• 5 مئی, 2024

مغفرت کی طلب کا معیار

یہ ہے وہ مغفرت کی طلب کا معیار جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بندے کو حقدار بنا دیتی ہے۔ وہ حق جس کی ادائیگی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پر فرض کر لی ہے۔ آپ نے سچی اور حقیقی توبہ کی شرائط بھی بیان فرمائیں کہ یہ حاصل کرنے کے لئے انسان کو کیا اور کس طرح کوشش کرنی چاہئے۔

آپ نے فرمایا کہ سچی توبہ کے لئے تین شرطیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے دماغ کو ان تمام باتوں سے پاک کرو جن سے فاسد خیالات پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ان برائیوں کی کریہہ اور خوفناک شکل اپنے ذہن میں پیدا نہیں کرو گے۔ اگر ان کی طرف توجہ رہے گی، اگر ان کے خلاف ذہن میں ایک مکروہ شکل نہیں بناؤ گے تو پھر ان سے بچنا بڑا مشکل ہے۔ پہلی چیز تو یہی ہے کہ اس کو اپنے دماغ سے نکالنا پڑے گا۔ کوشش کر کے ان چیزوں سے نفرت کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی غلط کام کرنے یا برائی کی طرف توجہ جانے پر ندامت اور پشیمانی ہونی چاہئے۔ انسان کے دماغ میں جب خیال آئے تو فوراً شرمندگی اور پشیمانی کا خیال ہونا چاہئے۔ یہ خیال دل میں ہو کہ یہ برائیاں اور لذات جن کی طرف میں جا رہا ہوں یہ عارضی ہیں اور میری زندگی برباد کرنے والی ہیں اور ایک وقت آ کے یہ چیزیں ختم ہو جانی ہیں۔ عارضی لذت ہے۔ گویا اپنے کانشنس کی بات سننی ہے۔ انسان کا ضمیر اسے بتا رہا ہے، اس کا کانشنس بتاتا ہے، ہر حال میں بتاتا ہے کہ یہ بری چیز ہے یا اچھی چیز ہے۔ جب اس طرح کی سوچ کریں گے اور ضمیر کی آواز سنیں گے تو آہستہ آہستہ برائی سے بھی آپ نے فرمایا کہ بچ جاؤ گے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ عزم ہو، پکا ارادہ ہو کہ میں نے ان برائیوں کے قریب بھی نہیں جانا اور پھر اس پر قائم رہنے کے لئے مکمل قوت ارادی بھی ہو اور دعا بھی ہو تو پھر یہ برائیاں ختم ہو جائیں گی اور ان کی جگہ پھر نیکیاں لینی شروع کر دیں گی۔ آپ نے جو فرمایا کہ ناپاک چولہ اتارنا ہو گا۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ ایک بھرپور کوشش کرو اور اس پر قائم رہو۔ قوت ارادی سے قائم رہو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حقدار بنو گے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ138-139 ایڈیشن 1984ء)

(خطبہ جمعہ 8؍جون 2018ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ