• 7 مئی, 2024

معراج مصطفی ؐ کا شہرہ آفاق سفر

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
عربی زبان میں خواہ آسمان پر جانے کا ذکر ہو یا زمین پر سفر کرنے کا اگر رات کو کوئی سفر ہو تو اسے اسراء کہیں گے۔اس وجہ سے معراج کے متعلق بھی اسراء کا لفظ بولا جاتا تھا اور بیت المقدس کی طرف جانے کے واقعہ کے متعلق بھی اسراء کا لفظ استعمال کیا جاتاتھا کیونکہ یہ دونوں واقعات رات کے وقت ہوئے تھے۔اب ادھر دونوں کے لیے اسراء کا لفظ بولا جاتا تھا اور ادھر ان دونوں نظاروں کی کئی باتیں آپس میں ملتی جلتی تھیں۔مثلاً یہی کہ اس میں بھی براق کا ذکر آتاہے اور اس میں بھی۔اسراء بیت المقدس میں بھی انبیاء سے ملنے کا ذکر آتاہے اور معراج میں بھی۔اسراء بیت المقدس میں بھی نماز پڑھانے کا ذکر آتاہے اور معراج میں بھی اسراء کی بعض روایتوں میں دوزخ جنت کے بعض نظارے دیکھنے کا ذکر آتاہے اور معراج کے واقعہ میں بھی۔غرض نام اور کام کی تفصیلات میں ایک حد تک اشتراک پایا جاتاتھا اور روحانی عالم کے عجیب و غریب نظاروں کا ذکر تھا۔ اس لئے بعض راویوں کے ذہنوں میں خلط ہو گیا اور انہوں نے دونوں واقعات کو ایک ہی سمجھ کر ملا کر بیان کرنا شروع کر دیا۔لیکن جن کا حافظہ زیادہ مضبوط تھا انہوں نے اگر معراج کا واقعہ صحابی سے سنا تھا تو روایت شروع ہی اس طرح کی کہ پھر رسول کریمﷺ کو گھر سے اٹھا کر آسمان کی طرف لیجایا گیا اور اگر انہوں نے صحابی سے اسراء بیت المقدس کا واقعہ سنا تھا تو انہوں نے بیت المقدس تک کا واقعہ بیان کیا آگے آسمان پر جانے کا ذکر نہیں کیا۔…… ان دونوں قسم کی روایات سے ثابت ہوتاہے کہ صحابہ میں اسراء کا لفظ دونوں واقعات کی نسبت مستعمل تھا۔پس اس لفظ کے استعمال اور بعض تفصیلات کے اشتراک کی وجہ سے بعض راویوں کویہ دھوکا آسانی سے لگ سکتاتھا کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی ہیں اور اس کی وجہ سے انہوں نے دونوں قسم کی روایات کو ملا کر بیان کر دیا اور اس سے بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ دھوکا لگ گیا کہ شاید یہ ایک ہی واقعہ کی تفصیل ہیں۔

(تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 287-289)

حالانکہ معراج اور اسراء میں کم از کم پانچ سے سات سال کے عرصہ کا فرق ہے۔ معراج کا سفر نبوت کے پانچویں سال یا اس سے کچھ پہلے کا ہے جبکہ اسراء کا سفر ہجرت سے چھ ماہ یا ایک سال قبل پیش آیا۔ قرآن کریم میں معراج کا واقعہ سورۃ النجم میں بیان کیا ہے جس میں بیت المقدس یا مسجد اقصی کا کوئی ذکر نہیں ملتا جبکہ اسراء کا واقعہ سورۃ بنی اسرائیل کے آغاز میں بیان کیا گیا ہے جس میں آسمان پر جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

احادیث میں بھی ان دونوں واقعات کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ معراج کی حدیث بخاری میں چھ جگہوں پر بیان کی گئی ہے اسی طرح واقعہ اسراء کا ذکر بھی کئی مقامات پر آیا ہے۔

سیرت ابن ہشام میں ان دونوں واقعات کو علیحدہ طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح طبقات ابن سعد جلد اول میں مشہور مؤرخ ابن سعد نے بھی دونوں کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں میں مختلف تفاصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے جبکہ اسراء والے واقعہ کی رات آپ اپنی چچا زاد بہن اُم ھانی (حضرت ابو طالب کی بیٹی اور حضرت علی کی بہن) کے گھر سوئے تھے۔

ترتیب زمانی کے لحاظ سے چونکہ معراج کا واقعہ پہلے اور اسراء بعد میں ظہور پذیر ہوا اس لئے میں پہلے معراج کےسفر سے شروع کروں گا۔

واقعہ معراج

معراج عربی زبان کا لفظ ہے جو عَرَجَ سے نکلا ہے جس کے معنیٰ اوپر چڑھنے کے ہیں اور اسی وجہ سے سیڑھی کو معراج کہا جاتاہے جو بلندی پر چڑھنے کے کام آتی ہے۔ قرآن کریم میں واقعہ معراج سورۃ النجم میں بیان ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۵﴾ عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ۙ﴿۶﴾ ذُوۡ مِرَّۃٍ ؕ فَاسۡتَوٰی ۙ﴿۷﴾ وَہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی ؕ﴿۸﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ﴿۹﴾ فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی ۚ﴿۱۰﴾ فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۱﴾ مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۲﴾ اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۳﴾ وَلَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۴﴾ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۵﴾ عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۶﴾ اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۷﴾ مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰی ﴿۱۸﴾ لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۹﴾

(النجم:5-19)

ترجمہ:یہ تو محض ایک وحی ہے جو اتاری جارہی ہے۔اسے مضبوط طاقتوں والے سے سکھایا ہے۔جو بڑی حکمت والا ہے پس وہ فائز ہوا۔جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا۔پھر وہ نزدیک ہوا۔پھر وہ نیچے اتر آیا۔پس وہ دوقوسوں کے وتر کی طرح ہو گیا یا اس سے بھی قریب تر۔پس اس نے اپنے بندے کی طرف وحی کیا جو بھی وحی کیا اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیاجو اس نے دیکھا۔پس کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا؟ جبکہ وہ اسے ایک اور کیفیت میں بھی دیکھ چکا ہے۔آخری حد پر واقع بیری کے پاس۔اس کے قریب ہی پناہ دینے والی جنت ہے۔جب بیری کو اس نے ڈھانپ لیا۔نہ نظر کج ہوئی اور نہ حد سے بڑھی۔یقیناً اس نے اپنے رب کے نشانات میں سے سب سے بڑا نشان دیکھا۔

سورة نجم کی یہ آیات معراج کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔سورة نجم شوال سن 5؍ نبوی سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور اس میں چونکہ معراج کا واقعہ درج ہے اس لئے معراج کا واقعہ بھی یقیناً شوال سن5؍ نبوی سے پہلے ہو چکا تھا۔اِس قرآنی بیان کی تشریح و تفصیل میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں اُن میں سے معراج کے متعلق صحیح روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ:ایک رات آنحضرتﷺ مسجد حرام کے اس حصہ میں جو حطیم کہلاتا ہے لیٹے ہوئے تھے اور یقظہ اور نوم کی درمیانی حالت تھی۔یعنی آپؐ کی آنکھ تو سوتی تھی مگر دل بیدار تھا کہ آپؐ نے دیکھا کہ جبرائیلؑ نمودار ہوئے ہیں۔حضرت جبرائیلؑ نے آپؐ کے قریب آکر آپ کو اٹھایا اور چاہ زمزم کے پاس لاکر آپ کا سینہ چاک کیا اور آپ کے دل کو زمزم کے مصفا پانی سے اچھی طرح دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کی طشتری لائی گئی جو ایمان و حکمت سے لبریز تھی اور حضرت جبرائیلؑ نے آپ کے دل میں حکمت و ایمان کا خزانہ بھر کر آپؐ کے سینہ کو پھر اسی طرح بند کر دیا۔اس کے بعد جبرائیلؑ آپؐ کو اپنے ساتھ لے کر آسمان کی طرف اٹھ گئے اور پہلے آسمان کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی۔دربان نے پوچھا کون ہے؟ جبرائیلؑ نے جواب دیا میں جبرائیلؑ ہوں اور میرے ساتھ محمدﷺ ہیں۔دربان نے پوچھا کیا محمدﷺ کو بلایا گیا ہے؟ جبرائیلؑ نے کہا ہاں۔اس پر دربان نے دروازہ کھول کر آنحضرتﷺ کو خوش آمدید کہا۔اندر داخل ہو کر آنحضرتﷺ نے ایک بزرگ انسان کو دیکھاجس نے آپؐ کو مخاطب ہو کر کہا۔‘‘مرحبا اے صالح نبی اور اے صالح فرزند!’’اور آپؐ نے بھی اسے سلام کیا۔اس کے دائیں اور بائیں ایک بہت بڑی تعداد میں روحوں کا سایہ پڑ رہا تھا۔جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتا تھا تو اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا تھا اور جب بائیں طرف دیکھتا تھا تو غم سے اس کا منہ اتر جاتا تھا۔آنحضرتﷺ نے جبرائیلؑ سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟جبرائیل نے کہا۔یہ آدم ہیں اور ان کے دائیں طرف ان کی نسل میں سے اہل جنت کا سایہ پررہا ہے جسے دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف اہل نار کا سایہ ہے جسے دیکھ کر وہ غم محسوس کرتے ہیں۔اس کے بعد جبرائیلؑ آپؐ کو لے کر آگے چلے اور دوسرے آسمان کے دروازہ پر بھی آپؐ کو وہی واقعہ پیش آیا اور اس کے اندر داخل ہو کر آپؐ نے دو شخصوں کو دیکھا۔جنہوں نے ان الفاظ میں آپ کا خیر مقدم کیا کہ‘‘مرحبا اے صالح نبی اور صالح بھائی!’’ اور آپؐ نے بھی انہیں سلام کہا اور جبرائیلؑ نے آپؐ کو بتایا کہ یہ حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰؑ ہیں۔جو خالہ زاد بھائی تھے۔اسی طرح جبرائیلؑ آپؐ کو ساتھ لے کر تیسرے اور چوتھے اور پانچویں آسمان میں سے گذرے جن میں آپؐ نے علی الترتیب حضرت یوسفؑ اور حضرت ادریسؑ اور حضرت ہارونؑ کو پایا۔چھٹے آسمان پر آپؐ کی ملاقات حضرت موسیٰؑ سے ہوئی اور حضرت موسیٰؑ نے بھی آپؐ کو اسی طرح مرحبا کہا اور آپؐ نے سلام کیا۔جب آپؐ ان سے آگے گذرنے لگے تو حضرت موسیٰؑ رو پڑے۔جس پر آواز آئی۔اے موسیٰؑ !کیوں روتے ہو؟حضرت موسیٰؑ نے کہا۔اے میرے اللہ! یہ نوجوان میرے پیچھے آیا۔مگر اس کی امت میری امت کی نسبت جنت میں زیادہ داخل ہو گی۔اے میرے اللہ!میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے آکر مجھ سے آگے نکل جائے گا۔اس کے بعد آپؐ ساتویں آسمان میں داخل ہوئے جہاں آپؐ کی حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔جو بیت معمور کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔یہ بیت معمور آسمانی عبادتگاہ کا مرکز تھا(جس کے گویا ظل کے طور پر دنیا میں کعبة اللہ تعمیر ہوا تھا) حضرت ابراہیمؑ نے بھی آپؐ کو دیکھ کر اسی طرح مرحبا کہا جس طرح حضرت آدمؑ نے کہا تھا۔(کیونکہ وہ بھی حضرت آدمؑ کی طرح آنحضرتﷺ کے جد امجد تھے)اور آپؐ نے بھی اسی طرح ان کو سلام کہا۔اس کے بعد آپؐ اور آگے بڑھے اور وہاں پہنچے جہاں اس وقت تک کسی بشر کا قدم نہیں پہنچا تھا۔یہاں آپؐ نے اپنے اوپر بہت سی قلموں کے چلنے کی آواز سنی(جو گویا قضاو قدر کی قلمیں تھیں)اس کے بعد آپؐ کو اپنے سامنے ایک بیری کا سا درخت نظر آیا جو گویا زمینی تعلقات کے لئے آسمان میں آخری نقطہ تھااور اس کے ساتھ سے جنت ماوٰی شروع ہوتی تھی اس بیری کے درخت کے پھل اور پتے بڑے بڑے اور عجیب و غریب قسم کے تھے۔جب آپؐ نے اس درخت کو دیکھا تو اس پر ایک فوق البیان اور گونا گوں تجلی کا ظہور ہوا جس کے متعلق آپؐ فرماتے ہیں کہ الفاظ میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں بیان کر سکیں۔اس بیری کے نیچے چار دریا بہہ رہے تھے جن کے متعلق جبرائیلؑ نے آپؐ کو بتایا کہ ان میں سے دو دریا تو دنیا کے ظاہری دریا نیل و فرات ہیں اور دو باطنی دریا ہیں جو جنت کی طرف کو بہتے ہیں۔ اس موقعہ پر آپؐ کو حضرت جبرائیلؑ اپنی اصلی شکل و صورت میں نظر آئے اور آپؐ نے دیکھا کہ وہ چھ سو پروں سے آراستہ ہیں۔اس کے بعد آپؐ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور بالآخر آپؐ نے دیکھا کہ آپؐ خدائے ذوالجلال کے دربار میں پیش ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے بلا واسطہ کلام فرمایا اور بعض بشارات دیں اور آخر کار خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ آپؐ کی امت کےلئے رات دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ آپؐ یہ حکم لے کر واپس آئے تو راستہ میں حضرت موسیٰؑ نے آپؐ کو روک کر پوچھا کہ آپ کو کیا احکام ملے ہیں؟آپؐ نے پچاس نمازوں کا حکم بیان کیا۔ حضرت موسیٰ ؑیہ حکم سن کر چونک پڑے اور کہا کہ میں بنی اسرائیل کے ساتھ واسطہ پڑنے کی وجہ سے صاحب تجربہ ہوں۔ آپؐ کی امت کو اتنی نمازوں کی ہر گز برداشت نہ ہو گی پس آپ واپس جائیں اور خدا سے اس حکم میں تخفیف کی درخواست کریں۔آپؐ گئے اور اللہ تعالیٰ نے پچاس میں سے دس کی کمی کر کے چالیس نمازوں کا حکم دیا۔مگر واپسی پر حضرت موسیٰؑ نے پھر روکا اور کہا کہ یہ بھی بہت زیادہ ہیں آپؐ واپس جا کر مزید رعایت مانگیں۔ اس پر آپؐ پھر گئے اور دس کی مزید رعایت منظور ہوئی۔غرض اس طرح حضرت موسیٰؑ کے مشورہ پر آپؐ بار بار خدا کے دربار میں گئے اور با لآخر اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کا حکم دیا۔اس پر حضرت موسیٰؑ نے آپؐ کو پھر روکا اور مزید رعایت کے لئے واپس جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ میں بنی اسرائیل کو دیکھ چکا ہوں اور وہ اس سے بھی کم عبادت کو نباہ نہیں سکے،مگر آنحضرتﷺ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اب مجھے واپس جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔اس پر غیب سے آواز آئی۔ ‘‘اے محمد!یہ پانچ نمازیں بھی ہیں اور پچاس بھی کیونکہ ہم نے ایک نماز کے بدلے میں دس کا اجر مقرر کر دیا ہے۔اس طرح ہمارے بندوں سے تخفیف بھی ہو گئی اور ہمارا اصل حکم بھی قائم رہا۔اس کے بعد جب آپؐ مختلف آسمانوں میں سے ہوتے ہوئے نیچے اترے تو آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔(یعنی یہ کشف کی حالت جاتی رہی) اور آپؐ نے دیکھا کہ آپؐ اسی طرح مسجد حرام میں لیٹے ہوئے ہیں۔

( سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحہ220-222)

قرآن شریف احادیث اور تاریخ تینوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کا معراج ایک نہایت لطیف اور پاکیزہ قسم کی رُوحانی پرواز تھی جو بطریق رؤیا بعض خاص مصالح کے ماتحت آنحضرتﷺ کو کرائی گئی اور تصویری اور تعبیری زبان میں اس پرواز کے اندر بہت سے حقائق اور اشارات مخفی تھے جو ایک عظیم الشان نشان کے طور پر اپنے وقت پر پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ حضور سرور کائناتﷺ اپنے جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر تشریف لے گئے تھے بلکہ اس کے برعکس قرآن کریم سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ معراج روحانی تھا۔لفظ معراج کو سمجھنے کے لئے رسول کریمﷺ کا یہ ایک فرمان ہی کافی ہے آپؐ فرماتے ہیں ’’الصلوٰة معراج المؤمن‘‘ نماز مومن کی معراج ہے۔اب اس حدیث پر غور کریں کہ اگر معراج کو جسمانی ماناجائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ مومنین کو بھی معراج جسمانی ہوتا ہے۔تو کیا جب کوئی مومن نماز کے لئے صف میں کھڑا ہوتا ہے اور نماز شروع کرنے کے ساتھ ہی کیااس کا جسم زمین سے غائب ہو جاتا ہے؟لہٰذا اس حدیث سے قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ معراج روحانی کیفیت کا نام ہے نہ کہ جسمانی جیسا کہ حضرت رسول کریمﷺ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے۔

معراج تو زیادہ تر آنحضرتﷺ کے رُوحانی کمالات کے اظہار کے لیے ہے اسی لیے معراج کے واسطے آسمان کو چُنا گیا اسی لئے معراج میں آپؐ کا بغیر کسی سواری اور بغیر کسی ظاہری اور مادی واسطہ کے اُوپر اُٹھایا جانا بیان ہوا ہے۔ معراج میں آپؐ کا سب نبیوں سے آگے نکل جانا اس بات کی طرف اشارہ رکھتا ہے کہ آپؐ اپنے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے بالااور اَرفع ہیں اور یہ کہ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت اپنے رُوحانی کمالات میں سب شریعتوں سے فائق و برتر ہے بلکہ آپؐ کے فیضانِ روحانی میں وہ خصوصیت رکھی گئی ہے جو پہلے کِسی بشر کو حاصل نہیں ہوئی یعنی آپؐ کی سچی اور کامل پیروی انسان کو بلند ترین رُوحانی مدارج تک پہنچا سکتی ہے اور کوئی رُوحانی مرتبہ ایسا نہیں ہے جہاں تک آپؐ کی پیروی کی برکت سے انسان نہ پہنچ سکتا ہو۔

حضرت موسیٰؑ چونکہ ایک خاص سلسلہ کے بانی ہونے کی وجہ سے ان رموز سے زیادہ آشنا تھے۔ اُنہوں نے آنحضرتﷺ کی اس پروازِ رُوحانی کی حقیقت کو فوراً سمجھ لیا اور اِس طبعی رشک کی وجہ سے جو فطرتِ انسانی کا خاصہ ہے (نہ کہ کسی حَسد کی بنا پر) اِس انکشاف نے انہیں وقتی طور پر غم میں ڈال دیا کہ ایک پیچھے آنے والا نوجوان اُن سے آگے نِکلا جارہا ہے۔

معراج کا ایک نظارہ اس خاص تجلی سے تعلق رکھتا ہے جو سِدرة المنتہیٰ پر ہوئی جس کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کے بیان کی الفاظ میں طاقت نہیں ہے سو اس میں آنحضرتﷺ کے قربِ الٰہی کی طرف اشارہ تھا جس میں محب و محبوب میں جلوہ ہائے خاص کی نیر نگیوں کا ظہور ہوا جس کے بیان کی کوشِش تو درکنار اس کے علم کی کوشش بھی بے سُود ہے۔ البتہ یہ ظاہر ہے کہ اس نظارہ میں آپ نے خُدا کی ان خاص اور ممتاز تجلیات کا مشاہدہ کیا جن کے دیکھنے کی طاقت صرف اس مقام پر پہنچ کر ہی حاصل ہو سکتی ہے جو آپ کو حاصل ہوا۔

سِدرہ کے نیچے چار دریاؤں کو بہتے دیکھنا جن میں دو ظاہری دریا تھے اور دو باطنی، اس غرض کے اظہار کے لیے تھا کہ خدا کی یہ تجلیات ہر دو صورتوں میں اثر انداز ہوں گی۔ ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی۔ رُوحانی طور پر بھی اور دنیوی رنگ میں بھی اور چار کے عدد میں یہ اشارہ تھا کہ آپ کی اُمت پر ظاہری اور رُوحانی ترقی کے دودودور آئیں گے۔ ایک دَور ان ہر دو قسم کی تجلیات کا خود آپّ کے وجودِ باجود سے شروع ہو گا اور ایک بعد کے زمانہ میں آئے گا۔ جب کہ مسلمان اپنے درمیانی زمانہ میں گِر کر پھر دوبارہ اُٹھیں گے اور اس طرح ہر دور میں دودوتجلیات کا ظہور ہو کر چار نہریں مکمل ہو جائیں گی۔

بالآخر پنجگانہ نماز کے فرض کئے جانے کا نظارہ ہے۔ پچاس سے پانچ تک کی کمی کا منظور ہونا ایک نہایت لطیف رُوحانی نظارہ ہے جس میں اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ اصل تعداد جو فرض کی جانیوالی تھی وہ پانچ ہی تھی مگر ساتھ ہی یہ مقدّر تھا کہ ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس کے برابر ملے گا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا یہ منشا تھا کہ اُمّتِ محمدیہ کو ان کی نیکیوں کا بدلہ بڑھ چڑھ کر عطا کیا جائے، اس لیے یہ نمازیں ابتداءمیں پچاس کی صُورت میں فرض کی گئیں اور پھر ایک لطیف رنگ میں جس میں ضمنی طور پر اﷲ تعالیٰ کی شفقت اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رأفت کا اظہار بھی مقصود ہے یہ تعداد گھٹا کر پانچ کر دی گئی اور باتوں باتوں میں مُسلمانوں کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ تمہارے متعلق یہ اندیشہ کیا گیا ہے کہ تم ان پانچ نمازوں کی ادائیگی میں بھی سُستی نہ دکھاؤ۔ اس لیے دیکھنا تم اس میں سُست نہ ہونا۔

قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ معراج دو مرتبہ ہوا۔ پہلا معراج ابتدائے نبوت میں ہوا جس میں نمازیں فرض ہوئیں اوردوسرا معراج نبوت کے پانچویں سال یا اس سے کچھ عرصہ پہلے ہوا۔ سورۃ نجم میں جس معراج کا ذکر ہے وہ دوسرا معراج ہے۔

(تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ284)

جس رات کو معراج ہوئی اس بارہ میں چار تاریخوں کا تذکرہ ملتا ہے یعنی 17؍ ربیع الاول، 27؍ ربیع الاول، 29؍ رمضان اور 27؍ رجب وغیرہ۔ زیادہ تر مسلمان علماء اور عوام 27؍ رجب کی روایت پر یقین رکھتے ہیں اور اس رات منانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ساری رات عبادت کرنے اور مختلف قسم کی بدعات اور رسومات اس رات کے ساتھ منسلک کر دی گئی ہیں۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی نہ تو اس رات کسی خاص تقریب کا اہتمام فرمایا اور نہ ہی اُمت کو اس کی فضیلت بیان کرکے اس رات عبادت کا حکم دیا۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی شب معراج منانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ سب بعد کی ایجادات ہیں جن کا اسلام کی تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعت احمدیہ ایسی بدعات کو درست نہیں سمجھتی اور ایسی رسومات سے اپنے آپ کو دور رکھتی ہے۔

؎تیری معراج کہ تو لوح وقلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا

واقعہ اسراء

سورۃ بنی اسرائیل جسے سورۃ اسراء بھی کہا جاتا ہے اس کا آغاز اس ارشاد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے:

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۲﴾

(بنی اسرائیل:2)

ترجمہ:پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔ تا کہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھائیں۔ یقیناً وہ بہت سننے والا (اور) گہری نظر رکھنے والا ہے۔

سورة بنی اسرائیل کی یہ آیت مبارکہ رسول اللہﷺ کے اس عظیم الشان روحانی سفرکی طرف اشارہ کرتی ہے جو مسجد حرام سے بیت المقدس کی طرف کیا گیا جسے تاریخ اسلام میں اسراءکے نام سے بیان کیا جاتاہے۔ تاریخ احادیث اور عقلی استدلال اس امر کی تائید میں ہیں کہ اسراءکا واقعہ گیارہوں یا بارہوںسال بعد نبوت کا ہے۔ اسراءایک عربی لفظ ہے جس کے معنے کسی کو رات کے وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا سفر کرانے کے ہیں۔ چونکہ آنحضرتﷺ کو یہ روحانی سیر رات کے وقت کرائی گئی تھی، اس لیے اس کا نام اسراءرکھا گیا۔ کتب احادیث میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ ’’ایک رات آنحضرتﷺ اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانیؓ کے گھرتشریف فرما تھے۔آپؐ نے دیکھا کہ حضرت جبرائیلؑ آپؐ کے پاس آئے اور ایک گدھے سے بڑا مگر خچر سے چھوٹا بُرَاق نامی جانورجو نہایت خوبصور ت سفید رنگ لمبے جسم کا تھا آپؐ کے سامنے لائے جب آپؐ اس پر سوار ہونے لگے تواس نے اپنی دم ہلائی یعنی کچھ انکار کیا جس پر جبرائیلؑ نے بُرَّاق سے کہا۔ بُرَاق ٹھہرو ٹھہرو۔ واﷲ آج تک تم پر کوئی اس شان کا شخص سوار نہیں ہوا۔ تب رسول اللہﷺ اس پر سوار ہو کر حضرت جبرائیلؑ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستہ میں آپؐ کو ایک بڑھیا ملی جو راستے کی ایک جانب کھڑی تھی جسے دیکھ کر آپؐ نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جبرائیل نے کہا آگے چلئے آگے چلئے۔ جب آپؐ آگے روانہ ہوئے تو تھوڑی دیر کے بعد آپؐ کو راستہ کے ایک طرف سے کسی نے آواز دے کر بلایا کہااے محمد(ﷺ)! ادھر آئیے۔اس پر جبرائیلؑ نے پھر آپ کو بولنے سے منع کیااور کہا اے محمد (ﷺ)! چلئے آگے چلئے اور کچھ جواب نہ دیجیئے۔ جب آپؐ آگے آئے تو کچھ دیر کے بعد آپؐ کو راستہ میں چند آدمیوں کی ایک جماعت ملی جنہوں نے ان الفاظ میں آپؐ کو سلام کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااَوَّلُ۔اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااٰخِرُ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَاشِرُ۔ یعنی ’’اے اوّل! تجھ پر خدا کا سلام ہو۔ اے آخر! تجھ پر خدا کا سلام ہو۔ اے حاشر! (یعنی جمع کرنے والے) تجھ پر خدا کا سلام ہو۔‘‘ اس پر جبرائیلؑ نے کہا اے محمد (ﷺ)! آپ بھی ان کے سلام کا جواب دیں۔ چنانچہ آپؐ نے بھی انہیں سلام کہااور پھر آگے روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آپؐ کو ایسی ہی ایک اور جماعت راستہ میں ملی۔انہوں نے بھی پہلی جماعت کی طرح انہی الفاظ میں سلام کہا۔پھر آپؐ آگے چلے کچھ وقفہ کے بعد پھر تیسری دفعہ یہی واقعہ پیش آیا۔یہاں تک کہ آپؐ بیت المقدس میں پہنچ گئے۔ یہاں جبرائیلؑ نے آپؐ کے سامنے تین پیالے پیش کئے۔ ایک میں پانی تھا۔ دوسرے میں شراب تھی اور تیسرے میں دُودھ تھا۔ آپؐ نے دودھ کا پیالہ لے کر پی لیا اور باقی دونوں ردّ کر دیئے۔ تو آپؐ کوجبرائیلؑ نے کہا۔ آپؐ نے صحیح فطرت کوپالیا۔ اگر آپؐ پانی پی لیتے تو آپؐ بھی غرق ہوتے اور آپؐ کی اُمّت بھی غرق ہو جاتی اور اگر آپؐ شراب کا پیالہ پی لیتے تو آپؐ بھی گمراہ ہوتے اور آپؐ کی امت بھی گمراہ ہو جاتی۔ پھر آپؐ کے سامنے حضرت آدمؑ اور ان کے بعد کے انبیاءلائے گئے اور آپؐ نے ان کا امام بن کر انہیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد جبرائیلؑ نے آپؐ سے کہا کہ وہ جو آپؐ نے بڑھیا راستہ کے ایک جانب دیکھی تھی وہ دنیا تھی اور دنیا کی عمر میں اب صرف اسی قدر وقت باقی رہ گیا ہے جو اس بڑھیا کی عمر میں باقی رہتا ہے اور جو شخص راستہ سے ہٹ کر آپؐ کے ایک طرف بُلاتا تھاوہ خدا کا دشمن ابلیس تھا جو آپ کو راستہ سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا اور وہ جو آپؐ کو آخر میں ایک جماعت ملی تھی اور اُنہوں نے آپؐ کو سلام کہا تھا وہ خدا کے رسول حضرت ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ تھے۔ اس کے بعد آپؐ مکّہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔

(سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحہ223-225وتفسیر کبیر جلد 4صفحہ290)

واقعہ اسراءمیں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق عظیم الشان پیشگوئیاں تصویری رنگ میں بیان ہوئی ہیں سب سے پہلا اشارہ یہ تھا کہ اب جو اسلام پر ایک تنگی کا زمانہ ہے اسے ہم عنقریب دُور کر دیں گے اور مصائب کی موجودہ تاریکی دن کی روشنی میں بدل جائے گی۔ چنانچہ آیت اسراءمیں ’’رات‘‘ کا لفظ استعمال کیاجانا اسی حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کیونکہ تصویری زبان میں تنگی اور مصیبت کا زمانہ رات کے وقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر اس سفر کی ابتداءاور انتہا کے لیے مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ کے الفاظ کا بیان کیا جانا اس غرض سے ہے کہ اے مُسلمانو! اب تک تمہارا واسطہ صرف قدیم عربی مذہب و تمدّن کے ساتھ رہا ہے جس کا مرکز مسجدِ حرام ہے لیکن اب وقت آتا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی تمہارا واسطہ پڑے گا اور تمہاری توجہ کا مرکز مسجدِ حرام سے وسیع ہو کر یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی مرکز بیت المقدس تک جاپہنچے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہجرت کے بعد اسلام کا محاذ غیر معمولی طور پر وسیع ہو کر یہودیت اور مسیحیت کے مقابل پر آگیا اور اسراءمیں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ لفظ بلفظ پوری ہوئی۔اس کے بعد بُرَاق کی سواری کا منظر ہے اس سے یہ مُراد تھی کہ جو مقابلہ دُوسری قوموں کے ساتھ مسلمانوں کو پیش آنیوالا ہے اس میں بیشک مُسلمانوں کی کامیابی بظاہر مادی اسباب کے ماتحت نظر آئے گی مگر ان اسباب میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی طاقت ودیعت کی جائے گی جس میں ان نتائج کو جو خدا پیدا کرے گا ان کے ظاہری اسباب سے کوئی نسبت نہیں ہوگی اور مُسلمانوں کی سواری گویا بجلی کی طرح اُڑتی ہوئی آگے نِکل جائے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ابلیس کا نظارہ عقیدہ کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا مجسمہ ہے اور مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کی فاتحانہ یلغار میں انہیں شیطانی طاقتیں جاوہ صواب سے منحرف نہ کر دیں۔ پھر نبیوں کی ملاقات ہے جو اپنے اندر برکت اور سلام کے پیغام کے علاوہ یہ معنی بھی رکھتی ہے کہ آئندہ فتوحات میں دُنیا کی قومیں اسلامی برکات سے مُتمتّع ہو کر اس کی برتری کا سکّہ مانیں گی۔ چنانچہ یہ ایک تاریخ کا کھلا ہوا وَرق ہے کہ یورپ و امریکہ کی موجودہ بیداری اسلام ہی کے ساتھ واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں ہے۔ ورنہ اسلام سے قبل یہ سب قومیں جہالت کی نیند سو رہی تھیں اور یورپ کے غیر متعصّب محققین نے اسلام کے اس فیض وبرکت کو کھلے الفاظ میں تسلیم کیا ہے اوراس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مغرب نے علومِ جدیدہ کا پہلا سبق اسلام ہی سے سیکھا ہے۔بالآخر بیت المقدس میں پہنچ کر آپّ کی اقتداءمیں گذشتہ نبیوں کے نماز پڑھنے کا نظارہ ہے۔ قرآن کریم نے مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا ہے جبکہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ وہاں اس وقت کوئی مسجد موجود نہیں تھی۔ حتی کہ ہیکل سلیمانی بھی موجود نہیں تھا۔ یروشلم پر عیسائیوں کی حکومت تھی عیسائیوں نے یہودیوں سے شدید نفرت کی وجہ سے بیت المقدس کی جگہ کو کوڑا کرکٹ اور گند پھینکنے کی جگہ بنایا ہوا تھا۔حضرت عمرؓ کے دور میں یروشلم فتح ہوا تو جب حضرت عمرؓ یروشلم تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے ہاتھوں سے یہ گند صاف کیا اور اس چٹان پر نماز ادا کی۔ بعد میں بنو امیہ کے دور میں اس چٹان پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔جس کو مسجد اقصیٰ کہا جاتاہے۔ پس کشف میں جو یہ دکھایا گیا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں جا کر آپؐ نے انبیاءکو نماز پڑھائی۔اس سے مراد مسجد نبوی کی تعمیر تھی۔جس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زیادہ عزت دی جانے والی تھی اور یہ جو دکھایا گیا کہ آپؐ نے سب انبیاءکی امامت کرائی اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپؐ کا سلسلہ عربوں سے نکل کر دوسری اقوام میں پھیلنے والا ہے اور سب انبیاءکی امتیں اسلام میں داخل ہونگی اور یہ اشاعت مدینہ میں جانے کے بعد ہوگی اور اس میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ رسول کریمﷺ کو بیت المقدس کے علاقہ کی حکومت دی جائے گی اور یہ خبر بھی مدینہ میں جاکر پوری ہوئی اور اس مقام سے ہی اسلام کی اشاعت ساری دنیا میں ہوئی بلکہ اس امر کو دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ جب مدینہ سے اسلامی دارالخلافہ کو بدل دیا گیا اسی وقت سے اسلام کی ترقی رک گئی۔تیس سال کے عرصہ میں جس میں مدینہ اسلامی دارالخلافہ تھا اس قدر اسلام کو ترقی ہوئی اور اس قدر اس کی اشاعت ہوئی کہ اس کے بعد تیرہ سو سال میں اس قدر نہیں ہوئی۔الغرض اس عظیم الشان کشف میں رسول کریمﷺ کو ہجرت مدینہ،مسجد نبوی کی تعمیر،اور دین اسلام کامکہ سے نکل کر دیگر اقوام میں پھیلنے اور اسلامی فتوحات کے متعلق بتایا گیا تھا جو اپنے وقت پر بڑی کھلی کھلی سچائی کے ساتھ پورا ہوا اور صداقت اسلام کا ایک عظیم الشان معجزہ اور واضح نشان ہے۔

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

ادارہ الفضل آن لائن کی کتب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2023