• 18 جولائی, 2025

تا توانی جُہد کُن ز بہردیں باجان ومال

خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ جماعت مومنین کو اعلائے کلمۃ اللہ ، تمکنت دین اسلام اور خدمت بنی نوع انسان کے مختلف میدانوں میں جن نتیجہ خیز اور مثمر بثمرات حسنہ مساعی کی عظیم الشان توفیقات حاصل ہیں ان سے ایک عالَم حیرت زدہ ہے ۔ایک ایسی جماعت جس کی اکثریت غرباء پر مشتمل ہے، جس کے پا س نہ حکومت ہے اور نہ وہ بڑی بڑی جائیدادوں یا خزانوں کی مالک ہے وہ کس طرح دنیا بھرمیں تبلیغ و اشاعت اسلام کا علم بلند رکھے ہوئے ہے ۔ متعدد زبانوں میں قرآ ن مجید کے تراجم اور دیگراسلامی لٹریچر کی اشاعت ، 200 سے زائد ممالک میں احباب جماعت کی تعلیم وتربیت کے لئے مختلف پروگراموں کا انعقاد، تبلیغی مہمات ، مختلف ممالک میں طبی و تعلیمی اداروںکا قیام، مساجد اور مشن ہائوسز کی تعمیر، غریبوں، ناداروں، یتیموں کی کفالت کا انتظام اوردنیا بھر میں مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹرنیشنل کی روزانہ 24گھنٹے کی عالمی نشریات جبکہ اس ٹی وی پر کوئی اشتہار بازی نہیں ہوتی، یہ اور اسی قسم کی دوسری نیک مساعی پراٹھنے والے بھاری اخراجات کے تصور سے ہی انسان ورطہ ٔحیرت میں ڈوب جاتاہے۔

جماعت احمدیہ کے معاندین تو اپنی کذب و افتراء کی پرانی روش کے مطابق فوراً یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو انگریزپیسہ دیتے ہیں یا یہودی ان کے پشت پناہ ہیں یا امریکہ و دیگرمغربی طاقتیں ان کی مالی امداد کرتی ہیں ۔ لیکن سنجیدہ مزاج ، انصاف پسند لوگ جانتے ہیں کہ یہ الزام نہایت بیہودہ، نامعقول اورخلاف حقیقت ہیں۔ اس کے باوجود جب وہ ایک طرف جماعت کی غریبانہ حالت پر نظرڈالتے ہیں اور دوسری طرف اس کے عظیم الشان کاموں کو دیکھتے ہیں تو حیرت واستعجاب سے ایک مجسم سوال بن جاتے ہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ آج کے شدید مادیت پسند معاشرہ میں کوئی ایسی جماعت بھی ہو سکتی ہے جس کے افراد مردوزن ، چھوٹے اور بڑے نہایت باقاعدگی اور استقلال کے ساتھ ،اپنا پیٹ کاٹ کر ،اپنی ضروریات کومؤخر کرتے ہوئے، محض خداتعالیٰ کی محبت اور رضا کی خاطر، اس کے دین کودنیا پر مقدم کرتے ہوئے جان، مال، وقت اور عزت کی ایسی شاندار قربانیاں پیش کرنے والے ہوں۔ انہیں کیا معلوم کہ یہ جماعت خدا کی جماعت ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی فیض سے وجود میں آئی ہے۔ حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ کی تعلیم وتربیت اورقوت قدسی کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں دنیا کی محبت ٹھنڈی کردی گئی ہے اور وہ خدا اوراس کے دین کی اغراض کو دوسری ہر غرض اور ضرور ت پر مقدم کرنے والے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ نے ایک پاک نمونہ قائم فرمایا تھا کہ وہ ایک طرف آنحضرت ؐکے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے اوردوسری طرف اپنے سارے مال و متاع، عزت و آبرو اورجان ومال سے دستکش ہوجاتے تھے۔ گویاکسی چیز کے بھی مالک نہیں ۔ ان کی کل امیدیں دنیا سے منقطع ہو جاتی تھیں۔ ’’آخَرِیْنَ مِنْھُمْ‘‘ کی مصداق جماعت احمدیہ کے افرادبھی صحابہ ٔرسول ؐ کے اس پاک اسوہ پر کاربند ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی ادنیٰ مساعی کو محبت کی نظرسے دیکھتاہے اور اپنے ان وعدوں کے مطابق جو اس نے مومنین سے قرآن مجید میں کر رکھے ہیں ان کی قربانی کا سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر عطا فرماتاہے یہاں تک کہ پیش کی جانے والی قربانی کوان عظیم الشان نتائج سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی جو اللہ تعالیٰ ان کے حق میں ظاہر فرماتاہے۔

پس امر واقع یہ ہے کہ ہم تو صرف خدا کے حکم کے تحت اسی کے دیئے ہوئے اموال اور استعدادوں میں سے ایک معمولی حصہ ہی پیش کر پاتے ہیں مگر وہ ذوالفضل العظیم اور شکور خدا اس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے اور ان کے عظیم ثمرات عطا فرماتاہے۔جبکہ اس کے برعکس بہت سی مسلم اورغیرمسلم جماعتیں جو وسیع خزانوں پر اختیاررکھتی ہیں ایسی ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے عالمی مجموعی بجٹ سے کئی گنا زیادہ رقمیں خرچ کرتی ہیں اور باوجود تمام دنیوی مادی ذرائع اور وسائل مہیا ہونے کے ان کے کاموں کے وہ نتائج پیدا نہیں ہوتے جو اس سے کہیں کم خرچ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو حاصل ہوتے ہیں۔بلکہ اکثر ایسے لوگوں کی رقمیں برباد جاتی ہیں اوران کے لئے حسرت و یاس کاموجب ہوتی ہیں ۔قرآن مجید نے پہلے سے اس مضمون کو بیان کررکھاہے ۔چنانچہ فرمایا: ’’یقینا وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے روکیں۔ پس وہ اُن کو (اسی طرح) خرچ کرتے رہیں گے پھر وہ (مال) اُن پر حسرت بن جائیں گے پھر وہ مغلوب کر دیئے جائیں گے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جہنم کی طرف اکٹھے کرکے لے جائے جائیں گے۔ تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور خبیث کے ایک حصہ کو دوسرے پر ڈال دے پھر اس سارے کو (ڈھیر کی صورت میں) تہہ بہ تہہ اکٹھا کر دے پھر اسے جہنم میں جھونک دے۔ یہی لوگ ہیں جو گھاٹا کھانے والے ہیں۔‘‘

(الانفال: 37-38)

ہمارے لئے یہ امر دلی مسرت اور اطمینان کاموجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی قربانیاں اس کے ہاں مقبول ہیں ۔اس کی فعلی شہادت ہمارے حق میں ہے ۔ نہ صرف یہ کہ اس کی محبت اور رضاکی خاطر چند ہ دینے والے احمدیوں کے اموال ونفوس میں برکت پڑتی ہے بلکہ ان کے ایمان میںبھی ترقی ہوتی ہے اور وہ الٰہی نصرت وتائید کے تازہ بتازہ نشانوں سے تقویت پاتے ہوئے اس کی راہ میں قربانی کے لئے مزید قدم آگے بڑھاتے ہیں۔اب جبکہ۳۰جون کو رواں مالی سال کا اختتام ہو رہا ہے ہم احباب جماعت کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مبارک الفاظ میں یاددلاتے ہیں کہ :
’’اس وقت اس سلسلہ کو بہت سی امداد کی ضرورت ہے۔‘‘
’’یہ موقع ہاتھ آنے کا نہیں۔ کیسا یہ زمانہ برکت کاہے کہ کسی سے جانیںمانگی نہیںجاتیں اوریہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ فقط مالوں کے بقدر استطاعت خرچ کرنے کاہے۔‘‘

ہر احمدی ایک معین شرح کے مطابق مالی قربانی کا وعدہ کرتاہے ۔ اس وعدہ کو بروقت پوراکرکے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خیروبرکت کے وعدوں کا اہل بننے کی سعی کرنی چاہئے۔

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتاہے ۔اس کونباہنا چاہئے ۔ اس کے برخلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے۔ کوئی کسی ادنیٰ درجہ کے نواب کی خیانت کر کے اس کے سامنے نہیں ہو سکتا تو احکم الحاکمین کی خیانت کر کے کس طرح اسے اپنا چہرہ دکھلاسکتاہے۔ ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا۔ جمہوری امداد میں برکت ہواکرتی ہے ۔بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخرچندوں پر ہی چلتی ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگاکر وصول کرتے ہیں اوریہاں ہم رضا اور اردہ پر چھوڑتے ہیں۔چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ اوریہ محبت اوراخلاص کاکام ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم طبع جدید صفحہ 359-361)

دنیا میں عا م طورپر دستورہے کہ جب مصائب نازل ہوں ، کوئی آفت آجائے تو فطرۃً لوگ صدقات وخیرات کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔اسی طرح جب جنگوں کازمانہ ہو تو زندہ قومیں اپنی بقا کی خاطر سب کچھ قربان کرنے پرآمادہ ہو جاتی ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے زمانہ میں جہاں جماعت کودعا کی طرف توجہ دلائی وہاں فرمایا :
’’انفاق فی سبیل اللہ کے لئے وسیع حوصلہ ہوکر مال وزر سے ہرطرح سے امداد کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔ایسے ہی وقت ترقی درجات کے ہوتے ہیں ۔ ان کو ہاتھ سے گنوانا نہ چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم طبع ،جدید ،صفحہ 66-67)

یہ دور جس میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں یہ بھی بہت نازک دور ہے۔ قسما قسم کی آفات نازل ہو رہی ہیں ۔کئی قسم کی بلائیں منہ کھولے کھڑی ہیں ۔خصوصاً اسلام پر ہر طرف سے دشمن حملہ آور ہے۔ اندرونی دشمن بھی ہیں اور بیرونی دشمن بھی۔ اورایک عالمگیر روحانی جنگ جاری ہے۔ اس نازک وقت میں احیاء اسلام کاعلَم جماعت احمدیہ کے ہاتھوں میں دیا گیاہے۔ اس ذمہ دار ی کو کما حقہ اداکرنے کے لئے ‘‘وسیع حوصلہ ہو کر’’ اور‘‘مال و زر سے ہرطرح سے امداد’’کے لئے تیاررہیں کہ یہ وقت ترقی درجات کاہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔

؎ بہ جنبید از پئے کوشش کہ از درگاہ رباّنی
شما را نیز، واللہ، رتبہ و عزت شود پیدا
اگر دست عطا، در نصرت اسلام بکشائید
ہم از بہر شما ناگہ ید قدرت شود پیدا
زِ بذلِ مال در راہش کسے مفلس نمے گردد
خدا خود مے شود ناصر، اگر ہمت شود پیدا

یعنی: کوشش کے لئے حرکت میںآئو کہ خدا کی درگاہ سے مددگاران ِاسلام کے لئے ضرور نصرت ظاہر ہوگی۔ اگر آج دین کی عزت کا خیال تمہارے دل میں جوش مارے تو خداکی قسم خودتمہارے لئے بھی عزت ومرتبت پیدا ہوجائے ۔ اگراسلام کی تائیدمیں تم اپنا سخاوت کاہاتھ کھول دو توفوراً تمہارے اپنے لئے بھی خدائی قدرت کا ہاتھ نمودار ہوجائے۔ اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کوئی مفلس نہیں ہو جایا کرتا اگر ہمت پیدا ہوجائے تو خدا خود ہی مددگاربن جاتاہے۔ اے خداوندکریم سینکڑوں مہربانیاں اس شخص پر کر جو دین کامددگار ہے۔ اگر کبھی آفت آئے تو اس کی مصیبت کو ٹال دے۔

(مولانا نصیر احمد قمر۔ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ