• 14 جولائی, 2025

سورہ الحدید، المجادلہ، الحشر اور الممتحنہ کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورہ الحدید، المجادلہ، الحشر اور الممتحنہ کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الحدید

یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی تیس آیات ہیں۔

اس کا آغاز اس اعلان کے ساتھ ہوتا ہے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب اللہ ہی کی تسبیح کر رہے ہیں اور اوّل بھی وہی ہے اور آخر بھی وہی اور ظاہر بھی وہی اور باطن بھی وہی۔ یعنی اس کے جلوے ظاہر و باہر ہیں مگر جو آنکھ ان کو نہ دیکھ سکے اس کے لئے وہ ہمیشہ باطن ہی رہیں گے۔

اس سورت میں ایک آیت میں حیات ِ دنیا کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ تو محض کھیل کود اور لہو لعب ہے۔ یہ کوئی باقی رہنے والی چیز نہیں۔ جب انسان اپنی موت کے قریب پہنچے گا تو لازماً تسلیم کرے گا کہ وہ تو چند دن کے عیش تھے۔

پھر اسی سورت میں یہ عظیم الشان آیت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے یہ بات روشن فرما دی تھی کہ جنت اور جہنم کا ظاہری تصور درست نہیں۔ چنانچہ آیت کریمہ نمبر 22میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی اس جنت کی طرف پیش قدمی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو جس جنت کی وسعت زمین و آسمان پر محیط ہے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو ایک صحابی ؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر جنت ساری کائنات پر پھیلی ہوئی ہے تو جہنم کہاں ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: وہ بھی وہیں ہو گی۔ یعنی اسی کائنات کی وسعتوں میں موجود ہو گی جس میں جنت ہے لیکن تمہیں اس بات کا شعور نہیں ہے کہ یہ کیسے ہو گا۔ ایک ہی جگہ جنت اور جہنم بس رہے ہیں اور ایک کا دوسرے سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ اس سے واضح طور ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زمانہ میں ایک Relativity کا تصور عطا فرمایا گیا تھا یعنی ایک ہی جگہ میں ہوتے ہوئے Dimension بدل جانے سے دو چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق قائم نہیں رہتا۔

سورۃ الحدید کی مرکزی آیت وہ ہے جس میں اعلان فرمایا گیا کہ ہم نے لوہے کو نازل فرمایا۔ لفظ نزول کا جو ترجمہ عامۃ الناس کرتے ہیں اس کی رو سے لوہا گویا آسمان سے برسا ہے حالانکہ وہ زمین کی گہرائیوں سے کھود کر نکالا جاتا ہے۔ اس آیتِ کریمہ سے لفظِ نزول کی اصل حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ چیز جو اپنی جنس میں سب سے زیادہ فائدہ مند ہے اس کے لئے قرآن کریم میں لفظ ِ نزول استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اسی پہلو سے مویشیوں کے متعلق بھی نزول کا لفظ آیا ہے۔ لباس کے متعلق بھی نزول کا لفظ آیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا

قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًارَّسُوۡلًا (الطلاق:11-12) کہ یقیناً اللہ نے تمہاری طرف مجسم ذکرِ الہٰی رسول نازل کیا ہے۔ اور تمام علماء متفق ہیں کہ ظاہری بدن کے ساتھ آپؐ آسمان سے نہیں اترے۔ پس سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ تمام رسولوں سے بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ فیضان پہنچانے والا رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ پھر اسی سورت میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کے متعلق یہ ذکر ہے کہ ان کا نور اُن کے آگے بھی چلتا تھا اور اُن کے دائیں بھی گویا وہ اپنے نور سے اپنی راہ دیکھ رہے ہوتے تھے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ993-994)

سورۃ المجادلہ

یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی تٔیس آیات ہیں۔

سورۃ المجادلہ میں مرکزی مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ عربوں کا یہ رواج بے معنی ہے کہ ناراضگی میں بیویوں کو ماں کہہ کر اپنے اوپر حرام کر لیاکرتے تھے۔ ماں تو وہی ہوتی ہے جس نے جنم دیا ہو۔ پھر فرمایا کہ ان لغو باتوں کا کفارہ ادا کرو اور ان لغویات سے پرہیز کرتے ہوئے اپنی بیویوں کی طرف رجوع کرو۔

سورۃ الحدید میں حدید کا ذکر ہے اور کاٹنے اور چیرنے پھاڑنے کے لئے حدید ہی کو استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ اس کا جسمانی استعمال ہے لیکن سورۃ المجادلہ میں جو بار بار یُحَآ دُّ وْ نَ اور حَآ دَّ بیان فرمایا گیا ہے اس سے مراد روحانی طور پر ایک دوسرے کو پھاڑنا ہے اور مسلسل یہ ذکر ہے کہ جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی زخم پہنچاتے ہیں اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس غرض سے چھپ کر مشورے کرتے ہیں، وہ تمام اپنے آپ کو ہلاک کرنے والی باتیں کرتے ہیں۔ فرمایا: جو بھی اللہ اور اس کے رسول کو اپنے طعنوں سے چِرکے لگاتے ہیں وہ نامراد ہوں گے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ضرور غالب آئیں گے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 1002)

سورۃ الحشر

یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی پچیس آیات ہیں۔

اس سورت کے آغاز میں بھی ایک حشر کا ذکر ہے اور اس کے آخر پر بھی ایک عظیم حشر کا ذکر ہے۔ پہلا حشر وہ ہے جسے اوّل الحشر قرار دیا گیا اور اس میں یہود کو جو سزائیں دی گئیں اُن سے گویا اُن کے لئے پہلا حشر قائم ہوگیا اور ہر ایک کو اس کے گناہوں کے مناسب حال سزا دی گئی۔ بعض کے لئے جلا وطنی مقدر ہوئی۔ بعض کے لئے خود اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنے کی سزا مقدر ہوئی اور بعضوں کے لئے قتل مقدر کیا گیا۔ پس یہ پہلا حشر ہے جس میں سزاؤں کا تذکرہ ہے۔ اور اس سورت کےآخر پر جس حشر کا ذکر ہے اس میں یہ بیان فرمایا کہ سزائیں اُن کو ملتی ہیں جو اللہ کی یاد بھلا دیتے ہیں اور پھر اپنے نفس کے سیاہ و سفید کو بھی بھول جاتے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ وہ بھی ہیں جو ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے ہیں اور نظر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کیسے اعمال آگے بھیج رہے ہیں ان کو عظیم الشان جزا عطا فرمائی جائے گی۔

تسبیح کا جو مضمون پہلی سورتوں اور اس سورت کے آغاز میں گزرا ہے، اب اس سورت کے آخر پر اسی مضمون کا معراج ہے اور وہ آیات جو ’’ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لآَ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘ سے شروع ہوتی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے بعض عظیم المرتبت اَسماءِ حُسنٰی بیان فرمائے گئے ہیں اور لَہُ الْاَ سْمَاءُ الْحُسْنٰی کہہ کر یہ بیان فرمایا دیا گیا کہ صرف انہی مذکورہ اَسماء پر اکتفا نہیں بلکہ تمام اسماءِ حسنیٰ اُسی کے ہیں۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ1009)

سورۃالممتحنہ

یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی چودہ آیات ہیں۔

اس سے پہلی سورت میں یہود کے حشر کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس سورت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ جو اللہ اور سولؐ کی دشمنی کرتے ہیں ان کو ہر گز دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ اگر بظاہر دوست بھی بنتے ہوں تو ان کے سینہ میں بغض بھرا ہوا ہے اور وہ ہر وقت تمہیں ہلاک کرنے کے منصوبے باندھتے رہتے ہیں۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اُسوہ کا ذکر ہے کہ ان کی تمام تر دوستیاں اللہ ہی کی خاطر تھیں اور تمام دشمنیاں بھی اللہ ہی کی خاطر تھیں۔ اس لئے تمہارے قریبی اعزّہ، ماں باپ اور بچے تمہارے کسی کام نہیں آسکیں گے۔ تمہیں بہر حال اپنے تعلقات اللہ ہی کی خاطر استوار کرنے ہوں گے اور اللہ ہی کی خاطر قطع کرنے ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی مومنوں کو یہ تاکید فرما دی کہ تمہارے جو دشمن ایذا رسانی میں پہل نہیں کرتے، تمہیں ہر گز حق نہیں پہنچتا کہ ان کی ایذا رسانی میں تم پہل کرو۔ اعلیٰ درجہ کے انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک وہ تم سے دوستی نبھاتے رہیں تم بھی ان سے دوستی نبھاؤ۔

چونکہ یہ سورت اس دَور کا ذکر کر رہی ہے جبکہ مسلمانوں کو یہود کے علاوہ دیگر مشرکین سے بھی اپنے دفاع میں قِتال کی اجازت دیدی گئی تھی اس لئے قتِال کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بہت سے مسائل کا ذکر بھی فرما دیا گیا کہ اس صورت میں صحیح طریقہ کار کیا ہو گا۔ مثلاً کفار کی بعض بیویاں اگر ایمان لا کر ہجرت کر جائیں تو ان کے ایمان کا پوری طرح امتحان لے لیا کرو اور اگر وہ واقعتًہ اپنی مرضی سے ایمان لائی ہیں تو پھر پہلا فرض یہ ہے کہ ان کو ہر گز کفار کی طرف واپس نہ کرو کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے حلال نہیں رہے۔ البتہ ان کے ولیوں کو وہ خرچ ادا کرو جو وہ ان پر کر چکے ہیں۔

اس کے بعد آخر پر اس عہد بیعت کا ذکر فرمایا ہے جو اُن تمام مومن عورتوں سے بھی لینا چاہئے جو کفار سے بھاگ کر ہجرت کر کے آئی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر تمام مومن عورتوں سے بھی جب وہ بیعت کرنا چاہیں۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ1017)

(عائشہ چودہری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ