• 19 مئی, 2024

احمدیوں کی قبروں پر حملے

مخالفین سلسلہ کی ذہنی پستی کی علامت
احمدیوں کی قبروں پر حملے

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۵﴾ ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ﴿۶﴾

(التین: 5-6)

ترجمہ: یقیناَ ہم نے انسان کو بہترین ارتقائی حالت میں پیدا کیا۔پھر ہم نے اسے نچلے درجے کی طرف لوٹنے والوں میں سب سے نیچے لوٹا دیا۔

جیسا کہ ان آیات کریمہ سے ظاہر ہے کہ انسان اپنی بد قسمتی کی وجہ سے ایک اعلیٰ حالت سے گرتا ہوا اتنی پست حالت کی طرف گرتا ہے کہ جانوروں کو بھی مات کر دیتا ہے۔ جو سفلی جذبات انسان کو ان پستیوں کی طرف دکھیلتے ہیں، ان میں سے ایک بے لگام تعصب کا جذبہ بھی ہے۔ یہ جذبہ انسان کو قتل و غارت پر اکساتا ہے۔ اس پر بھی یہ آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی تو انسان لاشوں کو مسخ کرنے اور قبروں کی توڑ پھوڑ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی تو قبریں اکھیڑ کر بھی اپنی ذہنی حالت کا ثبوت دیتا ہے۔

قدیم تہذیبوں میں قبروں سے انتقام

اگر ہم قدیم تہذیبوں کا جائزہ لیں تو رومی تہذیب کے قوانین میں قبر کی بے حرمتی کرنے کے جرم پر موت کی سزا دی جاتی تھی۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب انتقام کا حیوانی جذبہ جوش مارتا تو اپنے دشمن کی قبر پر غصہ نکالنے سے بھی باز نہ آ تے۔ رومی فرمانروا ڈومشن (Domitian) نے ایک قبر اکھیڑ کر اس کی باقیات سمندر میں پھینکنے کا حکم دیا کیونکہ اس کی قبر پر وہ پتھر استعمال کئے گئے تھے جنہیں مندر میں استعمال کرنے کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ روم میں خانہ جنگی کے بعد رومی جنرل سلا (Sulla) کے حامیوں نے اپنے مد مقابل ماریس (Marius) کی قبر کو اکھیڑ کر اس کی باقیات کو دریا میں پھینکدیا تھا۔

قدیم مصری تہذیب میں کم از کم امراء کی لاشوں کو بہت اہتمام سے دفن کیا جاتا تھا اور ان کے ساتھ روزمرہ استعمال کی اشیاء اور دیگر قیمتی اشیاء بھی دفن کی جاتی تھیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اشیاء موت کے بعدکی زندگی میں مرنے والے کام آئیں گی۔ان قیمتی اشیاء کی وجہ سے اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ خدشہ بھی رہتا تھا کہ قبر کشائی کر کے لاش کے بے حرمتی اور مدفون اشیاء کی لوٹ مار کی جا سکتی ہے۔بسا اوقات اس کے سد باب کے لئے وہ تہہ خانہ جس میں لاش دفن ہوتی خفیہ رکھا جاتا اور بعض اوقات قبروں پر اس شخص کے خلاف جو قبر کو کھولے یا مقبرے کو نقصان پہنچائے بد دعا تحریر کی جاتی تاکہ ایسا ارادہ کرنے والا ڈر جائے۔مصر کی قدیم ترین تہذیبوں میں جنہیں اصطلاحاَ first dynasty یا پہلا شاہی خاندان کہا جاتا ہے ایسی بربریت کی مثالیں مل جاتی ہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کی قبروں کو اکھیڑ کر یہ خیال کیا گیا کہ ہم نے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔ اس دور کا زمانہ ڈھائی ہزار سال قبل مسیح سے لے کر تین ہزار سال قبل مسیح تک بتایا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کئی شقی القلب ہزاروں سال قبل بھی اندھی دشمنی سے مغلوب ہو کر مقبروں کو تباہ کرتے تھے۔

(Baines, J. and Lacovara, P. (2002) ‘Burial and the dead in ancient Egyptian society: Respect, formalism, neglect’, Journal of Social Archaeology, 2(1), pp. 5–36.)

بہرحال قدیم زمانہ سے ہی بعض سخت دل لوگ مخالف کی قبروں کو اکھیڑ کریا لاش کو مسخ کر کےآتش انتقام ٹھنڈی کرتے تھے۔ بائبل میں اس فعل کی مذمت کر کے اسے ایسا فعل قرار دیا گیا ہے، جس کے نتیجہ میں خدا کا عذاب نازل ہو سکتا ہے۔ بائبل کی کتاب عاموس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ موآب پر اس لئے خدا کا عذاب نازل ہوا کہ انہوں نے ادوم کے بادشاہ کی ہڈیوں کو نکال کر جلایا تھا۔ عاموس کا دوسرا باب ان الفاظ سے شروع ہوا تھا۔

’’خداوند یُوں فرماتا ہے کہ مُوآب کے تین بلکہ چار گُناہوں کے سبب سے میں اُس کو بے سزا نہ چھوڑوں گا کیونکہ اُس نے شاہ اُودم کی ہڈیوں کو جلا کر چُونا بنا دیا ہے۔ پس میں مُوآب پر آگ بھیجوں گا اور وہ قریوت کے قصروں کو کھا جائے گی اور مُوآب للکار اور نرسنگے کی آواز اور شور و غوغا کے درمیان مرے گا۔‘‘

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مشرکین مکہ نے اس بد بختی سے حصہ لینے کا ارادہ کیا لیکن ان میں سے عقلمندوں نے مشورہ دیا کہ یہ دروازہ نہیں کھولنا چاہیے۔ جنگ احد کے موقع پر جب مشرکین کا لشکر مدینہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب یہ لشکر ابواء کے مقام سے گذرا تو ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے مشرکین کو اس بات پر اکسایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کی قبر اکھیڑ دیں۔ لیکن قریش میں سے کئی لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ یہ دروازہ نہیں کھولنا چاہیےکل کو بنی بکر ہمارے مقابلے پر آئیں گے تو ہماری قبروں کو کھود ڈالیں گے۔

(سیرت الحلبیہ اردو ترجمہ از محمد اسلم قاسمی ناشر دارالاشاعت
حصہ دوئم نصف آخرمئی 2009ء صفحہ137)

چرچ قبر سے انتقام لیتا ہے

جان وائیکلف (John Wycliffe) نے چودہویں صدی عیسوی میں بائبل کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمہ سے ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی جو عبرانی یا یونانی نہیں جانتا یہ معلوم کر سکتا تھا کہ بائبل میں کیا لکھا ہے۔ یہ ایک معقول قدم تھا۔ جان وائیکلف نے پرانے بزرگوں کے حضور دعائیں کرنے اور چرچ سے رقم دے کر بخشش کو خریدنے کی مخالفت کی۔ اس پر چرچ نے جان وائیکلف کی شدیدمخالفت شروع کر دی۔ اس کی زندگی میں اس کی مخالفت تو ہوئی تھی لیکن انتقام کی یہ آگ اس کی موت کے بعد بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ اس کی موت کے چالیس سال بعد ایک کونسل میں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس کونسل نے جان وائیکلف کو سزا سنائی اور پوپ مارٹن پنجم نے اس سزا کی تصدیق کی۔ چنانچہ قبر سے اس کی ہڈیاں نکالی گئیں اور انہیں نذر آتش کیا گیا۔ لیکن یہ نامعقول فعل جان وائیکلف کے نظریات کی رو کو روک نہ سکا۔ آج دنیا بھر کی زبانوں میں بائبل کے تراجم ہوتے ہیں اور اب کیتھولک چرچ بخشش کو فروخت نہیں کرتا۔

موجودہ دور میں قبروں پر حملے

بہر حال گذشتہ صدی میں بھی کہیں نہ کہیں بربریت کا یہ انداز جاری رہا۔ جب 1930ء کی دہائی میں سپین میں خانہ جنگی کی تباہ کاری عروج پر تھی تو ریپبلک کے حامی گروہ اور کیتھولک چرچ کے درمیان ٹھن گئی۔ اختلاف نے تصادم اور تصادم نے بربریت کو جنم دیا۔ ریپبلک کے حامیوں کا کہنا تھا کہ چرچ ان کے مخالف جرنیلوں کی مدد کر رہا ہے۔ اس کا انتقام لینے کے لئے اس گروہ میں سے بہت سے شقی القلب افراد نے چرچ کے احاطہ میں دفن پادریوں اور ننز کی قبروں کو نہ صرف اکھیڑ کر باہر نکالنا شروع کیا بلکہ ان کی ہڈیوں اور لاشوں کو باہر نکال کر سڑکوں پر اور پبلک مقامات پر نمائش پر رکھنا شروع کر دیا۔

(Comparative Studies in Society and History Vol. 27, No. 2 (Apr., 1985), pp. 241-260)

اسی طرح جب دوسری جنگ عظیم سے قبل جرمنی میں نسل پرست نازی جماعت کا تسلط ہوا تو یہودیوں کے خلاف نفرت انگیزی کا آغاز ہوا۔ اس دور میں نازیوں نے یہودیوں کے بہت سے قبرستانوں کو تباہ کیا گیا اور قبروں کے کتبوں کو مختلف عمارات میں استعمال کیا گیا۔

عصر حاضر میں قبروں کی توڑ پھوڑ

اب تک یہ منحوس سلسلہ جاری ہے۔ 2008ء میں فرانس میں ایک مقام پر 500مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی اور ان کے کتبوں کو توڑنے کے علاوہ ان کے کتبوں پر نسل پرست نعرے لکھے۔ اس سال جنوبی سویڈن میں مالمو کے مقام پر عید الفطر سے بالکل قبل مسلمانوں اور آرتھوڈوکس عیسائیوں کی قبروں کو توڑا پھوڑا گیا۔ بعض کتبوں پر سرخ رنگ پھینکا گیا تھا۔

یہ غیر انسانی رویہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔اس بارے میں یونایٹڈ سٹیٹس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلجس فریڈم نے گذشتہ سال ستمبر میں ایک حقائق نامہ شائع کیا۔ اس کے مطابق الجیریا، آزربائیجان، مصر، پاکستان، جنوبی افریقہ اور ترکی میں مذہبی بنیادوں پر قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2018ء میں الجیریا میں ایک سے زائد مرتبہ عیسائی احباب کی قبروں کے کتبوں کو مسمار کیا گیا۔ آذربائیجان میں نگورنو کاراباغ کے علاقہ میں عیسائی حملہ آوروں نے مسلمانوں کی قبروں کو مسمار کیا۔ مصر میں ایک قبطی عیسائی لڑکے کی قبر سے لاش کو اس کے لئے نکالا گیا کیونکہ اس کی تدفین مسلمانوں کے قبرستان میں ہو گئی تھی۔ اکتوبر 2019ء میں جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن کے مقام پر نا معلوم حملہ آوروں نے مسلمانوں کے ایک قبرستان پر دھاوا بول کر اسی قبروں کے کتبوں کو اکھیڑ کر انہیں ایک صلیب کے نشان کی صورت میں رکھ دیا۔ ترکی میں یزیدی عقیدہ کے لوگوں کی قبریں نفرت انگیزی کا نشانہ بنیں۔ مختلف یورپی ممالک میں مسلمانوں کی قبروں کے علاوہ یہودیوں کی قبروں پر بھی بار بار حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی۔ اسی طرح اس رپورٹ میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کی قبروں اور قبرستانوں کو بار بار نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس بربریت کی نفسیات کیا ہے؟

ماہرین نفسیات نے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ آخر کن نفسیاتی وجوہات کی بنا پر انسان اتنا گر جاتا ہے کہ وہ ایک قبر پر حملہ کرنے یا اسے اکھیڑنے یا اس کا کتبہ توڑنے جیسے گھناؤ نے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سی مثالوں میں یہ ہوتا ہے کہ ایک متعصب گروہ ذہنی طور پر اس بات پر آمادہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ملک کے بعض شہریوں کو اپنا ہم وطن یا اپنے ملک کا شہری تسلیم کر لے ۔چنانچہ اسی ذہنی رو میں وہ ان کی قبروں پر حملے شروع کر دیتا ہے۔ اور یہ روش اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ تم اس ملک سے یا اس ملک کی زمین سے وابستہ نہیں ہو۔ ہم تمہاری قبروں کو اور اس کے کتبوں کوبھی اس ملک کی زمین پر بھی قائم نہیں رہنے دیں گے۔

(What Motivates Cemetery Vandalism? By Renee Garfinkel . Psychology Today 9 March 9 2017)

پاکستان میں احمدیوں کی قبروں پر حملے

جب جماعت احمدیہ کے مخالفین احمدیوں کی قبروں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ جذبات تو کارفرما ہوتے ہیں، ان کے علاوہ ایک اور جنون بھی کارفرما ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ احمدیوں کی قبروں پر کلمہ طیبہ، بسم اللہ، کوئی آیت یا کوئی عربی آیت کیوں درج ہے؟ پاکستان میں یہ قوانین تو بنا دیئے گئے کہ کوئی احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا ، اذان نہیں دے سکتا، اپنی مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتا اور احمدیوں کی تبلیغ سے خائف ہو کر یہ بھی قانون بنا دیا کہ کوئی احمدی تبلیغ نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد مساجد سے کلمہ طیبہ مٹانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اور پھر اس بات کی فکر پڑ گئی کہ کسی احمدی کے پاس قرآن مجید کیوں موجود ہے؟ ایک عدالتی فیصلہ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ احمدیوں کے نام مسلمانوں کے ناموں جیسے بھی کیوں ہیں۔ گذشتہ کچھ سالوں سے اس ذہنی بیماری کا رخ احمدیوں کی قبروں کی طرف ہو گیا ہے۔ اور انہیں یہ غم لاحق ہو گیا ہے کہ احمدیوں کی قبروں پر کلمہ طیبہ یا آیات کیوں درج ہیں؟ ان کی قبریں مسلمانوں کی قبروں سے کیوں ملتی ہیں؟ چنانچہ اسی ذہنی مرض سے کیفیت سے مغلوب ہو کر پاکستان میں احمدیوں کی قبروں اور قبروں کے کتبوں پر حملے شروع کر دیئے۔ اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔

4 دسمبر 2011ء کو دنیا پور ضلع لودھراں میں احمدیوں کے قبرستان پر حملہ کر کے سات قبروں کے کتبے توڑ دیئے گئے۔ 10 جولائی 2012ء کو چک 165 ای بی ضلع پاکپتن میں احمدیوں کی قبروں کی توڑ پھوڑ کی اور ان پر مخالفانہ تحریریں لکھ کر اپنی پست ذہنیت کا مظاہرہ کیا۔ 4 ستمبر 2012ء کو جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں جماعت احمدیہ کے مخالفین کی رپورٹ کے بعد پولیس رات کے اندھیرے میں احمدیوں کے قبرستان میں داخل ہوئی اور 23 کتبوں کو توڑ کر ان کے ٹکڑے اپنے ساتھ لے گئی۔ جب حکومت کے ادارے اور قانون نافذ کرنے والے خود اس قانون شکنی میں ملوث ہوں تو لازمی طور پر اس کے نتیجہ میں متعصب گروہ کی جرأ ت بڑھے گی۔ ان واقعات کے بعد 2 دسمبر 2012ء کی رات کو دس بارہ مسلح افراد ماڈل ٹاؤن لاہور میں داخل ہوئے اور 120 احمدی مرحومین کی قبروں کے کتبوں کو مسمار کیا ۔پولیس وہاں پہنچی لیکن پھر بھی مجرمین کو فرار ہونے دیا گیا۔ جب اگلے روز پریس رپورٹر نے اس بارے میں ایس ایچ او سے رابطہ کیا تو اس ایس ایچ او نے کہا کہ مجھے اس واقعہ کا علم ہی نہیں۔ اگر ذرا بھی انسانیت ہوتی تو اس سانحہ کے بعد پولیس احمدیوں کے قبرستانوں کی حفاظت کا انتظام کرتی لیکن خود حکومت اس بہیمانہ سلسلہ کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی ۔چک 96 گ ب تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں مخالفین نے پولیس کو درخواست کی کہ احمدیوں کی قبروں پر لکھی ہوئی عبارتوں سے ان کی دل آزاری ہو رہی ہے۔ اس پر پولیس نے قانون شکنی کرتے ہوئے بغیر کسی عدالتی حکم کے 9 مارچ 2014ء کو احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کو مسمار کر دیا۔

گذشتہ چند سالوں میں بھی اس قسم کے اندوہناک واقعات کا سلسلہ جاری رہا۔ 4 جنوری 2020ء کو چک 40سانگلہ ہل ضلع ننکانہ میں ایک احمدی کی قبر کی بے حرمتی کی گئی۔ فروری 2020ء میں فتح دریا جھنگ میں دو احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ اور اسی مہینے کے دوران خود پولیس کے اہلکاروں نے چک 2 ٹی ڈے اے ضلع خوشاب میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔ 13 اپریل 2020ء کو کھرپڑ ضلع قصور میں ایک احمدی کی قبر پر توڑ پھوڑ کی گئی۔ مئی 2020ء میں پچاس مولوی صاحبان اور کچھ پولیس اہلکاروں نے شوکت آباد ننکانہ صاحب میں احمدیوں کی قبروں اور کتبوں کو مسمار کیا۔ جون 2020ء میں چک 79 نواں کوٹ ضلع شیخوپورہ میں احمدیوں کی قبروں کے خلاف مہم چلائی گئی اور آخر کار خود پولیس والوں نے احمدیوں کی درجنوں قبروں کے کتبوں کو مسمار کر دیا۔ اس سے اگلے ماہ ایک شکایت پر عمل کرتے ہوئے گوجرانوالہ کینٹ کے پولیس سٹیشن کے اہلکاروں نے ایک گاؤں کے احمدی قبرستان پر دھاوا بول کر 69 احمدیوں کی قبروں اور کتبوں کو مسمار کیا۔ اگست 2020ء میں چک 79 نواں کوٹ ضلع شیخوپورہ میں احمدیوں کی قبروں کو مسمار کیا گیا۔ اسی مہینے میں دیونہ باجرہ ضلع گجرات میں ایک قبر کو نقصان پہنچایا گیا اور 18 ستمبر کو رنسی ضلع شیخوپورہ میں ایک احمدی کی قبر کی بے حرمتی کی گئی۔اسی مہینے کی 30 تاریخ کو شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ میں احمدیہ قبرستان میں 40 قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ نومبر 2020ء میں دھرکنہ ضلع چکوال اور ترگڑی ضلع گوجرانوالہ میں یہ بربریت دہرائی گئی۔ دسمبر 2020ء میں پولیس سٹیشن کلر کہار کی حدود میں ایک گاؤں میں احمدیوں کے قبرستان میں تین قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔

2021ء شروع ہوا تو تھانہ گوجرہ صدر ٹوبہ ٹیک سنگھ کی حدود میں احمدیوں کے ایک قبرستان میں داخل ہو کر خود ایس ایچ او، پٹواری اور تحصیلدار نے ایک احمدی کی قبر کا کتبہ مسمار کیا۔ اسی مہینے میں بھوئیوال ضلع شیخوپورہ میں تین احمدیوں کی قبروں کے کتبے توڑ دیئے گئے۔ یہ واقعہ تھانہ شرقپور کی حدود میں پیش آیا۔ پھر 26 جنوری 2021ء کو دھیروکے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس قسم کا واقعہ ہوا۔ فروری 2021ء میں 565 گ ب جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں خود پولیس افسران نے 25 احمدیوں کی قبروں کو مسمار کروایا۔ اس کے بعد یہی تاریخ نارنگ منڈی، چک 79 اور کوٹ سندھا ضلع شیخوپورہ میں دہرائی گئی۔ مارچ میں پولیس نے ایک مرتبہ پھر ایک شکایت پر چابک دستی دکھاتے ہوئے کوٹ دیالداس ضلع ننکانہ میں 16 احمدیوں کی قبروں کو مسمار کیا۔ اسی طرح اپریل 2021ء میں چک 604 ضلع مظفر گڑھ میں پولیس کے اہلکاروں نے ایک احمدی کی قبر کے کتبہ سے کچھ عبارتیں مٹائیں۔ اسی مہینے میں چک 604 ضلع مظفر گڑھ اور سیج کالر ضلع گوجرانوالہ میں ایک ایک قبر کو نقصان پہنچایا گیا۔ 9 ستمبر 2021ء کی تاریخ کو تلونڈی موسیٰ خان ضلع گوجرانوالہ میں 40 قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس سال کے آغاز پر فروری میں چک 354 ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ، پریم کوٹ ضلع حافظ آباد، اور گجو چک ضلع گوجرانوالہ، آروکے ضلع شیخو پورہ اور سید والا ضلع شیخو پورہ میں بہت سی قبروں کی توڑ پھوڑ کی گئی ۔پھرضلع سرگودھا کے ایک گاؤں گھوگھیاٹ میں احمدیوں کی کچھ قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔مارچ 2022ء میں چک 96 صریح فیصل آباد اور پیروچک سیالکوٹ میں احمدیوں کی قبروں پر حملے کئے گئے۔19 اور 20 مئی 2022ء کی درمیانی رات کو پشاور کے قریب ایک گاؤ ں سانگو میں ایک احمدی اشفاق احمد صاحب ولد ڈاکٹر سرور کی قبر کو کھود کر اشفاق احمد کے جسد خاکی کے باقی ماندہ ٹکڑے باہر پھینک دیئے گئے۔ اور 21 ۔22 اگست 2022ء کی درمیانی رات کو ماناوالہ ضلع فیصل آباد میں 12 احمدیوں کی قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔

یہ خلاصہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اس قسم کے وحشیانہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ یہ ذہنی عارضہ خاص طور پر پنجاب کے مختلف اضلاع میں ترقی کر رہا ہے۔جماعت احمدیہ کی تاریخ میں پہلے یہ دعوے کئے گئے کہ ہم اس جماعت کو صفحہ ہستی مٹا دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس میں کامیابی تو نہیں ہوئی تو پھر احمدیوں کے اموال، املاک اور جانوں پر حملے کر کے جماعت کو مٹانے یا کم از کم ترقی کو روکنے کی کوششیں کی گئیں ۔یہ اقدامات بھی جماعت احمدیہ کی ترقی کو نہیں روک سکے ۔ اب اس گرو ہ کا رخ احمدیوں کی قبروں کی طرف ہے۔اور ان قبروں کو نقصان پہنچا کر بزعم خود اپنی ناکامی کی خفت کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اب ہر دو تین ماہ کے بعد پاکستان میں اس قسم کا کوئی نہ کوئی دلخراش واقعہ ہوتا ہے۔ اور بعض مہینوں میں تو ایک سے زیادہ مقامات پر احمدیوں کی قبروں پر حملے کئے جاتے ہیں اور ان قبروں کے کتبوں کو توڑا جاتا ہے۔

مخالفین سلسلہ کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک چیلنج

اس وحشیانہ طرز عمل سے جماعت احمدیہ کے مخالفین کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اور کس وجہ سے وہ اس پستی تک گر گئے ہیں، جس تک گرنے پر مشرکین مکہ بھی آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اس سوال کا جواب تو مخالفین سلسلہ ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس قسم کی اوباشانہ حرکات کا آخری مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح نعوذُ باللہ جماعت احمدیہ کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ اور اس مقصد کے لئے سو سال سے یہ تمام پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد پیش خدمت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج آج تک جماعت احمدیہ کے مخالفین کو اس مقابلہ کے لئے بلا رہا ہے۔

’’اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکھٹے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بد دعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں۔ پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہوجائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں۔لیکن یاد رکھیں اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجد وں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوئوں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہوجائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگ جائے یا مالیخولیا ہوجائے تب بھی وہ دعائیں نہیں سنی جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد17 صفحہ471-472)

(ابونائل)

پچھلا پڑھیں

مكرم چوہدری حمید الله صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022