• 19 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 23؍ اکتوبر2020ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اکتوبر2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

اے معاذ! مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ ذکر کرنا اور یہ ہرگز نہ چھوڑنا کہ تم کہو کہ اللّٰهُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (الحدیث)

قاریٔ قرآن، محبوبِ رسولؐ ،فقہی معاملات میں صائب الرائے ، آنحضرت ﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت مُعَاذ بن جَبَل رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

تین مرحومین مکرم مولوی فرزان خان صاحب مبلغ انچارج ضلع خوردہ ونیا گڑھ اڑیشہ انڈیا، مکرم عبداللہ مُلْسِیْکو صاحب لوکل مشنری ملائشیا اور مکرم عبدالواحد صاحب معلّم سلسلہ قادیان کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج جن صحابی کا مَیں ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ۔ آپؓ کا نام مُعَاذ تھا۔ آپؓ کے والد کا نام جَبَلَ بن عَمْرو اور والدہ کا نام ہند بنت سَہَل تھا جو جُہَینہ قبیلے کی شاخ بنو رَبْعَة سے تھیں۔ حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ کی کنیت عبدالرحمٰن تھی۔ آپ کا تعلق خزرج قبیلے کی شاخ أُدَیّبن سَعد بن علی سے تھا۔ سیرالصحابہ کے مصنف لکھتے ہیں کہ سعد بن علی کے دو بیٹے تھے سَلِمَہ اور أُدَیّ۔ سَلِمَہ کی نسل سےبنو سَلِمَہ ہیں۔ اسلام کے زمانے میں أُدی بن سعد کے خاندان میں سے صرف دو شخص باقی تھے۔ ایک حضرت مُعَاذؓ اور دوسرے ان کے صاحبزادے عبدالرحمٰن۔ بنو أُدَیّ کے مکانات بنو سَلِمَہ کے پڑوس میں واقع تھے۔ حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ انتہائی سفید، خوبصورت چہرے والے، چمکدار دانتوں والے، سُرمگیں آنکھوں والے تھے۔ آپؓ اپنی قوم کے نوجوانوں میں سے زیادہ خوبصورت نوجوان اور زیادہ سخی تھے۔ اَبُونُعَیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓانصار کے نوجوانوں میں سے بردباری، حیا اور سخاوت میں بہتر تھے۔ حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓبیعتِ عقبہ ثانیہ میں ستّر انصار کے ہمراہ شریک ہوئے اور قبولِ اسلام کے وقت آپؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ حضرت مُعاذ بن جَبَلؓ غزوۂ بدر ، غزوہ ٔاُحُد ، غزوہ ٔخندق اور بعد کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپؓ غزوۂ بدر میں اس وقت شامل ہوئے جب آپؓ کی عمر بیس یا اکیس سال تھی۔ ان کے اَخْیَافی بھائی یعنی ایسے بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں، حضرت عبداللہ بن جَدّ بھی غزوہ ٔبدر میں شریک تھے۔ اُسُدالْغَابَہ کے مطابق آپؓ کے اخیافی بھائی کا نام سَہْل بن محمد بن جَدّ ہے اور سہل بنو سلمہ سے تھے۔ اسی وجہ سے بنو سلمہ ان کو بھی اپنے قبیلے میں سے شمار کرتے تھے۔ جب مہاجرینِ مکہ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکی مؤاخات حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓسے کروائی۔

تاریخ کی مختلف کتابوں میں بس یہی حوالہ درج ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ نے بنو سلمہ کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر بنو سلمہ کے بت توڑے تھے۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5صفحہ 187معاذ بن جَبَل دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 437-438 مُعَاذ بن جَبَل ومن سائر بني سَلَمَة۔دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد6 صفحہ107-108 معاذ بن جَبَل، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء )
(سیر الصحابہ جلد سوم صفحہ 497معاذ بن جَبَل، دار الاشاعت کراچی 2004ء)

پہلے ایک صحابی کے ذکر میں یہ واقعہ بیان ہو چکا ہے کہ وہ کس طرح اپنے خاندان کے ،گھر والوں کے بت توڑتے تھے اور یہاں بھی بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت عمرو بن جَمُوحؓ نے اپنے گھر میں ہی لکڑی کا ایک بت بنا کر اسے ‘منات’ کا نام دے رکھا تھا اور اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقعے پر بنو سَلِمَہ کے بعض نوجوانوں نے بیعت کی۔ ان میں حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓبھی تھے۔ خود عمرو کے بیٹے مُعَاذ نے بھی بیعت کر لی تھی اور یہ واقعہ جو مَیں کہہ رہا ہوں یہ پہلے مُعَاذ بن عمرو کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے۔ تو کہتے ہیں انہوں نے اپنے والد عمرو کو اسلام کی طرف بلانے کے لیے تدبیر کی کہ حضرت عمرو کا وہ بت جسے انہوں نے اپنے گھر میں سجا رکھا تھا، رات کو اسے اٹھا کے کوڑے کا جو گڑھا تھا، ڈھیر تھا وہاں پھینک آتے تھے اور جن لڑکوں کی مدد لیا کرتے تھے ان میں حضرت مُعاذ بن جَبَلؓ بھی شامل تھے۔ بہرحال ایک دن اس کوڑے میں انہوں نے اٹھا کے پھینک دیا۔ عَمرو اسے تلاش کرکے اپنے گھر لے آئے اور کہا کہ اگر مجھے اس شخص کا پتہ چل جائے جو میرے بت کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے تو مَیں اسے عبرتناک سزا دوں گا۔ اگلے دن پھر ان نوجوانوں نے اس بت کے ساتھ وہی سلوک کیا۔ وہ پھر گڑھے میں الٹا پڑا تھا۔ وہ پھر اسے اٹھا کے لے آئے۔ تیسرے دن پھر اس بت کو صاف ستھرا کر کے سجا کے رکھا اور ساتھ اپنی تلوار ٹانگ دی اور بت کو مخاطب کر کے کہا کہ خدا کی قسم ! مجھے نہیں پتہ کہ کون تمہارے ساتھ یہ حرکتیں کرتا ہے لیکن اب مَیں تلوار بھی تمہارے ساتھ چھوڑ کے جا رہا ہوں اپنی حفاظت اب خود کر لینا، تلوار اب تمہارے پاس ہے۔ اگلے دن پھر حضرت عمرو نے دیکھا کہ بت اپنی جگہ موجود نہیں ہے اور پھر محلے کے اسی گڑھے کے اندر ایک مُردہ کتے کے گلے میں وہ بندھا ہوا پڑا مل گیا۔ یہ دیکھ کے وہ بہت سٹپٹائے اور سخت پریشان ہو کر سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ بت جسے مَیں نے خدا بنا کر رکھا ہوا ہے اس میں تو اتنی قدرت اور طاقت بھی نہیں ہے کہ تلوار پاس ہوتے ہوئے اپنے آپ کو بچا سکے، اس نے میری کیا حفاظت کرنی ہے اور پھر اس پر مزید یہ کہ ایک مردہ کتا اس کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ پھر یہ خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ بات پھر ان کو اسلام کی طرف مائل کرنے والی بنی اور اسلام قبول کرنے کا موجب بن گئی۔

(ماخوذ از اسد الغابہ جلد4صفحہ 195عمرو بن الجموح دار الکتب العلمیة بیروت 2003ء)

حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و اخلاص کا اس بات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ غزوہ ٔاحد کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو گریہ و زاری کی آواز گلیوں سے آ رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ انصار کی خواتین ہیں جو اپنے شہدا پر رو رہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا حمزہؓ کے لیے کوئی رونے والا نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ ؓکے لیے بخشش کی دعا کی۔ جب حضرت سَعد بن مُعَاذؓ اور حضرت سَعد بن عُبَادہؓ اور حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓاور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے یہ سنا تو وہ اپنے اپنے محلّوں میں گئے اور مدینے کی رونے والیوں اور نوحہ کرنے والیوں کو اکٹھا کر کے لائے۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی انصار کے شہدا پر نہیں روئے گا جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا پر نہ رو لو کیونکہ آپؐ نے فرمایا کہ مدینے میں حمزہؓ کے لیے رونے والا کوئی نہیں۔ یہ عشق تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ آپؐ کی وجہ سے کہ آپؐ کو حضرت حمزہؓ کی تکلیف پہنچی۔ (ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن کثیر جلد 3صفحہ 95-96 غزوۃ احددار المعرفۃ بیروت 1986ء) گو کہ رونا اور نوحہ کرنا منع ہے لیکن یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وقت کے لیے اجازت دی یا لوگوں کے جذبات کو دیکھ کے خود اظہار کیا کہ کاش کہ حمزہؓ کے لیے بھی جذبات کا اظہار ہوتا لیکن بہرحال یہ نوحہ کرنا عمومی طور پر اسلام میں منع ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی طرف تشریف لے گئے۔ حنین جو ہے وہ مکے کے شمال مشرق میں طائف کے قریب ایک وادی ہے تو آپؐ نے حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓکو مکے میں پیچھے چھوڑا تا کہ وہ اہل مکہ کو دین سکھائیں اور انہیں قرآن پڑھائیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 265 ’معاذ بن جَبَل‘۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 109زوار اکیڈیمی پبلیکیشنز)

حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓنے غزوہ ٔتبوک میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت کَعْب بن مالِکؓ کے بارے میں پوچھا جو اس وقت مدینہ میں ہی رہ گئے تھے تو بنو سلمہ کے ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت کعب بن مالک کی برائی کی تو حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓنے اس شخص کو ڈانٹا اور کہا یا رسول اللہ ؐ!ہم نے تو ان میں بھلائی ہی دیکھی ہے ۔کوئی برائی نہیں دیکھی۔

(ماخوذ از صحیح بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک …… الخ حدیث 4418)

یہ تھے اعلیٰ اخلاق کہ پیچھے کسی کی برائی نہیں کرنی۔

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت انس ؓکو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چار آدمیوں نے قرآن جمع کیا وہ سب انصار میں سے ہیں۔ حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓ، حضرت اُبَیبن کعبؓ ، حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابوزیدؓ ۔ حضرت ابو زید ؓحضرت انس ؓکے چچا تھے۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل اُبَیّ بن کعب….حدیث 2465)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ چار شخصوں سے قرآن سیکھو ابن مسعودؓ اور ابوحذیفہ کے غلام سالمؓ اور اُبَیبن کعبؓ اور مُعَاذ بن جَبَلؓ سے۔

(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب مُعَاذ بن جَبَل حدیث 3806)

یہ بخاری کی روایت ہے جو مَیں نے پہلے پڑھی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کعبؓ کے ذکر میں پہلے بھی کچھ وضاحت ہوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی تھی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے۔ یہ چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پڑھیں اور لوگوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ پھر ان کے ماتحت اَور بہت سے صحابہ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے۔ ان چار بڑے استادوں کے نام یہ ہیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ، سالم مولیٰ ابی حُذَیفہ ؓ، مُعَاذ بن جَبَلؓ، اُبَیبن کعبؓ۔ ان میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری۔ کاموں کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعودؓ ایک مزدور تھے، سالمؓ ایک آزاد شدہ غلام تھے، مُعَاذ بن جَبَلؓ اور ابی بن کعبؓ مدینے کے رؤساء میں سے تھے۔ گویا ہر گروہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گروہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قاری مقرر کر دیے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ خُذُوا الْقُراٰنَ مِنْ اَرْبَعَۃٍ (مِنْ) عَبْدِاللّٰہِ بِنْ مَسْعُوْدٍ وَ سَالِمٍ وَ مُعَاذِ بِنْ جَبَلٍ وَاُبَیِّ بِنْ کَعْبٍ۔ جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ، سالمؓ ، مُعَاذ بن جَبَلؓ اور ابی بن کعبؓ سے۔

یہ چار تو وہ تھے جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا یا آپؐ کو سنا کر اس کی تصحیح کرالی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ ِراست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک لفظ کو اَور طرح پڑھا تو حضرت عمر ؓنے ان کو روکا اور کہا کہ اس طرح نہیں، اس طرح پڑھنا چاہیے۔ اس پر عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا نہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سکھایا ہے۔ حضرت عمر ؓ ان کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ بن مسعودؓ پڑھ کے سناؤ۔ جب انہوں نے پڑھ کر سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے۔ حضرت عمر ؓنے کہا یا رسول اللہؐ! مجھے تو آپؐ نے یہ لفظ اَور رنگ میں سکھایا ہے آپؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ دوسرے لوگ بھی پڑھتے تھے چنانچہ حضرت عمر ؓکا یہ سوال کہ مجھے آپؐ نے اس طرح پڑھایا ہے بتاتا ہے کہ حضرت عمر ؓبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے تھے۔

(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ427-428)

حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امّت میں سے میری امّت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر ؓہیں۔ (میری امّت میں سے میری امّت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکرؓ ہیں) اور اللہ کے دین میں ان سب سے زیادہ مضبوط عمرؓ ہیں اور ان میں سب سے زیادہ حیا والے عثمانؓ ہیں اور ان میں سب سے زیادہ عمدہ فیصلہ کرنے والے علی بن ابی طالبؓ ہیں اور ان میں سب سے زیادہ اللہ کی کتاب قرآن کو جاننے والے ابی بن کعبؓ ہیں اور ان میں سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے مُعَاذ بن جَبَلؓ ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ فرائض کو جاننے والے زید بن ثابتؓ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ سنو! ہر امّت کے لیے ایک امین ہوتا ہے اور اس امّت کے امین ابوعُبَیدہ بن جَرّاح ؓہیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب افتتاح الكتاب في الإيمان وفضائل الصحابة والعلم باب فضائل خباب حدیث154)

یہ روایت پہلے بھی کم و بیش اسی طرح بیان ہو چکی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا ہی اچھے آدمی ہیں ابوبکرؓ۔کیا ہی اچھے آدمی ہیں عمرؓ۔ کیا ہی اچھے آدمی ہیں ابوعُبَیدہ بن الجّراح ؓ۔کیا ہی اچھے آدمی ہیں اُسَیْد بن حُضَیرؓ ۔ اور کیا ہی اچھے آدمی ہیں ثابِت بن قیس بن شَمَّاسؓ۔ اور کیا ہی اچھے آدمی ہیں مُعَاذ بن جَبَلؓ۔ اور کیا ہی اچھے آدمی ہیں مُعَاذ بن عَمرو بن جَموحؓ۔مسند احمد بن حنبل کی یہ روایت ہے۔

(مسند احمد بن حنبل مسند ابو ہریرہ جلد3صفحہ502حدیث 9421 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)

پھر حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے مُعَاذ! مَیں یقینا ًتم سے محبت کرتا ہوں۔ حضرت مُعَاذؓ نے آپؐ سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں مَیں بھی آپؐ سے محبت کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اے مُعَاذ! مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ ذکر کرنا اور یہ ہرگز نہ چھوڑنا کہ تم کہو کہ اللّٰهُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ کہ اے میرے اللہ ! میری مدد فرما اپنے ذکر کے لیے اور اپنے شکر کے لیے اور اپنی عبادت کی خوبصورتی کے لیے۔

(مسند احمد بن حنبل مسند مُعَاذ بن جَبَل جلد7 صفحہ380 حدیث22470 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)

حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا مَیں تمہیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے بارے میں نہ بتاؤں تو حضرت مُعَاذ ؓنے عرض کیا :کیوں نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ پڑھ لیا کرو۔

(مسند احمد بن حنبل مسند مُعَاذ بن جَبَل جلد7 صفحہ374 حدیث22450 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)

حضرت مُعَاذؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ایمان کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ افضل ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کے لیے محبت کرو اور اللہ ہی کے لیے تم نفرت کرو اور تم اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں لگائے رکھو۔ حضرت مُعَاذؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! اَور کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ (تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو) اور ان کے لیے اس چیز کو ناپسند کرو جو تم اپنے لیے ناپسند کرتے ہو۔

(مسند احمد بن حنبل مسند مُعَاذ بن جَبَل جلد7 صفحہ385 حدیث22481 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضرت مُعَاذ ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر وہ اپنے لوگوں کے پاس آتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔

(صحیح بخاری کتاب الاذان باب اذا صلی ثم ام قوماحدیث 711)

پہلے مسجدِ نبوی میں آ کے نماز پڑھتے۔ پھر اپنے محلے میں چلے جاتے۔ وہاں جا کے اپنے لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُعَاذ ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔ پھر آ کر اپنے لوگوں کی امامت کرتے تھے۔ ایک رات انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی پھر اپنے لوگوں کے پاس آ کر ان کی امامت کی تو اس میں سورۂ بقرہ شروع کر دی۔ اس پر ایک آدمی الگ ہو گیا اور سلام پھیرا اور اکیلے نماز پڑھی اور جانے لگا۔ دیکھا کہ لمبی سورت پڑھ رہے ہیں تو سلام پھیر کے الگ ہو گیا اور آ کے علیحدہ نماز پڑھ لی۔ اس پر لوگوں نے اسے کہا کہ اے فلاں !کیا تُو منافق ہو گیا ہے؟ اسے بُرا بھلا کہا۔ اسے کہا تم منافق ہو گئے ہو تم نے باجماعت نماز چھوڑی ہے اور علیحدہ نماز پڑھ رہے ہو۔ اس پر اس نے جواب دیا۔ نہیں، خدا کی قسم! مَیں منافق نہیں ہوں اور مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں گا اور ضرور آپؐ کو یہ بتاؤں گا کہ مَیں نے یہ کیا تھا ۔ منافقت ہوتی تو مَیں چُھپ جاتا۔ مَیں تو یہ بات جا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گا۔ چنانچہ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہؐ!ہم پانی لانے والے اونٹ رکھتے ہیں یعنی اونٹوں پر پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کے جاتے ہیں اور لوگوں کے گھروں میں پانی پہنچاتے ہیں تو دن بھر کام کرتے ہیں اور حضرت مُعَاذؓ نے آپؐ کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی پھر آ کر سورۂ بقرہ شروع کر دی۔ آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی پھرہمارے پاس ہمارے محلے میں آئے اور نماز شروع کر دی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مُعَاذؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے مُعَاذ !کیا تم آزمائش میں ڈالنے والے ہو؟ لوگوں کو کیوں مشکل میں ڈالتے ہو؟ یہ پڑھا کرو۔ اور پھر آپؐ نے بتایا کہ سورتوں میں کیا پڑھنا ہے۔ یہ پڑھا کرو۔ دو دفعہ کہا یہ پڑھا کرو۔ یہ پڑھا کرو۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا اور وَالضُّحٰی، وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی اور سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی کی تلاوت کیا کرو۔ یہ چارمثال کے طور پر آپؐ نے ان کو بیان فرمائیں۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الصلاة باب القراءة فی العشاء، حدیث نمبر 465)

بخاری میں ایک روایت اس طرح بھی بیان ہوئی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓکہتے تھے کہ سامنے سے ایک آدمی پانی اٹھانے والے دو اونٹ لیے آ رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی اور اس نے اتفاق سے حضرت مُعَاذ ؓکو نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ مسجد میں نماز ہو رہی تھی۔ وہ امامت کرا رہے تھے تو اس نے اپنے اونٹ بٹھا دیے اور حضرت مُعَاذ ؓکی طرف چلا آیا۔ حضرت مُعَاذؓ نے سورۂ بقرہ یا سورۂ نساء پڑھی تو وہ نماز چھوڑ کر چلا گیا۔ اسے خبر پہنچی کہ حضرت مُعَاذؓ نے اس بات کا بُرا منایا ہے تو وہ آدمی جو اونٹوں والا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت مُعَاذؓ کی شکایت کی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا اےمُعَاذ! تم تو بہت ہی ابتلا میں ڈالنے والے ہو۔ کیوں لوگوں کو ابتلا میں ڈالتے ہو؟ اتنی لمبی لمبی سورتیں پڑھ کے ابتلا میں ڈالنے والے ہو۔ کیوں نہ تم نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی، وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا، وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی پڑھی کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے اور کمزور اور حاجت مند بھی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بخاری کی روایت ہے جیسا کہ مَیں نے کہا۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب من شکا امامہ اذ ا طول حدیث 705)

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھنے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ کو نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃالاعلیٰ، سورۃالغاشیہ، سورۂ الفجر اور اسی قسم کی بعض اَور سورتوں کو عام طور پر فرض نمازوں میں پڑھنا زیادہ پسند فرمایا کرتے تھے۔ نسائی نے جابر سے روایت کی ہے کہ حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی ان کے ساتھ پیچھے سے آ کر شامل ہوا۔ حضرت مُعَاذؓ نے نماز لمبی شروع کر دی۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے سورۂ آل عمران یا سورۂ نساء کی تلاوت شروع کر دی تھی۔ جب نماز لمبی ہو گئی تو اس نے اپنی نماز توڑ کر ایک دوسرے کونے میں جا کر علیحدہ نماز شروع کر دی اور فارغ ہو کر چلا گیا۔ نماز کے بعد کسی شخص نے حضرت مُعَاذؓ سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور کہا کہ آپؓ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپؓ کے ساتھ نماز شروع کی مگر جب آپؓ نے نماز میں دیر لگا دی تو وہ نماز توڑ کر علیحدہ ہو گیا اور ایک کونے میں نماز پڑھ کر چلا گیا۔ حضرت مُعَاذؓ نے کہا وہ منافق ہو گا۔ پھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس واقعے کا ذکر کیا۔ یہاں آپ یہ بیان فرما رہے ہیں کہ حضرت مُعَاذؓ نے خود ذکر کیا اور کہا یا رسول اللہؐ! مَیں نماز پڑھا رہا تھا کہ پیچھے فلاں شخص آ کر شامل ہوا مگر جب نماز لمبی ہو گئی تو وہ نماز توڑ کر الگ ہو گیا اور علیحدہ نماز پڑھ کر چلا گیا۔ جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کی گئی ہے تو وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ! مَیں آیا تو یہ نماز پڑھا رہے تھے۔ میں ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا مگر انہوں نے نماز لمبی کر دی۔ آخر ہم کام کرنے والے آدمی ہیں۔ میری اونٹنی بغیر چارے کے کھڑی تھی۔ مَیں نے نماز توڑ کر مسجد کے ایک کونے میں اپنی نماز ختم کر لی اور پھر گھر جا کر اپنی اونٹنی کو چارہ ڈالا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر حضرت مُعَاذؓ پر ناراض ہوئے اور ان سے فرمایا مُعَاذ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو؟ تمہیں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی، وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا، وَالْفَجْرِ اور وَالَّیْلِ اِذَایَغْشٰی کے پڑھنے میں کیا تکلیف ہوتی تھی؟ تم نے یہ سورتیں کیوں نہ پڑھیں اور لمبی سورتیں کیوں پڑھناشروع کر دیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کو اوسط سورتوں میں قرار دیا ہے۔ خاص اوقات میں انسان بےشک لمبی سورتیں پڑھ لے یا تکلیف اور بیماری کی صورت میں چھوٹی سورتیں پڑھ لے لیکن اوسط سورتیں یہی ہیں جن کو عام طور پر بالجہر نمازوں میں پڑھنا چاہیے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد8 صفحہ479 تفسیر سورہ الفجر)

بہرحال یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں کہ یہی سورتیں پڑھی جائیں۔ صرف اصولی ہدایت یہ ہے کہ جب باجماعت نماز ادا ہو رہی ہو تو زیادہ لمبی سورتیں نہیں پڑھنی۔ لیکن اپنے حالات کے مطابق اور بعض لوگوں کو جس جس طرح سورتیں حفظ ہوتی ہیں، بعض کو چھوٹی سورتیں حفظ ہیں۔ امامت کے لیے اور کوئی بھی نہیں ملتا اور اسی کو نماز پڑھانی پڑتی ہے تو وہ بھی پڑھائی جا سکتی ہیں۔ اصولی ہدایت یہ ہے کہ باجماعت نماز میں لمبی سورتیں نہیں پڑھانی کیونکہ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ بوڑھے بھی ہوتے ہیں، بیمار بھی ہوتے ہیں، کام کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔

حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓکہتے ہیں کہ مَیں سواری پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ میرے اور آپؐ کے درمیان کجاوہ کا پچھلا حصہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا اے مُعَاذ بن جَبَل! مَیں نے کہامَیں حاضر ہوں یا رسول اللہؐ! اور یہ میری سعادت ہے۔ پھر آپؐ تھوڑی دیر چلے اور فرمایا اے مُعَاذ بن جَبَل! مَیں نے پھر عرض کیا لبیک یا رسول اللہ ؐ!میری سعادت ہے۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلے اور فرمایا اے مُعَاذ بن جَبَل! مَیں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہؐ! میری سعادت ہے۔ فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ یعنی بندے اللہ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر آپؐ کچھ دیر چلے اور فرمایا اے مُعَاذ بن جَبَل! مَیں نے کہا لبیک یا رسول اللہؐ! میری سعادت ہے۔ فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ پہلے تو اللہ کا حق ہے جو بندوں نے ادا کرنا ہے۔ اب بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے۔ جب وہ ایسا کریں، جب وہ بات مان لیں بندے اپنا حق ادا کر دیں تو پھر بندوں کا اللہ پر کیا حق بن جاتا ہے تو مَیں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔ جو اس طرح اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے ہیں پھر یہ بندوں کا حق بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہ دے۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الإيمان باب الدلیل علی من مات علی التوحید …… حدیث30)

حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن مَیں آپؐ کے قریب ہوا اور ہم چل رہے تھے تو مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور مجھے آگ سے دور کر دے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے تو ایک بڑی بات پوچھی ہے۔ بہت بڑی بات ہے یہ۔ ہاں یہ بات اس کے لیے آسان ہے جس پر اللہ تعالیٰ آسان کر دے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰة دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر فرمایا کیا میں خیر کے دروازوں کے متعلق نہ بتاؤں۔ یہ بات بیان کر کے پھر آپؐ نے فرمایا کہ خیر کے دروازوں کے متعلق بتاتا ہوں۔ فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے بجھاتا ہے جیسے پانی آگ کو اور رات کے درمیان آدمی کا نماز پڑھنا یعنی تہجد پڑھنا۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی۔ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔ یعنی کہ ان کے پہلو بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں جبکہ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کی حالت میں پکار رہے ہوتے ہیں۔ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی جزا کے طور پر جو وہ کیا کرتے تھے۔

پھر فرمایا کیا مَیں تم کو ان سب کی بلند چوٹی اور اس کا ستون اور اس کی بلندی کا اوپر کا حصہ نہ بتاؤں۔ فرمایا وہ جہاد ہے۔ پھر فرمایا کیا مَیں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں جس پر اس سب کا مدار ہے یعنی بنیاد ہے۔ اس کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں۔ مَیں نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہؐ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا کہ اس کو روک رکھو۔ زبان کو پکڑ کے فرمایا اس کو روک رکھو۔ مَیں نے عرض کیا اے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمارا مؤاخذہ اس پر ہو گا جو ہم اس کے ذریعے کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا بھلا ہو اے مُعَاذ! لوگوں کو اوندھے منہ آگ میں نہیں گراتی مگر ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصلیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنة حدیث 3973)

یعنی جو تم زبان سے باتیں کرتے ہو، تیز باتیں کرتے ہو۔ زبان سے دیے گئے زخم ایسے ہیں جو جذباتی تکلیفیں بھی پہنچاتے ہیں۔ جو فتنہ پیدا کرتے ہیں اور بہت ساری برائیاں جن سے پیدا ہوتی ہیں تو یہ چیزیں، زبان سے کہی ہوئی باتیں جب زبان بیان کر رہی ہو، برائیاں بیان کر رہی ہو یا برائی کا ذریعہ بن رہی ہوتو پھر آپؐ نے فرمایا کہ وہ ان کو اوندھے منہ آگ پر گرانے والی ہوتی ہیں۔ اس لیے زبان کو سنبھال کے استعمال کرو اور اس سے اچھی اچھی باتیں ادا کی جائیں۔

حضرت کعب بن مالک ؓکہتے تھے کہ حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں مدینے میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 265 مُعَاذ بن جَبَل۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء)

محمد بن سَہْل بن اَبُو خَیْثَمَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مہاجرین کے تین آدمی اور انصار میں سے تین آدمی فتویٰ دیا کرتے تھے وہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت اُبَیبن کعبؓ، حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 267 باب اھل العلم و الفتویٰ من اصحاب رسول اللّٰہؐ ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء)

عبدالرحمٰن بن قاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکو جب کوئی ایسا امر پیش آتا جس میں وہ اہل الرائے اور اہل فقہ کا مشورہ لینا چاہتے تو آپؓ مہاجرین و انصار کے آدمیوں کو بلاتے۔ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ،حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ ، حضرت اُبَیبن کعبؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓکو بلاتے۔ یہ سارے حضرت ابوبکر ؓکے زمانۂ خلافت میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 267 باب اھل العلم و الفتویٰ من اصحاب رسول اللّٰہؐ ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء)

یعنی کہ افتاء کمیٹی کے یہ ممبر تھے یا ان کو آپؓ نے اختیار دیا تھا کہ فتوے دے دیا کرو اپنے اس علم کی بنا پر جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔

حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓحضرت ابوبکرؓ کے دَور میں شام چلے گئے اور وہاں بودوباش اختیار کر لی۔ جس وقت حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓشام روانہ ہو گئے تو حضرت عمر ؓنے کہا کہ ان کی روانگی نے مدینہ اور اہل مدینہ کو فقہ میں اور جن امور میں وہ ان کو فتویٰ دیا کرتے تھے محتاج بنا دیا ہے۔ حضرت عمر ؓنے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ لوگوں کو ان کی ضرورت ہے، انہیں روک لیں۔مگر حضرت ابوبکرؓ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ جس شخص نے ارادہ کر لیا ہو اور وہ شہادت چاہتا ہو مَیں اس کو نہیں روک سکتا۔ حضرت عمر ؓکہتے ہیں کہ مَیں نے کہا بخدا آدمی کو اس کے بستر پر بھی شہادت عطا کر دی جاتی ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 265 مُعَاذ بن جَبَل۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء)

ثَور بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓجب رات کو نماز تہجد ادا کرتے تھے تو یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! آنکھیں سوئی ہوئی ہیں اور ستارے ٹمٹما رہے ہیں۔ تُو حیّ وقیوم ہے۔ اے اللہ! جنت کے لیے میری طلب سست ہے اور آگ سے میرا بھاگنا کمزور اور ضعیف ہے۔ اے اللہ !میرے لیے اپنے ہاں ہدایت رکھ دے جسے قیامت کے روز تُو مجھے لوٹا دے۔ یقیناً تُو وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد5 صفحہ188 معاذ بن جَبَل دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)

کیا خوف اور خشیت کا مقام ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ حضرت مُعَاذؓ پالان پر آپؐ کے پیچھے سوار تھے فرمایا اے مُعَاذ بن جَبَل! انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! حاضر ہوں، حضورؐ کی خدمت میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اے مُعَاذ! انہوں نے کہا حاضر ہوں یا رسول اللہ ؐ! آپؐ کی خدمت میں ہوں۔ فرمایا مُعَاذ! انہوں نے کہا حاضر ہوں یا رسول اللہ ؐ! آپؐ کی خدمت میں ہوں۔ تین بار آپؐ نے پکارا۔ پھر فرمایا جو کوئی بھی اپنے دل کی سچائی سے یہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو اللہ ضرور اس کو آگ پر حرام کر دے گا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ کیا مَیں لوگوں کو اس کے متعلق خبر نہ دوں؟ وہ خوش ہو جائیں گے۔ یہ باتیں لوگوں کوجا کے بتاؤں ؟ آپؐ نے فرمایا تب تو وہ بھروساکر لیں گے کہ اتنی بات کہہ لی ہے اور باقی نیکیاں نہیں کریں گے، اس لیے لوگوں کو نہیں بتانا۔ حضرت مُعَاذؓ نے مرتے وقت یہ بات بتلائی تھی کہ وہ گناہ سے بچ جائیں۔ یعنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی بات کو آگے نہیں بتایا۔

(صحیح بخاری کتاب العلم باب من خص بالعلم قوما .. حدیث 128)

یہ ان کا خیال تھا کہ شاید یہ بات مجھے مرتے ہوئے آگے صاحب ِعلم لوگوں کو پہنچا دینی چاہیے۔ پھر آپؓ نے بتائی لیکن اپنی زندگی یا صحت کی حالت میں نہیں بتائی۔ حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے بعض حدیثیں جو اس سے متعلقہ ہیں ان کے حوالے سےبیان کرتے ہوئے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ پھر اس کو بھی یہاں بیان کیا ہے کہ یہاں یہ بات جو کی گئی ہے کہ کسی علمی بات کو خاص لوگوں میں محدود کرنا۔ کیونکہ یہ علمی بات ہے اس لیے اس کو خاص لوگوں میں محدود کرنا ہے کیونکہ عام لوگ اس کے صحیح مطلب تک نہ پہنچنے کی وجہ سے نقصان اٹھائیں گے۔ صرف اتنا کہہ دینا اور باقی کوئی عمل نہ کرنا۔ یہ نہ ہو کہ ایک بات پہنچ جائے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیا اور کسی عمل کی ضرورت نہیں۔ اب ایسے بھی دیکھیں کہ اس کے باوجود عملاً مسلمانوں کا یہی حال ہے کہ صرف نام کے مسلمان ہیں۔ کلمہ پڑھ کے سمجھتے ہیں کسی عمل کی ضرورت نہیں۔

پھر حضرت شاہ صاحبؓ لکھتے ہیں۔ وہ مختلف احادیث بیان کر رہے تھے اوریہ بھی اس میں شامل تھی کہ اس حدیث نے اس قسم کی باتوں کی نوعیت واضح کر دی ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ مسلم نے بھی حضرت ابن مسعود ؓکی ایک روایت صحیح سند سے بیان کی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں مَا اَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لَا یَبْلُغُہٗ عُقُوْلُھُمْ اِلَّا کَانَ لِبَعْضِھِمْ فِتْنَةٌ۔ ان ارشادات نبویہؐ کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق مخاطب کرنا چاہیے کیونکہ بعض باتیں فتنے میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ بہرحال وہ پھر آگے لکھتے ہیں کہ ہم اب بھی دیکھتے ہیں کہ مومن ساز لوگوں نے کس طرح لاالہ الا اللّٰہ کے محض زبانی اقرار کو اپنے لیے آڑ بنا رکھا ہے اور شریعت کی تکلیفوں سے بنی نوع انسان کو آزاد کر کے ان کو ایمان کا سرٹیفکیٹ دے دینا چاہتے ہیں اور صِدْقًا مِّن قَلْبِہٖ یعنی اس کے ضروری لوازمات کا کچھ خیال نہیں کرتے۔ ہر مولوی، ہر منبر کا خطبہ دینے والا وہ سمجھتا ہے کہ جو میرے پیچھے نمازیں پڑھ رہا ہے اس نے وہی کلمہ پڑھ لیا تو سرٹیفکیٹ مل گیا۔ باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ زبان سے اقرار کرنے والے انہی مومنوں کے ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایمان اس وقت نہ دلوں میں ہو گا نہ زبان پر بلکہ ثریا پر ہو گا۔ یہ آخری زمانے کے بارے میں ہے۔ جبکہ وہ لوگ موجود تھے اور یہ کلمہ پڑھنے والی بات بھی آپؐ نے کہی تھی۔ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا۔ یعنی جو شخص موت تک ہر قسم کے شرک سے بچتا رہے گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت مُعَاذؓ کو دو تین دفعہ مخاطب کر کے خاموش ہو جانا اور پھر یہ بات بتلانا یہ اسی اصل کے مطابق ہے کہ آپؐ نے جستجو کے متعلق احساس اور خواہش کو ابھارا ہے۔ دو تین دفعہ جب انہوں نے کہا حاضر ہوں، حاضر ہوں، لبیک تو توجہ پیدا ہوئی، شوق پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمانا چاہتے ہیں۔ جب جوش اور ایک خالص توجہ پیدا ہو گئی تو پھر آپؐ نے ان کو بتایا۔ پھر شاہ صاحب یہ لکھتے ہیں کہ تا آپؐ کی بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے اور اس کا اثر نفس پہ قائم رہے۔ یہ بات ذہن نشین کرانے کے لیے آپؐ نے تین دفعہ ان کو توجہ دلائی تھی۔ حضرت مُعَاذؓ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا پورا ادب کیا اور مرتے وقت وہ بتلایا کہ مبادا ایک نہایت ضروری بات کے نہ بتانے سے ان سے مؤاخذہ نہ ہو۔

(ماخوذ از صحیح البخاری مترجم جلد 1 صفحہ 211، 212 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کہے کہ تمہارے علم میں ایک بات آئی اور تم نے آگے نہیں بتائی یعنی علمی بات کم از کم علم رکھنے والے لوگوں تک پہنچ جانی چاہیے۔

ویسے تو آج کل مسلمان ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، کلمہ پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ شرک سے پاک ہو گئے ہیں لیکن دل شرک سے بھرے ہوئے ہیں۔ انحصار دنیاوی چیزوں پر ہے۔ بڑے بڑے خطیب بھی دنیاوی چیزوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ ان کی اگر اصلی حالت، حقیقت جانی جائے تو یہ جو حدیث پہلے بیان ہوئی ہے، کلمہ پڑھنے والوں پر آگ حرام ہونے کا جو ذکر ہوا ہے اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ جزا اللہ تعالیٰ نے دینی ہے اور کسی انسان کا کام نہیں ہے کہ کسی کلمہ گو، کسی مسلمان پر فتویٰ لگائے کہ کس کو ہم نے مسلمان کہنا ہے اور کس کو غیر مسلم بنانا ہے۔ یہ خود ساختہ فتوے قرآن کی تعلیم کے بھی خلاف ہیں۔ پس آج کل جو مسلمان ربیع الاول کے حوالے سے میلادالنبیؐ بھی منا رہے ہیں تو اصل تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوے کو ہم اپنائیں۔ اپنے علم کے زعم میں صرف اپنے آپ کو مسلمان نہ سمجھیں بلکہ کلمہ گو کے معاملےکو اللہ تعالیٰ پر چھوڑیں۔ یہ باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو خوش کرنے والی ہوں گی۔ ان کی امّت کی طرف سے خوشی پہنچانے والی ہوں گی۔ آپؐ پر درود بھیجنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر کرے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو لاوارث نہیں چھوڑا بلکہ وعدے کے مطابق اور آپ کی پیشگوئی کے مطابق احیائے دین کے لیے مسیح موعود کو بھیجا ہے جو اس کلمہ اور شریعت کے احکام پر عمل کی حقیقت ہمیں بتانے والا ہے تا کہ حقیقت میں جہنم کی آگ ہم پر حرام ہو۔ اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار کرنے والوں کو بھی عقل دے کہ اس بات کو سمجھیں۔ اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اسلام کی حقیقی تعلیم اور کلمہ کی حقیقت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔

حضرت مُعَاذ بن جَبَل ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک کے سال نکلے۔ آپؐ نمازیں جمع کرتے تھے۔ آپؐ ظہر عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی ادا فرماتے۔ ایک روز آپؐ نے نماز میں کچھ تاخیر فرمائی۔ آپؐ باہر تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کیں۔ پھر اندر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔ پھر حضورؐ نے فرمایا کہ کل تم ان شاء اللہ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ چاروں نمازیں اکٹھی پڑھتے تھے۔ جب تک وقفہ تھوڑا ہوتا تھا تو ہو سکتا ہے کہ ظہر عصر کی نمازیں عصر کے ساتھ آخری وقت میں جمع کر لی جاتی ہوں اور مغرب عشاء کی مغرب کے پہلے وقت میں۔ بہرحال فرمایا کہ کل تم ان شاء اللہ تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور جب تک خوب دن نہ نکل آئے تم اس تک نہیں پہنچو گے۔ یعنی اندازہ لگا کے آپؐ نے بتایا کہ تم لوگ دن کے وقت پہنچو گے۔ پس تم میں سے جو اس کے پاس پہنچے اس کے پانی کو بالکل نہ چھوئے جب تک کہ میں نہ آ جاؤں۔ وہاں پہنچ کے پانی نہ پینے لگ جانا۔ نہ چھیڑنا اس کو جب تک میں اس پہ نہ آجاؤں۔ راوی کہتے ہیں پھر ہم اس چشمہ پر پہنچے لیکن دو آدمی وہاں ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے اور چشمہ تسمہ کی طرح تھا جس سے تھوڑا تھوڑا پانی بہ رہا تھا، بڑی باریک دھار بن رہی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے پوچھا کیا تم نے اس کے پانی کو چھوا ہے؟ پانی کو چھیڑا تو نہیں؟ ان دونوں نے کہا جی ہاں ہم نے اس میں سے پانی نکالا تھا، پیا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو تنبیہ فرمائی کہ میں نے تمہیں روکا تھا تو کیوں تم نے اس کو چھوا اور جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپؐ نے ان کو کہا۔ راوی کہتے ہیں پھر لوگوں نے اس چشمے سے اپنے ہاتھ کے ذریعہ سے تھوڑا تھوڑا کر کے پانی نکالا یہاں تک کہ ایک برتن میں کچھ پانی جمع ہو گیا۔ بالکل باریک سی دھار پانی کی آ رہی تھی۔ راوی کہتے ہیں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور چہرہ دھویا۔ پھر اس پانی کو اس چشمے میں واپس ڈال دیا یعنی وہیں چشمے کے اوپر بیٹھ کے دھویا۔ چہرہ بھی دھویا اور پانی وہیں چشمے میں گرتا جاتا تھا تو چشمہ تیزی سے بہنے لگا جب آپؐ نے منہ ہاتھ دھویا اور وہیں پانی ڈال دیا تو چشمہ جس کی پہلے باریک دھار بن رہی تھی تیزی سے بہنے لگا یہاں تک کہ لوگ خوب سیراب ہو گئے۔ پھر حضوؐر نے فرمایا اے مُعَاذؓ! اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تُو دیکھ لے گا کہ یہ جگہ باغوں سے بھر گئی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبی ﷺحدیث706)

کتب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ اس وقت ہوا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر ابھی پہنچے ہی تھے۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ یہ واقعہ تبوک کے مقام سے واپسی پر ایک وادی میں ہوا جس کا نام مُشَقَّقْ ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشّام صفحہ821-822 غزوہ تبوک فی رجب سنۃ تسع مطبوعہ دارالکتب بالعلمیۃ بیروت 2001ء)

یہ واقعہ حضرت امام مالکؒ نے اپنی کتاب مؤطا میں بھی بیان کیا ہے۔ محمد بن عبدالباقی زَرْقَانِی نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ابوولید بَاجِی کہتے ہیں کہ یہ غیب کی خبر ہے جو واقع ہو چکی ہے اور حضرت مُعَاذؓ کا خاص طور پر تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا کیونکہ ملک شام منتقل ہو گئے تھے اور وہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ آپؐ کو بذریعہ وحی معلوم ہوا کہ حضرت مُعَاذؓ یہ جگہ دیکھیں گے اور وہ وادی آپؐ کی برکت کےطفیل درختوں اور باغات کا مجموعہ بن جائے گی۔
علامہ ابن عبدالبرّ کہتے ہیں کہ ابنِ وَضَّاح کہتے ہیں کہ میں نے اس چشمہ کے ارد گرد وہ ساری جگہ دیکھی ہے۔ درختوں کی سرسبزی اور شادابی اس قدر تھی کہ شاید یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے اور ایسی ہی آپؐ کی پیشگوئی تھی۔

(شرح الزرقانی علی المؤطا جزء1 صفحہ436 کتاب قصر الصلاة فی السفر باب الجمع بین الصلاتین ۔۔، داراحیاء التراث العربی بیروت 1997ء)

اٹلس سیرت النبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھا ہے کہ تبوک کے محکمہ شریعہ کے رئیس نے بتایا کہ یہ چشمہ دو سال پہلے تک پونے چودہ سو سال سے مسلسل ابلتا رہا۔ بعد میں نشیبی علاقوں میں ٹیوب ویل کھودے گئے تو اس چشمہ کا پانی ان ٹیوب ویلز کی طرف منتقل ہو گیا، تقریباً پچیس ٹیوب ویلز میں تقسیم ہو جانے کے بعد اب یہ چشمہ خشک ہو گیا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں ایک ٹیوب ویل کی طرف بھی لے گئے جہاں ہم نے دیکھا کہ چار انچ کا ایک پائپ لگا ہوا ہے اور کسی مشین کے بغیر اس سے پانی پورے زور سے نکل رہا ہے۔ قریب قریب یہی کیفیت دوسرے ٹیوب ویلز کی بھی ہمیں بتائی گئی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ ہی کی برکت ہے کہ آج تبوک میں اس کثرت سے پانی موجود ہے کہ مدینہ اور خیبر کے سوا ہمیں کہیں اتنا پانی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تبوک کا پانی ان دونوں جگہوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس پانی سے فائدہ اٹھا کر اب تبوک میں ہر طرف باغ لگائے جا رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تبوک کا علاقہ باغوں سے بھرا ہوا اور دن بدن بھرتا جا رہا ہے۔

(اٹلس سیرتِ نبویﷺ، صفحہ 431، دارالسلام ریاض 1424ھ)

ان کا باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔

جمعے کے بعد مَیں کچھ جنازے بھی پڑھاؤں گا اس وقت ان کا ذکر کر دیتا ہوں۔ پہلا ذکر مولوی فرزان خان صاحب کا ہے جو ضلع خوردہ و نیا گڑھ اڑیشہ کےمبلغ انچارج تھے۔ شوگر کے مریض تھے۔ 10؍ستمبر کو اچانک ٹائیفائیڈ اور شدید نمونیے کی وجہ سے آپ کو ہسپتال داخل کیا گیا اور وہاں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ سکینہ بیگم کے علاوہ ایک بیٹی فریحہ اور بیٹا عزیزم ریحان شامل ہیں۔ جماعتی کاموں میں بہت آگے بڑھنے والے تھے۔ پرہیز گار، ماتحت مبلغین، معلمین کا خیال رکھنے والے، نرم خُو، منکسر المزاج، خوش اخلاق، انتہائی نیک اور مخلص انسان تھے ۔ 1980ء میں جامعہ قادیان میں داخلہ لیا اور 88ء میں قادیان جامعہ سے فارغ ہوئے اور میدان عمل میں آئے۔ بڑی محنت اور اخلاص اور وقف کی روح کے ساتھ بتیس سال تک خدمت سرانجام دی۔ کئی مقامات پر اس عرصے میں آپ نے بیعتیں کروائیں اور جماعتیں بھی قائم کیں۔ ان کی اہلیہ سکینہ بیگم کہتی ہیں کہ مولوی صاحب بتاتے تھے کہ پہلی تقرری ہریانہ میں ہوئی۔ کوئی معین مقام نہیں تھا اور اس علاقے میں کوئی احمدی بھی نہیں تھا ۔یہ مختلف جگہوں پر گھومتے تھے اور تبلیغ کرتے تھے اور سینٹر قائم کرتے تھے اور اس دوران صوبہ ہریانہ کے ایک گاؤں میں پہنچے، وہاں کے لوگوں کو جماعت کا پیغام پہنچایا۔ وہاں ایک مقامی شخص تھا اس نے کہا ہماری بھینس دودھ نہیں دیتی۔ آپ کی جماعت سچی ہے تو آپ دم کر کے مجھے دیں مَیں بھینس کو کچھ پلاؤں تا کہ میری بھینس دودھ دے۔ اگر آپ سچے ہیں تو پھر اگر یہ معجزہ ہو گیا تو ہم سارا خاندان بیعت کر لیں گے۔ بہرحال مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے سورۂ فاتحہ، درود شریف پڑھا اور کچھ دعائیہ کلمات پڑھ کر پانی پر دم کر کے اس شخص کو دے دیا۔ وہ پانی لے کر چلا گیا۔ مولوی صاحب ساری رات اسی گاؤں میں رہے ۔ کہتے ہیں کہ گاؤں میں ایک درخت تھا۔ ساری رات میں اس کے نیچے بیٹھا رہا اور دعائیں کرتے گزار دی کہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود ؑکی صداقت کا معجزہ ثابت کر دے۔ کہتے ہیں صبح ہوتے ہی مولوی صاحب نے دیکھا کہ ایک شخص ایک بالٹی لیے آ رہا ہے۔ دیکھا تو اس میں دودھ تھا۔ کہنے لگا مولوی صاحب ہماری بھینس نے دودھ دیا ہے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے میں اور میرا پورا خاندان اب سمجھ گئے ہیں کہ جماعت احمدیہ سچی ہے۔ ہم اس میں شامل ہوتے ہیں۔

ان کے بیٹے ریحان کہتے ہیں کہ ان میں انکساری اور عاجزی بہت زیادہ تھی۔ بڑے نرم دل تھے۔ ہر ایک سےپیار محبت سے پیش آنے والے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جماعت کی خدمت کی خاطر اپنی زندگی بسر کی۔

خلیفۂ وقت کے ہر ارشاد اور ہدایت پر لبیک کہتے تھے اور ہمیں بھی تاکید کرتے تھے۔ ہمیں ہمیشہ شفقت سے محبت سے پیش آتے۔ جماعتی کاموں کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی حصہ لیتے۔ والدہ کا ہاتھ بٹاتے اور ساری زندگی انہوں نے اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کی اور ہماری نمازوں کی بھی حفاظت کی۔ ہمیشہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کے لیے کہتے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے جتنے بھی معلمین اور مبلغین ہیں سب یہی لکھتے ہیں کہ ایک مثالی مبلغ تھے۔ بڑے ہمدرد تھے اور کبھی ہم نے ان کو غصے میں نہیں دیکھا۔
اگلا جنازہ عبداللہ مُلْسِیْکو صاحب کا ہے۔ ملائشیا کے لوکل مشنری تھے۔ 7؍اکتوبر کو بیہوش ہو گئے۔ ہسپتال لے جایا گیا۔ جانبر نہ ہو سکے اور اسی رات وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

ان کی عمر68سال تھی۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ آٹھ بچے شامل ہیں۔ آپ ملائشیا کے دو مربیان صلاح الدین صاحب اور مسرور احمد صاحب کے سسر تھے۔ عبداللہ مُلْسِیْ کو صاحب فلپائن میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی پاس کرنے کے بعد مسلم آرگنائزیشن ’’مورو نیشنل لبرل فرنٹ‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ آرگنائزیشن حکومت کے خلاف برسرپیکار تھی۔ اس کا مقصد فلپائن میں اسلامی ریاست قائم کرنا تھا۔ 1973ء میں ان کے والدین ہجرت کر کے فلپائن سے ملائشیا آ گئے اور سنداکن سبا (Sandakan Sabah) میں رہائش اختیار کی۔ بہرحال ان کو اللہ تعالیٰ نے قلبِ سلیم دیا تھا۔ ان کو خواب میں کئی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور خلیفة المسیح الثانی اور خلیفة المسیح الثالث کی زیارت ہوئی۔ منشائے ایزدی کے ماتحت ان کو 1973ء میں جلسہ سالانہ تاکینا بالو سبا میں شمولیت کا موقع ملا اور وہاں جلسہ دیکھ کے ساری صورتِ حال ان کے ازدیادِ ایمان کا باعث بنی چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔ سنداکن میں آپ جس جگہ رہتے تھے وہاں کوئی مبلغ نہیں تھا اور آپ ایک پیاسی روح تھے۔ چنانچہ اس پیاس کو بجھانے کے لیے آپ نے جماعتی لٹریچر کا خوب مطالعہ کیا۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ اپنے اس شوق کو عملی جامہ پہنایا، دوستوں رشتے داروں اور اپنے علاقے میں خوب تبلیغ کی۔ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ احمدیت میں شامل ہوئے، اسلام میں شامل ہوئے اور تبلیغ کے اس شوق کی وجہ سے آپ نے اپنے آپ کو وقف بھی کیا اور پھر بطور مبلغ ان کا تقرر ہوا۔ پھر اسی طرح ان کو فلپائن میں چند سال خیر الدین باروس صاحب کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ بہرحال اپنی نیک فطرت، علم کا شوق اور عاجزی اور انکساری اور اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے انہوں نے وہاں بھی بڑا کام کیا۔ اور عیسائیوں سے بھی مباحثات کرتے رہتے تھے۔ کئی لوگوں کو اسلام کی آغوش میں لے کے آئے۔ اردو بول نہیں سکتے تھے لیکن سیکھنے کا شوق تھا۔ کئی حوالے یاد تھے، نظمیں یاد تھیں۔ ہمیشہ مہمان نوازی کا بڑا شوق تھا۔ جمعے پہ آنے والوں کی خاص طور پر مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ disciplined آدمی تھے اور یہ چاہتے تھے ہر کوئی انسان جو ہے اس کو ڈسپلن میں رہنا چاہیے اور اس کے مطابق تربیت کرتے تھے۔ چند سال سے چلنے پھرنے کی تکلیف تھی۔ اس کے باوجود کبھی اپنی اس تکلیف کو اپنے کام میں آڑے نہیں آنے دیا۔

تیسرا جنازہ عبدالواحد صاحب معلم سلسلہ قادیان کا ہے جو 12؍ستمبر کو چھپن سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

ان کا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا۔ ان کے خاندان میں سب سے پہلے ان کے بڑے بھائی جو ریٹائرڈ معلم تھے ان کو بیعت کا شرف حاصل ہوا ۔ پھر بعد میں ساری فیملی نے بیعت کر لی۔ قبول احمدیت کے بعد مرحوم نے جامعة المبشرین میں تین سال کا کورس کیا۔ وہاں سے فارغ ہو کر پھر مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لیے گئے۔ قادیان کے مختلف علاقوں میں بھی تعلیم و تربیت کی ذمے داری ان کو سونپی گئی۔ بڑے اطاعت گزار اور پوری لگن سے کام کرنے والے تھے۔ تبلیغ کا بہت اچھا ملکہ رکھتے تھے۔ ان کے ذریعہ سے قادیان کے تین عیسائی اور تین غیر احمدی خاندانوں نے جماعت میں شمولیت اختیار کی اور ان میں سے بھی دو افراد اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی ہیں یعنی کہ صرف شمولیت نہیں کی بلکہ نیکی میں بڑھنے والے ہیں۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاںشامل ہیں اور ان کا جو بیٹا ہے اس سال جامعہ احمدیہ سے مربی بن کے فارغ ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کے درجات بلند فرمائے۔ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولادوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی جو خواہشات تھیں کہ جس طرح ان کی اولاد کی تربیت ہو اللہ تعالیٰ اس کے مطابق کرے اوران میں سے بعض بچے جو وقف زندگی بھی ہیں، یہ خلافت کے صحیح سلطان بننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ جیسا کہ میں نے کہا نماز جمعہ کے بعد ان شاء اللہ نماز جنازہ ادا کروں گا۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2020