• 20 جولائی, 2025

آنحضرت ﷺکا پُر حکمت طریق ِتربیت

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۲﴾قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۳﴾

ترجمہ: تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو مىرى پىروى کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تُو کہہ دے اللہ کى اطاعت کرو اور رسول کى پس اگر وہ پِھر جائىں تو ىقىناً اللہ کافروں کو پسند نہىں کرتا

(آل عمران: 32-33)

گویا محبّ خدا ہونے کے لیے محبّ رسول ہونا لازم ہے اور محبّ رسول ہونے کے لیے مطیع رسول ہونا ضروری ہے۔

ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ عرب کی ایسی ان پڑھ قوم میں مبعوث کئے گئے جو گمراہی میں اپنی مثال نہ رکھتی تھی۔ آپؐ نے اپنے حسن اخلاق، محبت و شفقت اور دعاؤں سے ان بدّوؤں کی ایسے اعلیٰ درجے کی تربیت فرمائی اور ان کے دل و سینہ کو ایسامنوّر کیا کہ وہ آسمانِ روحانیت کے روشن ستارے بن گئے۔ یہ کرامت دراصل نبی کریم ﷺکے حسنِ کردار اورپاکیزہ عملی نمونہ کی تھی۔

دراصل انسان ابتداً سب سے زیادہ اپنی ماں کے قدموں میں سیکھتا ہے اور ہم عشّاق رسول اللہ ﷺ نے ایک عظیم سبق اپنی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے سیکھاہے چنانچہ حضرت ہشام بن عامربیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ کے پاس آیا اور کہا:

يَآ أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ أَخْبِرِيْنِيْ بِخُلُقِ رَسُوْلِ اللّٰهِﷺ قَالَتْ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْاٰنَ، أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ، قَوْلَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ

(القلم: 5)

یعنی ہشام بن عامر نے کہا کہ اے امّ المؤمنین مجھے حضورﷺکے اخلاق فاضلہ کے متعلق کچھ بتائیں۔تو اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپﷺ کے اخلاق تو قرآن ہیں ؛فرمایا کہ کیا تم قرآن میں خدا تعالیٰ کا یہ قول نہیں پڑھتے ۔ کہ اے نبیؐ یقیناً آپ عظیم الشان اخلاق فاضلہ پر قائم ہیں۔

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، مسند النساء۔مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا)

رسول کریم ﷺنے اپنی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا ہے:

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ

کہ میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ بلاشبہ آپؐ نے مکارم اخلاق کے بہترین نمونے قائم کرنے کا حق ادا کر کے دکھادیا اور ہر خُلق کواُس کی معراج تک پہنچا دیا۔ تبھی تو عرش کے خدا نے اس پر گواہی دی کہ

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ

(القلم: 5)

؎نبّوت کے تھے جس قدر بھی کمال
وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لامحال
صفاتِ جمال اور صفات جلال
ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال

اس مضمون میں حضرت رسول کریم ﷺ کا قرآن کریم کی تعلیم کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے پُر حکمت تربیت کے متعلق عظیم نمونہ کی چند جھلکیاں پیش کرنا مقصود ہے۔ اور خصوصیت کے ساتھ تربیت کے وہ پہلو جنکا ہمیں اپنی زندگی سب سے زیادہ واسطہ پڑتاہے

اہل خانہ کی تربیت

تربیت کیلئے قرآن شریف کا بنیادی اُصول یہ ہے:

قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا

(التحریم: 7)

یعنی اپنے نفس اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچاؤ۔نیز قرآن کریم حضرت اسماعیل علیہ السلام کا یہ طرز عمل بیان فرماتا ہے:

وَ کَانَ یَاۡمُرُ اَہۡلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ ۪ وَ کَانَ عِنۡدَ رَبِّہٖ مَرۡضِیًّا ﴿۵۶﴾

(مريم: 56)

یعنی: اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکو کا حکم دىا کرتا تھا اور اپنے ربّ کے حضور بہت ہى پسندىدہ تھا۔
نبی کریمﷺ اس ارشاد کی تعمیل میں ہمیں تمام عبادات، اخلاق اور تمدنی امور میں تربیت کا آغاز گھر کے یونٹ سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضورﷺ تہجد کی نماز پڑھتے چلے جاتے اور جب آخری حصہ ہوتا اور وتر ادا کرنے لگتے تو مجھے بھی جگا لیتے۔ رسول کریمؐ نے اپنی اولاد کی تربیت کی بنیاد محبت الہٰی پر رکھی تاکہ اللہ کی محبت ان کے دل میں ایسی گھر کرجائے کہ غیراللہ سے آزاد ہوجائیں۔ چنانچہ نبی کریمؐ حضرت حسن و حسین کو گود میں لے کر دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔

(مسند احمد، جلد2 صفحہ446 مطبوعہ بیروت)

اسی طرح قرآن نے تربیت کرنے والوں کو حکم دیا ہے کہ اگر حقیقی تربیت کرنی ہے تو لازم ہےکہ تم نرم دلی کو اپنا شیوہ بنا لو۔چنانچہ فرمایا :

فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ

(آل عمران: 160)

پس اللہ کى خاص رحمت کى وجہ سے تُو ان کے لئے نرم ہو گىا اور اگر تُو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تىرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے پس ان سے دَرگزر کر اور ان کے لئے بخشش کى دعا کر۔

گویا علّام الغیوب خدا گواہی دیتا ہے کہ اگر آپ ﷺسخت دل اور بداخلاق ہوتے تو لوگ تتربتر ہوکر آپ سے دوربھاگ جاتے ۔نبی کریمﷺ درشت طبع لوگوں کی تربیت بھی نرمی سے کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص ملنے آیا جو رشتہ داروں سے بدسلوکی اور قطع رحمی کرتا تھا۔ آپؐ اس سے بہت نرمی سے پیش آئے۔ حضرت عائشہؓ نے وجہ پوچھی تو فرمایا بدترین لوگ وہ ہیں جن کی بدزبانی سے بچنے کے لئے لوگ ان سے جان بچائیں۔

(بخاری، کتاب الأدب باب 31)

آنحضورؐ بغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے تھے اور جب بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت بامعنی کلام فرماتے۔ خود بات شروع کرتے اور اسے انتہا تک پہنچاتے۔ آپؐ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرّا اور بہت واضح ہوتی تھی۔اپنے ساتھیوں سے تلخ گفتگو نہیں کرتے تھے۔ نہ ہی انہیں باتوں سے رسوا کرتے تھے۔ معمولی سے معمولی احسان کا ذکر بھی تعظیم سے کرتے اور کسی کی مذمت نہ کرتے۔کسی پر محض دنیوی بات کی وجہ سے ناراض نہ ہوتے البتہ جب کوئی حق سے تجاوز کرتا توپھر آپؐ کے غصہ کوکوئی نہ روک سکتا تھا اور ایسی بات پرآپؐ سزا ضرور دیتے تھے مگر محض اپنی ذات کی خاطر غصے ہوتے تھے نہ انتقام لیتے تھے۔ غصے میں منہ پھیر لیتے تھے۔ خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کرلیتے۔ مسکراتے تو سفید دانت اس طرح آبدارہوتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے۔

(الشفاء،للقاضی عیاض، جلد1 صفحہ160۔طبقات ابن سعد جلد1 صفحہ422)

زیادہ تر آپؐ کی ہنسی مسکراہٹ کی حد تک ہوتی تھی۔ مسکرانا توآپؐ کی عادت تھی۔ صحابہ کہتے ہیں:
’’ہم نے حضور سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ خوش ہوتے تو آپؐ کا چہرہ تمتما اُٹھتا تھا۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل، جلد4 ۔صفحہ358)

حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ آپ ہم سے مزاح بھی کرلیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ میں سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا۔

(المعجم الکبیر لطبرانی، جلد21۔صفحہ391)

اسی طرح قرآن تربیت کرنے والوں کو ہدایت دیتا ہے:

وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ

(الانعام: 53)

یعنی تُو ان لوگوں کو جو اپنے ربّ کو اس کى رضا چاہتے ہوئے صبح اور شام کو بھى پکارتے ہىں نہ دھتکار۔ تو حضورﷺ کا عظیم الشان اخلاقی اسوہ یہ نظر آتا ہے کہ غریب سے غریب مسلمان کمزور سے کمزور مؤمن بھی آپ سے ملتا ہے تو وہ آپ کی محبت اور شفقت اور مسکراہٹ کا حظ اٹھاتا ہے۔ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ ایک صحرا نشین، غریب، غریبانہ لباس میں ملبوس، صحراء کی پیدا وار لا کر مدینہ کی منڈیوں میں فروخت کر رہے ہیں۔ حضور سراپا شفقت اور محبت پیچھے سے جاکر ان کی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور وہ یہ جان کر ایک غریب بیکس سے ایسی محبت کرنے والا حضور کے سوا اور کون ہوسکتا ہے بڑے پیارے اپنے غریبانہ لباس کے ساتھ اپنا جسم حضور کے جسم مبارک سے رگڑنے لگتے ہیں اور شفقت اور عشق ومحبت کا فوارہ ہے جو دوطرف سے پھوٹ رہا ہے اور حضورﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے غریبوں، مسکینوں میں تلاش کرو۔

پس ہمارے نبی کریم ؐ تو حسن ظاہری و باطنی کا بہترین نمونہ تھے، ایک شاعر نے آپؐ کے بارے میں کیا خوب کہا ہے:

؎وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنٍ
وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ

کہ اے محمد ﷺ تجھ سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور تجھ سے بڑھ کر خوبصورت کبھی عورتوں نے کوئی پیدا نہیں کیا۔

؎خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ

اے پاک نبیؐ آپ ہر عیب سے اس طرح پاک و صاف پیدا کئے گئے گویا جس طرح آپؐ چاہتے تھے اس طرح ہی بنائے گئے۔

محاسبہٴ نفس

نیزتربیت کا ایک نہایت عمدہ طریق محاسبہ نفس اور مسابقت فی الخیرات ہے۔ چنانچہ قرآن کریم ایک طرف یہ کہتا ہے:

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ

(البقرہ: 149)

نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدوجہد کرتے رہو کا حکم دیتا ہے، مگر ساتھ ہی اپنے سے آگے نکل جانے والوں کو حسد کی نظر سے دیکھنے سے منع فرماتا ہے اور وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ

(النساء: 33)

کہ تم سے کسی کو اگر اللہ نے (مال میں ،صحت میں ،عہدہ میں، رسوخ میں، شکل میں) فضیلت دی ہے تو بے جا طور پر اس سے آگے بڑھنے کی آرزو نہ کرو۔

فرمایا رشک کرنا ہے تو دو باتوں میں کرو۔ ایک اگر کسی کو اللہ نے قرآن مجید کا علم دیا ہے ،قرآنی علم وحکمت سے نوازا ہے اور وہ اس کے مطابق کام کرتا ہے ،فیصلے کرتا ہے ،تعلیم دیتا ہے تو یہ خواہش کرسکتے ہوکہ اللہ تمہیں بھی علم قرآن دے اور تم بھی اس کی طرح کام کرو۔ دوسری بات یہ کہ کسی کو خدا نے دولت دی ہے اور وہ اس دولت کو بے دھڑک صحیح مَصرف میں خرچ کرتا ہے تو بھی اس لائق ہے کہ اس پر رشک کیا جائے۔

حضور ﷺ اپنے صحابہ کا جائزہ بھی لیتے رہتے تھے چنانچہ حضرت عبدالرحمان بن ابی بکرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے صحابہ سے پوچھا کہ آج مسکین کو کھانا کس نے کھلایا؟ تو جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں مسجد میں آیا تو ایک محتاج کو دیکھا۔ میں نے اپنے بچے عبدالرحمانؓ کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا لے کر اس مسکین کو دے دیا۔

(ابوداؤد، کتاب الزکوۃ باب المسئلۃ فی المساجد۔ حدیث 1670)

اسی طرح آپؐ نے پوچھا آج اپنے کسی بھائی کی عیادت کس نے کی؟ تو جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ مجھے اپنے بھائی عبدالرحمان بن عوفؓ کی بیماری کی اطلاع ملی تھی۔ آج نماز پرآتے ہوئے میں ان کے گھر سے ہوکر ان کا حال پوچھتے ہوئے آیا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا آج (نفلی) روزہ کس نے رکھا ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ وہ روزے سے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جس نے یہ سب نیکیاں ایک دن میں جمع کیں اس پر جنت واجب ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو روح مسابقت نے جوش مارا اور کہنے لگے کہ خوشانصیب وہ جو جنت کو پاگئے۔تب نبی کریمﷺنے ایک ایسا دعائیہ جملہ عمرؓ کے حق میں بھی فرمایا کہ عمر کا دل اس سے راضی ہوگیا۔ آپؐ نے دعا کی، اللہ عمر پر بھی رحم کرے۔ اللہ عمر پر رحم کرے۔ جب بھی وہ کسی نیکی کاارادہ کرتا ہے ابوبکرؓ اس سے سبقت لے جاتاہے۔

(مجمع الزوائد لھیثمی، جلد3 صفحہ385 مطبوعہ بیروت)

قرآن میں آیا ہے:

اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴۵﴾

(البقرہ: 45)

کىا تم لوگوں کو نىکى کا حکم دىتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو جب کہ تم کتاب بھى پڑھتے ہو آخر تم عقل کىوں نہىں کرتے کہہ کر ان لوگوں کو ملامت کرتا ہے جو دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود تساہل کرتے ہیں تو حضور ﷺ کا یہ اسوہ حسنہ نظر آتا ہے کہ جو حکم دیتے اس پر سب سے پہلے خود عمل فرماتے ،جو ارشاد فرماتے اس کی سب سے بڑھ کر تعمیل فرماتے۔ہر مشکل ہر خطرہ کے وقت خود سب سے آگے ہوتے۔ایک دفعہ مدینہ میں رات کے وقت شور اٹھا ، صحابہ جمع ہوئے اور آواز کی طرف روانہ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ ایک برق رفتار گھوڑے پر سوار واپس تشریف لا رہے ہیں اور فرماتے ہیں:

لَمْ تُرَاعُوْا، لَمْ تُرَاعُوْا

(بخاری، کتاب الجھاد بَابُ الحَمَآئِلِ وَتَعْلِيقِ السَّيْفِ بِالعُنُقِ)

گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہر طرح خیریت ہے۔

حضرت براء بن عازب ؓ جو ایران کی جنگوں میں قیادت کے لئے معروف ہیں ،بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے بہادر وہ وسمجھا جاتا تھاجو دوران جنگ حضور کے برابر کھڑا رہ سکے۔ اگر سود معاف فرماتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے خاندان کا ،اگر جاہلیت کے زمانہ کے قصاص کا دروازہ بند فرماتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے گھر کا۔

ہم جب بھی کسی جگہ بطور مبلغ سلسلہ تعینات ہوتے ہیں اور احباب جماعت بعض اوقات اپنی ضروریات جو کہ بالعموم علمی یا انتظامی نوعیت کی ہوتی ہیں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔تو ہمیں یہ قرآنی حکم یاد رکھنا چاہیے:

وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ﴿ؕ۱۱﴾

(الضحیٰ: 11)

اور جہاں تک سوالى کا تعلق ہے تو اُسے مت جھڑک یعنی جو بھی آپ کے پاس قوّتیں اور استعدادیں ہیں اور کوئی طالب آپ کے پاس آیا ہےتو حتّی المقدور اس کی مدد کرنا آپ پر لازم ہے۔چنانچہ آپ ﷺ کا اسوہ یہ ہے کہ ایک خاتون آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے بُن کر لباس تیار کرکے آپ کو پیش کرتی ہے ایک صحابی اس کو دیکھتے ہیں اور وہ اس کو پسند آتا ہے اور وہ عرض کرتا ہے یہ لباس بہت ہی خوبصورت ہے یا رسول اللہ مجھے دے دیجئے۔ آپ اندر تشریف لے گئے اور اتار کے اس صحابیؓ کو لباس بھجوا دیا۔ لوگوں نے اس کو کہا تم نے اچھا نہیں کیا۔ لَبِسَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا کہ نبی کریم ﷺنے وہ چادر پہنی تھی اور آپ ﷺ کو اس کی ضرورت بھی تھی لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّهٗ لَا يَرُدُّ سَآئِلًا اور تم جانتے ہوکہ آپ ﷺ سائل کو رد نہیں کیا کرتے۔ اس صحابی نے بتایا کہ وَاللّٰهِ!مَا سَأَلْتُهٗ لِأَلْبَسَهٗ إِنَّمَاسَأَلْتُهٗ لِتَكُوْنَ كَفَنِيْ۔ وہ میں نے پہننے کے لیے نہیں مانگی تھی ،بلکہ اس لئے مانگی تھی کہ وہ میرا کفن ہو۔

(بخاری، کتاب الجنائز بَابُ مَنِ اسْتَعَدَّ الكَفَنَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ ﷺ فَلَمْ يُنْكَرْ عَلَيْهِ)

اسی طرح اگر قرآن کہتا ہے:

وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ

(النساء: 84)

یعنی جب بھى ان کے پاس کوئى امن ىا خوف کى بات آئے تو وہ اُسے مشتہر کر دىتے ہى اور اگر وہ اسے (پھىلانے کى بجائے) رسول کى طرف ىا اپنے مىں سے کسى صاحبِ امر کے سامنے پىش کر دىتے تو ان مىں سے جو اُس سے استنباط کرتے وہ ضرور اُس (کى حقىقت) کو جان لىتے۔

یعنی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اچھی خبر آئے یا تکلیف دہ خبر ہو اس کی تشہیر اور اشاعت کرنے لگتے ہیں تو ہمارے نبی ﷺ فرماتے ہیں:

كَفٰى بِالْمَرْءِ مِنَ الْكَذِبِ أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ

(المستدرك على الصحيحين، کتاب البیوع وَأَمَّا حَدِيثُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ)

کہ انسان کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر بات جو وہ سنے آگے بیان کردے۔

اجتماعی تربیت کا مرکزی نظام

رسول کریم علیہ وسلم نے قرآنی ارشاد کے تابع یہ نظام تربیت بھی جاری فرما رکھا تھا کہ مختلف علاقوں سے لوگ مرکز میں آکر اور آپ کی صحبت میں رہ کر دین کا گہرا فہم حاصل کریں اور واپس جاکر اپنی قوم کی تربیت کریں۔ چنانچہ سورۃ التوبۃ میں اللہ فرماتا ہے:

وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾

(التوبہ: 122)

مومنوں کے لئے ممکن نہىں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں پس اىسا کىوں نہىں ہوتا کہ ان کے ہر فرقہ مىں سے اىک گروہ نکل کھڑا ہو تاکہ وہ دىن کا فہم حاصل کرىں اور وہ اپنى قوم کو خبردار کرىں جب وہ ان کى طرف واپس لَوٹىں تاکہ شاىد وہ (ہلاکت سے) بچ جائىں۔

اصحاب صفّہ کا ایک گروہ ہمیشہ مسجد نبوی کے قرب میں رسول اللہؐ کے زیر تعلیم و تربیت رہتا تھاجن کے قیام و طعام کا مناسب بندوبست بھی آپ فرماتے تھے۔

چنانچہ حضرت مالک بن حویرثؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ بہت رحیم و کریم اور نرم خو تھے۔ ہم نے آپ کی صحبت میں بیس دن قیام کیا (یعنی ایک طرح کی تربیتی کلاس میں شرکت کی) اس دوران آپؐ نے محسوس کیا کہ ہم اپنے گھر والوں کے لئے اداس ہوگئے ہیں (جیسے ہمارے ہاں کئی دفعہ تربیتی کلاس پر طلباء اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں) حضرت مالک کہتے ہیں کہ آپؐ ہم سے ہمارے اہل خاندان کے بارے میں تفصیل پوچھنے لگے۔ ہم نے ان کے بارے میں بتایا۔ مالکؓ کہتے ہیں حضورؐ بہت نرم دل اور پیار کرنے والے تھے۔ آپ نے ہمیں اپنے گھروں میں واپس بھجواتے ہوئے فرمایا ان کو جاکر بھی یہ باتیں سکھاؤ اور جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اس طرح نماز پڑھنا۔ نماز سے پہلے تم میں سے کوئی اذان کہہ دے اور جو بڑا ہووہ امامت کروادے۔

(بخاری، کتاب الادب باب 72)

دوران نصیحت مخاطب کو قائل کرنا

نبی کریم ﷺتربیتی نصائح میں دلیل سے قائل کرنے کو ترجیح دیتے تھے ،اوراس طرح زیر تربیت لوگوں کے لئے دعا کرتے تھے۔جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا ﴿۷۴﴾

(الفرقان: 74)

اور وہ لوگ کہ جب انہىں ان کے ربّ کى آىات ىاد کروائى جاتى ہىں تو ان پر وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہىں گرتے۔

چنانچہ ایک دفعہ ایک نوجوان نے عرض کیا یارسول اللہ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے۔ لوگوں نے اسے لعنت ملامت کی کہ کیسی نامناسب بات کردی اور اسے ایساسوال کرنے سے روکنے لگے۔ نبی کریمؐ سمجھ گئے کہ اس نوجوان نے گناہ کا ارتکاب کرنے کی بجائے جو اجازت مانگی ہے تو اس میں سعادت کاکوئی شائبہ ضرور باقی ہے۔ آپؐ نے کمال شفقت سے اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا پہلے یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اپنی ماں کے لئے زنا پسند ہے؟ اس نے کہا نہیں خدا کی قسم ہرگز نہیں۔ آپ ؐنے فرمایا اسی طرح باقی لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے زنا پسند نہیں کرتے۔ آپؐ نے دوسرا سوال یہ فرمایا کہ کیا تم اپنی بیٹی کے لئے بدکاری پسند کروگے؟ اس نے کہا خدا کی قسم ہرگز نہیں۔ آپؐ نے فرمایا لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کیا تم بہن سے بدکاری پسند کرتے ہو؟ اس نے پھر اسی شدت سے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے۔ پھر آپؐ نے بدکاری کی شناعت خوب کھولنے کیلئے فرمایا کہ تم پھوپھی اور خالہ سے زنا پسند کرو گے؟ اس نے کہا خدا کی قسم ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا لوگ بھی اپنی پھوپھیوں اور خالاؤں کے لئے بدکاری پسند نہیں کرتے۔مقصود یہ تھا کہ جو بات تمہیں اپنے عزیز ترین رشتوں میں گوارا نہیں۔ وہ دوسرے لوگ کیسے گوارا کریں گے اور کوئی اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟پھر نبی کریم ؐ نے اس نوجوان پر دست شفقت رکھ کر دعا کی:

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْذَنْبُہٗ وَطَھِّرْ قَلْبَہٗ وَ حَصِّنْ فَرْجَہٗ

اے اللہ! اس نوجوان کی غلطی معاف کر۔ اس کے دل کو پاک کر دے۔ اسے باعصمت بنا دے۔

اس نوجوان پر آپؐ کی اس عمدہ نصیحت کے ساتھ دعا کا اتنا گہرا اثر ہواکہ اس نے بدکاری کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور پھر کبھی اس طرف اُس کا دھیان نہیں گیا۔

(مسند احمد بن حنبل، جلد5 صفحہ256)

سُبْحَانَ اللّٰہ! کیسا پیار کرنے والا مربی اعظم انسانیت کو عطا ہوا تھا۔

بعض دفعہ نیکی کے رستہ سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر بھی گہری نظر ہوتی تھی اور موقع محل کے مطابق نیکی کی تحریک و تلقین فرماتے تھے۔ اگر کسی نے بوڑھے والدین کی خدمت چھوڑ کر جہاد پر جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے روک دیا اور فرمایا ماں باپ کی خدمت ہی تمہارا جہاد ہے۔ جہاں نماز میں کمزوری دیکھی وہاں سمجھایا کہ افضل عمل وقت پر نماز کی ادائیگی ہے۔

جہاں نیکی میں ریاء یا تکلف کا شائبہ بھی محسوس کرتے اس سے منع فرما دیتے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریمؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ میں حضور کا خیمہ تیار کرتی تھی۔ حضرت حفصہؓ نے بھی مجھ سے پوچھ کر اپنا خیمہ لگا لیا۔ ان کی دیکھا دیکھی ام المؤمنین حضرت زینبؓ نے بھی خیمہ لگوالیا۔ صبح رسول اللہؐ نے کئی خیمے دیکھے تو پوچھا کہ کس کے خیمے ہیں۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ ازواج کے ہیں تو آپ ان سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ یہ (رِیس کرنے کو) نیکی سمجھتے ہو۔ پھر اس سال آپؐ نے اعتکاف رمضان نہیں فرمایا بلکہ شوال کے دس دن اعتکاف فرماتے رہے۔

(بخاری، کتاب الاعتکاف باب نمبر 14)

اور یہ تربیتی سبق دیا کہ ہمیشہ رضائے الہٰی مدنظر رکھنی چاہئے اور نیکی میں حسد نہیں رشک کا جذبہ پروان چڑھنا چاہئے۔

برمحل اظہار ناراضگی

کسی بات پر برمحل ناپسندیدگی کا اظہار نبی کریمؐ کے چہرے سے عیاں ہوجاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے مزاج کو سمجھتے تھے۔ کیونکہ آپﷺ محبت کے ذریعہ ان کی تربیت فرماتے تھے۔ بسا اوقات زبانی نصیحت کی بجائے محض آپ کا کوئی اشارہ یا اظہار ناپسندیدگی بہترین اور مؤثر نصیحت ہوتا تھا۔

رسول اللہ ؐ کی مجلس میں ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ سے تکرار شروع کردی اور آپ کو برا بھلا کہنے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے تو خاموشی اورصبر سے سنتے رہے مگر جب اس نے تیسری مرتبہ زیادتی کی توآخر تنگ آکرآپؓ نے اسے جواب دیا۔ رسول کریمؐ مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپؐ کو مجھ سے ناراض ہوکر جارہے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا جب تک تم خاموش تھے تو ایک فرشتہ آسمان سے آکر تمہاری طرف سے اس شخص کو جواب دے رہا تھا۔ جب آپ خود بدلہ لینے پر اتر آئے تو وہ فرشتہ چلا گیا اور شیطان آگیا۔ اب میں ایسی مجلس میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں

(ابوداؤد، کتاب الادب باب نمبر 49)

تنبیہ و تادیب

تربیت کی خاطر بعض دفعہ تنبیہ یا تادیب بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ نبی کریمؐ کو بھی بعض مواقع پر تعزیری کاروائی کرنی پڑی مگر اس سزا میں بھی نفرت یا غصہ نہیں بلکہ شفقت و رحمت کا رنگ غالب ہوتا تھا جس کے نتیجہ میں عظیم الشان اصلاحی تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں۔ حضرت کعب بن مالکؓ اور ان کے دوساتھی بغیر کسی عذر کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ رسول اللہؐ کی واپسی پر انہوں نے اپنی اس غلطی کا اقرار کرلیا تو رسول کریمؐ نے ان تینوں سے تمام صحابہ کا بول چال بند کر دیا۔ کعب ؓکہتے ہیں کہ ہم بازاروں میں پھرتے تھے مگر کوئی ہم سے کلام نہ کرتا تھا۔ رسول کریمؐ کی مجلس میں حاضر ہوکر آپ کو سلام کہتا تھا اور دیکھتا تھا کہ آپ کے ہونٹوں میں سلام کے جواب کے لئے جنبش ہوئی کہ نہیں۔ پھر آپؐ کے قریب ہوکر نماز ادا کرتا اور چوری آنکھ سے آپ ؐکو دیکھتا رہتا۔ جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا رسول کریم میری طرف دیکھتے رہتے اور جب میں آپ کی طرف توجہ کرتا تو آپ رُخ پھیر لیتے۔ بعد میں ان تینوں اصحاب کا اُن کی بیویوں سے بھی مقاطعہ کر دیا گیا۔ پچاس دن انہوں اس حالت میں کاٹے۔ پھر جب ان کی معافی ہوئی تو رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ رسول کریمؐ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ آپ ؐنے فرمایا اے کعبؓ! تمہیں بشارت ہو آج تمہارے لئے ایسا دن آیا ہے کہ جب سے تم پید ا ہوئے آج تک ایسا دن تم پر طلوع نہیں ہوا۔ کعب ؓنے پوچھا یا رسول اللہ! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے۔ فرمایا اللہ کی طرف سے ہے۔ کعبؓ پر اس پُر شفقت سزا کا یہ اثر تھا کہ انہوں نے رسول اللہؐ کے پاس سے اٹھنے سے قبل یہ عہد کیا کہ جس سچ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل فرمایا ہے میں آئندہ اس کا دامن کبھی نہ چھوڑ وں گا۔ اور جھوٹ سے ہمیشہ مجتنب رہوں گا۔ دوسرے میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں بطور صدقہ پیش کرتا ہوں۔رسول کریمؐ نے کچھ حصہ صدقہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

(بخاری، کتاب المغازی باب نمبر75)

امربالمعروف و نہی عن المنکر

قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے کہ قوم بنی اسرائیل اس لئے تباہ ہوئے کہ وہ کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۸۰﴾

(المائدہ: 80)

کہ وہ ایک دوسرے کو ناپسندیدہ بات سے روکتے نہیں تھے۔ تو آپ ﷺ کی دعویٰ کے بعد زندگی کا ہر دن منکر سے روکنے پر صرف ہوا اور لوگوں کو اس کی اتنی تاکید کی کہ راستہ کے کنارے پر بیٹھنے والوں کے لئے بھی نھی عن المنکر فرض کے طور پر قرار دیا۔ رسول کریمؐ جب بھی کوئی نامناسب بات دیکھتے تو حتّٰی الوسع فوراً اسے روکنے کی سعی فرماتے تھے اور جیسا کہ آپؐ کا ارشاد تھا کہ اگر برائی کو ہاتھ سے روک سکتے ہو تو روکو۔اس کی توفیق نہ ہو تو پھر زبان سے نصیحت کرو ورنہ کم سے کم دل سے روکو یعنی اسے برا بھی سمجھو اور اس کے لئے دعا کرو۔

(ترمذی،ابواب الفتن باب نمبر 35)

حجۃ الوداع کے موقع پررسول اللہؐ کے چچا زاد حضرت فضلؓ بن عباس رسول اللہؐ کی سواری کے پیچھے بیٹھے تھے۔ خثعم قبیلہ کی ایک عورت کوئی مسئلہ دریافت کرنے آئی۔فضل اس کی طرف اور وہ عورت فضل کی طرف دیکھنے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کی گردن پکڑ کر اس کے چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔

(بخاری، کتاب الاحصار باب نمبر 35)

لیکن جہاں ہاتھ سے روکنا پسندیدہ نہ ہو وہاں نصیحت فرماکر فرض تبلیغ سے سکبدوش ہوجاتے تھے۔وفات وغیرہ کے موقع پر نبی کریمؐ بین یاواویلا کرنے سے منع فرماتے تھے لیکن چونکہ غم کی حالت میں جذبات پر انسان بعض دفعہ بے اختیار اور مغلوب ہوجاتاہے اسلئے اس پہلو سے شفقت کا دامن جھکاکے رکھتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ کی غزوہ موتہ میں شہادت کے موقع پر خود رسول اللہؐ کو سخت صدمہ تھا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ مسجد میں تشریف فرماتھے اور چہرہ سے غم کے آثار صاف عیاں تھے۔میں دروازے کی درز سے دیکھ رہی تھی۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفر کی عورتیں رورہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا انہیں منع کرو۔ وہ گیا اور تھوڑی دیر میں واپس آکر کہنے لگا کہ وہ میری بات نہیں مانتیں۔ آپ ؐنے فرمایا دوبارہ انہیں جاکر منع کرو۔ تیسری دفعہ اس نے آکر پھر کہا کہ وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیں یعنی کہنا نہیں مانتیں۔ آپ ؐنے فرمایا ان کے موہنوں پر مٹی پھینکو یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے دل میں کہا اللہ تمہیں رسوا کرے رسول اللہؐ نے تمہیں جو حکم دیا ہے وہ تو تم کر نہیں کرسکے پھر رسول اللہؐ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتے ہو۔

(بخاری، کتاب الجنائز باب 39)

نصیحت کی یاد دہانی

جیسا کہ بیان ہوا کہ نبی کریم ﷺ تربیت کے سلسلہ میں قرآنی اسلوب ہمیشہ یادرکھتے تھے اور فَذَکِّرْ (یعنی نصیحت کرتے رہنے) کے حکم کے تابع بعض اہم مضامین یا نصائح کا تکرار پسند فرماتے تھے۔ بالخصوص تقویٰ کی نصیحت کی یاددہانی کرواتے تھے۔ نکاح وغیرہ کے موقع پر خطبۃ الحاجۃ میں بھی تقویٰ کے مضمون پر مشتمل آیات تلاوت فرماتے تھے۔ عام وعظ میں بھی یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۹﴾

(الحشر: 19)

یعنی اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کا تقوى اختىار کرو اور ہر جان ىہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کىا آگے بھىج رہى ہے اور اللہ کا تقوى اختىار کرو ىقىناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمىشہ باخبر رہتا ہے۔

اس آیت کی کثرت سے تلاوت کرنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔

خلوص نیت

رسول کریم ؐ نے تربیت کے لئے خلوص نیت کو ضروری قرار دیا ہے۔ فرمایا تمام نیک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہی ہے۔

(بخاری، حدیث نمبر1)

اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کے جسم و مال اور شکل و صورت پر نہیں بلکہ دلوں پر ہوتی ہے اور انسان کے تقویٰ کے مطابق خداتعالیٰ کا اس سے معاملہ ہوتا ہے۔

(مسلم، کتاب البر والصلۃ باب نمبر 10)

چنانچہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ تعریف میں مبالغہ ناپسند فرماتے تھے۔ایک دفعہ کسی کی ایسی تعریف سن کر فرمایا کہ تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی کیونکہ ایسی تعریف سے اندیشہ ہوتاہے کہ انسان کہیں کبر کا شکار ہوجائے۔ تاہم حوصلہ افزائی کی خاطر جائز تعریف سے منع بھی نہیں فرمایا۔ چنانچہ ہدایت فرمائی کہ کسی کی تعریف کرنی مقصود ہوتو محتاط الفاظ میں اس شخص کی خوبی کا ذکر کرکے کہنا چاہئے کہ میرے خیال میں فلاں شخص ایساہے باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

(بخاری، کتاب تعبیر الرؤیا باب 36)

دلی محبت کے ساتھ تربیت

نبی کریم ؐ کا تربیت کرنے کابڑا گُر یہ تھا کہ آپؐ نے دنیا کے دل محبت اور احسان کے ساتھ جیتے۔ معاویہ بن حکمؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے نبی کریم ؐ کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک آدمی کو چھینک آگئی۔ میں نے نماز میں ہی کہہ دیا اللہ آپ پر رحم کرے۔ لوگ کنکھیوں سے مجھے دیکھنے لگے اور تعجب سے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے خاموش کرانے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ میں خاموش ہوگیا،نماز کے بعد نبی کریم علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں میں نے آپؐ سے بہتر تعلیم دینے والا کوئی انسان نہیں دیکھا۔ آپ ؐنے مجھے مارا نہ برا بھلا کہاصرف اتنا فرمایا ۔نماز کے دوران کوئی اور بات کرنا جائز نہیں ہے۔ نماز تو ذکر الہٰی، اللہ تعالیٰ کی تعریف اور بڑائی کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے۔

(مسلم، کتاب المساجد باب 8)

بدظنی کے مواقع سے بچنا

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۳﴾

(الحجرات: 13)

اے لوگو! جو اىمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کىا کرو ىقىناً بعض ظن گناہ ہوتے ہىں اور تجسس نہ کىا کرو اور تم مىں سے کوئى کسى دوسرے کى غىبت نہ کرے کىا تم مىں سے کوئى ىہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائى کا گوشت کھائے پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو اور اللہ کا تقوى ٰاختىار کرو ىقىناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

رسول کریمﷺ نے تربیت کے لئے ایک اصول یہ سکھایا کہ تہمت کے موقع سے بچنا چاہئے۔ حضورؐ کا اپنا دستور بھی یہی تھا۔ ایک رمضان میں نبی کریم ﷺ اعتکاف میں تھے۔ حضرت صفیہؓ آپؐ سے ملنے آئیں۔ واپس جاتے وقت حضورؐ ان کے ساتھ ہولئے تاکہ گھر تک چھوڑ آئیں۔ راستہ میں دو انصاری صحابہ ملے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک کر فرمایا یہ میری بیوی صفیہؓ بنت حیی میرے ساتھ ہیں۔ انہوں نے نہایت تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم بھلا آپ کے بارہ میں کوئی غلط گمان کرسکتے ہیں۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بات نہ ڈال دے۔

(بخاری، کتاب الادب باب 121)

تربیتی حکمت عملی ومؤثر کاروائی

تربیتی و اخلاقی معاملات میں نبی کریم ﷺ کی نصائح بہت گہری اور پر حکمت ہیں۔جہاں آپ ؐنے معاشرہ کی اہم فردعورت کے مقام اور مرتبہ کا ذکر کر کے اسے محبت کی نظر سے دیکھاوہاں بعض ممکنہ خدشات اورفتنوں کا بھی ذکر کیا جو راہ راست سے ہٹ جانے کے نتیجہ میں معاشرہ میں پیدا ہوسکتے ہیں۔چنانچہ فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر جس سب سے بڑے فتنہ کا ڈر ہے وہ عورتوں کا فتنہ ہے۔

آپؐ نے ان عورتوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا جو لباس پہنے ہوئے بھی لباس سے عاری ہونگی اور اپنی طرف مردوں کو مائل کرنے والی اور بہت جلد انکی طرف مائل ہونگی۔

(مسلم، کتاب اللباس باب 43)

نبی کریم ﷺ تربیتی لحاظ سے معاشرہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور برائی کے آغاز سے پہلے اسے دبانے اور اس کے تدارک کی فکر فرماتے تھے۔ نوجوانوں کی تربیت پر آپ ؐکی خاص نظر ہوتی تھی اور انہیں انفرادی طور پر دلنشیں پیرائے میں مؤثر نصیحت فرماتے تھے اور مناسب عمر میں بروقت ان کی شادی ہوجانا پسند فرماتے تھے کہ اس طرح انسان کئی قباحتوں سے بچ جاتا ہے۔

حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی خدمت میں عکاّف بن بشر تمیمی آئے۔ نبی کریمﷺ نے ان سے پوچھاکہ کیا تمہاری بیوی ہے۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا، فرمایا کیا کوئی لونڈی ہے عرض کیا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اور تم صاحب دولت و ثروت بھی ہو۔ اس نے کہا جی حضور میں خدا کے فضل سے صاحب حیثیت ہوں۔ آپ نے فرمایا تو پھر تم شیطان کے بھائی ہو اور اگر تم عیسائیوں میں ہوتے تو ان کے راھبوں میں سے ہوتے۔ ہماری سنت تو نکاح ہے۔ تم میں سے بدترین لوگ وہ ہیں جو شادی نہیں کرتے اور اگر اسی حال میں ان پرموت آجائے تو بحالت موت بھی وہ بدترین ہیں۔ شیطان کے لئے نیک لوگوں کے خلاف کوئی ہتھیار عورتوں سے زیادہ مؤثر نہیں۔ البتہ شادی شدہ لوگ اس سے محفوظ ہیں۔ یہی ہیں جو پاک اور فحش گوئی سے برَی ہیں۔ اے عکاف! تیرا بھلا ہو یہ عورتیں ایوب، داؤد اور یوسف علیہ السلام اور کرسف کو مشکل میں ڈالنے والی تھیں۔

(مسند احمد بن حنبل، جلد5 صفحہ163)

اندازِ نصیحت

ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے دیکھا۔ ایک آدمی غصے سے دیوانہ ہوا جارہاتھا۔اس کا چہرہ پھول کر رنگ متغیر ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت خود اسے بلا کر یا مخاطب کر کے نصیحت نہیں فرمائی بلکہ علم النفس کا ایک گہرا نفسیاتی نکتہ سمجھاتے ہوئے تعجب انگیز انداز میں فرمایا مجھے ایک ایسی دعا کا پتہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ ایک شخص نے جو یہ سُنا تو اس آدمی کو جاکر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ پڑھ لو۔

یعنی میں راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو غصہ دور ہوجائے گا مگر وہ کوئی گنوار بدو تھا۔ بدبخت نے یہ نسخہ استعمال نہ کیا اور کہا میں کوئی دیوانہ ہوں۔ جاؤ میں نہیں پڑھتا۔

(بخاری، کتاب الادب باب 44)

کاش! وہ شخص اس نسخہ کو آزماتا تو نبی کریمﷺ کے علم النفس کا حیرت انگیز معجزہ اس کی ذات میں بھی ظاہر ہوتا لیکن اگر اس بدبخت بدو نے تو اس سے فائدہ نہیں اٹھایا ہم کیوں نہ یہ نسخہ آزمائیں۔

؏اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

نبی کریم ﷺ سفیر امن تھے۔ لڑائی جھگڑا سخت ناپسند تھا اور آپ ؐکی طبیعت پر یہ بہت گراں ہوتا تھا جس کا احساس آپ اپنے زیر تربیت صحابہ میں بھی اجاگر کرنا چاہتے تھے۔

ایک دفعہ رمضان کے آخری بابرکت ایام میں بذریعہ رؤیا آپ ؐکو لیلۃ القدر کی طاق رات کا علم دیا گیا کہ کونسی رات ہے۔ آپؐ صحابہ کو یہ خوشخبری سنانے آئے تو دیکھا کہ دومسلمان آپس میں جھگڑرہے ہیں۔آپؐ کی توجہ اُن کی طرف ہوگئی اور اس رؤیا کا مضمون ذہن میں نہ رہا۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ رات تمہارے جھگڑے کے باعث مجھے بھلا دی گئی ہے اور شاید اسی میں بھی حکمت ہو کہ تم لوگ اس کی تلاش میں زیادہ راتیں خدا کی عبادت میں گزارسکو۔اس لئے اب اسے طاق راتوں میں تلاش کرو۔

(بخاری، کتا ب الادب باب 44)

نبی کریم ﷺ نے جہاں توحید کی تعلیم دی وہاں اپنے صحابہ کی تربیت میں بھی یک رنگی پیدا کرنے کی طرف توجہ فرمائی۔ آپؐ کو دوغلی طبیعت کے اوردوہرے چہرے رکھنے والے لوگ سخت ناپسند تھے جو موقع محل کے مطابق اپنا چہرہ بدل لیں۔

(بخاری، کتاب الادب باب 25)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا مطمح نظریہ تھا کہ سب مسلمان بھائی بھائی بن جائیں اور ایک پرامن معاشرہ قائم ہو۔

آپ صحابہ کو تلقین فرماتے تھے کہ آپس میں بغض وحسد نہ رکھو اور نہ ہی کسی کی پیٹھ پیچھے بات کرو۔ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی ہوجاؤ۔کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے قطع تعلق رکھے۔ نیز فرماتے تھے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دو بھائی ملیں تو ایک دوسرے سے رخ پھیر لیں۔ اگر کوئی ناراضگی ہو بھی تو بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کر کے ناراضگی دور کرے۔

(بخاری، کتاب الادب باب 26)

نبی کریمؐ کی اس پاکیزہ تعلیم اور تربیت کے مجرب اصولوں کی روشنی میں عظیم تربیتی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسوہ رسول مشعل راہ ہو۔

؎ خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی
بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی
ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی
کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی
ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ

(رحمت اللہ بندیشہ۔مبلغ سلسلہ واستاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

حضرت خلیفۃ المسیح کا خصوصی پیغام جماعت احمدیہ ناروے کے نام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2021