• 3 مئی, 2024

اسلحہ کی دوڑ و راہ نجات

؎کرو توبہ کہ تا ہو جائے رحمت
دکھاؤ جلد تر صدق و انابت
کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت
کہ یاد آ جائے گی جس سے قیامت

(سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

سیاسی میدان ہو یا سائنس اور ٹیکنالوجی کا میدان غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک طرف انسان نے نت نئی ایجادات کے نتیجے میں بنی نوع انسان کو سہولیات کے لحاظ سے بام عروج تک پہنچایا تو دوسری طرف انسانیت کے قاتلوں نے اقتدارکی ہوس میں اپنی ایجادات کے غلط استعمال کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ’’ایٹم بم‘‘ انہی ایجادات میں سے ایک ایسی انوکھی ایجاد ہے چنانچہ کسی ایک سائنسدان کو ایٹم بم کا موجد نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ قرعہ فال اگر ایک شخص کے نام نکالنا ہو تو وہ جے رابرٹ ہیں۔۔ ’’ایٹم بم‘‘ کے غلط استعمال کے نتیجے میں ایسی ہولناک اور بھیانک تباہی و بربادی ہوئی کہ گذشتہ تمام تاریخ ایسی نظیر لانے سے قاصر ہے۔

تاریخی طور پر اسلحے بنانے کا سہرا امریکہ کے سر ہے جس نے دنیا کو اس نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کیا۔ اس دوڑ میں روس بھی کسی سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ بر طانیہ، فرانس اور چین بھی ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اسلحے کی دوڑ میں باقی دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دنیا کے چند خطرناک ممالک اپنے خطرناک تیور کے ساتھ دوسرے کمزور ممالک پر اپنے حجم کو بڑھانے کیلئے اسلحے کی اس دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں جن میں اسرائیل، ہندوستان اور شمالی کوریا کے ادارے خطرناک لگتے ہیں۔ اس خطرناک ترین مواد کی موجودگی سے دنیا کو لاحق معدومی یا تباہی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور اگر خدانخواستہ کسی نے اس کو چھیڑ دیا تو پھر دنیا کا کیا ہو گا جیسا کہ اگست 1945ء میں امریکہ نے جنگ میں اس وقت ہلچل پیدا کی جب اچانک اس نے B-29 کے ذریعے دنیا کے سب سے بڑے بم فیٹ مین کو ہیروشیما پر 6؍ اگست کو گرا دیا۔ اس وقت کسی کو اس تباہی کا اندازہ نہیں تھا۔ خود جنہوں نے اس بم کو بنایا وہ بھی اس کو آزمانا چاہتے تھے۔ بم کے استعمال نے جنگ کا خاتمہ تو کر دیا لیکن اس نے باقی ممالک کو اس دوڑ میں شریک ہونے پر اکسایا اور یوں خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوئی۔ اب تو یہ حال ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ چھوٹے ممالک بھی ان بموں اور میزائلوں سے لیس ہیں۔ ہر کوئی ان بموں کو اور میزائلوں کو دفاع کا نام دے کر پاس رکھنے کی باتیں کرتا ہے مگر حقیقت میں یہ وہ بدمعاشی ہے جس کے ذریعے دنیا کے اندر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا کر یہ ممالک اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔

سنہ 2020ء کے دوران دنیا بھر کے ملکوں میں کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے اشیا کی طلب میں کمی واقع ہوئی اور صارفین میں بیزاری و پریشانی کا عنصر نمایاں رہا۔ Covid-19 کی بیماری نے دنیا بھر میں معیشت کو شدید کمزور کیا اور عالمی اقتصادی صورت حال میں گراوٹ دیکھی گئی۔ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ایک ایسا بھی شعبہ ہے جس میں کاروبار پھیلتا پھولتا رہا۔ یہ شعبہ ہتھیار سازی اور اس کی فروخت کا شعبہ ہے۔ اس شعبے سے وابستہ دنیا کی ایک سو بڑی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوا۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے (سپری) اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کورونا کی وباء کے باوجود عالمی سطح پراسلحےاور فوجی خدمات کی فروخت میں مسلسل چھٹے برس بھی اضافہ دیکھا گیا۔ سال 2020ء میں دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی آمدنی1.3 فیصد اضافے کے ساتھ 531 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

رپورٹ کے مطابق کورونا نےعالمی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا مگر اسلحہ سازی کی صنعت کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور دنیا بھر میں جنگیں رُکیں نہ تنازعات تھمنے کی امید نظر آئی اور اسلحے اور فوجی خدمات کی فروخت میں مسلسل چھٹے برس بھی زبردست اضافہ رہا۔

اسلحہ کی اس دوڑ پر نظر ڈالنے کیلئے جب قرآن پاک میں ایسی دوقوموں کا ذکر پڑھاجاتا ہے جنکی دنیوی ترقیات کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے ’’وَہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ‘‘ یعنی وہ ترقی کی تمام بلندیوں سے گزر جائیں گے تو بے ساختہ سائنس اور ایجادات کی انگلی انہیں دو قوموں یعنی روس اور امریکہ کی طرف اشارہ کرنے لگتی ہے تو کیا خداکی بتائی ہوئی تمام نشانیاں ظہور میں نہیں آئیں؟

اللہ تعالیٰ نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس کی خبر اپنے فرستادہ کے ذریعہ ہمیں دی کہ:

اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۲﴾ مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۳﴾ وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۴﴾ یَوۡمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَالۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ ۙ﴿۵﴾ وَتَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ الۡمَنۡفُوۡشِ ؕ﴿۶﴾ فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۷﴾ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ؕ﴿۸﴾ وَاَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۹﴾ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۱۰﴾ وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا ہِیَہۡ ﴿ؕ۱۱﴾ نَارٌ حَامِیَۃٌ ﴿۱۲﴾

(القارعہ: 1-12)

(دنیا پر) ایک شدید مصیبت (آنے والی ہے) اور تجھے کیا معلوم کہ وہ مصیبت کیسی ہے اور (پھر ہم کہتے ہیں کہ اے مخاطب!) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ (عظیم الشان )مصیبت کیا چیز ہے؟ (یہ مصیبت جب آئے گی)اس وقت لوگ پراگندہ پروانوں کی طرح (حیران پھر رہے)ہوں گے اور پہاڑ اس پشم کی مانند ہو جائیں گے جو دھنکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس وقت جس کے (اعمال کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔ وہ تو (بہترین اور) پسندیدہ حالت میں ہوگا اور جس کے (اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے اس کا ٹھکانہ ہاویہ (یعنی جہنم) ہوگا اور( اے مخاطب!) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ (ہاویہ) کیا ہے۔ یہ ایک دہکتی ہوئی آگ ہے۔

اس سورت میں جس عذاب کا ذکر کیا گیا ہے اس کی نشانیاں ایٹم بم سے پیدا شدہ تباہی و بربادی کے مطابق ہیں۔ چنانچہ جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی (جاپان) پر بم گرائے گئے تو بعینہٖ یہی نظارہ دیکھنے میں آیا جس کا نقشہ قرآن کریم نے یہاں کھینچا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس سورت کی ایک آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’میں پہلے خیال کرتا تھا کہ ان آیات میں توپ خانوں اور موجودہ زمانہ کی ا ن ہلاکت آفرین ایجادوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن سے عام طور پر لڑائیوں میں کام لیا جاتا ہے مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ اَلْقَارِعۃ سے ایٹم بم مراد ہے اوراس عذاب کی ساری کیفیت ایسی ہے جو ایٹم بم سے پیدا شدہ تباہی پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔ یہ بم ایسا خطرناک اور تباہ کن ہے کہ اس سے بچنے کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں کہ لوگ منتشر اور پراگندہ ہو جائیں گے۔ یہ بم جس جگہ گرتا ہے سات سات میل کا تمام علاقہ خس و خاشاک کی مانند جلا کر راکھ کر دیتا ہےبلکہ ایٹم بم کے متعلق اب جو مزید تحقیق ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ سات میل کا بھی سوال نہیں، چالیس چالیس میل تک یہ ہر چیز کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ ہیرو شیما (جاپان) پر جب اٹومک بم گرایا گیا تو بعد میں جاپانی ریڈیو نے بیان کیاکہ اس بم سے ایسی خطرناک تباہی واقعہ ہوئی ہے کہ انسانوں کے گوشت کے لوتھڑے میلوں میل تک پھیلے ہوئے پائے گئے ہیں۔ یہ بالکل وہی حالت ہےجس کا قرآن کریم نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے کہ انسانوں کا وجود تک باقی نہیں رہے گا۔ ہڈی کیا اور بوٹی کیا سب باریک ذرات کی طرح ہو جائیں گے اور پتنگوں کی مانند ہوا میں اڑتے پھریں گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد9 صفحہ515)

سورۃ الْقَارِعَةُ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
یہاں Atomic Warfare کا ذکر ہے۔ خصوصاً رسول اللہؐ کے زمانے کے انسان کو اس قارعۃ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ جس قارعۃ کی طرف یہ سورت اشارہ کر رہی ہے۔ یعنی اس آخری قارعۃ کی طرف۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بڑی بڑی طاقتور حکومتیں اور طاقت کے پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔ دھنی ہوئی روئی میں کوئی طاقت نہیں ہوتی۔

(ترجمۃ القرآن کلاس نمبر 305)

بے شک ہر تجزیہ کار اس دور میں یہ رائے قائم کرتا ہے کہ دنیا جس راستے پر گامزن ہے وہ ہلاکت کا راستہ ہے دنیا میں امن قائم ہونا چاہئے۔ خاکسار جب اس مضمون کے سلسلے میں تحقیق کر رہا تھا تو بہت سے مضامین اس سلسلے میں پڑھنے کو ملے لیکن ہر جگہ حالات کا تذکرہ و تبصرہ کرنے کے بعد ہر ایک نے یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا ہلاکت کے راستہ میں ہے امن قائم ہونا چاہئے۔ لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ دنیا میں امن کس راستے سے ہمیں نصیب ہوگا۔ بعض کم عقل انسانوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ یہ جو بدامنی دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے یہ دین کی وجہ سے ہے۔ان تمام سوالوں کا جواب اگر کسی وجود سے ہمیں نصیب ہوا وہ ہے احمدیہ مسلم جماعت کا روحانی خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ اس تعلق سے جواب دینا ہمارے لئے کیوں ضروری ہے اس ضمن میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہم ممبران جماعت احمدیہ حتی الوسع اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ دنیا اور انسانیت کو تباہی سے بچایا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس زمانے میں وقت کےامام کو قبول کیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا کر بھیجا اور وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین کے غلام کی حیثیت سے مبعوث ہوئے کیونکہ ہم اپنے آقا کی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر دل اور جان سے عمل پیرا ہیں اس لئے دنیا کی حالت پر ہمارے دل سخت کرب و تکلیف میں مبتلا ہیں۔ انسانیت کو تباہی اور مصیبت سے بچانے کی ہماری کوششوں کے پیچھے یہی دکھ اور تکلیف کارفرما ہیں۔ اسی لئے خاکسار اور تمام احمدی مسلمان دنیا میں امن کے حصول کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 46)

اسلحہ، ایٹمی ہتھیار کی تیاری کی اس دوڑ میں جہاں ہر ملک اسلحہ و ہتھیار کی تیاری میں لگا ہوا ہے وہیں امن کا شہزادہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا میں امن کے قیام کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا تذکرہ ہر عام وخاص تک اس پیغام کے ساتھ پہنچا رہا ہے کہ:

؎ہزار بت ہیں یہاں امت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللّٰہ

آج اگر ہمیں ان حالات سے اپنے آپ کو بچانا ہے تو موجودہ دور میں خلیفہ وقت نے جو اصول بتائے ہیں اس کو اپنانا ہوگا۔ذیل میں آپ کی طرف سے مختلف وقتوں میں بتائے ہوئے بعض اصولوں میں سے چند کا تذکرہ کرتا ہوں۔جس سے ہمیں علم ہوگا کہ جب خدا تعالیٰ کا فرستادہ اپنے محبوب سے علم پاکر کسی چیز کے بارے میں بتاتا ہے اس میں کس قدر راہ نجات مضمر ہوتا ہے۔

دنیا اپنے خالق کو پہچان لے

آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’دنیا تباہی اور بربادی کے جس راستے پر گامزن ہے اسے بچانے کا صرف ایک طریق ہےاور وہ یہ ہے کہ ہم سب پیار،باہمی ہمدردی اور احساس وحدت کو پھیلانے کی کوشش کریں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا اپنے خالق کو جو ایک خدا ہے پہچان لے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خالق کی معرفت ہی ہے جو ہمیں اس کی مخلوق سے محبت اور ہمدردی کی طرف لے جاتی ہے اور جب یہ جذبہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جاتا ہے تو ہم خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہو جاتے ہیں۔‘‘

(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 40)

بد امنی پھیلنے کی وجہ لالچ اور سیاست

’’اب تک ہم دو عالمی جنگیں دیکھ چکے ہیں۔ دنیا پھر اس لپیٹ میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دنیا کے فوجی بجٹ باقی تمام ضروریات کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور صرف فوج بڑھانے اور اسلحہ رکھنے اور فوجی طاقت بننے کی طرف دنیا کی زیادہ توجہ ہو رہی ہے۔ اس لئے دنیا کو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بد امنی دنیا میں مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور سیاست اس کی وجوہات ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 7؍ مارچ 2014ء خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 147)

مکمل انصاف اور عدل کو قائم کیا جائے

’’پس دنیا میں قیام امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر سطح پر اور دنیا کے ہر ملک میں انصاف کے درست معیار قائم کیے جائیں۔۔۔۔قرآن کریم اس بارے میں مزید فرماتا ہے کہ کوئی ملک یا قوم جو تم سے برسرپیکار ہے ان سے بھی معاملہ کرتے وقت مکمل انصاف اور عدل کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ ان میں دشمنی اور رقابت کی وجہ سے ان سے بدلہ لینے کے لیے آپ بے اعتدالیوں کی طرف چلے جائیں۔ ایک اور بہت اہم ہدایت جو قرآن کریم نے ہمیں دی ہے یہ ہے کہ دوسروں کی دولت اور وسائل کی طرف حسد اور للچائی ہوئی نظروں سے مت دیکھو۔‘‘

(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 49)

خداکے قہر سے بچنے کی کوشش

’’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب انسانی کوششیں بے کار ہو جاتی ہیں اس وقت خدا تعالیٰ اپنی تقدیر جاری کرکے بنی نوع انسان کی تقدیر کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ قبل اس کے کہ خدا کی تقدیر حرکت میں آئے اور انسان حکم خدا کے ہاتھوں مجبور ہوکر لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو۔ بہتر ہوگا کہ دنیا کے لوگ خود ان اہم باتوں کی طرف توجہ کر لیں کیونکہ جب خدا تعالیٰ پکڑنے پر آتا ہے تو اس کا قہر بنی نوع انسان کو انتہائی خوفناک اور بھیانک انداز میں پکڑتا ہے۔‘‘

(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 43)

مسیح محمدی کی بعثت کا غرض قیام امن وامان

’’ہمارا ایمان ہے کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع میں مسیح موعود امام مہدی بنا کر مبعوث کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام اور قرآن کریم کی سچی تعلیمات کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہی مبعوث ہوئے تھے۔ آپ بندہ اور خدا تعالیٰ کے مابین تعلق قائم کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانے، آپ اس لیے بھیجے گئے ہر طرح کی مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو۔ اس لیے بھیجے گئے تمام بانیان مذاہب اور انبیاء کی عزت احترام قائم کی جائے۔ آپ علیہ السلام دنیا کی توجہ اعلیٰ اخلاق اور اقتدار کے حصول اور تمام دنیا میں امن، محبت، ہمدردی اور بھائی چارہ کے قیام کے لیے مبعوث ہوئے۔‘‘

(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 48)

امن کے اس شہزادے نے خدا کےقہر سے بچنے کے لئے مختلف اوقات میں اپنے خطبات،خطابات وخطوط کے ذریعہ مخلوق خداکو تباہی کے اس ہولناک انجام سے بچانے کی کاروائی کی اور کرتا آرہا ہے۔اس مناسبت سے حکومت امریکہ کو سال 2012ء میں اور حکومت روس کے نام امن کے شہزادے نے سال 2013ء میں خطوط تحریر فرمایا تھا ہر دو خطوط کی نقل پیش کرتا ہوں اور یہ یقین دلاتا ہوں کہ اگردنیا امن کے اس شہزادہ کے بیان فرمودہ اصولوں پر عمل کرے تو لازم بات ہے کہ دنیا اس بے چینی کےحالات سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

حضرت مرزا مسرور احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حکومت امریکہ کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ:

محترم صدر صاحب!

دنیا میں بڑھتے ہوئے پریشان کن حالات کے پیش نظر میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو یہ خط لکھوں کیونکہ آپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہیں اور یہ ایسا ملک ہے جو سب سے بڑی عالمی طاقت ہے۔اسی بنا پر آپ کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار ہے جو نہ صرف آپ کی قوم کے مستقبل پر بلکہ عالمی سطح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

آج دنیا میں غیر معمولی بے چینی اور اضطراب پھیلا ہوا ہے۔ بعض خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں لڑی جا رہی ہیں اور بدقسمتی سے عالمی طاقتیں ان شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کے لیے اس حد تک مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔

صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کا حمایتی ہے یا پھر کسی ملک کی دشمنی پر کمر بستہ ہے اور سبھی نے انصاف کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے والا جان سکتا ہے کہ ایک نئی عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی دشمنیاں، کینےاور عداوتیں اپنے عروج پر ہیں۔اس گمبھیر صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ایسی جنگ میں ضرور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوں گے۔ گویا یقیناً ہم خطر ناک تباہی کے دہانہ پر کھڑے ہیں۔اگر جنگ عظیم دوم کے بعد عدل وانصاف سے پہلو تہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں ایک بار پھر خطرناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا۔ آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات برملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دور کے معاشی مسائل اور 1932ء والے بحران میں بہت سی قدر یں مشترک دکھائی دے رہی ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق کار اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو لازم ہے کہ دنیا میں نئے جتھے اور بلاک جنم لیں گے اور یقیناً یہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہوگا۔ ایسی صورت حال میں دنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کر یں۔ بنی نوع انسان کو خدائے واحد کو پہچاننے کی سخت اور فوری ضرورت ہے جو سب کا خالق ہے اور انسانیت کی بقا کی یہی ایک ضمانت ہے در دنیا تو رفتہ رفتہ تباہی کی طرف گامزن ہے ہی۔

میری آپ بلکہ تمام عالمی قائدین و عمائدین سے یہ درخواست ہے کہ دوسری اقوام کی راہنمائی کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارت کاری، سیاسی بصیرت اور دانش مندی کو بروئے کار لائیں۔ بڑی عالمی طاقتوں مثلاً امریکہ کو دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چھوٹے ممالک کی غلطیوں کو بہانہ بنا کر دنیا کا نظم ونسق بر باد نہیں کرنا چاہیے۔ آج صرف امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے پاس ہی ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ نسبتاً چھوٹے ممالک بھی وسیع پیانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ان ممالک میں ایسے لوگ برسر اقتدار ہیں جو زیادہ گہری سوجھ بو جھ اور سیاسی بصیرت سے عاری ہیں اور معمولی باتوں پر اشتعال میں آ کر غلط فیصلہ کر سکتے ہیں۔

میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کو تیسری عالمی جنگ کے شعلے بھڑ کانے سے باز رکھنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں وقف کر د یں۔ اگر ہم قیام امن کی کوششوں میں نا کام رہے تو یقیناً یہ جنگ ایشیا، یورپ اور امریکہ کے صرف غریب ممالک تک محدود نہیں رہے گی۔ نیز ہماری آئندہ نسلیں اس کا اس خمیازہ بھگتیں گی جب ایٹمی جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں اپاہج یا معذور بچے جنم لیں گے۔ تو آنے والی نسلیں اس قد رشد ید عالمی تباہی کا باعث بننے والے اپنے آباء و اجداد کو بھی معاف نہیں کریں گی۔ یقیناً آج مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے اور اس بات کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کہ ان کے لیے روشن مستقبل چھوڑ کر جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے۔

مرزا مسروراحمد۔ خلیفة المسیح
امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر
08-03-2012

(عالمی بحران امن کی راہ صفحہ175-177)

اسی طرح حضرت مرزا مسرور احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حکومت روس کے نام خط میں تحریر فرمایا کہ:

عزت مآب جناب
صدر ریاست ہائے متحدہ روس
محترم صدر صاحب!

میں آپ کی خدمت میں جماعت احمدی مسلمہ کے سربراہ کی حیثیت سے یہ خط لکھ رہا ہوں۔ دوصد چار ممالک میں پھیلی ہوئی یہ جماعت دنیا بھر کوامن کا گہوارہ بنانے کی خواہاں ہے۔

موجودہ حالات کے پیش نظر میں اپنے خطبات اور خطابات میں بلا امتیاز ہر ایک کو خالق حقیقی کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ افسوس کہ مجھے آپ سے براہ راست مخاطب ہونے کا بھی موقع نہیں ملا۔ تاہم شام کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور آپ کی قابل تحسین کوشش نے مجھے آپ کو یہ خط لکھنے پر آمادہ کیا جب آپ نے دنیا کو میدان جنگ میں کودنے کی بجائے باہمی بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔

کسی ملک کے خلاف جارحیت نہ صرف اس خطہ میں جنگ کا باعث بن سکتی ہے بلکہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس حوالہ سے ایک مؤقر مغربی اخبار میں آپ کا حالیہ مضمون پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی جس میں آپ نے نشان دہی کی ہے کہ ایسا طرزعمل انتہائی خطرناک اور جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والا ہوگا۔ آپ کے اس واضح اور امن پسند مؤقف کی وجہ سے بڑی بڑی طاقتیں اس سے باز رہیں اور انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعہ گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کے اس بروقت قدم نے دنیا کو درپیش ایک بہت بڑی تباہی سے بچالیا ہے۔

میں آپ کے اس نقطہ نظر کی بھر پور تائید کرتا ہوں کہ اگر مختلف ممالک آزادانہ طور پر اپنی مرضی کے فیصلے کرنا شروع کر دیں تو پھرا قوام متحدہ بھی لیگ آف نیشنز جیسے حالات کا شکار ہوکر یکسر نا کام ہو جائے گی۔ جنگ کے یقینی شعلے بھڑک اٹھے تھے لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ اب کسی حد تک ماند پڑ گئے ہیں۔اللہ کرے کہ ان مثبت اقدام کی وجہ سے جنگ کے خطرات ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائیں۔ خدا کرے کہ بڑی طاقتیں صرف ویٹو کا حق استعمال کرنے کی بجائے چھوٹی اقوام کے حقوق بھی حفاظت اور احترام کے ساتھ ادا کرنے والی ہوں۔

بہرحال آپ کی قیام امن کی کوششوں نے مجھے ترغیب دلائی کہ میں آپ کو خط لکھ کر آپ کا شکریہ ادا کروں میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کی یہ کوشش عارضی ثابت نہ ہو بلکہ مجھے امید ہے اور میں آپ کے لیے دعا گو ہوں کہ آپ ہمیشہ امن قائم کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقصد میں کامیابی عطا فرماتا رہے۔آمین

امن عالم کی خاطر جب بھی مجھے موقع ملتا ہے میں لوگوں کو اس طرف متوجہ کر تار ہتا ہوں کہ امن انصاف کے ذریعہ سے قائم ہوسکتا ہے۔ میرے کچھ خطابات کتابی صورت میں بعنوان ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔اس کتاب کا ایک نسخہ میں اس خط کے ساتھ آپ کی خدمت میں بھجوارہا ہوں۔

https://alislam/u4155

دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ۔
مرزا مسرور احمد، خلیفة المسیح
امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر
18-09-2013

(عالمی بحران امن کی راہ صفحہ۔247-248)

چنانچہ گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں جن میں کروڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔اگر آج اقوام عالم امن کے شہزادے کا بیان فرمودہ ان وصولوں پر عمل نہیں کریگا تو فتنہ،رنجشیں اسی طرح بڑھتی رہیں گی اور بالآخر ایک اور عالمی جنگ پر منتج ہوں گی۔ایسی عالمی جنگ جس میں کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کا مطلب دنیا کی نا قابل بیان تباہی وبربادی ہوگی۔خدا کرے کہ جنگ،بدامنی اور دشمنیوں میں گھری ہوئی دنیا امن،محبت،اخوت اور اتحاد کا گہوارہ بن جائے۔آمین

؎فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ
ہردن چڑھے مبارک ہرشب بخیرگزرے

(حلیم خان شاہد۔ مربی سلسلہ کٹک اڈیشہ انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی