’’اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں، ظَالِمٌ لِنَفْسِہٖ، مُقْتَصِدٌ۔ سَابِقٌ بِالْخَیْرَات۔
ظَالِمٌ لِنَفْسِہٖ تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امّارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں۔ مُقْتَصِدٌ وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں۔ ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پا جاتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں۔ پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی۔ مگر سَابِقٌ بِالْخَیْرَات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات طبعی طور پر اس قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعال حسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے۔ گویا ان کے نفس امارہ پر بالکل موت آ جاتی ہے۔ اور وہ مطمئنہ حالات میں ہوتے ہیں۔ ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے۔ اس لئے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ کسی کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں حَسَنَاتُ الْاَبْراَرِسَیِّئَات المُقَرَّبِیْن۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ107تا108۔ ایڈیشن1984)
’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے۔ اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے۔ ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بعض اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں‘‘۔
(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۴۲)