• 6 مئی, 2024

احمدیت کا فضائی دور (قسط 1)

احمدیت کا فضائی دور
ایم ٹی اے- تقدیر الٰہی کا زندہ و تابندہ نشان
قسط 1

1492ء کا سال دنیا کی تاریخ میں ایک عجیب سال ہے۔ اس سال کولمبس نے امریکہ دریافت کیا اور موجودہ سائنسی ترقیات کی بنیاد ڈالنے والی نئی دنیا وجود میں آئی۔ دوسری طرف اسی سال سپین میں مسلمانوں کی صف لپیٹ دی گئی۔ عیسائیت کا سورج مغربی دنیا میں نصف النہار تک پہنچ گیا مگر اسلام کا سورج کم ازکم مغرب میں صدیوں کے لئے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ لیکن علام الغیوب خدا نے یہ خبر دی تھی کہ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنَ المَغْرِبِ (مسند احمد جلد3 صفحہ206) یعنی آخری زمانہ میں مغرب سے آفتاب صداقت طلوع کرے گا اور جب وہ وقت قریب آیا تو حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمدؑ کی زبان سے یہ بشارت دی گئی:
’’یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے طیار ہورہے ہیں … سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی۔ خداتعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ341 ایڈیشن1989ء اشتہار 7؍ دسمبر ٫1892)

پھر فرمایا ’’اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلدنمبر1 صفحہ341 ایڈیشن1989ء)

پھر فرمایا:
’’نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا۔ اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ304 ایڈیشن1989ء)

چنانچہ سقوط غرناطہ کے ٹھیک 500 سال بعد مغرب سے احمدیہ ٹیلی ویژن نے نشریات کا آغاز کیا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ دینے کے لئےایک بابرکت دور کا آغاز ہوا۔ ان نشریات کا اولاً مغرب سے آغاز اور پھر دو طرفہ رابطوں کی خبر حضرت امام جعفر صادقؒ کی پیشگوئی میں ملتی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ امام قائم کے زمانہ میں مشرق میں رہنے والا مومن مغرب میں رہنے والے بھائی کو دیکھ لے گا اور مغرب میں رہنے والا مشرق میں رہنے والے مومن بھائی کو دیکھ لے گا۔

(بحارالانوار جلد52 صفحہ 391)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ قادیان، یورپ، افریقہ، امریکہ،کینیڈا، آسٹریلیا اور مشرق بعید کا دورہ فرما چکے ہیں۔ حضور مشرق میں ہوں یا مغرب میں ہر جگہ سے حضور کے خطبات Live نشر ہورہے ہیں۔ مشرق کے احمدی مغرب کے بھائیوں کو اور مغرب کے احمدی مشرقی بھائیوں کو دیکھ کر سجدات شکر بجالارہے ہیں۔

پس ایم ٹی اے صدیوں کے انتظار کے بعد احمدیت کو ملنے والا وہ آسمانی نشان ہے جس نے احمدیت کے مشرق و مغرب کو اکٹھا کردیا ہے۔ جس نے احمدیت کو مکانی اور زمانی سرحدوں سے آزاد کردیا ہے جس نے احمدیت پر لگائی جانے والی پابندیوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے جس نے کروڑوں لوگوں کو سچائی کا راستہ دکھایا ہے اور وہ مسیحائے زماں کے دامن سے وابستہ ہوگئے ہیں۔

یہ ایم ٹی اے ہے جو ہر جمعہ کے دن کروڑوں احمدیوں کو ٹیلی ویژن کے آگے بٹھا دیتا ہے۔ کہیں صبح کا جھٹپٹا ہوتا ہے کہیں تپتی دوپہر کہیں ملگجی شام اور کہیں رات کا اندھیرا مگر سب کا سورج خطبہ کے وقت ایم ٹی اے پر طلوع ہوتا ہے اور اذان کی آواز کے ساتھ کل عالم توحید اور محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت کی گواہی تازہ کرتا ہے۔

ایم ٹی اے احمدیت کی عالمگیریت کا نشان ہے۔ اس نے ہماری ہر اہم تقریب کو عالمی بنا دیا ہے۔ آج دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں جس کے امام کا خطبہ جمعہ دنیا کے سارے خطوں میں سنا جاتا ہو۔ امام جماعت احمدیہ کا خطبہ یورپ سے بھی براہ راست نشر ہوتا ہے۔ افریقہ سے بھی، امریکہ سے بھی، کینیڈا سے بھی، ایشیا سے بھی اور آسٹریلیا سے بھی۔

ہمارا تو ہر جلسہ سالانہ بھی عالمگیر ہوگیا ہے۔ ہر عالمی بیعت بھی مذہب کی تاریخ کا انوکھا اور نرالا واقعہ ہے۔ ایم ٹی اے کے ذریعے چشم فلک نے پہلی بار لاکھوں ہاتھوں کو ایک ساتھ دعا کے لئے اٹھتے دیکھا ہے۔ عالمی درس قرآن، عالمی مجالس عرفان، عالمی نکاح، عالمی جنازے، عالمی سجدہ تشکر کے ساتھ ہمارے تو نعرے بھی عالمگیر ہوچکے ہیں۔ اس نظام نے تو کل عالم کے احمدیوں کو خلافت کے ساتھ باندھ کر جسد واحد بنادیا ہے۔

یہ ایم ٹی اے ہےجو ہمیں قرآن و حدیث کے معارف سے آشنا کراتا ہے۔سیرۃ النبیﷺ کی جھلکیوں سے منور کرتا ہے سیرت صحابہ رسولﷺ سے روحوں کو روشن کرتا ہے۔ ہمیں پیارے مہدی کی پیاری باتیں سناتا ہے۔ اس کے خلفاء کے پرانے خطبات یاد کراتا ہے دُشمنوں کے اعتراضوں کا جواب دیتا ہے راہ ہدیٰ پیش کرتا اور غیروں کو آئینہ دکھاتا ہے۔’’ سچ تو یہ ہے‘‘اس کے نام کا حصہ بن چکا ہے ایم ٹی اے تاریخ احمدیت کی جھلکیاں پیش کرتا ہے۔ کودک اور پکوان کے پروگرام تخلیق کرتا ہے۔ زبانیں سکھاتا ہے۔

ایم ٹی اے نے دنیا کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمہ قرآن کا تحفہ دیا۔ ہومیوپیتھی کلاسوں کے ذریعے گھر گھر شفا کا نظام جاری کردیا اور’’ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل‘‘ جیسی عظیم کتاب معرض وجود میں آئی۔

یہ ایم ٹی اے ہے جس نے قدرت ثانیہ کے ایک مظہر کو سفر آخرت پر روانہ ہوتے ہوئے دکھایا اور ایک مظہر کو پگڑی اور الیس اللّٰہ بکاف عبدہ کی مبارک انگوٹھی پہنتے ہوئے آشکارا کیا۔

ایک وہ تھا جسے ہزاروں بلکتی آنکھوں نے آنسوؤں کے ساتھ الوداع کیا اور دوسرا وہ ہے جس نے ہزاروں تھراتے ہوئے سینوں کو ایک جنبش لب سے سکینت بخش دی۔ جس کے ایک حکم پر سینکڑوں انسانوں نے بیٹھ کر اولین کی یاد تازہ کردی۔

یہ ایم ٹی اے ہے جس نے 22؍اپریل 2003ء سے ایک کلی کو پھول اور ایک ہلال کو بدر بنتے ہوئے لمحہ لمحہ کا منظر محفوظ کیا ہے۔ جس نے ایک کم گو اور شرم و حیا کے پیکر کی زبان سے حکمت اور معرفت کے چشمے سمیٹے ہیں۔ جس نے جانشین مسیح موعودؑ کو بادشاہوں اور سربراہان مملکت کو پیغام حق سناتے ہوئے دکھایا ہے جس نے اس سیاح شہزادے کو یورپ، افریقہ، امریکہ، کینیڈا اور ایشیا کی سرزمین پر اترتے، محبت اور امن کا تحفہ عطا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔جس نے دھیمے سروں میں رواں دریا کو تیز آبشار میں ڈھلتے دکھایا ہے۔

یہ ایم ٹی اے ہے جس نے حضور کو دورہٴ افریقہ کے دوران کچی سڑکوں پر دھول اڑاتی گاڑیوں کے قافلہ میں محو سفر دکھایا، جس نے حضور کو افریقہ کے دور دراز علاقوں میں مساجد اور سکولوں کا سنگ بنیاد رکھتے اور افتتاح کرتے دکھایا۔ جس نے محبت کے مارے اور الفت کے مجسموں کو حضور سے مصافحہ کرتے اور بغل گیر ہوتے ہوئے دکھایا۔ جس نے اجلے افریقیوں کو سفید براق لباسوں میں ملبوس اپنے امام کا بے تابانہ استقبال کرتے ہوئے اور یا مسرور انی معک کی لے کے ساتھ والہانہ ہاتھ بلند کرتے ہوئے دکھایا۔

یہ ایم ٹی اے ہے کہ جو ایک شفیق باپ کو بچوں اور بچیوں کے مابین جلوہ گر ہوتے ہوئے اور پھر ان میں پین اور سکارف اور چاکلیٹ تقسیم کرتے ہوئے دکھاتا ہے۔یہ ایم ٹی اے ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو ٹرین کے ذریعہ قادیان آتے ہوئے اور قادیان کی گلیوں اور کوچوں میں گھومتے ہوئے دکھاتا ہے۔یہ ایم ٹی ہے جس نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی تصویر اور آواز کو قادیان سے کل عالم میں نشر کیا۔ جس نے حضور کو خطاب کرتے ہوئے قادیان کی گلیوں میں پھرتے، حضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر دعا کرتے اور اپنے محبین میں تحفے بانٹتے دکھایا ہے۔یہ ایم ٹی اے ہے جس کے ترانے معصوم بچے گاتے پھرتے ہیں جس نے بچوں کے ذوق اور دلچسپیاں بدل کر رکھ دی ہیں۔

ایم ٹی اے آج دنیا میں دین کی سچی نمائندگی کرنے والا ٹی وی چینل ہے جسے خلیفہ وقت کی رہنمائی میسر ہے۔ جو کل عالم کے لئے متعدد زبانوں میں 24 گھنٹے کی نشریات پیش کرتا ہے جس کے کارکنان تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ٹی وی کی بنیاد خالص سچائی پر ہے۔ اس میں اداکاری اور جھوٹ اور تصنع کا کوئی شائبہ نہیں۔ یہ میک اپ سے پاک اور عریانی سے کلیۃ مبرا ہے۔ اعلیٰ ذوق کی ترویج کرتا ہے۔ جس کے تمام اخراجات طوعی چندوں سے پورے کئے جاتے ہیں۔ جس کے خدمتگاروں کو اللہ تعالیٰ خاص فضلوں سے نوازتا ہے۔

ایم ٹی اے کبھی دنیا کو امن کا پیغام سناتا ہے کبھی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے کبھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف متوجہ کرتا ہے اورکبھی بدری صحابہ کی فدائیت کی داستانیں بیان کرتا ہے۔

الغرض خلافت احمدیہ کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو جو عظیم الشان نعمتیں عطا ہوئی ہیں ان میں سے ایک عالیشان نعمت ایم ٹی اے کا نظام ہے۔

یہ محض ایک پھول نہیں، ایک گلدستہ نہیں پورا چمن ہے۔
یہ محض ایک شعر نہیں۔ ایک غزل نہیں پورا دیوان ہے۔
یہ محض ایک ستارہ نہیں۔ نظام شمسی نہیں پوری کہکشاں ہے۔
یہ ایک فرد نہیں چھوٹا قافلہ نہیں ایک بہت بڑا کاروان ہے۔
یہ اتفاقی واقعہ نہیں حادثہ نہیں تقدیر الٰہی کا زندہ و تابندہ نشان ہے۔

اس کا ایک طویل روحانی پس منظر اور سامنے ایک دلکش جہان ہے۔ جس کے بچپن کی خبریں مسیح اول کے کلمات میں اور جوانی کی داستان حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے ارشادات میں محفوظ ہو۔ جس کی داغ بیل اور نگرانی خدا کے مقدس خلفاء کےلئے مقدر ہو اور جس کے ذریعہ ایک عظیم انقلاب برپا ہو رہا ہووہ نشان اس قابل ہے کہ اسے پوری تفصیل کے ساتھ جذبات تشکر سے معمور ہوکر خدا کی حمد و ثنا سے لبریز ہوکر بیان کیا جائے۔ اس کتاب کا یہی مقصد اولین ہے۔ایم ٹی اے کے زمین و آسمان کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر سعید روح اسی نتیجہ پر پہنچے گی کہ یہ نشان اپنی ذات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک لازوال ثبوت ہے اور اسے بے خوف و خطر ہر جگہ ببانگ دہل بیان کیا جاسکتا ہے۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتے ہوئے 1996ء میں فرماتے ہیں:
’’گزشتہ ایک سال میں ہندوستان میں جماعت احمدیہ اس کثرت سے پھیلی ہے کہ اس سے پہلے سو سال میں بھی اتنا نہیں پھیلی تھی۔ تور فتاریں بڑھادی گئی ہیں ان کے پیمانے بھی تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ غیر معمولی سرعت کے ساتھ اب ہم فضائی دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ اب اونٹنیوں کے بعد گاڑیوں کا دور ختم ہے اب تو راکٹس (Rockets) کا زمانہ آگیا ہے اور بہت تیز رفتاری کے ساتھ ارد گرد کی دنیاؤں کو فتح کرنے کا دور ہے۔‘‘

(خطاب28؍دسمبر 1996ء جلسہ سالانہ قادیان)

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کا عملی ثبوت حضرت مسیح موعودؑ کو خداتعالیٰ نے خبردی تھی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔یہ الہام مختلف رنگوں میں پورا ہوتا رہا مگر خلافت خامسہ میں اس الہام نے ایک نیا جلوہ دکھایا اور 16؍دسمبر 2005ء کو قادیان کی مسجد اقصیٰ سے معجزانہ طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کی صورت میں مسیح موعودؑ کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچنے لگی اور یہ پیغام جلسہ کے خطابات کے علاوہ 5خطبات جمعہ اور ایک خطبہ عیدالاضحی کی صورت میں گونجتا رہا۔یہ بھی ایک عجیب ایمان افروز واقعہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ قادیان 2005ء میں شرکت کا فیصلہ فرمایا اور یہ ہدایت دی کہ حضور کے تمام خطابات و خطبات ایم ٹی اے کے ذریعہlive نشر ہوں۔ اُس وقت تک قادیان سے براہ راست پروگرام نشر ہونے کا نہ انتظام تھا نہ ہی تصور۔ جماعت کے منتظمین نے نئی دہلی کے قریب واقع شہر نوئیڈا میں قائم ایک براڈ کاسٹنگ ٹی وی کمپنی سے معاہدہ کر لیا لیکن یہ نشریات حکومت ہند کی نظارت اطلاعات و نشریات کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اس کے لئے جولائی 2005ء میں اجازت نامہ کے حصول کے لئے درخواست دے دی گئی مگر کاروائی کرتے کرتے چھ ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا مگر کوئی امید نظر نہ آتی تھی۔ آخر حضور لندن سے دہلی پہنچ گئے اور 15؍ دسمبر کو حضور انور نے دہلی سے قادیان کے لئے روانہ ہونا تھا اور اجازت نہیں ملی تھی۔ یہ صورت حال جب حضور کے علم میں لائی گئی تو حضور نے 14؍دسمبر کو فرمایا میں اُس وقت تک قادیان نہیں جاؤں گا جب تک پروگرام لائیو نشر کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔

اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا کو قبول فرمایا اور ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اسی روز شام 5 بجے اجازت نامہ آ گیا اور تمام خطابات پہلی مرتبہ قادیان سے ایم ٹی اے پر براہ راست نشر ہوئے۔

(ہفت روزہ البدر قادیان 19؍ مئی 2022ء صفحہ 22)

اس کے 3 ماہ بعد 28؍ اپریل 2006ء کو زمین کے کنارے فجی سے حضور کا خطبہ جمعہ زمین کی تمام بلندیوں اور پستیوں میں نشر ہوا جسے فجی کے نیشنل ٹی وی نے بھی Live نشر کیا۔ حضور نے 2؍مئی 2006ء کو جزیرہ تاویونی پر لوائے احمدیت لہرایا جہاں سے Date Line گزرتی ہے۔ پس قادیان سے زمین کے کناروں تک اور زمین کے کناروں سے تمام دنیا تک مسیح موعودؑ کے پیغام کا ابلاغ احمدیت کے مواصلاتی اور فضائی دور کا ایک نیا سنگ میل ہے۔

یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ مختلف قوموں کے نزدیک زمین کے جو بھی کنارے ہیں خواہ وہ فجی ہو یا ماریشس یا آئرلینڈ یا قطب شمالی کے قریب امریکہ اور کینیڈا کے علاقے۔ ان سب جگہوں پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچانے کا اعزاز بخشا ہے۔اور سب جگہوں سے حضور کے خطبات جمعہ اور دیگر خطابات براہ راست نشر ہوتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ دیکھو کس شان سے پورا فرمایا ہے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی۔ کل پرسوں کی بات ہے ہم ریڈیو کی باتیں کرتے تھے تو اپنےاندر یہ قدرت نہیں پاتے تھے کہ ہم کوئی انٹرنیشنل ریڈیو ہی قائم کرسکیں کجا وہ دن اور کجا وہ تین سال کے عرصے میں یہ احمدیت کے قافلے کا پھلانگتا ہوا سفر جو پہلے زمین پر چھلانگیں مار رہا تھا اب آسمانوں پر اڑنے لگا ہے اور آسمان سے پھر زمین پر اترتا ہے اور پیغام لے کر پھر ا پنے سفر پر رواں دواں ہوتا ہے۔ یہ نظام خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے اور اس الہام کی برکت ہے۔‘‘

(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 27؍ جون 1997ء)

ایک دور افتادہ گاؤں سے عالمی شہرت کا سفر

1900ء میں جب بیسویں صدی عیسوی کا آغاز ہوا تو جماعت احمدیہ کی عمر 11 سال کی تھی۔ہندوستان میں چنیدہ سعید روحوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کرلی تھی اور ہندوستان سے باہر کئی ممالک میں آپ کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ کئی احمدی بھی موجود تھے مگر کہیں بھی کوئی تنظیمی ڈھانچہ وجود میں نہیں آیا تھا۔

وسیع وعریض انڈیا کے ایک صوبہ پنجاب کے ایک غیر معروف ضلع کے ایک دور افتادہ گاؤں مرکز احمدیت قادیان کی کل آبادی چند سو گھرانوں پر مشتمل تھی۔ جن میں سے اکثر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت معاند اور جانی دُشمن تھے۔ قادیان پہنچنا کارے دارد تھا۔ سعید روحیں گڑھوں بھرے راستوں سے گزر کر درحبیب پہ آتی رہیں۔ مگر یہ تعداد بہرحال محدود تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے خدام سے رابطہ قادیان آنے والے زائرین سے بالمشافہ ملاقاتوں کے علاوہ مندرجہ ذیل طریق پر تھا۔

حضورؑ کے اسفار
حضورؑ کی کتب، اشتہارات اور خطوط

اخبار الحکم1897ء میں امرتسر سےاور1898ء میں قادیان سے شائع ہونا شروع ہوا اور بالکل بچپن کی حالت میں تھا۔ اس وقت قادیان میں صرف ایک قدیم طرز کا پریس تھا۔ جس کی بنیاد 1895ء میں ڈالی گئی تھی اور اس کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔

اس زمانہ کے ہندوستان میں رسل و رسائل کا نظام بھی بہت کمزور تھا۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ حضورؑ کی کتب و اشتہارات کی اشاعت بھی بہت محدود تھی۔ ان کا ہر احمدی تک پہنچنا ممکن نہیں تھا بلکہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں سے نابلد دنیا کےلئے سمجھنا مشکل تھا۔ان سب مشکلات پر مستزادیہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت زبانی دعووں سے گزر کر پرتشدد دور میں داخل ہوچکی تھی۔

1900ء میں حضورؑ کے گھر اور مسجد مبارک کو ملانے والا راستہ مخالفین نے دیوار کھینچ کر بند کردیا جو کئی ماہ کی عدالتی کاروائیوں کے بعد کھولا گیا۔1901ء میں کابل میں حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحبؓ کو شہید کردیا گیا اور دو سال بعد 1903ء میں حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہیدؓ کی شہادت کا المناک حادثہ رونما ہوا۔اس پس منظر میں کون کہہ سکتا تھا کہ تحریک احمدیت نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ اس کا زندگی بخش پیغام ایک عالم کی حیات نو کا نقیب بن جائے گا۔ دُنیا تو ہر لمحہ احمدیت کو موت کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی مگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا:
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘اور’’ ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی‘‘ اور’’ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا،ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور دین واحد پر جمع کرے۔‘‘

اور آج ہم اکیسویں صدی کے پہلے ربع پر کھڑے ہیں۔ تاریخ کی آنکھ جماعت احمدیہ کو ایک بالکل مختلف انداز میں دیکھ رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام زمین کے کناروں تک گونج رہا ہے دنیا کے 213ملکوں میں اس کاپرچم لہراتا ہے۔جماعت احمدیہ ہر ملک میں سینکڑوں مضبوط جماعتوں کی شکل میں قائم ہے۔ اس کا طوعی رضاکارانہ مالی نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔ یہ تمام فرقوں میں سب سے زیادہ منظم فرقہ ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد بیعت کرکے اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس کے عالمی مواصلاتی نظام کے ذریعہ ساری جماعت ایک ہاتھ پر جمع ہے۔ اس کے امام اور عام فرد میں کوئی فاصلہ نہیں رہا۔ ہر احمدی اپنے امام کی تازہ ترین ہدایات اور تحریکات سے ہمہ وقت آگاہ رہ سکتا ہے۔اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

؎اِک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا

جماعت احمدیہ کی زندگی کے یہ دو مناظر مذہب کے طالب علم کےلئے دلچسپ موازنے کا گہرا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں۔

پہلا دور گویا احمدیت کا تخم زمین میں بونے کا دور تھا اور آج اس تناور اور مضبوط درخت کے فضاؤں میں بلند ہونے کا دور ہے۔اسی دور کو ہم احمدیت کے فضائی دور کے نام سے یاد کر سکتے ہیں اور اس دور کا سہرا ایم ٹی اے کے سر ہے۔

(جاری ہے)

(عبد السمیع خان۔استاد جامعہ احمدیہ گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی