• 7 مئی, 2024

فقہی کارنر

تجارتی روپیہ پر منافع

ایک صاحب کی خاطر حضرت نورالدین صاحبؓ نے ایک مسئلہ حضرت اقدسؑ سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے۔ ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لئے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔ اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے۔ سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا۔ یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کر لی جاوے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا:
چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے۔ دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے۔ اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔ سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔ اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔ اس لئے وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔

(البدر یکم، 8 نومبر 1904ء صفحہ8)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

مكرم چوہدری حمید الله صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022