• 27 اپریل, 2024

عہدیداران کا احباب جماعت سے رویہ

’’اب میں ذرا وضاحت سے عہدیداران کا احباب جماعت سے کس قسم کا رویہ یا سلوک ہونا چاہئے اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا۔ اور پھر احباب جماعت، افراد جماعت عہدیداروں سے کیسا رویہ رکھیں۔ عہدیداروں کو تو ایک اصولی ہدایت قرآن نے دے دی ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے ہیں۔ اگر کوئی غور کرے اور سوچے کہ انصاف کے کیا کیا تقاضے ہیں تو اس کے بعد کچھ بات رہ نہیں جاتی۔ لیکن ہر کوئی اس طرح گہری نظر سے سوچتا نہیں۔ اس طرح سوچا جائے جس طرح ایک تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والا سوچتا ہے تو پھر تو اس کی یہ سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ لیکن نصیحت کیونکہ فائدہ دیتی ہے جیسا کہ میں نے کہا باتوں سے اور جگالی کرتے رہنے سے یا ددہانی ہوتی رہتی ہے۔ بعض باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ مزید ذرا وضاحت کھول کر کر دی جائے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران:135) یعنی غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں۔ تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہدیداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے جو ان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہئے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنائیں۔ اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آ جائے تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو، جس کا سمجھانا مقصود ہواس کو سمجھا دینا چاہئے۔ تمام لوگوں کے سامنے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہئے اور ہر وقت چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ یا کسی بھی قسم کے تکبر کامظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ اصلاح کبھی چڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستقل مزاجی سے درد رکھتے ہوئے اور دعا کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانے سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ اور ایک آدھ دفعہ کی جو غلطی ہے، اگر کوئی عادی نہیں ہے تو اصلاح کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ عفو سے کام لیا جائے۔ معاف کر دیا جائے، درگزر کر دیا جائے۔

(خطبہ جمعہ 31؍ دسمبر 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2021