• 16 مئی, 2024

سو سال قبل کا الفضل

16؍نومبر 1922ءپنج شنبہ (جمعرات)
مطابق25 ربیع الاول1341 ہجری

صفحہ اول پرمدینۃ المسیح کی خبروں میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی جانب سے حضرت مصلح موعودؓ کی بابت تحریر ہے کہ ’’رات کے دس بجے کے قریب خاکسار سے سر درد اور ککروں کی دوائی منگوائی۔ میں جب کمرے میں داخل ہوا تو حضور تیزی کے ساتھ تحریر کے کام میں مصروف تھے۔ اتفاقاً قلم کی سیاہی ختم ہو گئی اور مجھے جلدی دوائی لگانے کا موقع مل گیا۔ دوائی لگوانے کے بعد حضور نے مجھ سے پھر قلم میں سیاہی ڈلوائی۔ اس وقت گیارہ سے کچھ زیادہ وقت ہو چکا تھا۔پھر حضور لکھنے میں مشغول ہو گئے۔ادھر صحت کی یہ حالت اور ادھر اس قدر محنت۔ احباب دردِ دل سے دعاؤں میں مداومت اختیار کریں۔ خاکسار حشمت اللہ‘‘

صفحہ نمبر1اور2پر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کی مغربی افریقہ سے ارسال فرمودہ ایک رپورٹ زیرِ عنوان ’’مغربی افریقہ میں تبلیغِ احمدیت‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں آپ نے نائیجیریا کے شہر کیڈونا اور زاریہ میں اپنی تبلیغی مساعی کا ذکر فرمایا ہے۔

زاریہ میں تبلیغی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ تحریر فرماتے ہیں۔
’’17؍اگست یومِ جمعرات امیر زاریہ کا پیغام آیا کہ وہ 3 بجے مل سکیں گے۔اس غرض کے لئے امیر موصوف خود گھوڑے پر گئے اور موٹر مجھے بھیج دی۔ ڈھائی بجے عاجز مع سیکرٹری اور دو احمدی ’’زاریہ گاؤں‘‘ کو جوامیر کی قیام گاہ اور چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے، روانہ ہوا۔تمام شہر پرانی طرز کا گار سے بنا ہوا ہے۔محل شاہی بھی اسی ساخت کا ہے۔ دروازہ محل پر موٹر ٹھہری اور دربار ہال میں جو تاریک تھا۔وزیرِ اعظم، نے جوعربی بولتے تھے مجھے اس خود مختار حاکم سے روشناس کرایا۔امیر صاحب کوان کی رعایا شاذ ہی دیکھتی ہے۔کبھی عید پر نظر آجائیں یا جمعہ کے دن کوئی دیکھ لے۔آپ ایک بلند تخت پر تشریف فرما تھے اور میرے لیے اس کے برابر فرش پر کرسی بچھائی گئی تھی۔باقی تمام امراءو وزراء و علماء بے فرش فرشِ خاک پر بیٹھے تھے۔یہی شمال کا طریقِ ادب ہے۔ ہاں میں بھول گیا، دروازۂ محل پر پہنچتے ہی ’’زاکی‘‘ کا نعرہ بلند ہوا اور تمام لوگ جھک گئے۔یہ شاہی سلام ہے جو شمال میں امیروں اور حکامِ اعلیٰ برطانیہ کے لیے مخصوص ہے۔کرسی پر بیٹھتے ہی امیر کی مزاج پرسی کی اور اپنا تعارف کمال تفصیل سے کرایا۔اس کے بعد پانی پت کے چاولوں کا تحفہ اور خطبہ الہامیہ کے پیش کرنے اور اسلام کا لٹریچر دکھانے کا وقت تھا اور کمرہ بالکل تاریک۔اس لیے عرض کیاگیا کہ دوسری جگہ انتظام ہو۔چنانچہ جلوہ خانہ میں خاص انتظام ہوا اور وہاں تحفۂ شہزادہ ویلز سے فوٹو دکھائے گئے۔ٹیچنگ آف اسلام سے عربی انگریزی تحریر،البشریٰ وتحفۃ الملوک سے عربی اور انگریزی عبارتیں دکھا کر بتایا کہ ہم کس طرح دنیا میں کام کر رہے ہیں۔

اس کے بعد میں نے انگریزی میں بامدادِ ترجمان حضرت مسیحِ موعودؑ کے دعاوی پر تقریر کی۔محولہ بالا تحائف پیش کیے۔تقریر کے بعد امراء و علماء کی طرف سے سوالات ہوئے اور وزیر نے عربی میں سوالات کیے۔ جب اللہ تعالیٰ کی تائید سے جوابات عربی میں دیئے گئے اور آیات واحادیث کے حوالہ جات پیش کیے گئے تو الحمدللّٰہ کہ کُل دربار نے سر ہلائے اور خوشی کی علامات ہر ایک کے چہرہ سے ظاہر ہوئیں۔ میرا پتہ مانگا گیا اور امیر اب بدلے ہوئے مخلص امیر تھے جو پیدل چل کر مجھے موٹر تک چھوڑنے آئے۔ میں نے ان کے لیے دعا کی اور ان کو حضرت مسیحِ پاک کا پیغام ماننے کی تاکید کی۔ جس جرأت اور تائیدِ الٰہی سے ایک ایسے بادشاہ کے دربار میں جو ہندوستانی راجاؤں سے زیادہ اختیار رکھتا ہے، میں نے پیغامِ حق پہنچایا۔ اس پر میرے دوست حیران و بہت خوش تھے۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں بیج ضرور بالضرور بارآور ہو گا۔ ان شاء اللّٰہ تعالیٰ

امیرا لمعظم نے دوسرے دن اپنی خوشنودی مزاج کا اظہار ان تحائف سے کیا جو وہ گورنر کو پیش کیا کرتے ہیں۔یعنی قمح (گیہوں) جو امیر کے سوا اور کسی کو میسر نہیں آتا۔چاول اور بطخ مجھے بطور تحفہ بھیجیں۔جزاھم اللّٰہ احسن الجزاء‘‘

صفحہ نمبر3 تا 5پر اداریہ شائع ہوا ہے جودرج ذیل چار موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے:

1۔مخالفینِ مسیحِ موعودؑ کی ستم ظریفی۔حضرت مرزا صاحب کا مذہب 2۔قرآنِ کریم کا گورمکھی ترجمہ 3۔1340ہجری اور مسلمانوں کا مہدی 4۔عیسائیت میں تجرد کی مصیبت پہلے عنوان کے تحت اخبار الفضل نے حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی بعض تحریرات شائع کی ہیں جن کی رُو سے آپؑ کے دعاوی اور عقائد کا بخوبی علم ہوتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ فی زمانہ حضورؑ ہی وہ وجود ہیں جنہوں نے آنحضرتﷺ کی محبت و متابعت میں اسلام کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کا سامان کیا۔

دوسرے عنوان کے تحت اخبار الفضل نے یہ اطلاع دی کہ قرآنِ کریم کا گورمکھی زبان میں ترجمہ مکرم شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار ’’نور‘‘ کر رہے ہیں اور اس کے 28پاروں کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے۔

تیسرے عنوان کے تحت اخبار الفضل نےاخبار ’’زمیندار‘‘ کے سوقیانہ لہجہ میں کیے گئے ایک اعتراض کا جواب پیش کیا ہے۔ ’’زمیندار‘‘ اخبار نے لکھا تھا کہ گناچور ضلع جالندھر میں ایک شخص نے مہدی آخرالزمان کا دعویٰ کیا ہے۔یہ خبر دے کر اخبار ’’زمیندار‘‘ نے تحریر کیا کہ ’’اب قادیانی اور گنا چوری آپس میں نمٹ لیں کہ کس مہدی کا دعویٰ زبردست ہے اور ہمیں امید ہے کہ وہ عامۃ المسلمین کو اپنے جھگڑے سے بے نیاز رکھیں گے۔‘‘

اخبار الفضل نے اس کے جواب میں لکھا کہ ’’1340ہجری میں مہدی کے خروج یا بعثت کے منتظر تو آپ یا آپ کے عامۃ المسلمین علماء و صوفیاء تھے نہ کہ ہم۔ اس لیے گنا چوری مہدی کا دعویٰ عین انہی کی منشاء اور خواہش کے مطابق ہے کیونکہ بقول ’’زمیندار‘‘ ایک مہدی 1340ھ میں بھی آخر مبعوث ہو ہی گئے۔ اس لیے زمیندا ر اور اس کے عامۃ المسلمین کو چاہیے کہ فوراً قبول کر لیں ا ور مہدی گنا چوری کی دعوت پر لبیک کہہ کر اس کے علمبرداروں اور خدامِ بارگاہ میں شرفِ اولیت حاصل کریں۔ رہے ہم ’’قادیانی‘‘ ہمیں کسی نئے فیصلہ کی اب کیا ضرورت ہے جبکہ ہم اس وقت فیصلہ کر چکے ہیں جب خدا کا سچا مہدی مبعوث ہوا اور جس کی شہادت زمین آسمان دے چکا اور دے رہا ہے۔‘‘

چوتھے عنوان کے تحت اخبار الفضل نے گولڈکوسٹ (غانا) اور مغربی افریقہ کےبعض دیگر اخبارات میں شائع شدہ ایک اٹالین اخبار کی خبر کا ذکر کیا ہے جس میں کیتھولک فرقہ کے نائبین از پاپائے روم و دیگر راہبان نے پوپ سے استدعا کی ہے کہ گرجا کے کارکنوں سے تجرد کی پابندی کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ یہ مصیبت موت سے زیادہ سخت ہے۔ اخبار الفضل لکھتا ہے کہ اس خبر پر پروٹسٹنٹ بہت خوش ہیں جبکہ کیتھولک ناراض۔نیز لکھا کہ کیتھولک حلقوں میں خبر گرم ہے کہ پوپ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ اخبار الفضل نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس قسم کی تحریکات دنیا کے اسلام کی طرف میلان کا اظہار کر رہی ہیں۔‘‘

صفحہ نمبر6 تا 8 پر حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍نومبر 1922ء شائع ہوا ہے۔

صفحہ نمبر8 پر مکرم محمد یوسف خان صاحب کاایک خط محررہ 17؍ستمبر 1922ء شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی شکاگو (امریکہ) میں تبلیغی مساعی کا ذکر کیا ہے۔

صفحہ نمبر9 پر حضرت سید میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی جانب سے ایک فہرست زیرِ عنوان ’’جلسہ سالانہ1922ء کے متعلق امدادای فہرست شائع ہوئی ہے۔ یہ فہرست ایسے احباب کے اسماء کی مع اشیاء شائع ہوئی ہے جنہوں نے جلسہ سالانہ کے لئے کھانا پکوائی کے لیے عطیات بصورت اشیائے خوردنی یا اناج دیئے۔یہ فہرست اس لحاظ سے قابلِ مطالعہ ہے کہ اس فہرست میں عطیہ کردہ اشیاء کے سامنے اس کی قیمت بھی درج کی گئی ہے۔مذکورہ فہرست میں متعدد اشیاء ایک پیسہ یا اس سے بھی کم مالیت کی ہیں۔

خداتعالیٰ کے فضل اس کے احسان، خلافتِ احمدیہ کی برکات اور ان بزرگانِ سلف کی قربانیوں اور دعاؤں کے طفیل آج ایک سو سال گزرنے پر دنیا کے متعدد ممالک میں جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہورہے ہیں اور ان جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کا یہ الہام نئی شان سے پورا ہوتا نظر آتا ہے کہ ’’یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ‘‘

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221116.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی