• 16 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 69)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 69

مکرم عبد الستار خان، مبلغ سلسلہ کولمبیا (ساؤتھ امریکہ) لکھتے ہیں:
مکرم مولانا سید شمشاد احمد ناصر مبلغ امریکہ کے مضامین ’’تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے، ذاتی تجربات کی روشنی میں‘‘ کی 66ویں قسط روز نامہ الفضل آن لائن موٴرخہ 29؍اکتوبر 2022ء میں شائع ہوئی ہے۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔ محترم مولانا موصوف کے جملہ مضامین داعیان الیٰ اللہ، مربیان سلسلہ اور احباب جماعت کے لیے تبلیغ کے سلسلہ میں بہترین مشعل راہ ہیں۔ مولانا سید شمشاد ناصر صاحب نے حالات کی مناسبت سے نہایت پر حکمت انداز میں وقتاً فوقتاً یہ مضامین تحریر کیے جو امریکہ اور پاکستان کے مختلف اخبارات و رسائل کو بھجوائے جاتے رہے اور اشاعت کی زینت بنتے رہے۔ ان مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علم کلام کی روشنی میں ہستی باری تعالیٰ، صداقت قرآن کریم، سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء احمدیت کے خطبات و تقاریر کا خلاصہ، پاکستان و دیگر ممالک کے احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی داستان بار بار بیان کی جاتی رہی۔ نیز مخالفین احمدیت کے بد انجام کا تذکرہ اور اخلاقی و تربیتی امور پر سیر حاصل بحث کی جاتی رہی۔ اس طرح امریکہ، پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے لاکھوں افراد تک اسلام و احمدیت کا حقیقی پیغام پہنچا۔ اکثر مضامین انگلش و اردو زبان میں شائع ہوئے جبکہ بعض مضامین عربی ممالک میں عربی زبان میں شائع ہوئے۔

ان مضامین سے ہماری موجودہ نسل بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور خاص طور پر ہمارے مربیان اور واقفین زندگی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح پریس اور میڈیا سے اس زمانہ میں فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا ہے۔

؎ سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم مولانا صاحب موصوف کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور داعیان الی اللہ و احباب جماعت کو ان سے بھر پور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ امریکن قوم۔ ایک اور بات کی بھی خاص طور پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ امریکن آئین انہیں ہر قسم کی آزادی بلاتفریق اور بلا امتیاز مہیا کرتا ہے۔ اصل میں تو یہ ایک مسلما ن کا فخرتھا۔ کہ اسلام ہر ایک کو بلا امتیاز و تفریق آزادی ضمیر، آزادی مذہب اور آزادی خیالات کا اظہار عطا کرتا ہے۔ لیکن اس عیسائی حکومت یا سیکولر حکومت نے جہاں اکثریت عیسائیوں کی ہے سب قوموں کو آزادی دے رکھی ہے جب کہ اسلام نے یہ آزادی سب سے پہلے دی مگر مسلمان اور اسلامی ممالک اب تک یہ آزادی دینے کو نہ تیار ہیں اور نہ ہی آزادی دینے کے حق میں ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی خواب دیکھا۔ جو کہ پاکستان کا تھا انہوں نے اپنی ایک تقریر میں وطن عزیز کے لوگوں کو بتایا کہ یہاں ہر ایک کو آزادی حاصل ہوگی۔ تم آزاد ہو، مندر جانے میں، آزاد ہو ٹیمپل جانے میں تم آزاد ہو مساجد میں جانے کے لئے۔ تم سب برابر ہو۔ ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے مگر قائد اعظم کے اس خواب کی تعبیر اب تک نہیں ہوسکی۔

پاکستان میں تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں کیوں کہ آئین میں ایسی ایسی شقوں کا اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے عوام الناس اور اقلیتیں سب غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔

اسلام نے قرآن کریم میں سب کوآزادی دی ہے سب کو انسانیت کی بنیاد پر برابری کے حقوق دیئے ہیں۔ ’’لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن‘‘ کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں۔ لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ تمہارے لئے تمہارا دین میرے لئے میرا دین۔ سب کو یکساں آزادی دے دی۔ لیکن پاکستان کے آئین میں حکمرانوں نے ایسی شق ڈال دی کہ جس کی وجہ سے اب اقلیتیں تو بالکل غیر محفوظ ہوگئی ہیں بلکہ ان کو تو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔

آج پاکستان کے آئین پر ملاں کا قبضہ اور دہشت گردوں کی اجارہ داری ہے وہی اس کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔کہتے تو ہیں کہ وطن عزیز میں جمہوریت ہے اس کے ساتھ ہی ہر ایک کے ہاتھ میں دوسروں کو مارنے کے ہتھیار بھی ہیں۔ جہاں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ تم آزاد ہو مساجد میں جانے، مندر میں جانے کے۔ وہی جگہیں آج سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں بالکل ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ امریکہ کا آئین اسلام کے بہت قریب ہے۔ جب کہ مسلمان ممالک کے آئین اسلامی تعلیمات اور اسلامی منشور سے کہیں دور ہیں جہاں ہر کسی کو تحفظ نہیں اور نہ ہی کسی کو آزادی حاصل ہے۔

امریکہ میں آئینی طور پر انسانیت کا احترام ہے اور تحفظ ہے اور آزادی ہے۔اسی وجہ سے اس قوم نے ترقی کر کے آج سپر پاور کا مقام حاصل کر لیا ہے۔ جو باتیں اسلام سکھاتا ہے ان کی اکثریت میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔

جب ہمارے پیارے آقا و مولیٰ سردار انسانیت، محسن انسانیت حضرت خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دی تو وہ ہجرت ایک عیسائی بادشاہ اور عیسائی سلطنت کی طرف ہی تو تھی۔

امریکہ میں اس وقت ہزاروں مساجد ہیں مسلمانوں کی۔ یہ ہے آئین کی بالا دستی اور آئین کا احترام کہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے۔ خدا ان کو یہ یوم آزادی مبارک کرے۔ اب ایک سوال ہے کہ کیا وطن عزیز پاکستان میں ایسا ممکن ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی سے زندگی بسر کر سکے۔ اس کا ایک حل تو خاکسار نے یہ بتایا کہ وطن عزیز کا آئین ایسا ہو جس میں بلا تفریق ملت و مذہب ہر ایک کے لئے احترام اور تحفظ ہو۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ایسا ہے یہ بالکل جھوٹ اور دھوکا ہے۔ جن دہشت گردوں کو پکڑا گیا۔ ان کے ہاتھ اسی آئین ہی نے مضبوط کئے تھے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو سربازار مار دیا گیا۔ اقلیتوں کے وزیر کو سرعام گولیوں سے اڑا دیا گیا۔

احمدیوں کی مساجد پر دن دیہاڑے نماز پڑھتے ہوئے بم گرا دیئے گئے اور 86 آدمیوں کو موقع پر ہی جان سے ماردیا گیا۔ گوجرہ میں عیسائیوں کے گرجا گھر کو جلا دیا گیا۔ کہیں ختم نبوت والوں کی اجارہ داری ہے تو کہیں احرار کی۔ تو کہیں ملاں کی۔ یہ سب کچھ آخر کیا ہے؟ یہ سب کچھ اسی آئین کی آڑ میں کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے پولیس بھی کسی کی حفاظت نہیں کرتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں، سیاسی لیڈروں اور ارباب اقتدار کے سروں پر سے ملاں ازم کا بھوت اتار دیا جائے۔ جب تک ان سب کی گردنوں پر ملاں چڑھا رہے گا امن قائم نہ ہوگا اور نہ ہی کسی کو تحفظ۔

مساجد اور ریاست کو الگ الگ کیا جائے مساجد کے ملاں کا حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔ اگر ملاں کو حکومت میں دخل اندازی کی اجازت دیں گے تو سیاسی لوگ اسے اپنی جھولی میں بٹھائیں گے۔

علاج آپ کو بتا دیا ہے کرنا آپ کا کام ہے۔ یہ کریں گے توبچ جائیں گے ورنہ خمیازہ آپ سب بھگت رہے ہیں اور پھر آخری بات یہ لکھی کہ قرآن کریم کی اس بات پر کان دھریں۔ ’’ہم کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے جب تک اس میں اپنا فرستادہ اور مامور نہ بھیج دیں‘‘ اس پر غور اور فکر کریں۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 8 تا 14؍جولائی 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا مضمون ’’امریکہ کی یوم آزادی کے موقعہ پر‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز پیپر میں 14؍جولائی 2011ء کی اشاعت میں ہمارا تبلیغی اشتہار حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’کیا آپ انتظار کر رہے ہیں؟‘‘

اس کے بعد حضرت مسیح کی آمد ثانی کا ذکر ہے۔ بائبل کے حوالہ سے۔ نیز دیگر معلومات دی گئی ہیں۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 15؍جولائی 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘ کی اگلی قسط تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی زندہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اسوہ حسنہ کے مطابق بسر کرنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔

یہ ایک ایسا کلمہ ہے جس سے معاشرہ میں امن قائم ہوسکتا ہے لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔ اب تو مسلمان ہی مسلمان سے ڈرتا ہے کیوں کہ مسلمان ہی مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ مسلمان ہی مسلمان کا خون پی رہا ہے۔ اسلام پر عمل، زندگی کی ضمانت ہے۔ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
’’ہم نے کسی کتاب میں ایک حکایت پڑھی ہے لکھا ہے کہ حضرت علیؓ کی ایک کافر سے جنگ ہوئی جنگ میں مغلوب ہو کر وہ کافر بھاگا، حضرت علیؓ نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے پکڑ لیا اس سے کشتی کر کے اسے زیر کر لیا۔ جب آپؓ اس کی چھاتی پر خنجر نکال کر اس کے قتل کرنے کے لئے بیٹھ گئے تو اس کافر نے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس پر حضرت علی ؓ اس کی چھاتی سے الگ ہوگئے وہ کافر اس معاملہ پر بڑا حیران ہوا اور تعجب سے اس کا باعث دریافت کیا۔ حضرت علیؓ نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ تم سے جب جنگ کرتے ہیں تو محض خدا کے حکم سے کرتے ہیں۔ کسی نفسانی غرض کے لئے نہیں کرتے بلکہ ہم تو تم لوگوں سے محبت کرتے ہیں میں نے تم کو پکڑا خدا کے لئے تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو اس سے مجھے بشریت کی وجہ سے غصہ آگیا تب میں ڈرا کہ اگر اس وقت جب کہ اس معاملہ میں میرا نفسانی جوش بھی شامل ہوگیاہے تم کو قتل کر دوں تو میرا سارا ساختہ و پرداختہ ہی برباد نہ ہوجائے اور جوش نفسی کی وجہ سے میرے نیک اعمال بھی ضبط نہ ہوجائیں۔ یہ ماجرا دیکھ کر کہ ان لوگوں کا اتنا باریک تقویٰ ہے اس نے کہا میں نہیں یقین کرسکتا کہ ایسے لوگوں کا دین باطل ہو لہٰذا وہ وہیں مسلمان ہوگیا۔

دیکھو! اگر ہم خدا تعالیٰ کے نزدیک کافر اور دجال نہیں تو پھر کسی کے کافر اور دجال کہنے سے ہمارا کچھ نہیں بگڑتا اور اگر ہم واقعی خدا تعالیٰ کےحضور میں مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں تو پھر کسی کے اچھا کہنے سے ہم خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ پس تم یاد رکھو کہ نرمی عمدہ صفت ہے۔ نرمی کے بغیر کام چل نہیں سکتا۔ فتح جنگ سے نہیں جنگ سے اگر کسی کو نقصان پہنچا دیا تو کیا کیا؟ چاہئے کہ دلوں کو فتح کرو اور دل جنگ سے فتح نہیں ہوتے۔‘‘

جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا مسرور احمد (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے 3؍اپریل 2010ء سپین کے جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس میں فرمایا کہ احمدیوں کو اسلام کی تعلیمات پر مکمل عمل کرنا چاہئے۔ مسلمان تو خیر امت ہیں جو دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں: ’’خداوند تعالیٰ مسلمانوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے پر چلیں اور آپؐ کے ہر قول و فعل کی پیروی کریں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ آج کل روز مرہ کی گھریلو زندگی میں ایک بہت بڑا مسئلہ میاں بیوی کے تعلقات میں دراڑ یں اور ناچاقیاں بنتی چلی جارہی ہیں۔ مرد اور عورت دونوں بے صبری کے نمونے دکھاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو۔ آپ نے نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا طاقت ور وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے اصل پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو رکھتا ہے۔

آپؐ نے نصیحت کی کہ دین کا خلاصہ یہ ہے کہ زبان کو روک کر رکھو۔

حضرت مرزا مسرور احمد (خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ) نےمزید فرمایا کہ عورتوں سے حسن سلوک کیا کرو اور ان کے جذبات کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کے جذبات کا اس قدر احساس ہوتا تھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز پر میں نماز جلدی ختم کر دیتا ہوں کہ اس کے رونے کی وجہ سے اس بچے کی ماں کو تکلیف ہو رہی ہوگی۔‘‘

آپؐ نے اپنی آخری وصیت یہی فرمائی تھی کہ ’’عورتوں سے ہمیشہ حسن سلوک کرتے رہنا‘‘۔ آپؐ نے بچوں کی عمدہ تعلیم و تربیت کی طرف بھی توجہ دلائی۔

اسلامی معاشرہ میں ایک اور بات بھی اہم ہے کہ دوسروں کی کمزوریاں دیکھ کر ادھر ادھر پھیلانے سے آپؐ نے منع فرمایا ہے۔پس جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلے گا وہ اللہ کا بھی محبوب بن جائے گا۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 15؍ تا 21؍جولائی 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘ کی اگلی قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی۔ اس مضمون کا خلاصہ اوپر گزر چکا ہے۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 20؍جولائی 2011ء میں صفحہ20 پر حضرت امیر الموٴ منین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا مختصراً خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ کا عنوان اخبار نے یہ لکھا ہے کہ ’’وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ‘‘ اور پھر آل عمران کی یہ آیت 103-104 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾ وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَکُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ کامل تقویٰ حقیقی موت چاہتا ہے۔ جب انسان اپنے ہوائے نفس پر موت وارد کر لیتا ہے تب وہ مقرب بنتا ہے۔ اس لئے جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ اپنی خواہشات کو دبائیں اور تقویٰ کے حصول کی کوشش کریں۔

انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے لمحات آتے ہیں کہ جب وہ تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور جب وہ خدا خوفی اور تقویٰ چھوڑتا ہے تو پھر شیطان کے قبضہ میں آجاتا ہے۔ یہ آسان بات نہیں ہے کہ حقیقی تقویٰ و طہارت حاصل کیا جائے۔ حضور انور نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں رسول اسی وجہ سے بھیجتا ہے کہ وہ شیطان کے پنجہ سے آزاد ہو کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ پس ہر عمل انسان کا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے۔

حضور نے اُدْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ کی آیت بھی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ اس کے لئے بھی بس خدا تعالیٰ سے ہی دعا کرنی چاہئے اور اسی سے استمداد کرنی چاہئے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔ اللہ ضرور صحیح راستہ کی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔ انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ تقویٰ کے بغیر خدا تعالیٰ کے بندوں میں شمار ہو۔ پس کوشش کرو کہ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 22؍ تا 28؍جولائی 2011ء میں ایک مضمون بعنوان ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘ کی اگلی قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ خاکسار نے اس مضمون میں یہ باور کرایا ہے کہ دنیا کی موجودہ حالت اور بحران سے نکلنے کا واحد ذریعہ صرف اور صرف اسلام میں ہے۔ اسلام میں تمام امور عدل و انصاف پر مبنی طے ہونے چاہئیں۔ اسلام میں کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسلام ایک مکمل مذہب اور ضابطہ حیات ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسلام موجودہ بحرانوں سے نکال سکتا ہے بلکہ آخرت میں کامیابی بھی اسی مذہب سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرما دیا ہے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۔ یقیناً دین خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اسلام ہے۔ لیکن نام کا ہی اسلام اور نام کا ہی مسلمان ہونا کافی نہیں ہے۔ جب تک دین اسلام کی تعلیمات پر پورا پورا عمل نہ ہو مثلاً عبادت کو ہی لے لو۔ نماز کا طریق اور دعاؤں کے طریق کو ہی دیکھ لو۔ قبروں پر جا کر سجدے کئے جارہے ہیں۔ دعائیں کی جارہی ہیں منتیں مانگی جارہی ہیں کہیں اپنے کاروبار میں ترقی کے لئے تو کہیں مردہ روحوں سے اولاد طلب کی جارہی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ اقتباس بھی یہاں درج کیا ہے:
’’پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دعا سے حاصل ہوتی ہے۔ غیر اللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے کیو نکہ یہ مرتبہ دُعا کا اللہ ہی کے لئے ہے۔ جب تک انسان پورے طور پر خفیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے۔ سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں…… ترکِ نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جھکتا ہے۔تو روح اور دل بھی اس کی طرف جھکتا ہے…… اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیداہو کر اسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے……… پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ10-11)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی