کس کی آنکھوں سے ٹپکا لہو رات بھر
شور برپا رہا چار سو رات بھر
چاندنی میں نہائے ہوئے لوگ تھے
شہر کا شہر تھا باوضو رات بھر
چاک دامن لیے سب یہیں آئے تھے
کوئی کرتا رہا تھا رفو رات بھر
کون محفل میں نورِ بصارت بنا
کس کے جلووں نے کی گفتگو رات بھر
نغمۂ درد تو مختصر تھا بہت
گنگناتا رہا خوش گلو رات بھر
کوئی مَن میں سمویا ہوا یار تھا
خود سے کرتے رہے گفتگو رات بھر
اپنے ہونٹوں پہ کچھ تشنگی رہ گئی
بات تو اس سے کی روبرو رات بھر
رات سب آئینوں میں ترا عکس تھا
دل کے پردے پہ تھا تو ہی تو رات بھر
(نجیب احمد فہیم)