• 3 مئی, 2025

مكرم چوہدری حمید الله صاحب مرحوم

آج محترم چوہدری حمید الله صاحب كی یاد آئی تو ان سے وابستہ یادوں کے چراغ روشن ہونے لگے اور جی چاہا كہ ان كو احبابِ جماعت كی دعاؤں کے لیے صفحۂ قرطاس پر پیش كروں۔ چلیں، دعا كے بعد ابتدا كرتا ہوں۔

سنہ 1963ء كے جلسہ سالانہ كے مبارك موقع پر خاكسار كی ڈیوٹی افسر جلسہ سالانہ حضرت سید میر داؤد احمد صاحبؒ كے ساتھ بطور معاون خصوصی لگی۔ محترم چوہدری صاحب كا دفتر بھی دفتر جلسہ سالانہ كے قریب ہی تھا۔ حضرت میر صاحب اكثر چٹ پر كچھ لكھ كر چوہدری صاحب كی طرف بھجواتے اور میں بعض اوقات چوہدری صاحب سے تحریری جواب لے كر واپس آتا۔ اس دور میں پیغام رسانی كا كام كاغذی چٹوں پر ہی چلتا تھا۔ ٹیلیفون كا سسٹم بہت كمزور تھا۔ ٹیلیفون كو انگلی کے ذریعہ گھما كر نمبر ملایا جاتا تھا۔ كال مل جاتی تو بخوشی بات ہوجاتی تھی، ورنہ وقت ہی ضائع ہوتا تھا۔ اس سے جلدی معاون كاركن مدرگار ثابت ہوتا تھا۔ اس لیے پرچی سسٹم كو ہی شارٹ كٹ اور مفید سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح جلسہ كی بركت سے چوہدری صاحب سے تعارف ہوا اور تعلق بنا۔ چوہدری صاحب ٹی آئی كالج میں ریاضی كے پروفیسر تھے۔ ان كے شاگرد جو ریاضی میں لائق تھے یا ان كو پسند تھے وه ان كے دفتر میں معاون تھے۔ ان كے دو شاگرد مجھے ابھی تك یاد ہیں۔ ایك كا نام ظفر الله تھا جس كی لیاقت كا چرچا تھا۔ دوسرے عرفان خان تھے۔ چوہدری صاحب كے پاس دیگر ذمہ داریوں كے علاوه جلسہ كے رجسٹر كو اپ ٹو ڈیٹ ركھنا ہوتا تھا۔ نیز لال کتاب (Red Book) بھی ان كے سپرد تھی۔

مجھے چوہدری صاحب سے اكثر واسطہ پڑتا تھا جس سے میرے ذہن میں ایك تاثر بیٹھ گیا كہ اس افسر كے ذہن میں حساب ہی بیٹھا ہوا ہے، جس كی وجہ سے ان كی سوچ بڑی گہری ہے۔ اس لیے مجھے اپنی لا ابالی طبیعت كو، جو ایك دیہاتی پس منظر كی وجہ سے ہے، سختی سے ٹھیك كرنا ہوگا۔ پھر كوشش كرتا رہا اور ان سے بہت كچھ سیكھا۔

حضرت میر صاحب تو ان پر بہت اعتماد كرتے تھے اور انہیں مستقبل كے لیے تیار بھی كر رہے تھے اور ان كا احترام بھی بہت كرتے تھے۔ كیونكہ موصوف حضرت صاحبزاده مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل ٹی آئی كالج ربوه كے سٹاف میں شامل تھے۔ اس طرح حضرت میر صاحب مكرم ڈاكٹر سلطان محمود شاؔہد صاحب انچارج پرہیزی برائے مہمانانِ خصوصی كی قدر كرتے تھے۔ اسی طرح نائب افسر جلسہ سالانہ مكرم صوفی بشارت الرحمن صاحب پروفیسر ٹی آئی كالج بڑے قابل احترام تھے۔

وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ ہم نے وه زمانہ بھی دیكھا جب چوہدری حمید الله صاحب كو صدر مجلس خدام الاحمدیہ مركزیہ كے مقام پر فائز كیا گیا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله تعالیٰ نے ان كی گرانقدر خدمات كی وجہ سے ان كو خراج تحسین پیش كیا۔ چوہدری صاحب نے یہ اعزاز خدا كے فضل سے جماعت كی بےلوث خدمت اور دن رات كی سخت محنت كی بدولت پایا۔ چوہدری صاحب حسابی نقطہ ٔنظر سے ٹیم تیار كرتے اور بغیر كسی شور كے نتیجہ خیز رپورٹ پیش كرتے۔ آپ كے زمانہ میں حاضری اور خرچ سے یہ خوشكن نتائج ظاہر ہوتے جو ہم نے مشاہده كیے۔ آپ جماعت كے لیے بڑے فائده مند ثابت ہوتے۔ بہت نفع بخش وجود تھے۔

سنہ 1982ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله تعالیٰ كوٹھی بیت الفضل F8/3 اسلام آباد پاكستان میں عارضہ ٔقلب سے بیمار ہوگئے تو چوہدری حمید الله صاحب بھی وہاں پہنچے اور ڈیوٹیاں سپرد كیں۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی كوٹھی میں ٹھہرے۔ ملحقہ رہائش گاه بهی مہمانوں سے بھر گئی۔ احباب جماعت بھی كثیر تعداد میں موجود تھے۔ چوہدری صاحب نے بغیر كسی گھبراہٹ اور افراتفری كے انتظامی امور سرانجام دیے۔ حضرت مرزا منصور احمد صاحبؒ ناظر اعلیٰ اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ كی راہنمائی میں خدمت سرانجام دی۔ اس سوگوار ماحول میں معاملات كو نمٹانا ان لوگوں كی ہمت تھی۔

خلافتِ رابعہ كا دور شروع ہوا توچوہدری صاحب كو وكیلِ اعلیٰ كی ذمہ داری سونپی گئی۔ آپ نے بڑی حكمت، محنت اور دانشمندی سےكام كو سنبھالا اور اس میں وسعت پیدا كی ۔ حضرت مرزا مبارك احمد صاحبؒ طویل عرصہ سے اس پوسٹ پر تھے، لیكن چوہدری صاحب نے بڑے تجربہ كار مبلغ كی طرح اس اہم كام كو سنبھالا۔ اولا خلافت كی بركت سے روئے زمین پر تبلیغی وتربیتی كام كوپھیلا دیا اور مبلغین سلسلہ كا ساری دنیا میں جال بچھا دیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله تعالیٰ كے دور میں ایك دفعہ خاكسار لندن سے ربوه گیا اور چوہدری صاحب نے تمام افسرانِ تحریكِ جدید اور مبلغین كی میٹنگ بلائی اور خاكسار كو بھی كچھ عرض كرنے كا موقع دیا۔ خاكسار چونكہ لندن میں دفتر پرائیویٹ سیكرٹری میں كاركن تھا اس لیے میں نے اپنی باری آنے پر عرض كیا كہ بعض خطوط اور رپورٹس كے خلاصے تیار كركے ہم حضور انور كی خدمت پیش کرتے ہیں اور سٹاف كی كمی كے باعث ہمارے پاس وقت بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ اس لیے میری عرض ہے كہ آپ یہاں سے ہی رپورٹس كا خلاصہ ساتھ لگا دیا كریں۔ چنانچہ جب میں واپس لندن پہنچا تو دیكھا كہ وكالتِ علیا كی تمام رپورٹس پر خلاصہ لگ كر آتا ہے۔ اس طرح چوہدری صاحب نے خاكسار كی گزارش پر توجہ فرمائی اور ہمارا كام آسان كر دیا۔ حالانكہ میٹنگ كے بعد بعض دوستوں نے مجھے ڈرایا تھا كہ تم نے یہ كیا بات كہہ دی ہے۔ یہ تو ایك طرح سے چوہدری صاحب كو حكم دے دیا ہے كہ ایسا كیا كریں۔ یہ تجویز یا رائے یا گزارش نہیں ہے بلكہ سیدھا سیدھا حكم ہے۔ الحمد لله كہ چوہدری صاحب نے میری گزارش میں سے وقت اور سٹاف كی كمی والے نقطہ كو اخذ كرلیا اور تمام وكالتوں كو ہدایت كر دی كہ وه رپورٹس كے اوپر مختصر خلاصہ لكھ دیا كریں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله مکرم چوہدری صاحب كواكثر جلسہ سالانہ یوكے پر بلاتے۔ چوہدری صاحب لندن پہنچتے ہی تبلیغی اور انتظامی پلان پیش كرتے اور پہلے سال كے پلان پر عمل درآمد كی رپورٹ پیش كرتے۔ آپ بڑے گہرے غور وخوض كے بعد بڑے ادب سے اپنی بات اور رپورٹ كارگزاری پیش كرتے۔ لندن میں جماعتی مركزی دفاتر كا بھی بغور جائزه لیتے۔ لندن میں مكرم مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح آپ كے معاون ہوتے۔كار پر ادھر ادھر ضروری كاموں میں مصروف ہو جاتے۔ محترم مبارك احمد ساقی صاحب سینئر تھے، چوہدری صاحب ان سے بھی راہنمائی لیتے۔ یوكے جماعت كے جنرل سیكرٹری مكرم ہدایت الله بنگوی صاحب اور نذیر احمد ڈار صاحب اور امیر جماعت مكرم چوہدری انور كاہلوں صاحب، چوہدری آفتاب احمد خان صاحب ایمبیسڈر مكرم ارشد باقی صاحب وغیره سے میٹنگ كرتے اور معاملات كو طے كرتے۔ مثلا پراپرٹی خریدنے، جلسہ سالانہ اور سارے سال كے جو كام كرنے ہوتے ان كا پلان تیار كرتے اور پھر فائنل منظوری كی لیے حضور انور كی خدمت میں پیش كرتے۔

وكالتِ مال کے انچارج محترم چوہدری شریف احمد اشر ف صاحب اور چارٹرڈ اكاؤٹنٹ مكرم شجر احمد فاروقی صاحب سے مالی امور سے متعلق بات چیت كرتے۔ ہر سال كام میں وسعت پیدا كرنے کے لیے كاركنان كو ایڈجسٹ كرتے۔ الحمد لله خلافت كی بركت سے کام بڑھتا رہا ۔ ایم ٹی اے كے كاموں كا بھی جائزه لیتے۔ بغیر كسی گھبراہٹ یا جلد بازی اور افراتفری كے بڑے ٹھہراؤ كے ساتھ كام كرتے اور معاونین بھی آپ كے ساتھ تعاون كركے مطمئن نظر آتے تھے۔ چوہدری صاحب كی نظر سكیورٹی سسٹم پر بھی بڑی گہری تھی۔ ربوه سے تربیت یافتہ سٹاف بھجواتے اور پی ایس سیٹ اپ پر بھی نظر تھی۔ حضور انور كی ہدایات کی روشنی میں انتظامی امور میں رد وبدل كرتے، اصول وضع كرتے، تقسیمِ كار دیکھتے اور بڑا گہرا تجزیہ كرتے۔

1987ء میں وقف نو كی مبارك تحریك شروع ہوئی تو مكرم ڈاكٹر شمیم احمد صاحب كو ریكارڈ ركھنے اور لوگوں كے بچوں كی رجسٹریشن سے مطلع کرنے كا بنیادی رجسٹر تیار كرنے كا مشوره دیا۔

محترم چوہدری صاحب وكیلِ اعلیٰ كے منصب كےتقاضوں كے مطابق اپنی ماتحت وكالتوں اور لنڈن كی ایڈیشنل وكالتوں كو قواعد وضوابط كے مطابق ڈیل كرتے۔ ان میں وسعت پیدا كرتے اور وقت اور ضرورت كے مطابق كام كرواتے۔ ہجرت كی بركات كا پورا پورا فائده اٹھاتے۔حضور انور كی ہدایت اور راہنمائی میں بیرونی مشنوں مثلا جرمنی، كینیڈا اور امریكہ وغیره كے دورے فرماتے۔ تحریك جدید كے قواعد میں حسبِ ضرورت تبدیلی وترمیم کرکے حضور انور كی منظوری كے بعد عمل درآمد كراتے۔

وقت كی ضرورت كے مطابق تاریخ اور ریكارڈ كو اپ ٹو ڈیٹ كرتے۔ ہم نے اكثر دیكھا ہے كہ آپ كے پاس اكثر نوٹ بك ہوتی۔ حضور انور سے ملاقات سے پہلے دفتر پی ایس میں ایك عام سی كرسی پر بیٹھ كر كچھ نہ كچھ لكھتے رہتے اور بڑی گہری سوچ میں ہوتے۔ پھر حضور كے پاس حاضر ہو كر ہدایا ت لیتے اور ان كے مطابق من وعن عملدرآمد كرتے۔ الله تعالیٰ ان كے كام میں بركت ڈالتا۔ حضور كی دعاؤں كی قبولیت كا خوشگوار نتیجہ ظاہر ہوتا نظر آتا۔

سنہ 1984ء كے بعد جنرل ضیاء الحق اور ان كے كارندے جماعت كو ختم كرنے كے در پے ہوگئے۔ چوہدری صاحب صاف صاف بتا دیتے كہ حضور دشمن خطرناك حملے كررہا ہے۔ اس سے بچنے كا صرف اور صرف علاج دعا ہی ہے۔ زمین وآسمان كا خدا ہی ہے جو ان سے نمٹے۔ ہم میں تو كوئی طاقت نہیں ہے۔ خدا جانے اور اس كا نمائنده خلیفۃ المسیح۔ محترم چوہدری صاحب كسی خوش فہمی كا شكار نہیں ہوتے تھے۔ ان كا تبصره اور تجزیہ سچاِہوتا تھا۔

حضور انور اس باره میں ان كی رائے كو بڑی اہمیت دیتے۔ بالآخر حضور انور نے خدائی حكم كے تحت اس فرعون كو مباہلے كا چیلنج دے دیا اور 1988ء میں مباہلے كی دعاؤں سے یہ بدترین معاندِ احمدیت جہاز كے كریش ہونے سے لقمۂ اجل بن گیا اور اپنی ہی آگ میں جل كر راكھ ہو گیا، بلكہ اپنے دوسرے كئی اہم افسروں كے ساتھ واصلِ جہنم ہوا اور عبرت كا نشان بنا۔ مباہلے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله تعالیٰ كامیاب ہوئے۔

ایك دفعہ خاكسار چوہدری صاحب كے زمانے میں لندن سے ربوه گیا اور وكیلِ اعلیٰ صاحب كے دفتر میں چوہدری صاحب سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ چوہدری صاحب بڑی خنده پیشانی سے ملے اور چائے سے تواضع كی اور مكرم سید جلید احمد صاحب كو بلاكر كہا كہ مجید صاحب كو دار النصر میں پہاڑی كے نزدیك جو كوارٹر تیارہورہے ہیں دكھا كرلاؤ۔ محترم جلید صاحب مجھے وہاں لے گئے۔ وسیع وعریض پراجیكٹ دیكھا اور دل حمدِ باری سے بھر گیا كہ جماعت كا تعمیر كا كام كروڑوں اربوں میں ہو رہا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام كا الہام ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ‘‘ ہر آن بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے۔ اس پراجیكٹ كو دیكھنے كے بعد محترم چوہدری صاحب سے ملا اور بتایا كہ ایسی عمارتوں كی تو اب لندن میں ضرورت ہے، كیونكہ حضور كی آمد كے ساتھ جگہ اور مكانوں كی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ مسجد فضل اور احاطہ چھوٹا ہو گیا ہے۔ الحمد لله حضور كی زیرِ نگرانی جماعت ہر ممكن مدد كر رہی ہے اور مكان خرید كر بطور دفاتر اور رہائش گاه اور دارالضیافت استعمال كر رہی ہے۔ جماعت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور مالی قربانی كركے ایك عمده مثال قائم كررہی ہے۔ احبابِ جماعت میں خدام، انصار، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات سب دن رات حضور كے گرد شہد کی مكھیوں كی طرح جمع ہو كر خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔

چوہدری صاحب نے فرمایا كہ ربوه میں جلسہ گاه کے لیے جو وسیع وعریض جگہ تیار كی وه بھی جاكر دیكھیں اور ضرورتمندوں کے لیے بیوت الحمد كے نام سے جو كالونی تیار كی گئی ہے وه بھی دیكھیں۔ چنانچہ وه پراجیكٹ بھی دیكھے اور ازدیادِ ایمان كا باعث ٹھہرے۔ پھر بڑے خوبصورت گیسٹ ہاؤس دیكھےجن سے ربوه كی شان دوبالا ہوئی۔ الحمد لله یہ سب كچھ خلافت كی بدولت ہوتا نظر آیا۔ یہ بڑے بڑے تاریخ ساز كام محترم چوہدری صاحب كی زیرِ نگرانی پایۂ تكمیل كو پہنچے۔ چوہدری صاحب نے ہر قدم پر خلیفۂ وقت سے ہدایت اور راہنمائی لی۔

سنہ 2003ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله تعالیٰ كی وفات پر چوہدری صاحب مع نمائندگانِ تحریكِ جدید صدر انجمن احمدیہ ووقفِ جدید اور افرادِ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام لندن تشریف لائے اور معاملات كو دیكھا۔ سب سے اہم كام جو آپ كے سپرد تھا وه خلافت كمیٹی كے صدر كی حیثیت سے انتخابِ خلافت كا كام تھا۔ آپ نے سیكرٹری خلافت كمیٹی كے ساتھ مل كر نمائندگانِ مركز كی مدد سے مسجد بیت الفضل میں رات كو بعد نماز عشاء خلیفۃ المسیح كا انتخاب كرایا۔ قواعد وضوابط كے مطابق ممبران كمیٹی كو مسجد میں ترتیب سے بٹھایا۔ قواعد پڑھ كر سنائے گئے اور درد بھری دعاؤں كے ساتھ آپ كی صدارت میں نام پیش ہوئے۔ ووٹوں كی گنتی ہوئی اور حضرت صاحبزاده مرزا مسرور احمد صاحب سلمہ الله تعالیٰ كو جماعت احمدیہ كا خلیفۂ خامس منتخب كیا گیا۔ یہ کام خدائی تقدیر كے مطابق مکمل ہوا اور ہم سب ممبرانِ خلافت كمیٹی شاہد ہیں كہ خلیفہ خدا تعالیٰ ہی بناتا ہے اور مومنوں كے دل ایك ہاتھ پر اطمینان پاتے ہیں اور خوف امن میں بدل جاتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ كے اپنے بندے مسیح موعود علیہ السلام سے كیے ہوئے وعدے پورے ہوتے ہیں اور جماعت كو ایك خدائی قیادت عطا ہوتی ہے جس كا دوسرے مذاہب اور فرقے تصور بھی نہیں كرسكتے۔ محترم چوہدری حمید اللہ صاحب كا یہ اعزاز تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لكھا جائے گا اور مسجد فضل لندن كوجو بركت بخشی گئی اس سے اس مسجد كی شان دوبالا ہوئی اور ساری دنیا كی احمدیہ مساجد میں اسے ایك منفرد مقام نصیب ہوا۔

اس تاریخی موقع پر ایسے معلوم ہوتا تھا گویا خدا تعالی ٰنے سارا كام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور سیدنا مسرور سلمہ الله كے ہاتھ پر بیعت كے ذریعہ ساری جماعت كو باندھ دیا ہے۔

میں نے پہلے بیان كیا ہے كہ چوہدری صاحب كی یہ عادتِ ثانیہ تھی كہ جماعتی پراجیكٹس كو بڑی تفصیل اور گہرائی سے ملاحظہ فرماتے تھے۔ ایك روز آپ اسلام آباد یوكے میں روٹی پلانٹ دیكھنے آئے اور تفصیلی معاینہ كرنے كے بعد باہر نكلے تو اتفاق سے میں بھی باہر كھڑا تھا۔ یہ روٹی پلانٹ میرے گھر كے سامنے ہی تھا۔ ملتے ہی چوہدری صاحب مسكرائے اور فرمانے لگے كہ یہ روٹی پلانٹ تو آپ كے گھر سے دو چار گز كے فاصلہ پر ہی ہے۔ میں نے عرض كیا ہاں، میں پلانٹ پر چار پانچ سال سے انجینئر مكرم رفیق بھٹی صاحب اور ان كی ٹیم كے ممبران رشید مكینك اور نصیر احمد مكینك محنت كررہے ہیں اور بڑی محنت سے اسے چالو كیا ہے اور جلسہ کے لیے اس پر نان تیار ہوتے ہیں۔ چوہدری صاحب كہنے لگے اب تو ماشاء الله بالكل نئی مشین حدیقۃ المہدی میں لگ چكی ہے اور بہت اعلیٰ روٹیاں تیار ہوتی ہیں اور ان كے انجینئر كوالیفائیڈ ہیں۔ مجھے تو زیاده علم نہیں تھا لیكن چوہدری صاحب ایسے بتا رہے تھے جیسے مشینیں انہوں نے تیار كی ہیں۔ چوہدری صاحب كا علم مشینوں كے باره میں وسیع تھا۔ پھر انہوں نے دارالضیافت ربوه میں بھی ایسی ہی مشین لگوائی جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام كے مہمانوں کے لیے روٹیاں اور نان تیار كرتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا جاری فرموده لنگرخانہ ایك عجیب شان اختیار كر گیا ہے جس میں مہمانوں كی خدمت اور آرام کے لیے ہر طریق اختیار كیا جاتا ہے۔

سنہ 2005ء میں سیدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز كا جلسہ سالانہ قادیان پر جانے كا پروگرام مرتب ہوا تو وكالتِ تبشیرلندن كی طرف سے مجھے چٹھی ملی كہ جلسہ سالانہ قادیان كے مبارك ایام میں صبح كی نماز كے بعد مسجد اقصیٰ قادیان میں آپ كے درس القرآن كی منظوری حضور انور ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عطا فرمائی ہے، لیكن مدرسین کے لیے شرط یہ ہے كہ ان كا درس تفسیر كبیر كی روشنی میں ہو گا۔ الحمد لله مجھے جلسہ پر جانے کے لیے ہندوستان كا ویزه مل گیا جو بظاہر مشكل تھا۔ میں نے حسبِ ہدایت درس تیار كرلیا بلكہ حفظِ ما تقدم کے طور پر دو درس تیار كرلیے ۔ میرا سفر مع فیملی براستہ پاكستان ہوا اور جلسہ كے ایام میں ہم قادیان دار الامان پہنچ گئے اور مسجد مبارك اور مسجد اقصی كے قریب محترم سید شہامت علی صاحب درویشِ قادیان كے ہاں ہمیں رہائش ملی۔ جس دن میرے درس کی باری تھی اس دن مسجد اقصی میں پہنچا اور دیكھا كہ نمازِ فجر كے بعد كسی اور دوست كو درس کے لیے بلایا گیا ہے۔ بعد درس خاكسار نے ناظم صاحب مكرم انعام غوری صاحب سے پوچھا توانہوں نے كہا كہ چلو آپ كل درس دے دیں اور یہ كنفرم ہے۔ صبح كی نماز كے بعد میں نے اپنی باری پر ماحول كے مطابق درس کے لیے آیتِ استخلاف كا انتخاب كیا اور الله تعالیٰ نے سینہ كھول دیا۔ الحمد لله حاضرین میں سے مكرم عطاء المجیب راشد صاحب اور حافظ مظفر احمد صاحب اور چوہدری حمید الله صاحب اور محترم اعظم اكسیر صاحب بھی تھے۔ سب سے بڑھ كر یہ كہ حضور انور ایده الله كے گھر میں بھی انٹركام كے ذریعہ آواز پہنچ رہی تھی۔

محترم چوہدری صاحب دوسرے دن ملے تو فرمانے لگے آپ كا درس بہت اچھا تھا۔ كیا آپ نے تفسیری نوٹس میں كچھ اضافہ بھی كیاتھا۔ میں نے عرض كیا ہاں خلاصہ یہی نكلتا ہے كہ خلافتِ حقہ كا انعام جاری وساری رہے گا، لیكن صفِ اول كے مومنین جو عہدوں پر كام كرتے ہیں الله تعالیٰ نے ان كو زیاده نصیحت فرمائی ہے كہ وه تقویٰ خلوص اور عدل اور پیار محبت سے كام لیتے رہیں تو عوام میں اس بركت كوشیئر كریں گے۔ بہرحال چوہدری صاحب كی حوصلہ افزائی میں وه اضافہ والا فقره مجھے فكرمند كرگیا۔

حضرت چوہدری حمید الله صاحب كی سیرت كا یہ پہلو ایسا ہے كہ جس كو میں اجاگر كرنا چاہتا ہوں اور یقیناً ان كے شاگرد ان كے تحت وكلاء تحریكِ جدید مجھ سے اتفاق كریں گے كہ واقعی چوہدری صاحب میں یہ خوبی تھی كہ وه بے وجہ كسی كی تعریف نہیں كرتے تھے۔ یہ میں نے تحدیثِ نعمت كے طور پر بتانا ضروری سمجھا ہے۔ محترم چوہدری صاحب اپنے مبلغین اور مربیانِ كرام كے كام كو بڑی باریك بینی سے تولا كرتے تھے اور اچھے نتائج كی توقع ركھتے تھے تا احمدیت ترقی كرے۔

محترم چوہدری صاحب لندن آتے تو بغیر كسی كو پریشان كیے بڑی گہری نظر سے حالات اور مختلف دفاتر میں كام كا جائزه لیتے۔ دفتر پرائیویٹ سیكرٹری میں كام كرنے والے مبلغین كے كام جائزه لیتے۔ چوہدری صاحب للہی محبت كے ساتھ جماعت كی ترقی اور بھلائی كا كام كرتے تھے۔ تنے سے لے كر شاخوں تك نظر ڈالتے اور نتیجہ دیكھتے۔ قصہ مختصر یہ ہے كہ مكرم چوہدری حمید اللہ صاحب وقف كی روح كو قائم ركھتے ہوئے خدماتِ دینیہ بجا لاتےرہے۔ آپ بڑے تجربہ كار بڑے محنتی اور منجھے ہوئے افسر تھے۔ آپ كو دستورِ اساسی كے ساتھ ساتھ خدام وانصار كے دستورِ اساسی بھی یاد تھے۔ صدر انجمن احمدیہ اور تحریكِ جدید كے آئین بھی پوری طرح یاد تھے۔ تحریك جدید كے تمام ماتحت شعبہ جات پر گہری نظر تھی اور وكالتِ مال كے تعاون سے امور سرانجام دیتے تھے۔

محترم چوہدری صاحب ایك انمول شخصیت كے مالك تھے۔ ان كی كامیابیوں كا راز صرف اور صرف خلیفۂ وقت كی دعاؤں اور ہدایات پرمن وعن عمل میں مضمر تھا۔ آپ اپنی رپورٹ سے ہر چیز خلفاء كے علم میں لاتے۔ اگر پذیرائی ملتی تو خدا كا شكر بجا لاتے اور كبھی اپنی بڑائی نہ جتاتے بلكہ خدمت دین كو ہمیشہ اك فضلِ الہٰی جانتے۔

الحمد لله خدا تعالیٰ نے جماعت كو كثیر تعداد میں فدائی مخلصین عطا فرمائے ہیں جو خلیفۂ وقت كے ارشاد پر چلتے اور جماعت كا كام كرتے ہیں، لیكن چوہدری صاحب كا رنگ جدا تھا۔وكیلِ اعلیٰ كے رتبہ كے مطابق گہری سوچ بچار كے مالك تھے اور مبلغین كے ساتھ حسنِ سلوك فرماتے تھے۔

چوہدری صاحب حساب دان تھے۔ اس سے بڑھ كر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام كی كتب كے عاشق تھے اور آپ كا مطالعہ وسیع تھا۔ جب بھی بیرونِ ملك دوره پر جاتے تو امام الزمان علیہ السلام كے اس روحانی خزائن سے ارشادات شامل کرکے اپنی تقریر كو مؤثر اور ایمان افروز بناتے۔ بڑے دھیمے لہجے میں پُرسكون انداز میں انگریزی اور اردو میں تقریر فرماتے۔ مشنوں كی ایك ایك چیز كا جائزه لیتے اور ان میں بہتری پیدا كرتے۔

محترم چوہدری صاحب كی كامیابی كا راز تو خلافت سے سچی محبت اور اطاعت ہی تھا۔ لیکن ان كی ان تھك محنت اور میٹھی عادت كا بھی عمل دخل تھا۔ ان كی اہلیہ كا بھی كافی حصہ تھا، جو ان كی جماعتی مصروفیات كو دیكھ كر گھریلو معاملات میں مدد نہیں مانگتی تھیں۔بعض دوروں میں وه اپنے خرچ پر چوہدری صاحب كے ساتھ تشریف لاتی تھیں۔

محترم چوہدری صاحب نے بہت اچھا كیا جو اپنے سفرِ زندگی كی مختصر روئیداد كتابی شكل میں تحریر كر گئے۔ اب اسے ایك خوبصورت كتاب كی شكل میں محترم ملك مظفر احمد انچارج رقیم پریس نے شائع كركے احمدیہ لٹریچر میں خوبصورت اضافہ كیا ہے۔

مولیٰ كریم چوہدری صاحب كو جنت الفردوس میں مقامِ محمود عطا فرمائے اور جماعت كو كئی نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین

(مجید احمد سیالكوٹی۔برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ