• 8 مئی, 2024

درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے

پودا،درخت اور شاخ کے الفاظ مذہبی دنیا میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم کی سورۃ ابراہیم میں شجرہ طیبہ اور شجرہ خبیثہ کی مثال اچھے، پاک کلمہ اور بُرے ، ناپاک اور پلید کلمہ سے دی ہے۔

درخت اور شاخ کےحوالہ سے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ کر آرٹیکل لکھے جا سکتے ہیں تاہم آج قرآن کریم کی اسی آیت کا سہارا لے کر کلمہ طیبہ اور شجرہ طیبہ کے حوالے سےاس اداریہ میں ذکر ہو گا۔

مفسرین اورعلمائے کرام نے کلمہ طیبہ سے مراد سب سے پہلے قرآن کریم کو لیا ہے۔ جس کی مثال ایسے شجرہ طیبہ سے دی گئی ہے۔ جس کی تین خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔

جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے۔
’’پاک کلمات پاک درختوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ جن کی جڑھ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں اور ہمیشہ اور ہر وقت ترو تازہ پھل دیتے ہیں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد2 صفحہ 753)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی حقیقت بیان کی ہے یعنی اس کلام الٰہی کی جو تازہ اور پاکیزہ ہو اور انسانی دستبرد سے پاک ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 465)

اور آج 1400 سال گزرنے کے بعد بھی اس عظیم مبارک کتاب کی زیر زبر محفوظ ہے اور کلیتہً غیر مبدل ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوطی سے پیوست ہے اور شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ہر روز، ہر گھڑی اور ہر لمحہ ہم اس عظیم الشان کتاب سے معارف و محاسن کے نت نئے نکتے حاصل کرتے رہتے ہیں جو ہماری روحانی زندگی کی علامت ہیں۔

2۔دوسرے نمبر پر مفسرین کلمہ طیبہ سے مراد ’’دین اسلام‘‘ کو لیتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’کیا تونے نہیں دیکھا کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ،درخت پاکیزہ کی مانند ہے۔ جس کی جڑ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہو اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تا لوگ ان کو یاد کرلیں اور نصیحت پکڑ لیں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 2 صفحہ 754)

اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک ایسا پاکیزہ مذہب ہے جس کی تعلیمات انصاف، عدل اور تقویٰ پر مبنی ہیں نہ افراط ہے نہ تفریط ۔ امن پسند ہے اور امن پسندی کو پسند کرتا ہے۔ اس فیج اعوج کے دور میں جب بعض نام نہاد علماء اور صوفیاء کی طرف سے اسلام میں بعض رسومات اور خرافات کی ملونی ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں کے مطابق آخری زمانے کے امام حضرت مرزا غلام احمدؑ کو پید اکیا۔جس نے مذہب اسلام پر پڑی گرد کو پاک صاف کیا اور آپ کی وفات کے بعد خلفاء احمدیت، اسلام کا حسین و پاک چہرہ صاف کر کے دنیا ئے اسلام کے سامنے پیش کرتے رہے اور اب بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی عظیم اور با برکت رہنمائی میں اسلام کو رسومات اوردوسری غیر اسلامی تعلیمات سے دُور اور پاک رکھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتاہے اور ایسی حسین تعلیم کے پیش نظر جبکہ اسلامی فوبیا عروج پر ہے۔

کیا عیسائی، کیا یہودی اور غیر مذہب والے دہریہ لوگ بھی اسلام کی ان تعلیمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو آنحضورﷺ پر نازل ہوئیں اور آج دربار خلافت سے صاف دُھل کر چمک کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش ہو رہی ہیں۔جس کی اصل یعنی جڑ مضبوط، شاخیں آسمان سے باتیں کر تی اور روزانہ نئے نئے پھل عطا کرتا رہتا ہے۔ تو گویا یہ ببانگ دہل کہا جا سکتا ہے کہ آج اسلام احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے روپ میں دنیا بھر میں ایک بارپھر جلوہ گر ہے اورسالار اسلام واحمدیت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی سر کردگی میں اپنا حقیقی اور اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔

3۔ کلمہ طیبہ سے ایک مراد وہ مومن بھی لئے جاتے ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر کامل ایمان لائے اور آج دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے احمدیت کے جال کے ذریعے کلمہ حق پڑھ کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور صحابہؓ کا روپ دھارتے ہیں۔ ان کی زبانیں پاک اور ان کے اعمال ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آتے اور درجہ مقبولیت پاتے ہیں۔یہ لوگ آج اس قرآنی آیت وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا کے حقیقی مصداق نظر آتے ہیں۔

یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اے میرے درخت وجود کی سر سبز شاخو!کے لقب سے پکاراہے۔ یہاں یہ امر ذہن میں رہے کہ یہاں آپؑ نے ٹہنی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ شاخ کا لفظ استعمال فرمایا جو زندہ رہتی ہے اور اصل یعنی جڑسے خوراک لیتی اور پھل دیتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ۔تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا۔

حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی تفسیر کے تحت ’’فوٹ نوٹ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کا جو شجرہ طیبہ ہے اس میں ہمیشہ خدا رسیدہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے۔‘‘

اللہ ہم سے ہر ایک کو اس آیت کا مصداق بن کر اخلاق حسنہ اپناتے ہوئے اور اخلاق رذیلہ کو خیر آباد کہتے ہوئے اس نئے سال میں اپنے آپ کو پاک و مصفّٰی بنا کر دنیا میں پیش کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل آن لائن آپ کا اپنا اخبار ہے