• 14 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر35)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر35

ضمیر موصولہ

گزشتہ سبق سے ہم ضمیر موصولہ پر بات کررہے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ضمیر موصولہ ایک ضمیر ہوتی ہے اور یہ فقرات کو آپس میں جوڑتی بھی ہے۔ یا یہ کہ سکتے ہیں کے جب فقرے کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت میں آتا ہے تو ضمیر موصولہ بتاتی ہے کہ کون سا حصہ کس حصے کی وضاحت کررہا ہے۔ جیسے وہ کتاب جو کل خریدی تھی گم ہوگئی۔ اس جملے کے اندر دو جملے ہیں۔ 1۔ وہ کتاب گم گئی۔ 2۔ جو کل خریدی تھی۔ اور یہاں (جو) ضمیر موصولہ ہے جبکہ گرامر کی زبان میں (کل خریدی تھی) صلۂ ضمیر ہے۔ یعنی وہ حصہ جسے ضمیر (جو) جملے کے پہلے حصے سے جوڑ بھی رہی ہے اور اس کی وضاحت بھی کررہی ہے۔ تو یہ سادہ الفاظ میں ایک وضاحت تھی۔

جو جب جملے میں فاعل بن کے آتا ہے تو چاہے فاعل واحد ہو یا جمع دونوں کے لئے جو ہی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے

جو لڑکا محنت کرتا ہے کامیاب ہوجاتا ہے۔

جو لڑکے محنت کرتے ہیں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

جب فاعل کے بعد نے آئے تو اگر فاعل واحد ہو تو جو بدل کر جس نےہوجاتا ہے جیسے:جس نے خدا کی راہ میں خرچ کیا اس نے اجر پایا۔ اور اگر فاعل جمع ہو تو جو بدل کر جنھوں نے بن جاتا ہے۔ جیسے جنھوں نے خدا تعالیٰ کو یاد رکھا خدا تعالیٰ نے انھیں یاد رکھا۔

کبھی کبھی جو کے جواب میں آنے والے فقرے میں سو آتا ہے جیسے جو ہوا سو ہوا۔ جو ہو سو ہو۔ جو بوئے گا سو کاٹے گا۔ جوچڑھے گا سو گرے گا۔

جون بھی ہندی ضمیر موصولہ ہے مگر یہ جب اردو میں آتا ہے تو سا کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے ان میں سے جونسا پھل چاہو لے لو۔

کہ بھی ایک ضمیر موصولہ کے طور پہ استعمال ہوتا ہے جیسے۔ میں کہ آشوب جہاں(آفتِ زمانہ) سے تھا ستم دیدہ (ستایا ہوا )بہت۔ ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد۔

جو اور جن جب دو بار آئیں تو اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ آپ کے سامنے جتنی اشیا ء ہیں یا ان میں سے آپ جتنی بھی چاہیں لےلیں یا پسند کرلیں یا منتخب کرلیں۔ مثلاً ان کتابوں میں سے جو جو تمھیں پسند ہو لے لو۔ میں جن جن کے پاس گیا انھوں نے یہی جواب دیا۔

ضمیر استفہامیہ

استفہام عربی لفظ ہے اور اس کا معنی ہے سوال پوچھنا۔ گرامر میں ایسا فقرہ جس میں سوال پوچھا جائے استفہامیہ فقرہ کہلاتا ہے۔ پس ایسی ضمیر جو سوال پوچھنے کے لئے استعمال ہوں استفہامیہ کہلاتی ہیں اور یہ دو ہیں۔ کون اور کیا۔

کون اکثر جانداروں کے لئے آتا ہے اور کیا بے جان اشیاء کے لئے۔

جیسے کون کہتا ہے، کیا چاہیئے۔

کون کی مختلف حالتیں :
حالت فاعلی (Subjective Case)، واحد (Singular): ‘‘کون’’ اور ‘‘جب ’’‘‘نے’’ کے ساتھ ہو تو کس نےکسی ضمیر کی فاعلی حالت وہ حالت ہوتی ہے جب وہ جملے میں سب سے اہم ہو، اکثر جب جملے کے شروع میں ہو یا کسی اسم کے فوراً بعد ہو، مرکزِ گفتگو ہو وغیرہ۔ یہاں بات ہورہی ہے کون کی۔ جب کون فقرے میں فاعل ہو اور کام کرنے والا یعنی فاعل ایک ہو تو کون ہی استعمال ہوگا جیسے کون ہے جو یہ کام کرے گا؟ وہ کون ہے جو یہ بات کہتا ہے ؟ لیکن جن جملے میں نے استعمال ہو تو کون کی بجائے کس نے استعمال ہوگا۔ جیسے کس نے یہ بات کی ہے؟ کس نے یہ کام کیا ہے؟

حالت فاعلی (Subjective Case)، جمع (Plural): کون اور جب نے کے ساتھ ہو تو کنہوں نے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں بھی کون فاعل ہے یعنی کام کررہا ہے مگر فرق یہ ہے کہ کام کرنے والے ایک سے زائد ہیں۔ یعنی جمع ہیں۔ تو بغیرنے کے تو اس صورت میں بھی کون ہی استعمال ہوگا جیسے کون سے ممالک میں سردی زیادہ پڑتی ہے؟ لیکن جب جملے میں نے ہو تو پھر کنہوں نے استعمال ہوگا جیسے کنہوں نے کہا تھا وہ اس بات کو نہیں مانتے؟ کنہوں نے امتحانات نہیں دیے؟ وقت کے ساتھ اردو زبان میں تبدیلیاں بھی آئیں ہیں تو موجودہ دور میں کنہوں کی بجائے کن لوگوں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اردو میں ایک عام اصول یہ ہے کہ عزت کےلئے بھی جمع کا صیغہ(Expression) استعمال ہوتا ہے۔

حالت مفعولی (Objective Case)، واحد (Singular): کسے یا کس کو

جب استفہامیہ ضمیر کون مفعولی حالت میں ہو یعنی اس پر کام ہورہا ہو تو واحد یعنی ایک شخص یا چیز ہونے کی صورت میں

کس ےیا کس کو استعمال ہوگا۔ جیسے آپ نے وہ کتاب کسے دی تھی؟ آپ نے میرا پیغام کس کو دیا تھا؟

حالت مفعولی (Objective Case)، جمع(Plural) : کن کو یا کنہیں

اسی طرح اگر کون مفعولی حالت میں ہو اور لوگ یا چیزیں ایک سے زائد ہوں یعنی جمع ہوں تو کن کو یا کنہیں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آپ نے وہ کتابیں کن کو دی تھیں؟ آپ نے میرا پیغام کنہیں دیا تھا ؟ یا جدید اردو میں، آپ نے میرا پیغام کس کس کو دیا تھا؟ یعنی کس لفظ کی تکرار سے یہاں جمع کا اظہار کیا جارہا ہے۔

حالت اضافی(PossessiveCase) واحد(Singular): کس کا

اگر استفہامیہ ضمیر کو ن اضافی حالت میں ہو یعنی وہ کسی کی ملکیت ظاہر کررہی ہو اور جس کی ملکیت ظاہر کررہی ہو وہ ایک ہو یعنی واحد تو کس کا استعمال ہوگا۔ یہ تھیلا کس کا ہے؟ یہ قول کس کا ہے؟ ان جملوں کو اس طرح بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کس کا تھیلا ہے؟ یہ کس کا قول ہے؟

حالت اضافی(Possessive Case) جمع(Singular): کن کاجمع کی صورت میں کن کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ سامان کن کا ہے؟ یہ کتابیں کن کی ہیں ؟

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اصل بات یہ ہے کہ جب خدا کا نور چمک اٹھتا ہے تو پتہ نہیں لگتا کہ نار اور ظلمت کا مادہ کہاں گیا۔ جو لوگ معصیت، ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں وہ کبھی امید نہیں رکھتے ہوں گے کہ یہ عادت ان سے دور ہوگی لیکن اگر انسان میں حیا ہو اور تقویٰ اور مآل بینی سے کام لے تو کچھ مشکل نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کی دستگیری کرے۔ آپ کو معلوم نہیں میرا کیا حال ہے، اور میں آپ کے حالات سے واقف نہیں۔ میرا یا آپ کا کوئی حق نہیں ہوسکتا کہ ایک دوسرے کی نسبت کوئی رائے قائم کریں۔ خداتعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلمٌ (بنی اسراءیل: 37) ہمارا یہ مقدمہ ہی دیکھ لو ڈیڑھ برس سے چلتا ہے۔ اب معلوم ہوتا ہےکہ خدا نے فیصلہ کی راہ نکال دی ہے۔ پھر دین کے معاملہ میں بھی جو اخفیٰ ہے آخر ایک راہ نکل آتی ہے۔ غرض میں مختصر طور پر کہتا ہوں کہ میرے دعویٰ کے دلائل اور ثبوت وہی ہیں جو انبیاء علیہمالسلام کے لئے ہیں۔ یہ سلسلہ جو خدا نے قائم کیا ہے یہ منہاج نبوۃ ہی پر واقع ہوا ہےلوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اس کو اور معیار کے ساتھ جانچنا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس کو اسی معیار پر کسو جس پر انبیاءعلیہمالسلام کو پرکھا ہے۔ اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس معیار پر یہ پورا اترے گا۔

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 196 ایڈیشن 2016)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

نار اور ظلمت: آگ اور تاریکی، انسان ہدایت پانے کے بعد عقل سے کام لیتا ہے اور جذبات، بری عادات اور گناہوں سے نکلتا ہے۔

معصیت: گناہ

ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلس: ایسی مجلس جس میں صرف غیر سنجیدہ باتیں ہوں۔ دنیاداری اور دنیا پرستی ہو۔

حیاء: اپنی غلطی پہ نادم ہونا۔

تقویٰ: خدا تعالیٰ کا خوف، دیانت داری، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا۔

مآل بینی: اپنے کاموں کے نتائج پہ نظر رکھنا۔

دستگیری: مدد

اخفیٰ: مخفی ہونا، چھپا ہوا ہونا، خفیہ ہونا۔

منہاج نبوۃ: نبوت کا طریق

معیار پہ کسو: یعنی اس سٹینڈرڈ پہ پیمائش کرو جو نبوت کا ہے۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ