• 14 مئی, 2025

ایڈیٹر کے نام خط

مکرم مولانا نور محمد نسیم سیفی کے مضمون پر تبصرہ

مکرم آصف بلوچ لندن سے لکھتے ہیں:
روزنامہ الفضل 26 نومبر 2021ء کی اشاعت میں محترم مجید احمد صاحب سیالکوٹی مبلغ سلسلہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ جو محترم مولانا نسیم سیفی صاحب کے بارہ میں تھا مضمون پڑھا۔بہت ہی لطف آیا بہت ایمان افروز واقعات پڑھنے کو ملے۔

محترم مولانا کا نام محتاج تعارف نہیں نامور مبلغ، صحافی اور شاعر احمدیت کے طور پر انہیں جانا پہچانا جاتا ہے۔آپ کو اسیرراہ مولی ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

محترم مضمون نگار نے بہت سارے واقعات لکھے ہیں۔اس مضمون میں انہوں نے سیرا لیون کے وزیر مملکت اور سیرالیون مسلم کانگریس کے سربراہ آنریبل الحاج مصطفی سنوسی صاحب کو جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کے حوالے سے دعوت نامہ کا ذکر کیا ہے۔جو محترم مولانا نسیم سیفی صاحب اور محترم مجید صاحب نے ہیڈ آف دی اسٹیٹ کے دفتر میں جاکر دیا۔جب میں نے مضمون میں ، مصطفی سنوسی صاحب کا نام پڑھا تو اپنے ذہن پر زور دیا کہ اس سے قبل یہ نام میں نے کہاں پڑھا اور سنا ہے محترم مجید صاحب کے اس مضمون نے وہ سارا واقعہ جب میں نے اپنے ذہن پر زور ڈالا تو یاد کروادیا۔خاکسار اپنے اس نوٹ میں دو واقعات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرنا چاہتا ہے۔

تاکہ الفضل کے صفحات پر بھی ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں ۔

دسمبر 1980ء کے جلسہ سالانہ میں وزیر موصوف نے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی دعوت پر جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔27 دسمبر 1980ء کے دوسرے سیشن میں جناب مصطفی سنوسی نے احباب جماعت سے خطاب بھی کیا۔

(بحوالہ الفضل 3 جنوری 1981ء)

اس موقع پر محترم عبدالمنان صاحب ناہید کی نظم محترم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب نے پڑھی۔

جس کا پہلا شعر تھا ۔

؎فلک سے آئی صدا لا الہ الا اللّٰہ
حریم دل نے سنا، لا الہ الا اللّٰہ

وزیر موصوف بھی یہ نظم سن رہے تھے ۔موصوف نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی سے اس اردو نظم کو عربی منظوم کلام میں ڈھالنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔جنوری 1981ء کے پہلے ہفتہ میں میرے چچا مکرم مبارک احمد ظفر صاحب مرحوم کی حضور سے ملاقات تھی۔ بوقت ملاقات حضور نے ارشاد فرمایا کے اپنے ابا سے کہیں کہ عبدالمنان صاحب ناہید کی اردو نظم جو جلسہ سالانہ پر پڑھی گئی ہے۔ اس کا عربی منظوم تیار کریں۔ لہذا دادا جان حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر نے ناسازی طبع کے باوجود ارشاد کی تعمیل شروع کر دی۔جنوری 1981ء میں ہی چچا جان کی طرف سے لکھے گئے دعائیہ خط پر اپنے دست مبارک سے حضور نے یہ نوٹ تحریر فرمایا
’’دعا۔ اور میری نظم عربی ترجمہ‘‘

اور یہ خط واپس بھجوا دیا حضور کا یہ خط میرے پاس اب بھی محفوظ ہے۔جب مذکورہ عربی نظم مکمل ہو گئی۔جس میں محترم داداجان نے مزید اشعار بھی شامل کئے اور حضور کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور نے بڑی خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔عربی منظوم نے مفہوم کو مزید اُجاگر کیا ہے۔مذکورہ عربی نظم کے بارہ میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے بھی اپنے ایک خط میں پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔

واضح رہے کہ یہ اردو نظم ’’فلک سے آئی صدا لا الہ الا اللّٰہ‘‘ مکرم عبدالمنان صاحب ناہید نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے جب 1980ء میں مسجد بشارت سپین کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس کی مناسبت سے لکھی تھی ۔جو جلسہ سالانہ نمبر 24 دسمبر 1980ء کے الفضل میں بھی شائع ہوئی۔ اس نظم کا عربی منظوم ’’صوت السماء‘‘ محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر نے تیار کیا۔

یہ عربی قصیدہ ماہنامہ ’’التقوی‘‘ مئی1991ء میں صفحہ 29 پر بھی چھپ چکا ہے۔ جس پر محترم ایڈیٹر صاحب التقوی کا تفصیلی نوٹ بھی ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’اس قصیدے کو محترم استاد مولوی ظفر محمد صاحب ظفر نے فصیح عربی زبان میں منظوم فرمایا یہ بے مثال اور منفرد اشعار ان کی تخلیق ہیں………………..کیا ہی اچھا ہو اگر کوئی خوش لحن جادوئی آواز رکھنے والے وہ ہمیں اس عربی قصیدہ کو کیسٹ میں ریکارڈ کر کے ازراہ کرم بھجوا دیں۔‘‘

خاکسار نے 2013ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس عربی قصیدہ کو ایم ٹی اے کے لئے ریکارڈ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تو پیارے حضور کی طرف سے مجھے ارشاد موصول ہوا کہ:
’’ایم ٹی اے کو بتا دیں کہ اگر کوئی اچھی آواز میں ریکارڈ کرنے والا ہے تو ریکارڈ کروا دیں۔‘‘

حضور کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے ایم ٹے اے ربوہ نے ایم ٹی اے لندن کو یہ عربی قصیدہ 2014ء میں ریکارڈ کر کے بھجوا دیا۔

دوسرا واقعہ۔ اسیران الفضل کی خدمت کے حوالے سے ہے۔ فروری 1994ء میں روزنامہ الفضل اور ماہنامہ انصاراللہ پر ایک مقدمہ بنا۔اس مقدمہ میں محترم مولانا نور محمد نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل، محترم آغا سیف اللہ صاحب منیجر وپبلشر الفضل، محترم قاضی منیر احمد صاحب پرنڑ الفضل، محترم مرزا محمد الدین ناز صاحب ایڈیٹر ماہنامہ انصاراللہ اور محترم چوہدری محمد ابراہیم صاحب پبلشر انصاراللہ تقریبا ایک ماہ تک اسیران راہ مولی رہے۔ان بزرگوں کی گرفتاری کے بعد ان کو چند روز ربوہ تھانہ کی حوالات میں رکھا گیا تھا۔خاکسار کے والد محترم ناصر احمد ظفر صاحب ان دنوں سیکرڑی امور عامہ لوکل انجمن احمدیہ کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ہماری رہائش چونکہ پولیس اسٹیشن کے بالکل قریب تھی۔جب بھی جماعت کے معزز بزرگان پر یا دیگر احباب جماعت پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنا کر ان کو تھانہ ربوہ لایا جاتا تو والد صاحب کو مقدمات کی پیروی کے ساتھ ساتھ ان اسیران کی مہمان نوازی کی بھی سعادت ملتی رہتی تھی۔ اور اس خدمت کے لیے وہ مجھے بھی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔ الحمداللّٰہ

ضمنا ًیہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ قبل از خلافت حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز اور دیگر اسیران جب ایک مقدمہ میں پولیس حراست میں تھے۔اس وقت بھی والد محترم سبھی اسیران راہ مولیٰ کو غسل وغیرہ کی غرض سے گھر لے آئے اور ضرورت کی چیزیں بھی پولیس اسٹیشن بھجواتے رہے۔

1994ء کی سردیوں کے ایام تھے۔والد محترم رات کو ہی صبح کی چائے اور ناشتے کا سامان بیکری سے لے آتے۔اور صبح نماز فجر سے قبل بیدار ہو جاتے۔ اور مجھے بھی اپنی مدد کے لئے جگا دیتے اور خود ہی کچن میں جاکر چائے تیار کرتے دوسری طرف انڈے بوائل کرتے اور مختلف قسم کی چیزیں جو بیکری سے لا کر رکھی ہوتی تھیں۔بڑی محبت کے ساتھ ٹرے میں سجا کر مجھے دیتے اور کہتے کہ بزرگان کو حوالات میں چائے دے کر آو۔اور ہمیشہ دو ٹرے تیار کرتے ایک بزرگان کےلئے اور دوسری پولیس اسٹیشن میں موجود پولیس ملازمین کے لئے۔جب میں شدید سردی میں پولیس اسٹیشن پہنچتا تو ابھی اندھیرا ہی ہوتا تھا ۔اور پھر خدمت کا یہ سلسلہ سارا دن جاری رہتا۔محبت کا عجیب نطارہ میں نے دیکھا ایک طرف میزبان اپنی میزبانی کو اعزاز سمجھ رہے تھے۔اور دوسری طرف یہ تمام بزرگان اپنے متبسم چہروں کے ساتھ اپنی اسیری کو انعام سمجھ رہے تھے۔عمررسیدہ ہونے کے باوجود ان بزرگان کے چہروں پر کوئی پریشانی نہ تھی۔ان بزرگوں میں سب سے زیادہ معمر محترم مولانا نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل تھے۔حوالات میں بھی اپنے روایتی لباس یعنی اچکن اور پگڑی میں ملبوس ہوتے۔بڑھاپے اور ضعف جسمانی کے باوجود ان کو خاکسار نے ہمیشہ ہشاش بشاش پایا۔۔

ایک دن صبح کی چائے کے بعد جب میں ناشتہ لیکر حوالات گیا تو دیکھا کہ تھوڑی دیر کے بعد والد محترم بھی پو لیس اسٹیشن آگئے ہیں۔ اور ان کے ہاتھ میں محترم داداجان کا کلام ہے۔اس کلام میں سے ایک نظم «حوالات کی رات «جو ان بزرگ اسیران کے جذبات کی عکاس تھی۔ پڑھنے کے لئے محترم مولانا نسیم سیفی صاحب کو دی۔ محترم مولانا نے محترم مرزا محمد الدین ناز صاحب سے کہا کہ آپ یہ نظم پڑھ کر سنائیں۔محترم ناز صاحب نے یہ مکمل نظم تمام اسیران کی موجودگی میں حوالات میں کھڑے ہو کر بہت خوبصورت انداز میں پڑھی۔ میں نے اور والد محترم نے باہر کھڑے ہو کر سنی۔ میں اپنی اس تحریر کو نظم کے کچھ اشعار پر اور اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔ کہ اللہ تعالی سب بزرگان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کی جزا ان کی نسلوں کو بھی عطا فرمائے۔ آمین یا الرحم الراحمین۔

؎میرے ہمدم یہ مری تلخی اوقات کی رات
بن گئ میرے لئے عین عنایات کی رات
اپنے مولائے حقیقی سے مناجات کی رات
اور پھر اس کی کریمانہ بشارات کی رات
محتسب پاتا اگر آج یہ برکات کی رات
ضبط کر لیتا ظفر تیری حوالات کی رات

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ