• 4 مئی, 2024

خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور محبت کی خاطر بیمار کی عیادت کرنی چاہئے

عیادت کے آداب

آنحضرت ﷺ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم تھے۔ آپ ؐ مخلوق خدا کی ہمدردی و شفقت میں مہرباں ماں سے بھی بڑھ کر شفیق تھے۔ آپؐ نے مومنوں کو بیماروں کی عیادت کرنے کی خاص تاکید فرمائی اور اس کے آداب بھی سکھائے۔ عیادت ایک مذہبی فریضہ ہے اور مذہبی حیثیت سے کھل کراس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے۔ ذیل میں سنت نبویؐ اور احادیث مبارکہ کے تحت عیادت کے آداب پیش ہیں۔

بیماروں کی عیادت کرنے میں دوست، دشمن کسی کی تخصیص نہیں کرنی چاہئے۔ حدیث میں آتا ہے۔ اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ کہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی آل اولاد ہے۔ پس خواہ انسان کا تعلق کسی بھی عقیدے کے ساتھ ہو ان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی رکھنا مومن کا فرض ہے۔ حضور اکرم ﷺ بلاتخصیص مذہب و ملت بیماروں کی عیادت کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور محبت کی خاطر بیمار کی عیادت کرنی چاہئے کیونکہ جب خدا تعالیٰ کے لئے کسی کی عیادت کی جائے تو خدا تعالیٰ اپنے اس بندے پر بہت خوش ہوتا اور اس کی جزاء خود بن جاتا۔

ایک مومن کا حق ہے کہ وہ عیادت کرے۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اس کا حکم دیا کہ وہ بیمار کی عیادت کریں۔ (صحیح بخاری) عیادت صرف ایک بار ہی نہ کی جائے بلکہ جہاں تک ہوسکے بیمار کی تیمار داری اور مزاج پرسی کے لئے دوبارہ بھی جایا جائے۔ صبح اور شام کے اوقات میں عیادت کرنے کا بہت زیادہ ثواب ہے۔

مریض کی عیادت کے لئے جب جایا جائے تو اس کے پاس بیٹھ کر اسے تسلی دی جائے۔ اور محبت کے ساتھ اس سے گفتگو کی جائے اور اچھی باتوں کے ساتھ اس کا دل بہلایا جائے۔ کیونکہ بیماری میں انسان بہت حساس ہو جاتا ہے۔ اس کے جذبات بہت نازک ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اپنے ہمدرد، دوست کی تسلی و تشفی کے چند الفاظ بھی اس کی مرض اور تکلیف کی شدت کو کم کرنے کا موجب بن جاتے ہیں۔

مریض کو یوں تسلی دی جائے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری پیدا نہیں کی جس کی دوا نہ ہو۔

(صحیح بخاری شریف جلد سوم مترجم اردوص268)

مریض کی جب عیادت کی جائے تو اس کے ہاتھ اور اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس کو تسلی دی جائے۔نبی کریم ﷺ اپنے بعض اہل کی عیادت کرتے تو اپنا دایاں ہاتھ لگاتے۔ (بخاری) مریض کی عیادت کے لئے جب جایا جائے تو اس کی صحت یابی کے لئے دعا بھی مانگی جائے۔ آنحضرت ﷺ اپنے بعض اہل کی عیادت کرتے، اپنا دایاں ہاتھ لگاتے اور کہتے۔ اللَّهُمَّ أَذْهِبْ البَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ فَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا اے اللہ لوگوں کے رب! تکلیف دور کر اور تندرستی عطا کر، تو ہی شفا دینے والا ہے۔ کوئی شفا نہیں مگر تیری شفا۔ ایسی شفا جو بیماری نہ چھوڑے۔

(بخاری و مسلم)

مریض کی جب عیادت کی جائے تو اس کی توجہ دعا کی طرف بھی پھرائی جائے کہ آنحضرت ﷺ بیمار کی عیادت کا بہت اچھی طرح خیال رکھتے تھے اور دعا کی طرف اسے متوجہ بھی فرماتے تھے۔مریض کو چاہئے کہ وہ بے صبری کے کلمات نہ کہے اور نہ ہی موت کی تمنا کرے۔ اور زندگی سے مایوس نہ ہو۔ مریض کی شفایابی کے لئے جہاں اس کی عیادت کے وقت دعا کی جانی چاہئے وہاں اس مریض کے لئے غائبانہ دعائیں بھی مانگنی چاہئیں کیونکہ خلوص دل سے مانگی جانے والی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا شرف حاصل کر لیتی ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی دعا اتنی سرعت سے قبول نہیں ہوتی جتنی کہ غائبانہ دعا۔ (ترمذی) عیادت کے وقت اپنے بیمار بھائی کو دم کرنا بھی جائز ہے لیکن دم اور درود کو پیشہ اور کمائی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے۔

بے ہوش آدمی کی بھی تیماداری واجب ہے۔مریض کے پاس اس کی طبیعت یا بیماری کے مطابق تحفہ پھَل یا کھانا لے کر جانا بھی محبت و مودّت کے تعلق میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے۔ تم آپس میں تحفہ دیا کرو ۔ باہم محبت بڑھے گی۔ مریض کے پاس جاکر زیادہ باتیں اور شور نہیں کرنا چاہئے اور اگر مریض کہے کہ پاس سے اٹھ کر آپ چلے جائیں تو بغیر بُرا منائے اُٹھ کر چلے جانا چاہئے۔

پس معاشرہ میں محبت کی فضا کو قائم رکھنے اور یک جہتی پیدا کرنے کے لئے بیمار کی تیمارداری کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس فریضہ کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہ برتیں۔ بلکہ اپنے بھائی بندوں کی تکلیف کی گھڑیوں میں ان کے دکھ بانٹیں۔ اور ان کے لئے ہمیشہ دعا گوہوں تا خدا کے قرب کا شرف حاصل کر سکیں۔ آمین

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل آن لائن آپ کا اپنا اخبار ہے