• 3 مئی, 2024

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 37)

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
دین میں جبر نہیں (البقرہ: 257)
قسط 37

آنحضرتﷺ مذہب اسلام کے بانی تھے ،اسلام کے معنی سلامتی ہیں اسلام میں بلا امتیاز مذہب و عقیدہ ہر انسان کو حریتِ ضمیر اور آزادی مذہب کے حقوق حاصل ہیں ۔ تنگ نظری، تعصب اور انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں کسی انسان سے محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے نفرت ، تعصب اور تعرض کی اجازت نہیں۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

ترجمہ: جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کر دے.

(الکہف: 30)

آنحضرتﷺ جو تمام بنی نوع انسان کے لئے خلق عظیم کا عظیم ترین نمونہ تھے آپؐ نے اس ارشاد خداوندی پربھرپور عمل فرمایا ۔ آپ کی بابرکت حیات میں کبھی کسی پر اپنا مذہب چھوڑنے، بدلنے یا اختیار کرنے پر پابندی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپؐ کا واسطہ صابیوں، مجوسیوں، عیسائیوں، یہود اور بےدین لامذہب مشرک لوگوں سے پڑا آپؐ نے سب سے شاندار حسن سلوک فرمایا اور مذہبی رواداری کی شاندار مثالیں قائم فرمائیں۔ بعض معاملات بندے اور خدا کے درمیان ہوتے ہیں ۔دین مذہب بندے اور خدا کا معاملہ ہے اور اس نے اس جرم کی سزا کا حق اپنے پاس رکھا ہے۔ کسی دوسرے کو حتیّٰ کہ رسول اللہ ؐ کو بھی عقائد بدلنے پر سزا کا اختیار نہیں دیا گیا۔ کسی بھی نبی کو کبھی بھی نہیں دیا گیا۔ یہ کام مالک یوم الدین نے اپنے ذمے رکھا ہے۔ جب بھی انسان نے مذہب کے معاملے میں خدا بننے کی کوشش کی ہے گھاٹے اور تباہی کا سامان کیا ہے۔

قرآنی ارشاد ہے:
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر کفر میں (اور بھی) بڑھ گئے۔اللہ انہیں ہر گز معاف نہیں کر سکتا۔

(النساء: 138)

اس آیت کریمہ میں حالت ایمان سے کفر میں جانے پر سزا کا ذکر نہیں پھر ایمان لاکر پھر کفر اختیار کرنے پر بھی گردن مارنے کا ذکر نہیں پھر کفر میں بڑھ جانے پر اللہ کی پکڑ کا ذکر ہے ۔ بندے کو کہیں مختار نہیں بنایا ۔ آپؐ کل عالمین کے لئے رحمت بنائے گئے۔رحمت کی وسعتیں تمام انسانوں تک پھیلی تھیں بنیادی انسانی حق نظر انداز نہیں فرمایا ۔ قرآنی اصول لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن۔ محبت پیار نرمی عفو درگزر اخلاق سے تالیف قلوب کے لئے قرآنی ارشادات اور آپؐ کے عمل سے کچھ رہنما اصول پیش ہیں:

1۔ عالمگیر سلامتی کا پیغام اَفشُوا السّلام

(بخاری، کتاب الادب)

سلام کو پھیلاؤ۔ یعنی سلام کہو ان کو جن کو پہچانتے ہو اور جن کو نہیں بھی پہچانتے۔

2۔ اللہ کے سوا پکارنے والے کو گالیاں نہ دینا ورنہ و ہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔

(الانعام: 109)

3۔ سارے مذہبی رہنماؤں اور ان کی عبادت گاہوں کا احترام کرنا ۔مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے۔ ان کا کوئی گرجا گرا یا نہیں جائے گا۔ نہ ہی کسی بشپ یا کسی پادری کوبے دخل کیا جائے گا۔ اور نہ ہی ان کے حقوق میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی ہو گی۔ نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا۔اور ان پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہو گی۔

(ابو داؤد کتاب الخراج)

4۔ قرآنی ارشاد ہےبھائی چارے کو بڑھاوا دینے کے لئے دوسرے مذاہب کے ساتھ مشترک باتوں پر سمجھوتے کئے جاسکتے ہیں.

ترجمہ:تو کہہ دے اے اہل کتاب! آؤ ایک بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔

(اٰل عمران: 65)

5۔ بلا امتیاز عدل و انصاف سے کام لینا ۔قرآنی ارشاد ہے ،کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔

(المائدہ: 9)

6۔ اختلاف عقیدہ کے باوجود دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنا۔

ترجمہ: ان اہل کتاب میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی بطور امانت رکھ دو تو وہ تمہیں واپس کر دیں گے۔

(اٰل عمران: 76)

7۔ اختلاف عقیدہ کے باوجود امن کے لئے معاہدے اور ان کی پاسداری کرنا۔ اس طرح کمال عدل و انصاف بلکہ حسن و احسان سے پُر امن اور خوشگوار تعلقات قائم کرنا ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

ترجمہ: جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا، ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنے سے اللہ تمہیں نہیں روکتا

(الممتحنہ: 9)

8۔قیام امن کے لئے امن پسندوں کو اختلاف عقیدہ کے باوجود عند الضرورت پناہ دینا۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے۔

مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے۔

(التوبہ: 6)

ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ نے ان اصولوں کو اپنا کر مذہبی رواداری کا ایسا شاندار نمونہ دکھایاجو چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اور ہمیشہ کے لئے مشعل راہ ہے۔ حیات طیبہ سےچند واقعات مشتے از خر وارے پیش ہیں۔

مہمان نوازی

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ:ایک دفعہ ایک غیر مسلم آنحضرتﷺ کے ہاں مہمان ہوا۔آپ نے اسے بکری کا دودھ دوہ کر دیا لیکن وہ سیر نہ ہوا۔پھر دوسری بکری کا دودھ پیش کیا پھر بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی۔اس پر تیسری، چوتھی یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔آپ ؐ اُس کی اس حرص پر مسکرائے لیکن مہمان سے کوئی بات نہ کی۔

(ترمذی کتاب الاطعمہ)

دعوت قبول کرنا

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے حضورﷺ کی دعوت کی اور جَو کی روٹی اور چربی پیش کی۔ حضورﷺ نے یہ دعوت قبول فرمائی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3 فحہ نمبر211 بحوالہ اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمٰن صفحہ نمبر20)

تحفہ قبول کرنا

خیبر کی ایک یہودی عورت زینب بنت حارث نے آپ کی خدمت میں بکری کے بھنے ہوئے گوشت کا تحفہ پیش کیا آپ نے اسے قبول فرما لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں زہر ملا ہوا تھا۔

(سیرت حلبیہ اردو،جلد سوئم نصف اول صفحہ180مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999)

بنو نضیر کے یہودیوں میں سے مخیریق نامی ایک شخص نے مرتے وقت اپنے سات باغ آنحضرتﷺ کے نام بطور ہبہ وصیت کئے۔جو آپ ؐ نے قبول فرمائے۔

(روض الانف جلد2 صفحہ143بحوالہ اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمٰن صفحہ نمبر21)ٖ

مریض کی عیادت کرنا

ایک دفعہ مدینہ میں ایک یہودی نوجوان بیمار ہو گیا۔ آنحضرتﷺ کواس کا علم ہوا تو عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ اس کی حالت کو نازک پا کر اسے تبلیغ فرمائی اور فرمایا،، خدا کا شکر ہے کہ ایک روح آگ کے عذاب سے نجات پاگئی،،

(بخاری کتاب الجنائز باب عیادت المشرک)

قبر، لاش اور جنازوں کا احترام

شام کی فتح کے بعد دو صحابہ ایک جنازہ کو دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو گئے۔ ایک نئے مسلمان نے تعجب کیا اور کہا یہ تو ایک عیسائی کا جنازہ تھا۔ انہوں نے جواب دیا ہاں ہم جانتے ہیں مگر آنحضرتﷺ کا یہی طریق تھا۔ایک بار ایک جنازہ کے احترام میں آپ کھڑے ہو گئے تو کسی نے کہا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا تو فرمایا:،،کیا یہودی انسان نہیں ہوتے! اور کیا ان میں خدا کی پیدا کی ہوئی جان نہیں؟،،

(بخاری کتاب الجنائز۔ باب مَنْ قَامَ لجْنَا زَۃِ لیَھودی)(مسند احمد بن حنبل جلد6)

ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ کئی سفر کئے۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو۔کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر۔

(اسوۂ انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحہ542 مطبوعہ لاہور 2004)

غزوہ احزاب میں ایک مشرک سردار نوفل بن عبداللہ خندق میں گر کر ہلاک ہو گیا۔مشرکین مکہ نے اس کی لاش کے بدلے دس ہزار درہم کی پیش کش کی۔ آں حضرتﷺ نے فرمایا:، ان کا مردہ واپس لوٹا دو،ہمیں نہ اس کے جسم کی ضرورت ہے اور نہ قیمت کی۔

(اسوۂ انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحہ543 مطبوعہ لاہور 2004)

اسی طرح بنو قریظہ کو جب ان کی سرکشی کی سزا دی گئی تو ان کی نعشوں کو خندقیں کھدوا کر دفن کیا گیا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، الجزء الثالث صفحہ156، دارالجیل بیروت لبنان)

حضورﷺ نے قبروں کو بد نیتی اور بے حرمتی کے طور پر اکھیڑنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔

حضورﷺ کا حکم تھا کہ کسی مخالف کی نعش کا مثلہ نہ کیا جائے۔

(موطا امام مالک، جنائز، باب ما جاء فی الاختفاء وھوالنبش)

جنگ بدر میں اور جنگ احد میں آپؐ نے کفار کی نعشوں کی تدفین کروائی اور ایک ہی میدان میں مسلمانوں اور کافروں کی تدفین ہوئی، وقت کی تنگی کی وجہ سے جس طرح کئی مسلمان شہداء کو ایک ہی قبر میں دفن کروایا گیا اسی طرح کفار کی نعشوں کو بھی ایک ہی جگہ دفن کروایا۔

(السیرۃ الحلبیۃ، تالیف علی ابن برہان الدین الحلبی الشافعی۔ الجزء الثانی صفحہ190،
مطبعۃ محمد علی صبیح و اولادہ بمیدان الازہر بمصر 1935ء)

معاہدات اور ان کی پاسداری

غیر مسلموں سےم عاہدوں اور ان کی پاسداری کے لئے بھی آپؐ کا اسوہ مثالی تھا ۔صلح حدیبیہ کے موقع پر شرائط لکھنے میں سہیل بن عمرو کے کہنے پر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کی جگہ بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ اور محمد رسول اللہ ؐ کٹوا کر محمد بن عبداللہ لکھوایا۔

حضرت علیؓ نے جو معاہدہ لکھ رہے تھے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ میں تو آپ کے نام کے ساتھ یہ لفظ کبھی نہیں مٹاؤں گا۔اس پر آنحضرتﷺ نے نشان دہی کروا کریہ لفظ خود کاٹ دئے۔

(بخاری کتاب المغازی)

ابھی معاہدہ لکھا نہ گیا تھاکہ کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا حضرت ابو جندلؓ جو مکہ میں مسلمان ہونے کے جرم میں قید و بند جھیل رہا تھا۔ مسلمانوں کے حدیبیہ پہنچنے کی خبر سن کر گرتے پڑتے اس حال میں وہاں آن پہنچے کہ پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر زخموں کے نشان۔ آ کر پناہ کے طالب ہوئے۔مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ لیکن سہیل معترض ہوا اور کہا کہ معاہدہ طے پا چکا ہے۔آنحضرتﷺ نے اس سے اتفاق کیا۔ اس پر حضرت ابو جندلؓ نے عرض کیا:، کیا آپ مجھے پھر ان کافروں کے حوالے کر دیں گے، جنہوں نے مجھے اتنی تکلیفیں پہنچائی ہیں اور ظلم کئے ہیں؟

آنحضرتﷺ نے فرمایا:، ابو جندل! صبر کرو اللہ تمہارے اور دیگر مظلوموں کے لئے کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔اب صلح ہو چکی ہے اور ہم ان لوگوں سے اپنا عہد نہیں توڑ سکتے۔،

(سیرت ابن ہشام اردو جلد دوم صفحہ378 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

میثاق مدینہ انسانی اقدار اور باہمی تعاون کی خاطر کیا گیا تھا اس میں فریق مسلمان، یہود اور مشرکین تھے اس کو حضرتﷺ نے مدینہ کی پہلی مسلم حکومت کے آئین کے طور پر منظور فرمایا اس معاہدے میں غیر مذاہب کے لوگوں کو مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ایک ملت قرار دیا گیا ۔سب کو اپنے عقائد پر رہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی آزادی کا حق تسلیم کیا گیا۔کسی فریق کی جنگ کی صورت میں مسلمان غیر مسلموں کی مدد کریں گے اور غیر مسلم،مسلمانوں کی اعانت کریں گے۔

یہود کے تعلقات جن قوموں سے دوستانہ ہوں گے ان کے حقوق مسلمانوں کی نظر میں یہود کے برابر ہوں گے۔

(سیرت ابن ہشام اردو جلد اول صفحہ نمبر439-442 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

پڑوسی کا خیال

،ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار آنحضرتﷺ نے فرمایا، ابو لہب اور عتبہ میرے پڑوسی تھے اور میں ان کی شرارتوں میں گھرا ہوا تھا۔ یہ لوگ مجھے تنگ کرنے کے لئے غلاظت کے ڈھیر میرے دروازے پر ڈال دیتے۔ میں باہر نکلتا تو خود اس غلاظت کو راستہ سے ہٹاتا اور صرف اتنا کہتا
’’اے عبدالمناف کے بیٹو! کیا یہی حق ہمسائیگی ہے؟‘‘

(طبقات ابن سعد جزو اول)

بنی نوع انسان کی خدمت

ایک غزوہ میں مشرکین کے چند بچے ہلاک ہو گئے۔ حضورﷺ کو پتہ لگا تو فرمایا یہ کون لوگ ہیں؟ جنہوں نے معصوم بچوں کو بھی قتل کر ڈالا؟ ایک صحابی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ! وہ مشرکین کے بچے ہی تو تھے۔ فرمایا!، مشرکین کے بچے بھی تمہاری طرح کے انسان ہیں اور بہترین انسان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں،۔

(اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحہ25)

مکہ کی ایک غیر مسلم بوڑھی عورت آپﷺ کو جادو گر جان کر اپنا گھر چھوڑ کر جا رہی تھی۔ آپؐ نے اس کا بوجھ اٹھا کر اس کی مدد کی۔

اسی طرح ایک اور واقعہ عام ہے۔جس میں آپ نے مکہ میں نو وارد اراشی نامی ایک شخص کا حق دلانے کے لئے اپنے ایک جانی دشمن ابو جہل کے در پر دستک دی۔ یہ نو وارد غیر مسلم بھی تھا اور اجنبی بھی۔

(اسوہ ٔ انسانِ کامل از حافظ مظفر احمد صفحہ581)

عدل و انصاف

ایک موقع پر ایک یہودی قرض خواہ نے آنحضرتﷺ سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے گستاخی کے کلمات کہے اور آنحضورﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر اتنے بل دئے کہ چہرہ مبارک کی رگیں اُبھر آئیں۔ حضرت عمرؓ نے جو اس موقع پر موجود تھے سختی سے اس یہودی کو ڈانٹ کر روکا۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا،، عمر! تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔تمہیں چاہئے تھا کہ اس کو نرمی سے سمجھاتے اور تمہیں مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں قرض وقت پر ادا کروں، بعد ازاں قرض کی ادائیگی کے ساتھ کچھ زائد کھجور اس سخت کلام کو تاوان کے طور پر ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

(اسوۂ انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحہ نمبر 571)

غیروں کی جان و مال کا تحفظ

جنگ خیبر کے محاصرہ کے دوران ایک یہودی رئیس کا گلہ بان مسلمان ہو گیا۔یہودی رئیس کا گلہ اس کے ہمراہ تھا جس کے بارے میں اس نے آنحضرتﷺ سے پوچھا ان بکریوں کا میں کیا کروں؟ فرمایا! ،ان کا منہ قلعہ کی طرف کر کے ہانک دو ، ایسا ہی کیا گیا۔

(سیرت حلبیہ اردو جلد سوئم نصف اول صفحہ137-138 دارلاشاعت کراچی 1999)

فتح خیبر کے موقع پر یہود نے شکایت کی کہ بعض مسلمانوں نے ان کے جانور لوٹے اور پھل توڑے ہیں۔ آنحضرتﷺ ناراض ہوئے اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ، اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ تم بغیر اجازت کسی کے گھر گھس جاؤ اور پھل وغیرہ توڑو،۔

(اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحہ24)

تورات واپس کرادی

فتح خیبر کے دوران تورات کے بعض نسخے بھی مسلمانوں کو ملے۔ یہودی آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریمﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد3 صفحہ49)

مشرکوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا

فتح مکہ کے بعد طائف سے بنو ثقیف کے مشرکین کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کی سربراہی عبد یالیل نامی وہی سردار کر رہا تھا۔ جس نے آنحضرتﷺ کے سفر طائف کے دوران آپ کو انتہائی دکھ دیا تھا۔ اس وفد کے قیام کے لئے حضورﷺ نے مسجد نبوی میں خیمے نصب کروائے۔ بعض صحابہ نے یہ بھی کہا کہ:،آپ ان کو مسجد میں ٹھہراتے ہیں حالانکہ وہ مشرک ہیں اور مشرک نجس ہوتے ہیں،۔ آپ نے فرمایا کہ،یہ ارشاد الٰہی دلوں کی گندگی کے لئے ہے اور شرک کی نجاست خدا کی زمین کو ناپاک نہیں کیا کرتی،۔

(اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحہ23)

فتح مکہ کے بعد دس ہجری میں نجران کے عیسائیوں کا 60افراد پر مشتمل ایک وفد مدینہ آیا۔دوران گفتگو ان کی نماز کا وقت آگیا۔ آنحضرتﷺ نے ان کو مسجد میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کی اجازت دی۔ چنانچہ عیسائیوں نے مسجد نبویﷺ میں مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کی۔

(زرقانی جلد2 صفحہ نمبر 135)

دوسروں کے جذبات کے احترام میں مقام کے اظہار میں کمی

ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے کسی یہودی کے سامنے آنحضرت ؐ کی حضرت موسیٰؑ پر ایسے رنگ میں فضیلت بیان کی جس سے اس یہودی کو صدمہ پہنچا تو آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ ٹھیک ہے میں افضل الانبیاء اور خاتم النبیین ہوں لیکن دوسروں کی دلداری کی خاطر میرے حق کے باوجود لَاتخیِّروُنیِْ عَلیٰ مُوْسیٰ (بخاری کتاب التفسیر سورہ اعراف) یعنی مجھے موسیٰؑ پر فضیلت نہ دیا کرو۔

عقیدہ کا زبانی اظہار کافی ہے

ایک لڑائی میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک کافر کو باوجود یہ کہنے کے کہ میں مسلمان ہوتا ہوں، قتل کر دیا۔ اس کا جب آپ ؐ کے سامنے ذکر ہوا تو آپ ؐ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور ان کے اس عذر پر کہ وہ شخص دل سے مسلمان نہ ہوا تھا۔ آپؐ نے تکرار سے فرمایا:
’’کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا،۔ آپ کی ناراضگی اس قدر تھی کہ حضرت اسامہؓ نے تمنا کی کہ کاش میں اس واقعہ سے پہلے مسلمان ہی نہ ہو ا ہوتا۔‘‘

(مسلم کتاب الایمان)

جانی دشمنوں کو معافی

دشمن اسلام ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہﷺ سے جنگیں کرتا رہا ۔فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریمﷺ کے اعلان عفو اور امان کے باوجود ایک دستے پر حملہ آور ہوا اور حرم میں خونریزی کا باعث بنا۔ اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرایا گیا تھا اس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا۔ لیکن آپؐ نے نہ صرف اسے معاف فرمایا بلکہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے اسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت آپؐ نے عطا فرمائی۔

(ماخوذمؤطا امام مالک کتاب النکاح)

عکرمہ نے پوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے؟ یعنی میں مسلمان نہیں ہوا۔ اس شرک کی حالت میں مجھے آپ ؐنے معاف کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر عکرمہ کا سینہ اسلام کےلئے کھل گیا اور بے اختیار کہہ اٹھا کہ اے! محمدﷺ آپ واقعی بے حد حلیم اور کریم اور صلہ رحمی کرنیوالے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گئے۔

(السیرۃالحلبیہ، جلد سوم صفحہ109 مطبوعہ بیروت)

مشرک سردار صفوان بن امیّہ نے جنگ بدر کے بعد عمیربن وہب کو زہر میں بجھی تلوار کے ساتھ آنحضرتﷺ کو نشانہ بنانے کے لئے مدینہ بھیجا۔ فتح مکہ کے بعد بھاگ کر جدّہ چلا گیا۔ اس کے چچا زاد نے امان کی درخواست کی۔آنحضورﷺ نے امان دی اور اپنا عمامہ بطور نشانی عطا فرمایا۔ جس پر صفوان لوٹ آیا۔لیکن بجائے ایمان لانے کے یہ کہا:
’’میں تمہارا دین ابھی قبو ل نہیں کروں گا مجھے دو مہینے کی مہلت دو‘‘ آپ ﷺ نے جواباً فرمایا: ’’دو نہیں تم چار مہینہ لے لو۔‘‘

(سیرت حلبیہ اردو جلد سوم نصف اول صفحہ286-287 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999)

فتح مکہ کے موقع پر معافی پانے والوں میں ابوسفیان، ہندہ، حضرت حمزہؓ کا قاتل وحشی اور آپﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا قاتل ہبار جیسے اسلام کے کئی بڑے بڑے دشمن بھی شامل تھے۔

لیا ظلم کا عفو سے انتقام
علیک الصلوٰۃ علیک السلام

آپؐ کو صرف حکمِ الٰہی پہنچانے کا فریضہ سونپا گیا تھا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرتﷺ کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے۔ وَقُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَالۡاُمِّیّٖنَءَاَسۡلَمۡتُمۡ ؕ فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ

(اٰل عمران: 21)

ترجمہ: اور اے پیغمبر! اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو۔ پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پاگئے۔ اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الٰہی پہنچا دو۔ اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو۔

اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے۔ اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا، نہ بحیثیت رسالت۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَقَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿۱۹۱﴾

(البقرہ: 191)

ترجمہ: تم خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو۔ خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ242-243)

وہ ماہ تمام اُس کا، مہدی تھا غلام اُس کا
روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اُس کا

حضرت مسیح موعودؑ نے جو آنحضرتﷺ کے سچے عاشق تھے نہ صرف اپنے آقا و مطاع کے اسوہٴ حسنہ پر من و عن عمل کرکے تمام عمر انسان دوستی کا طریق اپنایا بلکہ اسلام کے چہرے سے مذہب میں جبر، سزا ،زبردستی ،طاقت کے استعمال اور تشدد کا ا لزام غلط اور ناجائز ثابت کیا اسلام کی امن و آشتی اور صلح و صفائی کی اصل تصویر دنیا کو دکھائی اور باور کرایا کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اپنی حسین تعلیم سے دنیا میں پھیلا ہے۔ اسلام کی ترقی پہلے بھی ایک فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھی اور اس زمانہ میں بھی ایک فانی فی اللہ کی دعاؤں سے ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ حضرت اقدسؑ کو بیک وقت سارے جھوٹے مذاہب سے جنگ کرکے اسلام کی سچائی ثابت کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا ۔اس چو مکھی لڑائی کے لئے دلائل اور دعا کا ہتھیار دیا گیا۔ لڑائی صرف غلط عقائد سے تھی انسانوں سے نہیں تھی ۔ انسانوں کے دل جیتنے کے لئے رفق، نرمی ،عفو ، درگزر اور اخلاق سے کام لینے کا ارشاد فرمایا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مسلمانوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
’’تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔ پس جو لوگ مسلمان کہلاکر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے، وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 حاشیہ صفحہ167)

’’یہ جہالت اور سخت نادانی ہے کہ اس زمانے کے نیم ملاّ فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبراً مسلمان کرنے کے لئے تلوار اٹھائی تھی اور انہی شبہات میں ناسمجھ پادری گرفتار ہیں مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوگی کہ یہ جبر اور تعدی کا الزام اس دین پر لگا یا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرہ: 257) یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے بلکہ ہمارے نبیﷺ اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملے سے اپنے تئیں بچایا جائے۔ اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے۔ اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ،ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ158)

’’جس کام کے لئے آپ لوگوں کے عقیدوں کے موافق مسیح ابن مریم آسمان سے آئے گا یعنی یہ کہ مہدی سے مل کر لوگوں کو جبراً مسلمان کرنے کے لئے جنگ کرے گا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کو بدنام کرتا ہے۔ قرآن شریف میں کہاں لکھاہے کہ مذہب کے لئے جبر درست ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتاہے لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ یعنی دین میں جبر نہیں ہے۔پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اختیار کیونکر دیا جائے گا یہاں تک کہ بجز اسلام یا قتل کے جزیہ بھی قبول نہ کرے گا۔ یہ تعلیم قرآن شریف کے کس مقام، اور کس سیپارہ اور کس سورة میں ہے۔ سارا قرآن باربار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طورپر ظاہر کر رہاہے کہ جن لوگوں سے آنحضرتﷺ کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبراً شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطورسزا تھیں یعنی ان لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ ﴿۴۰﴾ (الحج: 39) یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کررہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے۔ اور یا وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلا م کو شائع ہونے سے جبر اً روکتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی۔ بجز ان تین صورتوں کے آنحضرتﷺ اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی۔،،

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلا م جلد1صفحہ747-748)

میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ جیسے بین المذاہب
امن کے اصول بیان فرمائے

1897ء اور 1898ء میں ہندوستان میں مذہبی بحث مباحثہ کے سبب حالات سخت خطرناک ہو رہے تھے گورنمنٹ نے سڈیشن کا قانون پاس کیا تھا اس کےباوجود ہندوستان میں فساد کے خطرات بڑھ رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ستمبر 1897ء میں ایک میموریل تیار کر کے لارڈ ایلجن بہادر وائسرائے ہند کی خدمت میں ارسال کیااس میں آپؑ نے تحریر فرمایا کہ قانون سڈیشن میں مذہبی سخت کلامی کو بھی داخل کرنا چاہیے اور اس کے لیے آپ نے تین تجاویز بھی پیش کیں۔

  1. یہ کہ قانون پاس کر دینا چاہیے کہ ہر ایک مذہب کے پَیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو بے شک بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہوگی۔ اس قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرفداری ہوگی اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پَیرو اِس بات پر ناخوش ہوں کہ اُن کو دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔
  2. اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملے کرنے سے لوگوں کو روک دیا جائے جو خود اُن کے مذہب پر پڑتے ہوں۔ یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خود ان کے ہی مذہب میں موجود ہوں۔
  3. اگر یہ بھی ناپسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک فرقہ سے دریافت کرکے اس کی مسلّمہ کتب مذہبی کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ اس مذہب پر ان کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ جب اعتراضات کی بنیاد صرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو جنہیں اس مذہب کے پَیرو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر اُن کے رُو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ باہمی بغض و عداوت ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

(سیرت مسیح موعودؑ ازحضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ صفحہ42-43)

طاقت ہونے کے باوجود درگزر کرنا

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْمِ۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے۔

آپ نہایت رئوف رحیم تھے۔ سخی تھے۔ مہمان نواز تھے۔ اشجع الناس تھے۔ ابتلائوں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے۔ کسی کی دل آزاری کو نہایت ہی ناپسند فرماتے تھے۔ اگر کسی کو بھی ایسا کرتے دیکھ پاتے تو منع کرتے۔۔۔

ایک مرتبہ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑا۔توآپ نے اس کی درخواست پر اُسے معاف کر دیا۔ایک فریق نے آپ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہا مگر حاکم پر حق ظاہر ہوگیا۔ اور اس نے آپ کو کہا کہ آپ ان پر قانوناً دعویٰ کرکے سزا دلاسکتے ہیںمگر آپ نے درگذر کیا۔آپ کے وکیل نے عدالت میں آپ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی۔مگر آپ نے اُسے روک دیا۔

غرض یہ کہ آپ نے اخلاق کا وہ پہلو دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ جو معجزانہ تھا۔ سراپا حسن تھے۔ سراسر احسان تھے۔ اور اگر کسی شخص کا مثیل آپ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم
آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق مَیں نے دیکھا کہ مَیں اسکی مثال بیان کر سکتا ہوں۔یہ نہیں کہ مَیں نے یونہی کہہ دیا ہے۔ مَیں نے آپ کو اس وقت دیکھا۔جب مَیں دو برس کا بچہ تھا۔ پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔مگر مَیں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں۔کہ مَیں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک ،آپ سے زیادہ بزرگ ،آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کرگئی ۔اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرتﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی۔کہ ،، کان خلقُہُ القرآن،، تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ،، کان خلقُہُ حُبَّ محمدٍ واتباعہ علیہ الصّلٰوۃ والسلام،،

(سیرت المہدی حصہ سوم اول صفحہ826)

صداقت کے گواہ متعصب آریہ

لالہ شرم پت اور لالہ ملاوامل سلسلہ بیعت سے بہت پہلے کے حاشیہ نشین تھے۔ متعدد نشانوں کے عینی گواہ بنے۔ حضرت اقدسؑ نے کئی نشانوں میں ان کو شہادت کے لئے مخاطب کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی تیار کروانی چاہی تو اس کے لئے بھی آپ نے لالہ ملاوامل کو روپیہ دے کر امرتسر بھیجا تھا ۔چنانچہ لالہ ملاوامل امرتسر سے یہ انگوٹھی قریباً پانچ روپے میں تیار کروا کر لائے تھے ۔حضرت صاحب نے اپنی کتابو ں میں لکھا ہے کہ میں نے ایسا اس لئے کیا تھا تاکہ لالہ ملاوامل اس الہام کا پوری طرح شاہد ہو جاوے چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی کتب میں اس پیشگوئی کی صداقت کے متعلق بھی لالہ ملا وامل کو شہادت کے لئے بلایا ہے۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ146 روایت 152)

مخالف کو تحفظ دینےکا خوبصورت انداز

ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضرہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہوں۔ اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کردی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا۔ اس کے جوا ب میں جو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح ومہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے۔ اس وقت مولوی عبد اللطیف صاحب ؓ شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آگیا اور انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی۔ حضرت صاحب نے مولوی عبد اللطیف صاحب کوسمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا۔ اور پھر کسی دوسرے وقت جب کہ مولوی عبد اللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے ۔فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا۔

(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ337 روایت 366)

غیر مسلموں کی دکانوں سے خریدنا
اور ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانا

آپؑ کو عیسائیوں کی تیار شدہ چیزوں کے کھانے میں پرہیز نہیں تھا۔ بلکہ ہندوؤں تک کی چیزوں میں پرہیز نہیں تھا۔ البتہ اس روایت کا یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ عیسائیوں نے طریق ذبح کے معاملہ میں شرعی طریق کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ان کے اس قسم کے کھانے سے پرہیز چاہئے۔ مگر باقی چیزوں میں حرج نہیں۔ ہاں اگر کوئی چیز اپنی ذات میں حرام ہو تو اس کی اور بات ہے۔ ایسی چیز تو عیسائی کیا مسلمان کے ہاتھ سے بھی نہیں کھائی جائے گی۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ563 روایت 591)

ایک دفعہ ایک خاتون نے ہندو کے ہاتھ کی مٹھائی کھانے پر حیرت اور اعتراض کااظہار کیا تو آپؑ نے ے کہا۔ تو پھر کیا ہے۔ ہم جو سبزی کھاتے ہیں۔ وہ گوبر اور پاخانہ کی کھاد سے تیار ہوتی ہے۔ اور اسی طرح بعض اور مثالیں دے کر اُسے سمجھایا۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ759 روایت 850)

تحفہ قبول کرنا

ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوؤں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہلِ ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے۔ اسی طرح بازار سے ہندو حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے۔۔۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ ہندوئوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس کے کھانے میں پر ہیز نہیں تھا۔ آجکل جو عموماً پرہیز کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ794 روایت921)

دعوت قبول کرنا

ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہوکار تھا وہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتاہوں۔ آپ نے فوراً دعوت قبول فرمالی۔ اُس نے کھانے کا انتظام بستی بابا خیل میں کیا اور بہت پرتکلف کھانے پکوائے۔ جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے۔ اُس ساہوکار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا۔ اور لوٹا اور سلاپچی لے کر خود ہاتھ دُھلانے لگا۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خد اقبول کر لے۔ غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کوقبول کرے گا، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے۔ تم خدا کو وحدہ لاشریک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو۔ اُس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا۔ حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں۔ پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا۔

(سیرت المہدی حصہ چہارم صفحہ50 روایت 1056)

بد کلامی پر صبر و ضبط

ایک دفعہ حضرت صاحبؑ بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے۔ کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ اگر حضرت صاحب کی اجازت ہوتی۔ تو اُس کی وہیں تکا بوٹی اُڑ جاتی۔ مگر آپؑ سے ڈر کر سب خاموش تھے۔آخر جب اس کی فحش زبانی حد کو پہنچ گئی۔ تو حضرتؑ صاحب نے فرمایا۔کہ دو آدمی اسے نرمی کے ساتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں ۔اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ257 روایت286)

آخری کتاب۔ پیغام صلح

آپؑ کو اپنی وفات قریب ہونے کے الہامات ہورہے تھے۔ زندگی کے آخری دو تین روز ایک کتاب لکھنے میں گزارے جس کا مقصد خالصتاً نسل انسانی کی بہبود، امن عالم کا قیام اور بین المذاہب صلح و آشتی تھا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

(امتہ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

مكرم چوہدری حمید الله صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022