لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
(راحت اندوری کی نذر)
ذرا بھی فرق نہیں تیرے اور مرے قد میں
توقع ہے یہ کہ اپنی رہے گا تو حد میں
تمہاری گفتگو جاری ہے کتنی نسلوں سے
دلیل لا کے دکھا کوئی تو مرے رد میں
یہ صرف حشر میں ہی فیصلہ نہیں ہو گا
تمیز وقت بھی کرتا ہے نیک اور بد میں
جو خود کو قابو میں رکھا کریں تو بہتر ہے
ذرا سا فرق ہے ہیرے میں اور پتھر میں
رہِ حیات میں چھاؤں کی بستیاں ہیں بہت
کہ صرف دھوپ نہیں ہے سفر کی سرحد میں
ضرور نیچے پٹختی ہے ایک دن سب کو
عجیب بات ہے دیکھی بلند مسند میں
گزرنے والے تری سمت مڑ کے دیکھتے ہیں
ضرور بات ہے کچھ تیرے خال اور خد میں
یقین مانیے قدؔسی ہوا کسی کی نہیں
’’لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے‘‘
(عبد الکریم قدسی۔ امریکہ)