہوں اس وقت یہ رومال اور ایک مخصوص چھلا گلے میں ڈال لیاکریں۔

(مشعل راہ جلد2 ص346)

٭…٭…٭

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2020