’’نوٹ از ایڈیٹر:۔ چونکہ خاکسار نے یہ آرٹیکل حضور انور ایدہ اللہ تعالی کے ایک ارشاد ’’پھر کیا کھائیں، اعتدال ضروری ہے‘‘ کی وضاحت اور میانہ روی پر اسلامی تعلیم بیان کرنے کے لئے تحریر کیا تھا۔ اس لئے اس آرٹیکل کو خاکسار نے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کی خدمت میں بغرض ملاحظہ، دعا اور اجازت کے لئے بھجوایا تھا۔ پیارے حضور نے خاکسار کے نام خط میں تحریر فرمایا۔ کہ
’’ماشاء اللہ آپ نے ان پر بڑی محنت کی ہے اور دونوں (دوسرا مضمون مورخہ 30 اکتوبر کو شائع ہو رہا ہے) کے نفس مضمون کو بیان کرنے کے لئے ایک اچھی کوشش کی ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔ اگر آپ ان مضامین کو الفضل میں شائع کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں‘‘
ادارہ الفضل آن لائن، قارئین کی دلچسپی اور تعلیم و تربیت کے لئے نت نئے سلسلوں کا آغاز کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ سے ہم نے آخری صفحہ پر ’’چھوٹی مگر سبق آموز بات‘‘ آویزاں کرنی شروع کی ہے جو قارئین کی پسندیدگی کے باعث مقبول ترین کا درجہ پا رہی ہے۔ قارئین کرام اس کو پڑھتے ہیں اور استفادہ کے لئے اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں کو بھجواتے اور اپنے موبائل کے Status پر آویزاں کرتے ہیں۔ نیزاس سے حظ اٹھانے کے بعد خطوط کے ذریعہ ادارہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ فی الدارین خیرًا کثیرا۔
مورخہ 26جولائی 2021ء کے شمارہ میں اسی عنوان کے تحت موٹاپے سے بچنے کے لئے ’’چ‘‘ کے حرف سے شروع ہونے والی اشیاء جیسے چپاتی، چاول، چینی، چائے، چکنائی اور چاکلیٹ (ما سوائے کالی چاکلیٹ) سے اجتناب کی بات ہوئی تھی۔ یہ حصّہ ہمارے بہت ہی پیارے امام و رہنما اور پیشوا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پاکیزہ نظروں سے گزرا تو حضورپُر نور کا خاکسار کے نام خط موصول ہوا جس میں اوپر مندرج بات کا حوالہ دے کر حضور نے تحریر فرمایا تھا:
’’پھر کیا کھائیں، اعتدال ضروری ہے۔‘‘
اس کالم میں اس وقت اول تو پیارے حضور کا یہ اہم اور ضروری پیغام قارئین تک پہنچانا مقصود ہے اور دوم۔ حضور کے پیغام سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ’’چ‘‘ سے شروع ہونے والی چیزیں بند کردیں تو پھر اور کھانے کے لئے کیا بچ جاتا ہے اس لئے ان کو کھائیں لیکن اعتدال ضروری ہے۔
حضور انور کے ارشاد مبارک سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ صرف کھانے پینے کے حوالے سے اعتدال ہی ضروری نہیں بلکہ زندگی کے تمام معمولات میں میانہ روی لازمی ہے۔ میانہ روی پر ایک کالم الفضل آن لائن کی زینت اس سے قبل بن چکا ہے۔ اب اس کالم میں معمولات زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وباللہ التوفیق۔
اسلام دینِ فطرت ہے اور مکمل نظام زندگی سے آگاہ کرتا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال پسندی اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا
(البقرہ: 144)
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں وسطی اُمت بنا دیا تاکہ تم لوگوں پر نگران ہو جاؤ اور رسول تم پر نگران ہو جائے۔
(ترجمہ از: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
یہ آیت معتدل امت کے اعتبار سے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس امر کا اعلان عام ہے کہ اسلام، اعتدال، توازن، عدل کا مذہب ہے اور افراط و تفریط و غلوّ و تقصیر سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے۔ وسط میں رہ کر امور سرانجام دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور ساتھ ہی فرمایا ہمیشہ معتدل مزاج رہنے اور دیکھنے کے لئے تم پر رسولؐ نگران ہے اور تم معاشرے میں بسنے والے دوسرے لوگوں پر نگران مقرر کئے گئے ہو۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ امت من حیث المجموع اور تقریباً ہر دوسرا تیسرا مسلمان انفرادی طور پر افراط و تفریط کا شکار نظر آتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ النساء آیت 172میں فرماتا ہے۔
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ
ترجمہ: اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ کے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہو۔
(ترجمہ از: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
یہ دو آیات بہت واضح رنگ میں اسلام، دین فطرت کی وسطی اور معتدل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بے شمار قرآنی آیات اور احادیث ہیں جو ایک انسان کےمعمولات زندگی سے متعلق ہیں، ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
کھانے پینے میں میانہ روی
سب سے پہلے کھانے پینے والے حصہ کو لیتے ہیں کیونکہ یہ کالم کھانے پینے کے حوالہ سے ہی محرک بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ابنائے آدم کو مخاطب ہو کر فرماتا ہے۔
وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ۔
(اعراف: 32)
ترجمہ: اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(ترجمہ از: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
یہاں اسراف یعنی زیادتی و افراط سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ میں اسراف کرنے والوں کو پسند بھی نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حلال اور طیب کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے رزق میں سے محتاج، ناداروں (الحج: 29) اور قناعت کرنے والوں نیز سوال کرنے والوں کو بھی کھلانے (الحج: 37) کا حکم دیا۔ یہ بھی اسراف سے بچنے کی نہ صرف تحریک ہے بلکہ ثواب کا موجب ہے۔
زندگی کی بے اعتدالیوں میں ایک بڑی بے اعتدالی کھانے پینے کی ہے۔ ہم نے عموماً دیکھا ہے کہ اگر انسان حد سے زیادہ پیٹ بھر کرکھالے تو اپنے خدا کا حق یعنی عبادت بھی صحیح رنگ میں نہیں بجا لا سکتا۔ رمضان المبارک میں افطاری کے وقت بھی ایسے بے ہانک نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کھانا پینا انسان کی صحت اور توانائی کے لئے بہت اہم ہے۔ ہم عموماً ایسے بچوں کو جو اپنی عمر کے اعتبار سے ذرا کم مقدارمیں کھانا کھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’کھاؤ گے نہیں تو بڑے کیسے ہو گے؟‘‘ لیکن یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئےکہ کھانے پینے میں کمی و زیادتی صحت کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ ہم سوشل میڈیا میں بار ہا یہ خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں خاتون نے اس حد تک ڈائٹنگ کی جو اس کے لئے مستقل روگ بن گئی، اور کھانے میں زیادتی بھی انسان کے موٹاپے میں بسا اوقات اس حد تک نقصان دہ ہوتی ہے کہ وہ فربہ ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ بعض ذیابیطس کے مریض اس حد تک میٹھی چیزوں سے پر ہیز کرتے ہیں کہ شوگر لیول کم ہونے کی وجہ سے ان کے بعض اعضاء متاثر ہوتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کی ساخت اور اس کے فنکشنز ایسے بنائے ہیں کہ شوگر کی زائد مقدار پیشاب کے راستے باہر نکل جاتی ہے۔ اس لئے اگرہائی شوگر کو کم کرنے کے لئے دوائی استعمال کر رہے ہیں تو میٹھا توازن کے ساتھ استعمال کریں یعنی نہ کم نہ زیادہ، تاکہ آپ کی صحت برقرار رہے۔ یہی تعلیم اسلام کی ہے۔
کھانے پینے میں حلال و حرام کی جو قیود اسلام نے مقرر کی ہیں وہ بھی انسان کو بے اعتدالی سے بچاتی ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کی گئی تمام نعمتوں سے اعتدال کے مطابق برابر فائدہ اٹھانا صحت کے لئے ضروری ہے۔ روزانہ ہی گوشت کھانا انسان کے اندر جانوروں کی صفات پیدا کرتا ہے اورجسم کے اندر ایسے اجزا ء پیدا ہوجاتے ہیں جن کی موجودگی بلڈ پریشر اور کولسٹرول کی زیادتی کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح روزانہ سبزیاں کھانا بھی اخلاق و صحت پر مضر اثرات پیدا کرتا ہے اور انسان کو ڈرپوک اور بزدل بنا دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کھانے پینے میں اعتدال پسندی کے حوالے سے فرمایا ہے کہ پیٹ بھر کر کھانے سے بچو کیونکہ یہ جسم کو خراب کرتا اور بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ جو شخص 40دن تک گوشت نہیں کھاتا اس میں نہایت کمزوری آ جاتی ہےجس کی وجہ سے جفاکشی کے کام نہیں ہو سکتےکمزور طبیعت کی وجہ سے آرام طلبی بڑھ جاتی ہےجو خود صحت کے لئے مضر ہے، اور جو 40 دن تک گوشت ہی کھاتا ہے ان کا دل سخت ہو جاتا ہے اوربیماریوں کے ساتھ ساتھ اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون کو اپنے معرکۃ الآرالیکچر بعنوان ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔ اور مومنوں کو کھانے پینے کے چناؤ میں بھی اعتدال پسندی اور میانہ روی کی تلقین فرمائی ہے۔
کھانے پینے کی بات چلی ہے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اصول بھی سامنے رہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ بسم اللہ وعلی برکۃ اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو، اپنے آگے سے کھاؤ اور آخر پر اپنی پلیٹ کو صاف کرو۔ آخری لقمہ سے پلیٹ صاف کرنا بھی برکت اور ثواب کا موجب ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو ضائع ہونے سے بچانے پر اللہ تعالیٰ خوش ہوتا اور برکتیں عطا فرماتا ہے۔
آج کل دیکھا جاتا ہے کہ دعوتوں میں بعض لوگ پہاڑ کی طرح اپنی پلیٹ کو سجا لیتے ہیں اور بعد میں یہ کھانا ضائع جاتا ہے۔ ہمارے ایک عالم دین بزرگ نے یہ عجیب واقعہ سنایا، انہوں نے کہا کہ میں ایک دعوت میں ذرا دیر سے پہنچا، کھانا شروع ہوچکا تھا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھے دوست سے کہا کہ یہ سالن کی ڈش ذرا قریب کردیں تاکہ میں کچھ ڈال سکوں۔ انہوں نے بجائے وہ ڈش قریب کرنے کے میری طرف گھور کر دیکھااور کہا یہ میری پلیٹ ہے، آپ کو ڈش نظر آتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کو کیا بتاتا کہ اس نے اپنی پلیٹ اتنی بھری ہوئی ہے کہ وہ ڈش ہی نظر آتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں روزانہ ضائع ہونے والے کھانے کو اگر محفوظ کر لیا جائے تو غریب ممالک کے باشندوں کے لئے ایک دن کی خوراک ہو سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفائے کرام اور ہمارے بزرگ اس حوالہ سے ہمارے لئے بطور نمونہ کے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوراک قوت لا یموت کے حوالہ سے تھی، آپؑ کی خوراک بہت ہی قلیل تھی۔ چھوٹے چھوٹے لقمے تھوڑے سے سالن پر مشتمل پلیٹ میں ہلکا سا ڈبو کر، کچھ ہاتھ سے مسل کے اپنے منہ مبارک میں رکھتے اور اسی کو دیر تک چباتے رہتے۔ اور وہ سالن اور روٹی پاس بیٹھے صحابہ کرام کے سامنے کر دیتے تاکہ وہ اس سے لطف اٹھائیں۔الغرض آپ ؑ کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ کم سے کم کھایا جائے اور دوسروں کو دے دیا جائے ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے جب ایک بچی نے رمضان کے مہینہ میں افطاری و سحری کے حوالہ سے سوال کیا تو حضور نے فرمایا کہ جو ناشتہ یا شام کا کھانا سال کے عام دنوں میں میَں کھاتا ہوں وہی کھانا اسی مقدار میں افطاری اور سحری کے وقت ہوتا ہے۔ ہاں اس میں کھجور کا اضافہ سنت رسول ﷺکی اتباع میں کر لیتا ہوں۔
پس مندرجہ بالا اسلامی تعلیم کے مطابق ’’چ‘‘ سے تیار ہونے والی اشیاء میں بھی اعتدال حضور انور کے ارشاد کے مطابق ضروری ہے۔ کیونکہ قرآنی حکم اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی کے تحت تنعم اور خورونوش والی اشیاء میں بھی اعتدال کا نام تقویٰ ہے۔ آج کل تو بہت لوگوں نے Nutrition کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے جو نجی طور پر متمول لوگوں کو گائیڈ کرتے ہیں اور اب تو ہر بڑے ہسپتال میں Nutritionist متعین ہے جو ہسپتال میں داخل مریضوں کی غذا متعین کرتے ہیں۔ یہ بھی اعتدال پسندی کا ایک اچھا طریق ہے۔
خرچ کرنے میں میانہ روی
کھانے پینے میں اعتدال پسندی کا حکم اور اس کی تفصیل کے بعد مومنوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔
(الفرقان: 68)
ترجمہ: اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اِسراف نہیں کرتے اور نہ بُخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے درمیان اعتدال ہوتا ہے۔
(ترجمہ از: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے کہ ان کا خرچ ان دونوں حالتوں کے درمیان درمیان ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حلال کمائی سے منع نہیں فرمایا۔ لیکن ایک ہاتھ سے پیسے اکٹھے کرنے کی ممانعت ہے۔ اپنی کمائی میں سے فلاحی کاموں اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنا بھی اعتدال پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ اور ’’نظامِ نو‘‘ میں اس حوالہ سے جو تفصیل بیان فرمائی اور بعض رہنما اصول واضح فرمائے ہیں وہ اقتصادیات کے شعبہ میں سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
جماعت احمدیہ میں نظامِ وصیت، چندہ کا نظام، مریضوں پر رقم خرچ کرنا، ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمات بالخصوص بنجراور صحرائی علاقوں میں انسانوں کی پیاس بجھانے کے لئے کنویں کھدوانا۔ یہ سب کام یُنْفِقُوْنَ مِمَّا رَزقْنَھُمْ کے تحت آتا ہے۔
کمائی میں ضرورت،ضرورت کی حد تک مدِ نظر رہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر پیسہ اکٹھا کرنے کی حوس ہو تو اسے لالچ کہا جاتا ہے اور لالچی شخص کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے (صحیح بخاری)۔ لہٰذا روزی کی تلاش میں بھی میانہ روی ضروری ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا کی طلب میں اعتدال سے کام لو (صحیح مسلم حدیث: 1097) اور الفقرُ کادان یکون کَفرًا بھی یاد رہنا چاہئے کہ فقر بھی انسان کو کافر بنا دیتی ہے۔
جہاں تک خرچ کرنے کا تعلق ہے اس میں دو Ends ہیں یعنی فضول خرچی اور کنجوسی، بخل، افراط و تفریط کے زمرے میں آتے ہیں جو اسلامی تعلیم کے منافی ہے۔ بخیل کے متعلق آنحضور ؐ نے فرمایا کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا اور فضول خرچی کرنے والے کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے تنگدست کر دیتا ہے۔ میانہ روی سے خرچ کرنے کو نصف معیشت کہا گیا ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا ہے اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے۔ (مشکوٰۃ)
اللہ تعالیٰ نے فضول اور بے جا خرچ کرنے والوں اور بخیل و کنجوسی کو ان الفاظ میں متنبہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا۔اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا
(بنی اسرائیل: 27-28)
ترجمہ: اور قرابت دار کو اس کا حق دے اور مسکین کو بھی اور مسافر کو بھی مگر فضول خرچی نہ کر۔یقیناً فضول خرچ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بہت نا شکرا ہے۔
(ترجمہ از: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’اس آیت میں بتایا ہے کہ خرچ کے متعلق اس اصول کو مدِ نظر رکھو کہ نہ تو ہاتھ گردن سے بندھا رہے یعنی ضرورت کے وقت بھی خرچ کرنے سے دریغ ہو اورنہ ہاتھ ہر وقت مال لٹانے کے لئے دراز رہے بلکہ چاہیئے کہ تم ضرورت کے مطابق خرچ کرو۔ تا بے ضرورت خرچ تم کو اس وقت کی نیکی سے محروم نہ کر دے جب خرچ کرنے کی کوئی صحیح ضرورت پیدا ہو گئی ہو۔ یعنی جب ضرورت کے وقت یہ پیسہ کام نہیں آسکتا تو قوم پر اس کا عیب ظاہر ہو جاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بے وقوف ہے اپنے مال کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ اور یہ بھی کہ دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔‘‘
(تفسیرِ کبیر جلد4 صفحہ325)
بیویوں میں اعتدال اور برابری
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’محبت کو بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہیئے۔ مثلاً پارچہ جات، خوراک، معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے۔ یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پُورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے۔ خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے ایسے لذّات کی نسبت جن سے خدا تعالےٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے، تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔ تعدد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لئے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔ تورات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس کے ساتھ گزارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہیئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کےکرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دلشکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہو تا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے۔ تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔
(ملفوظات جلد7 صفحہ63-64 ایڈیشن 1984)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں۔
’’اگر موقع ہو یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لا وارث ہیں شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرو اور اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو گو ضرورت پیش آوے۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ337)
حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انہیں ادا نہ کرکے انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے یا پڑ سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتا ہے۔ مَیں نے آنحضرتﷺ کی ایک د عا کا ذکر کیا تھا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا عرض کرتے تھے کہ میں ظاہری طور پر تو ہر ایک کے حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کسی بیوی کی کسی خوبی کی وجہ سے بعض باتوں کا اظہارہو جائے جو میرے اختیار میں نہیں تو ایسی صورت میں مجھے معاف فرما۔ اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور خداتعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھرایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی، جو بندے کے دل کا حال بھی جانتا ہے جس کی پاتال تک سے وہ واقف ہے، غیب کا علم رکھتا ہے۔ اس نے اس بارہ میں قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے تم کسی طرف زیادہ جھکاؤ کر جاؤ۔ تو ایسی صورت میں یہ بہرحال ضروری ہے کہ جو اس کے ظاہری حقوق ہیں، وہ مکمل طور پر ادا کرو۔ جیسا کہ سورۃ نساء میں فرماتا ہے کہ وَلَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (النساء: 130) اور اب تم یہ توفیق نہیں پا سکو گے کہ عورتوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چاہو۔ اس لئے یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف کلیۃً نہ جھک جاؤ کہ اس دوسری کو گویا لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔ اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
تو ایسے معاملات جن میں انسان کو اختیار نہ ہو اس میں کامل عدل تو ممکن نہیں لیکن جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں انصاف بہرحال ضروری ہے۔ اور ظاہری انصاف جیسا کہ مَیں بتا آیا ہوں کہ کھانا، پینا، کپڑے، رہائش اور وقت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر صرف خرچ دیا اور وقت نہ دیا تو یہ بھی درست نہیں اور صرف رہائش کا انتظام کر دیا اور گھریلو اخراجات کے لئے چھوڑ دیا کہ عورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ پس ظاہری لحاظ سے مکمل ذمہ داری مرد کا فرض ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 8مئی 2009ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)
اولاد میں اعتدال اور میانہ روی
اس حوالہ سے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اصول وضع فرما دیئے ہیں کہ: شادی کے بعد میاں بیوی کے ملاپ سے جو اولاد اللہ تعالیٰ عطا کرے اسے مسلسل دو سال تک دودھ پلاؤ۔ یعنی اس عرصہ میں نو مولود کی نگہداشت اور دیکھ بھال رکھو۔ بچے کو صحت کے حوالے سے ماں کے دودھ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہ وقفہ اسی لئے مقرر ہوا ہے۔ اس کے بعد ملاپ سے جو بچہ پیدا ہو گا اسے مزید 9ماہ لگیں گے اور یوں قریباً سوا تین سال کا وقفہ ہو گا۔ اور یوں بچے کی جسمانی اور روحانی نشو ونما میں والدین حق ادا کر سکیں گے۔ اور پھر جب اللہ تعالیٰ اس عظیم نعمت سے نواز دے تو پھر ’’خشیۃ املاق‘‘ کے ڈر اور خوف سے اولاد کو ہلاک نہ کرو۔ رزق خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ وہ ’’تَرْزَقُ مَن ْتَشَاء بَغَیرِ حِساب‘‘ اصول کے مطابق ہر ایک کو عطا کرتا ہے۔ چرند پرند کو بھی روزانہ کی بنیاد پر رزق دیا جاتا ہے۔
پھر والدین کو یہ سبق دیا گیا کہ اپنی اولاد میں تفریق نہ کریں۔ عدل مدِ نظر رہے اور تمام کو برابری کے سلوک کے ساتھ دیکھا جائے۔
بچوں سے پیار میں اعتدال
دین و دنیا کے ہر معاملہ میں اعتدال ضروری ہے۔ حتیٰ کہ یہ اصل بچوں کی تعلیم و تربیت میں مدِ نظر رہنا چایئے۔ ہمارے ایشیائی ممالک میں بچوں سے بلا وجہ سختی سے پیش آیا جاتا ہے اور مارنے کا رجحان بھی عام ہے جبکہ مغربی ممالک میں اسی قدر پیار دیا جاتا ہے۔ دونوں امور درست نہیں اور افراط و تفریح کے زمرے میں آتے ہیں۔ بچے کو اس کی غلط حرکت پر تادیب بھی کرنا چاہئے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کانماز پڑھانے کے حوالہ سے ارشاد ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ بچہ 7سال کا ہو تو اُسے نماز پڑھنے کی ترغیب دلائیں اور 10سال کی عمر میں اگر وہ نماز نہیں پڑھتا تو اسے سختی کر کے بھی نماز پڑھاؤ۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک نافرمان بچے کو جب اس کی بری حرکتوں اور چوری کی وجہ سے عدالت نے موت کی سزا سنائی تو عدالت نے اس مجرم کو سزا سے قبل عرف عام میں آخری خواہش پوچھی کہ اس دنیا سے رخصت ہونےسے قبل تم کیا چاہتے ہو تو اس نے کہا کہ میں اپنی ماں کے کان میں ایک بات کرنی پسند کروں گا۔ اس کی درخواست پوری کرنے کے سامان جب پیدا کئے گئے اور ماں سے ملاقات کروائی گئی تو اس نے اپنی ماں کے کان میں بات کرنے کے بہانے اس کاکان کاٹ کھایا۔ لوگوں نے اس مجرم کو لعن طعن کی کہ ابھی سزا کے بعد تم اس دنیا میں نہ رہو گے تم نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی اپنی ماں کو سکھ نہیں پہنچایا۔ تو اس نے کہا کہ یہی وہ کان تھے جنہوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا۔ جب میرے بُرے عمل کی خبر ان کانوں تک پہنچتی تھی تو ان کانوں پر جوں تک نہ رینگتی تھی اور اس کے باوجود یہ مجھے پیار کرتی تھی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر وہ ماں پیار کرنے کی بجائے پہلی دفعہ ہی اس کو چوری سے روک دیتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
نہ نرمی نہ سختی
یہی کیفیت انسان کی اپنی طبیعت میں بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کو نہ اتنا سخت ہونا چاہئے کہ وہ توڑا جائے اور نہ اتنا نرم ہونا چاہئے کہ وہ مروڑا جائے۔ انسان کو اپنی طبیعت کے حوالہ سے بھی معتدل ہونا چاہئے۔ حدیث نبویؐ خیر الامور او سطھا کا تعلق انسان کی طبیعت سے بھی ہے۔ فرمایا۔ دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بے جا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آجاتا ہے یعنی انسان مغلوب ہو جاتا ہے
(صحیح بخاری)
ہم نے حد سے زیادہ غصیلے انسان کو اپنا ذہنی توازن خراب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حد سے زیادہ برداشت بھی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ المجعم الصغیر میں لکھا ہے کہ تین اخلاق، ایمان کے لئے ضروری ہیں اول یہ کہ جب کسی مومن کو غصہ آئے تو وہ غصّہ اسے جھوٹ اور گناہ کی طرف نہ لے جائے اور جب وہ خوش ہو تو اس کی خوشی اسے حق سے دور نہ لے جائے اور جب اسے حکومت اور طاقت ملے تو وہ اپنے حق سے زیادہ پر قابض نہ ہو۔
(المجعم الصغیر للطبرانی باب من اسمہ احمد)
بول چال میں میانہ روی
بلا ضرورت گفتگو اور بلا وجہ باتیں کرنے سے پرہیز لازم ہے۔ اگر زبان انسان کے کنٹرول میں رہے تو انسان کی زندگی سنور جاتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔
(بخاری حدیث 6018)
عدل میں اعتدال
شاید یہ عنوان قارئین کے لئے حیرانگی کا باعث ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے عدل کی کرسی پر فائز ہونے والوں کو بھی اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی کی تلقین فرما کر عدل میں بھی اعتدال کی نصیحت فرمائی ہے۔ ہم آئے روز عدالتوں میں دیکھتے ہیں کہ وہ یکطرفہ اور یکجانب فیصلہ دیتے ہوئے بھی عدل کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں بالخصوص عدل بکتا دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے اس میدان میں ہر چھوٹے اور بڑے کو اس امر کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رہبانیت اسلام میں جائز نہیں
اعتدال کے مضمون میں رہبانیت کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لارَھْبَانیتَہ فی الِا سْلَام۔ کہ اسلام کا رہبانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ رہبانیت یہ ہے کہ انسان دنیا سے کنارہ کشی کر کے دنیا و ما فیہا سے لا تعلق ہو کر دھونی رما بیٹھے۔ درویش بن کر دنیا کے معاملات سے کوئی غرض نہ ہو۔ بعض صحابہ ؓ رسولؐ نے ارادہ کر لیا کہ میں روزے ہی رکھوں گا۔ افطار نہیں کروں گا۔ کسی نے پختہ ارادہ کر لیا کہ میں نمازیں اور نوافل ہی پڑھتا رہوں گا آرام نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا میں شادی نہیں کروں گا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جب اِن صحابہ کے عزائم، وعدوں اور ارادوں کا علم ہوا تو آپؐ نے فرمایا میری طرف دیکھو۔ میں روزہ بھی رکھتا ہوں۔ افطار بھی کرتا ہوں۔ عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب ا لنکاح)
لہذا میانہ روی اور اعتدال میں ہمارے لئے بہترین مثال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
ایک جگہ آپؐ نے فرمایا ان لنفسک علیک حقّا، ولاھلک علیک حقَّا، ولجسدک علیک حقّا۔ ولربک علیک حقّا فاعط کل ذی حق حقہ (مسلم) کہ تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے اہل وعیال کا، تمہارے جسم کا، تمہارے رب کا تم پر حق ہے۔پس ہر ایک کا حق اس کو دے۔
اس سے ملتا جلتا ارشاد آپؐ نے اس وقت بھی فرمایا جب آپؐ نے مسجد نبویﷺ میں چھت سے ایک رسی بندھی دیکھ کر اس بات کا علم ہونے پر کہ یہ رسی حضرت زینب بنت جحش ؓ کی ہے وہ جب عبادت کرتی ہیں تو اپنی چُٹیا اس سے باندھ لیتی ہیں۔ تا نیند کے وقت وہ جھٹکے سے دوبارہ عبادت میں مشغول ہو جائیں۔ آنحضور ؐ نے یہ دیکھ کر ایسا کرنے سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ یہ رسی بھی کھلوا دی۔ دینِ اسلام نے بعض فرائض اور وجوب میں رخصت اور رعایت بھی دے رکھی ہے جیسے سفر میں روزہ نہ رکھنا، سفر میں نماز قصر وغیرہ۔ بعض لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔ صحابہؓ نے بھی ایک رخصت اور سہولت سے فائدہ نہ اٹھایا۔ آنحضور ؐ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا۔ اے لوگو! جب میں نے ایک معاملہ میں رخصت اور سہولت کے پہلو کو اختیار کیا ہے تو تم اس کو کیوں نا پسند کرتے ہو اور کیوں اس سے بچتے ہو۔ خدا کی قسم ! مجھے ان سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کی ذات کا عرفان حاصل ہے اور میں ان سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل)
اعمالِ صالحہ میں میانہ روی
آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ بہترین کام وہ ہے جو میانہ روی کے ساتھ کئے جائیں۔ اور ایک موقع پر فرمایا۔ اعمال میں میانہ روی اختیار کروتا اللہ کا قرب حاصل کرو۔
(معجم الاوسط جلد 2صفحہ 78حدیث 2583)
اس ضمن میں اعتدال کے مضمون میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی مشعلِ راہ ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ اور لگاتار کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔
(صحیح مسلم)
کام میں دوام بھی ضروری ہے۔ ہم نے بار ہا ملاحظہ کیا ہے کہ بعض لوگ بہت جذبے اور پختہ ارادوں سے کسی کام کا آغاز کرتے ہیں مگر جلد تھک ہار کر چھوڑ دیتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہو وہ کام پسند کیا جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی وہ بگڑ جاتا ہے۔ (صحیح مسلم) مشہور ہے میانہ روی استقامت کی کنجی ہے۔
نیند میں غلو
اللہ تعالیٰ نے دن کام کرنے اور رات سکون لینے کے لئے پیدا کی ہے۔ انسان کے لئے نیند لینی بہت ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے رات بنائی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَّ جَعَلۡنَا نَوۡمَکُمۡ سُبَاتًا (النبا: 10)۔ آج کل لوگ راتوں کو جاگتے اور بسا اوقات دن کو بھی کام کرتے رہتے ہیں جن سے ان کے قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رات سونے کے لئے پیدا کی ہے۔ جو رات کو بر وقت سوتے، صبح بر وقت جاگتے اور اللہ کی عبادت کا حق ادا کرتے ہیں وہ صحت مند رہتے ہیں اور دراز عمر پاتے ہیں اور اس کے بالمقابل سوتے رہنے والوں کے حق میں کہا جاتا ہے ’’جو سوتے ہیں وہ کھوتے ہیں یعنی بہت سی چیزیں ضائع کر دیتے ہیں۔‘‘
تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو حصولِ تعلیم میں بھی معتدل رہنا ضروری ہے۔ تعلیم میں نیند کا حصول بھی ضروری ہے ورنہ میں نے تعلیم کی خاطر جگراتے رہنے والے پروفیسرز اور ڈاکٹرز کو نیم پاگل ہوتے بھی دیکھا ہے۔
چال ڈھال میں میانہ روی
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ ہر ایسی بات کی طرف توجہ دلاتا ہے جو انسان کو انسانیت کے تمام تقاضوں پر پورا اترنے کی تلقین کرتی ہے حتیٰ کہ قرآن میں انسان کو چال معتدل رکھنے کی تلقین حضرت لقمان ؑ کی زبان میں اس وقت ملتی ہے جب وہ اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ کہ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور ساتھ ہی فرمایا وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ کہ اپنی آواز کو دھیما رکھ۔ آنکھیں نیچی رکھنے کا جو اصول اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے وہ بھی معاشرہ کو درست سمت پر ڈالنے کے لئے معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ایشیائی معاشرے میں لڑھ چھوڑ کر تہبند کا کچھ حصہ زمین پر گھسیٹنے کو فخرو مباحات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جو ٹھیک نہیں اس میں اعتدال ضروری ہے۔
اسلامی تعلیم میں غلّومنع ہے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ (النساء: 172) کہ اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ کے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ یہ خطاب اہلِ کتاب سے ہے جس میں یہودی، عیسائی اور مسلمان مخاطب ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اُسے نبی نہ مان کر افراط جبکہ عیسائیوں نے اسے خدا کا بیٹا قرار دے کر تفریط سے کام لیا۔ مگر اس قرآنی حکم سے مسلمان اسی طرح مخاطب ہے جیسے یہودی اور عیسائی۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہ کو معتدل امّت بنایا مگر مسلمانوں بالخصوص شدت پسند وں کے اسلامی تعلیم کے منافی اعمال اور غلّو نے دین حنیف کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ جس سے اسلام مغربی دنیا میں بدنام ہوا ہے۔ اسی لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دین میں غلو سے بچو۔ تم میں سے پہلے لوگوں کو بھی دین کے غلو نے ہلاک کر دیا تھا۔
چونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری زمانہ میں اس غلو کے حوالہ سے علم رکھتے تھے اس لئے آپؐ نے دو دفعہ ھَلَکَ الْمُتَنِطِّعُوْنَ (صحیح مسلم) کے الفاظ بیان فرمائے کہ غلو کرنے والے ہلاک ہوں۔
آج کل رسومات و بدعات میں جو غلّو سے کام لیا جاتا ہے بالخصوص شادی بیاہ کے موقع پر، یہ بھی اسلامی تعلیم کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔ ان سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ اپنی ناک اونچی رکھنے کی بجائے اسلام کا حسین چہرہ اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ میں اس غلّو سے بچنے کے کئی طریق موجود ہیں۔ ان میں سے ایک ’’مریم شادی فنڈ‘‘ میں رقوم بھجوانا ہے۔ ہماری بہت سی خوش نصیب بچیاں ایسی ہیں جو اپنے والدین کو مجبور کرتی ہیں کہ سادگی میں میری شادی کر دیں اور بقیہ رقم کسی مستحق بچی کی شادی کے لئے مریم شادی فنڈ میں جمع کروا دیں۔ یہ بھی ایک میانہ روی کی قسم اور مبارک ادا ہے۔
یہ مضمون اپنی دلچسپی اور اہمیت کے پیشِ نظر طویل ہوتا جا رہا ہے لیکن کوشش یہی ہے کہ اس اہم موضوع پر جس حد تک اسلامی و دینی تعلیم اکٹھی ہو سکتی ہے کر دی جائے خواہ اس آرٹیکل کی دو قسطیں ہوں۔
میانہ روی کی اہمیت کا اندازہ ڈرائیونگ سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ سرکاری ٹرین یا بسوں میں 8گھنٹے سے زیادہ ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہوتی۔ بالخصوص مغربی دنیا میں ڈرائیونگ میں Over Time کا تصور ہی نہیں۔ نجی گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لئے موٹر وے پر Rest Area بھی موجود ہیں۔
مداح سرائی میں بھی غلّو نقصان دہ ہے۔ انسان خود نقصان اٹھاتا ہے۔ جس کی مدح سرائی میں اس کے حق میں وہ بات کہی جائے جو اس میں نہیں تو جھوٹ کے ساتھ ساتھ اس شخص کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان اکر مکم عند اللہ اتقکُم۔ حسب و نسب، مراتب و مناصب میں غلّو میں کام لینا جائز نہیں۔ بعض لوگ اپنی ذات کو، اپنی شخصیت کو اس حد تک اجاگر کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بہت اعلیٰ کرکے پیش کرتے ہیں۔
پھر کسی پر اعتبار کرنے میں بھی میانہ روی ضروری ہے۔ بعض اوقات کسی پر اندھا اعتماد کرنے سے نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کسی سے محبت اور دشمنی کے حوالہ سے آنحضورؐ نے فرمایا کہ اپنے دوست سے اعتدال کے اندر رہ کر محبت کرو کیونکہ عین ممکن ہے کہ کل کلاں وہی شخص تیرا دشمن بن جائے اور اسی طرح اپنے دشمن سے بھی حد میں رہ کر دشمنی رکھو کہ وہ کل تیرا دوست بھی بن سکتا ہے۔
(جامع ترمذی ابواب البّر والصلہ)
بعض انسانوں کو کوئی شوق پالنے کا اندھا شوق ہو جاتا ہے جو دیگر معمولاتِ زندگی میں حائل ہوتا ہے۔
صحت اور گاڑی کے استعمال کے حوالہ سے کچھ باتیں گزشتہ حصہ میں ہو چکی ہیں۔ کار اور موٹر بائیک کا کثرت سے استعمال صحت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ انسان کو کبھی کبھاراپنی انا کے ساتھ ساتھ کار کو گھر رکھ کر پیدل یا سائیکل پر بھی چھوٹے موٹے کام کاج کرلینے چاہئیں۔
ابھی مضمون کے پروف کے دوران میرے موبائل پر ایک میسج بعنوان ’’ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی ہے‘‘ نمودار ہوا جس میں معمولات زندگی میں ایسی عادات کا ذکر ہے جن کی کثرت نے زندگیاں اجیرن کر دی ہیں ان میں فون اور دیگر gadgets کے علاوہ فون پر دوستوں کی کثرت اور دکھاوانیز کپڑوں کی خرید میں بہتات شامل ہے۔ ان تمام امور میں اعتدال لازم ہے۔
پس زندگی کے تما م شعبوں میں درمیانی راہ اختیار کر کے افراط و تفریط، غلّو، زیادتی یا تقصیر سے بچنا چاہیئے۔ مضمون کے آخر میں ایک اہم محاورہ درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ کہتے ہیں الوسط فَضِیْلَۃ بَیْنَ رَذِ یْلتَینِ کہ دو کمزوریوں یا کمیوں کے بیچ ایک فضیلت و برتری اعتدال و میانہ روی ہے۔ یہ دونوں الفاظ آپس میں مترادف ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ ابۡتَغِ فِیۡمَاۤ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنۡسَ نَصِیۡبَکَ مِنَ الدُّنۡیَا وَ اَحۡسِنۡ کَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ
(القصص: 78)
ترجمہ: اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا کیا ہے اس کے ذریعہ دارِ آخرت کمانے کی خواہش کر اور دنیا میں سے بھی اپنا معین حصہ نظر انداز نہ کر اور احسان کا سلوک کر جیسا کہ اللہ نے تجھ سے احسان کا سلوک کیا۔
(ترجمہ از: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
پس اس تمام تعلیم کو اگر انسان سامنے رکھے تو ’’میانہ روی‘‘ اپنی نوع کی بہترین خوبی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس طریق کو اپنایا اور تمام نظامِ فلکی اور زمین میں توازن پیدا فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وَضَعَ الْمِیْزَان کی تشریح میں حاشیہ میں تحریر فرمایا ہے۔
’’آسمان کو جو رفعتیں عطا کی گئی ہیں وہ اتنی متوازن ہیں کہ اس سے بندے انصاف اور عدل کا طریق سیکھ سکتے ہیں۔‘‘
اگر اللہ تعالیٰ کے مومن بندے بھی ہمیشہ اس توازن کی حفاظت کریں گے اور عدل کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی عظیم رفعتیں عطا فرمائے گا۔
کرونا وائرس اور اعتدال
ہمیں اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کی رہنمائی میں Covid 19 کے دنوں میں اپنی زندگیوں میں بہت سے امور میں اعتدال اور میانہ روی کو سیکھنے کا موقع ملا۔ اس طریق اور مشق کو اپنے ہاں تسلسل دینے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کی تعلیم کے تمام پہلوؤں کو اپنی زندگیوں میں اتارنے کی توفیق سے نوازتا رہے۔ آمین