• 19 مئی, 2024

خطبہ جمعہ مؤرخہ 10؍دسمبر 2021ء (بصورت سوال و جواب)

خطبہ جمعہ حضور انور ایّدہ الله مؤرخہ 10؍دسمبر 2021ء
بصورت سوال و جواب

سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کن کتبِ تاریخ سے حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے قبولِ اسلام کا تذکرہ فرمایا؟

جواب: اسد الغابہ اور ریاض النّضرۃ

سوال: کس نے پیشگوئی کی کہ مَیں صحیح اور سچے علم میں پاتا ہوں کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہوں گے، ایک جوان اور ایک بڑی عمر والا شخص اُن کے کام میں اُن کی مدد کریں گے، جہاں تک نوجوان کا تعلق ہے تو وہ مشکلات میں کُود جانے والا اور پریشانیوں کو روکنے والا ہو گا اور بڑی عمر والا سفید اور پتلے جسم والا ہو گا، اُس کے پیٹ پر تِل ہو گا اور اُس کی بائیں رَان پر ایک علامت ہو گی؟

جواب: یمن میں مقیم قبیلہ اَزَد ْ کے بُوڑھے عالم شخص نے جو کُتُبِ سماویّہ پڑھا ہؤا تھا اور اُسے لوگوں کے حسب و نسب کے علم میں مہارت حاصل تھی۔

سوال: بُوڑھے عالم نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا! تمہارے لیئے ضروری نہیں ہے کہ تم مجھے وہ دکھاؤ جو مَیں نے تم سے مطالبہ کیا ہے، تم میں موجود باقی تمام صفات میرے لیئے پوری ہو چکی ہیں سوائے اِس کے جو مجھ پر مخفی ہے۔ اِس کی بابت آپؓ نے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: پس مَیں نےاُس کے لیئے اپنےپیٹ سے کپڑا ہٹایا تو اُس نے میری ناف کے اوپر سیاہ تِل دیکھا تو کہنے لگا کعبہ کے ربّ کی قسم!وہ تم ہی ہو۔

سوال: حضرت ابوبکرؓ جب یمن سے اپنا کام پورا کر کے واپس لَوٹے تو نبیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے تھے، کون سے سرداران بسلسلہ اِس معاملہ آپؓ کے پاس آ گئے نیز اُنہوں نے آپؓ سے کیا کہا؟

جواب: عُقبہ بن ابی مُعیط، شیبہ، ابو جہل، ابو بختری اور قریش کے دیگر سردار؛ ابوبکر!بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے، ابو طالب کا یتیم دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اگر آپ نہ ہوتے تو ہم اُس کے متعلق کچھ انتظار نہ کرتے، اب جبکہ آپ آ چکے ہیں تو اب اِس معاملہ کے لیئے آپ ہی ہمارا مقصود ہیں۔

سوال: حضرت ابوبکرؓ نے دریافت کیا! اَے محمدؐ، آپؐ اپنے خاندانی گھر سے اُٹھ گئے ہیں اور آپؐ نے اپنے باپ دادا کا دِین چھوڑ دیا ہے! آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اَے ابوبکرؓ! مَیں الله کا رسول ہوں تمہاری طرف بھی اور تمام لوگوں کی طرف بھی، پس تم الله پر ایمان لے آؤ۔ آنحضرتؐ نے اِس پر کیا دلیل پیش فرمائی؟

جواب: وہ بُوڑھا شخص جس سے تم نے یمن میں ملاقات کی تھی۔

سوال: مذکورہ بالا تناظر میں حضرت ابوبکرؓ نے کہا! یمن میں تو بہت سے بُوڑھے شخص تھے جن سے مَیں نے ملاقات کی ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا! وہ بوڑھا شخص جس نے تمہیں اشعار سنائے تھے۔ اِس پر آپؓ نے کیا عرض کیا نیز آنحضرتؐ نے اِس کی بابت کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: اَے میرے حبیب، آپؐ سے کس نے یہ خبر بیان کی؟؛ آنحضرتؐ نے فرمایا! اُس عظیم فرشتہ نے جو مجھ سے پہلے انبیاء کے پاس بھی آتا تھا۔

سوال: حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا آپؐ اپنا ہاتھ بڑھائیں، مَیں شہادت دیتا ہوں کہ الله کے سواء کوئی معبود نہیں اور آپؐ الله کے رسول ہیں۔ مزید اِس ضمن میں آپؓ نے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: پھر مَیں لَوٹا اور میرے اسلام لانے کی وجہ سے مکّہ کے دو پہاڑوں کے درمیان رسول اللهؐ سے زیادہ خوش کوئی اَور نہ ہؤا۔

سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے قبولِ اسلام کے تناظر میں آنحضرتؐ کے کن فرمودات کا تذکرہ فرمایا؟

جواب: رسول اللهؐ نے فرمایا! مَیں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اُس نے ٹھوکر کھائی اور تردّد کیا اور انتظار کرتا رہا سوائے ابوبکرؓ کے، مَیں نے جب اُن سے اسلام کا ذکر کیا تو نہ وہ اِس سے پیچھے ہٹے اور نہ اُنہوں نے اِس کے بارہ میں تردّد کیا۔؛ نبیؐ نے فرمایا! اَے لوگو الله نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا! تُو جھوٹا ہے اور ابوبکرؓ نے کہا! سچا ہے اور اُنہوں نے اپنی جان و مال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

سوال: حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں، صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ نے رسولِ کریمؐ کو مانا اور اِسی کو خدا تعالیٰ نے بھی لیا ہے چنانچہ فرماتا ہے لوگوں کو کہہ دو! فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس: 17) مَیں ایک عرصہ تم میں رہا اِس کو دیکھو، اِس میں مَیں نے تم سے کبھی غداری نہیں کی پھر مَیں اب خدا سے کیوں غداری کرنے لگا۔ مزید اِس ضمن میں آپؓ نے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: یہی وہ دلیل تھی جو حضرت ابوبکرؓ نے لی اور کہہ دیا کہ اگر وہ کہتا ہے کہ خدا کا رسول ہوں تو سچا ہے اور مَیں مانتا ہوں، اِس کے بعد نہ کبھی اِس کے دل میں کوئی شُبہ پیدا ہؤا اَور نہ اُن کے پائے ثبات میں کبھی لغزش آئی۔ اُن پر بڑے بڑے ابتلاء آئے، اُنہیں جائیدادیں اور وطن چھوڑنا اور اپنے عزیزوں کو قتل کرنا پڑا مگر رسولِ کریمؐ کی صداقت میں کبھی شُبہ نہ ہؤا۔

سوال: کن کا فرمان ہے کہ آنحضرتؐ پر آپؓ کو کس قدر حُسنِ ظنّ تھا، معجزہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور حقیقت بھی یہی ہے معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے نا واقف ہو اور جہاں غیریّت ہو اَور مزید تسلّی کی ضرورت ہو لیکن جس شخص کو حالات سے پوری واقفیّت ہو تو اُسے معجزہ کی ضرورت ہی کیا ہے، الغرض حضرت ابوبکرؓ راستہ میں ہی آنحضرتؐ کا دعویٔ نبوّت سن کر ایمان لے آئے پھر جب مکّہ میں پہنچے تو آنحضرتؐ کی خدمتِ مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ کیا آپؐ نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے، آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ہاں!یہ درست ہے۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا! آپؐ گواہ رہیں کہ مَیں آپؐ کا پہلا مصدّق ہوں، آپؓ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھا بلکہ آپؓ نے اپنے افعال سے اُسے ثابت کر دکھایا اور مَرتے دَم تک اِسے نبھایا اور بعد مَرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا؟

جواب: سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام

سوال: حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق یورپ کا مشہور مستشرق سپرنگرکیا لکھتا ہے نیز سرولیم میور کو بھی سپرنگر کی اِس رائے سے اتفاق ہے؟

جواب: ابو بکر ؓکا آغازِ اسلام میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) خواہ دھوکا کھانے والے ہوں مگر دھوکا دینے والے ہر گز نہیں تھے بلکہ صدقِ دل سے اپنے آپ کو خدا کا رسول یقین کرتے تھے۔

سوال: کون مسلّمہ طور پر مقدّم اور سابق بالایمان تھے؟

جواب: حضرت ابوبکر صدّیقؓ

سوال: عشرۂ مبشرہ میں سے کون سے پانچ جلیل القدر اور چوٹی کےاصحابؓ حضرت ابوبکر صدّیق ؓ کی تبلیغ سے اسلام لانے والوں میں شامل تھے؟

جواب: حضرت عثمان ؓ بن عفّان، حضرت عبدالرّحمٰن ؓبن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زُبیرؓ بن العوّام اور حضرت طلحٰہؓ بن عُبیداﷲ

سوال: آنحضرت ؐ نےحضرت زُبیرؓ کو غزوۂ خندق کے موقع پر ایک خاص خدمت سرانجام دینے کی وجہ سے کون سا خطاب عطاء فرمایا تھا؟

جواب: حواری

سوال: حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحٰہؓ نے جب اپنے اسلام کا اظہار کیا تو نوفل بن عَدَویّہ نے اِن دونوں کو پکڑ لیا، یہ شخص قریش کا شیر کہلاتا تھا، اُس نے اِن دونوں کو ایک ہی رسّی سے باندھ دیا۔ اِسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحٰہؓ کیا کہلاتے ہیں؟

جواب: قَرِیْنَیْن یعنی دو ساتھی ملے ہوئے۔

سوال: نوفل بن عَدَوِیّہ کی قوّت اور اِس کے ظلم کی وجہ سے آنحضرتؐ کیا فرمایا کرتے تھے؟

جواب: اَللّٰھُمَّ اکْفِنَا شَرَّ ابْنِ الْعَدَوِیَّةِ؛ اَے اللہ! ابنِ عَدَوِیَّہ کے شر کے مقابلہ میں ہمارے لیئے تُو کافی ہو جا۔

سوال: عُروہ ؒبن زُبیر ؓ نے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت عبداللهؓ بن عَمروؓ بن العاص سے پوچھا وہ بدترین سلوک مجھے بتائیں جو مشرکین نے نبیٔ کریمؐ سے کیاتھا، اِس پر اُنہوں نے کیا بیان کیا؟

جواب: ایک بار نبیٔ کریمؐ مسجد حرام کے حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عُقبہ بن ابی مُعیط آیا اور اُس نے اپنا کپڑا آپؐ کی گردن میں ڈال کر آپؐ کا گلا زور سے گھونٹا اتنے میں حضرت ابوبکرؓ پہنچ گئے اور آ کر اُنہوں نے عُقبہ کا کندھا پکڑا اور اُس دھکیل کر نبیٔ کریمؐ سے ہٹا دیا اور کہا!

اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ

(المؤمن: 29)

کہ کیا تم ایسے شخص کو مارتے ہو جو کہتا ہےکہ میرا ربّ الله ہے۔

سوال: لوگوں کے مسجد حرام میں آنحضرتؐ کے گرد اکٹھے ہونے، آپؐ کو مارنے، حضرت ابوبکرؓ کے آپؐ کو بچانے اور اُن کے آپؓ پر لپکنے نیز مارنے کے ضمن میں کیا بیان ہؤا؟

جواب: حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ آپؓ ہمارے پاس اِس حالت میں آئے کہ آپؓ اپنے بالوں کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپؓ کے ہاتھ میں آ جاتے اور آپؓ کہتے جاتے تھے کہ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ کہ اَے بزرگی اور عزت والے تو بابرکت ہے۔

سوال: حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا! اَے لوگو! لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اَے امیر المؤمنین آپؓ!اِس پر حضرت علیؓ نے کیا فرمایا؟

جواب: جہاں تک میری بات ہے، میرے ساتھ جس نے مبارزت کی، مَیں نے اُس سے انصاف کیا یعنی اُسے مار گرایا مگر سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓ ہیں۔ ہم نے رسول اللهؐ کے لیئے بدر کے دن خیمہ لگایا پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللهؐ کے ساتھ رہے تا آپؐ تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو الله کی قسم! آپؐ کے قریب کوئی نہ گیا مگر حضرت ابوبکرؓ اپنی تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللهؐ کے پاس کھڑے ہو گئے یعنی رسول اللهؐ کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ حضرت ابوبکرؓ سے مقابلہ کرے گا، پس وہ سب سے بہادر شخص ہیں۔

سوال: حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مَیں تمہیں الله کی قسم دیتا ہوں کیا آلِ فرعون کا مؤمن بہتر تھا یا حضرت ابوبکرؓ! حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس حوالہ سے کیا تصریح فرمائی؟

جواب: غالبًا حضرت علیؓ نے آلِ فرعون کےمؤمن کا ذکر اِس لیئے کیا کہ قرآنِ کریم میں یہ آیت آلِ فرعون کے اِس شخص کی طرف منسوب ہے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا اور فرعون کے دربار میں کہہ رہا تھا کہ

اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ

(المؤمن: 29)

سوال: کنہوں نے فرمایا! الله کی قسم!حضرت ابوبکرؓ کی ایک گھڑی آلِ فرعون کے مؤمن کی زمین بھر کی نیکیوں سے بہتر ہے کیونکہ وہ شخص اپنے ایمان کو چھپاتا تھا اور یہ شخص اپنے ایمان کا اعلان کرتا تھا؟

جواب: حضرت علیؓ

سوال: حضرت ابوبکرؓ نے جب اسلام قبول کیا تو اُن کے پاس چالیس ہزار دِرہم تھے، آپؓ نے اُسے الله کی راہ میں خرچ کیا نیزکن سات کو آزاد کروایا جن کو الله کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تھی؟

جواب: حضرت بلالؓ، عامرؓ بن فُہَیرہ، زِنِّیْرہؓ،نَہْدِیّہؓ اور اُن کی بیٹی، بنی مُؤمَّل کی ایک لونڈی اور اُمّ عُبَیسؓ۔

(قمر احمد ظفر۔نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ